جناب حبیب بن ابی ثابت بیان کرتے ہیں کہ اس دوران کہ حجاج خطبہ دے رہا تھا اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بھی موجود تھے اور ان کے ساتھ اُن کے دو بیٹے اُن کی دائیں اور بائیں جانب بیٹھے تھے، جب حجاج نے کہا کہ ابن الزبیر نے اللہ کی کتاب قرآن مجید کو جھکا دیا ہے، اللہ اس کے دل کو اوندھا کرے۔ حبیب نے کہا کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اس کی طرف متوجہ تھے چنانچہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ یہ کام تیرے اور اس کے اختیار میں نہیں ہے۔ راوی نے کہا تو حجاج خاموش ہوگیا۔ پھر اس نے کہا، بیشک اللہ تعالیٰ نے ہمیں اور ہر مسلمان کو علم عطا کیا ہے، اے بوڑھے تم بھی عقل سے کام لو۔ تو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے ہنسنا شروع کر دیا۔ پھر یہ قصہ عاصم کے واسطے سے حبیب سے بیان کیا تو کہا، پھر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما (حجاج کی طرف) اُچھلے تو اُن کے بیٹوں نے انہیں بٹھا دیا۔ انہوں نے فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو کیونکہ میں نے اصل فضیلت والی بات تو اسے کہی نہیں کہ تُو (حجاج) جھوٹا ہے۔
والامر بالبناء على التحري إذا كان قلبه إلى احد العددين اميل، وكان اكثر ظنه انه قد صلى ما القلب إليه اميل وَالْأَمْرِ بِالْبِنَاءِ عَلَى التَّحَرِّي إِذَا كَانَ قَلْبُهُ إِلَى أَحَدِ الْعَدَدَيْنِ أَمْيَلَ، وَكَانَ أَكْثَرُ ظَنِّهِ أَنَّهُ قَدْ صَلَّى مَا الْقَلْبُ إِلَيْهِ أَمْيَلُ
اسی جستجو اور تحقیق پر بنیاد رکھنے کے حُکم کا بیان جبکہ اس کا دل کسی ایک عدد کی طرف زیادہ مائل ہو۔ اور اس کا غالب گمان ہو کہ جس عدد کی طرف اس کا دل زیادہ مائل ہے وہ اتنی نماز ادا کر چکا ہے
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیا ن کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی تو اس نماز میں کچھ اضافہ کر دیا یا اس میں کچھ کمی کر دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف اپنے چہرہ مبارک کے ساتھ متوجہ ہوئے ہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول، کیا نماز میں کچھ تبدیلی ہوگئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”وہ کیا (تبدیلی) ہے؟“ تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کے متعلق بتایا دیا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا پاؤں موڑا اور قبلہ رخ ہو کر سجدے کیے، پھر ہماری طرف متوجہ ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر نماز میں کوئی تبدیلی ہوتی تو میں تمہیں بتا دیتا لیکن میں ایک انسان ہوں، میں بھی تمھاری طرح بھول جاتا ہوں، اس لئے جب میں بھول جاؤں تو مجھے یاد دہانی کرادیا کرو - اور تم میں سے جس شخص کو بھی اپنی نماز میں (کمی بیشی) کا شک ہو تو وہ درست (تعداد رکعات) کے متعلق غوروفکر کرے پھر اسکے مطابق نماز مکمّل کرلے، پھر سلام پھیرلے اور دو سجدے کرے۔“ یہ ابوموسیٰ کی عبدالرحمان سے روایت ہے۔ ابوموسٰی کہتے ہیں کہ جناب ابن مہدی نے فرمایا ہے میں نے امام سفیان سے اس کے متعلق پوچھا تو اُنہوں نے فرمایا، میں نے یہ روایت منصور سے سنی تھی مگر مجھے یا د نہیں ہے۔ جناب احمد بن عبدہ نے اپنی روایت میں ”التحري“(تحقیق و جستجو) کے الفاظ بیان نہیں کیے۔ اور کہا کہ تم میں سے جس شخص سے اپنی نماز میں بھول ہو جائے اور اسے پتہ نہ چلے کہ اُس نے کتنی نماز پڑھ لی ہے۔ تو وہ سلام پھیرنے کے بعد سہو کے دو سجدے کرلے۔ امام ابوبکر رحمه الله کہتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل ہے کہ نمازی جب تحقیق و جستجو پر بنیاد کر کے (نماز مکمّل کرے گا) تو سہو کے دو سجدے سلام پھیرنے کے بعد کر ے گا اور یہی میرا موقف ہے۔ اور جب کم ترین عدد پر بنا کرے گا تو سہو کے دو سجدے سلام پھیرنے سے پہلے کرے گا۔ جیسا کہ سیدنا سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے۔ میرے نزدیک ایک روایت کو دوسری کے ساتھ رد کرنا اصلاً درست اور جائز نہیں ہے بلکہ ہر روایت پر اس کے مقام پر عمل کرنا واجب ہے۔ ”التحري“(تحیق و جستجو) یہ ہے کہ نمازی کا دل کسی ایک عدد کی طرف زیادہ مائل ہو جبکہ کم سے کم عدد پر بنیاد رکھنے کا مسئلہ تحری کے مسئلے سے مختلف ہے - لٰہذا دونوں روایتوں پر اسی طرح عمل کرنا واجب ہے جیسے وہ بیان کی گئی ہیں۔
سیدنا ابن بُحینہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، ہمارا خیال ہے کہ وہ عصر کی نماز تھی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری رکعت میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور (تشہد کے لئے) نہ بیٹھے (اور کھڑے ہو گئے) پھر جب سلام پھیرنے سے قبل (تشہد بیٹھے ہوئے تھے) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھے بیٹھے سہو کے دوسجدے کیے۔
سیدنا عبداللہ بن بُحینہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں میں سے ایک نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوسری رکعت میں (تشہد بیٹھے بغیر) کھڑے ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ”سبحان اللہ“ کہہ کر یاد دلایا گیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنی نماز) جاری رکھی حتیٰ کہ نماز سے فارغ ہو گئے اور صرف سلام باقی رہ گیا لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام سے پہلے بیٹھے بیٹھے دو سجدے کیے۔
ثم ذكر بتسبيح انه ناس للجلوس، ان عليه المضي في صلاته، ترك الركوع إلى الجلوس، وعليه سجدتا السهو قبل السلامثُمَّ ذُكِّرَ بِتَسْبِيحٍ أَنَّهُ نَاسٍ لِلْجُلُوسِ، أَنَّ عَلَيْهِ الْمُضِيَّ فِي صَلَاتِهِ، تَرْكَ الرُّكُوعِ إِلَى الْجُلُوسِ، وَعَلَيْهِ سَجْدَتَا السَّهْوِ قَبْلَ السَّلَامِ
پھر اسے ”سُبْحَانَ اللَٰه“ کہہ کر متنبہ کیا جائے کہ وہ تشہد کے لیے بیٹھنا بھول گیا ہے تو اسے اپنی نماز جاری رکھنی چاہیے اور دوبارہ (اٹھنے کے بعد) نہ بیٹھنے، اور سلام پھیرنے سے پہلے اسے دو سجدے کرنے چاہئیں۔
سیدنا ابن بُحینہ رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، پھر باقی حدیث بیان کی۔ یحییٰ بن حکیم نے اپنی روایت میں یہ الفاظ بیان کیے ہیں، تو ہم نے ”سُبْحَانَ اللَٰه“ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد دہانی کرائی، مگر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدھے کھڑے ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جاری رکھی اور واپس نہ ہوئے (بیٹھے نہیں)۔ جناب فضل کی روایت میں ہے، تو اُنہوں نے ”سُبْحَانَ اللَٰه“ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو متوجہ کیا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جاری رکھی اور (بیٹھنے کے لئے) واپس نہ لوٹے۔“
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ وہ دو رکعتوں میں (تشہد میں بیٹھنے کی بجائے) کھڑے ہو گئے تو مقتدیوں نے ”سُبْحَانَ اللَٰه“ کہہ کر انہیں متوجہ کیا۔ تو انہوں نے نماز مکمّل کی پھر نماز ختم کرتے وقت دو سجدے کرلیے، اور فرمایا، تمھارا کیا خیال تھا کہ میں بیٹھ جاؤں گا، بلاشبہ میں نے اسی طرح کیا ہے جیسے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ یہ ابن منیع کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ امام ابوبکر رحمه الله کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ابومعاویہ کو اس سند میں وہم ہوا ہے۔
سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنی نماز سے کوئی چیز بھول جائے تو بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے۔“ جناب ابوموسیٰ نے سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ کے شاگرد کا نام عقبہ بن محمد بن حارث ہی بیان کیا ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس شیخ (عقبہ بن محمد) کے نام میں ابن جریج کے اصحاب کا اختلاف ہے۔ حجاج بن محمد اور عبدالرزاق نے (اس کا نام) عقبہ بن محمد بیان کیا ہے۔ میرے علم کے مطابق یہی صحیح ہے۔ کے نام میں ابن جریج کے اصحاب کا اختلاف ہے۔ حجاج بن محمد اور عبدالرزاق نے (اس کا نام) عقبہ بن محمد بیان کیا ہے۔ میرے علم کے مطابق یہی صحیح ہے۔