والامر بان يسجد سجدتي السهو بذكر خبر مختصر غير متقصى، قد يحسب كثير ممن لا يميز بين المفسر والمجمل، ولا يفهم المختصر والمتقصى من الاخبار، ان الشاك في صلاته جائز له ان ينصرف من صلاته على الشك بعد ان يسجد سجدتي السهو وَالْأَمْرِ بِأَنْ يَسْجُدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ بِذِكْرِ خَبَرٍ مُخْتَصَرٍ غَيْرِ مُتَقَصًّى، قَدْ يَحْسِبُ كَثِيرٌ مِمَّنْ لَا يُمَيِّزُ بَيْنَ الْمُفَسَّرِ وَالْمُجْمَلِ، وَلَا يَفْهَمُ الْمُخْتَصَرَ وَالْمُتَقَصَّى مِنَ الْأَخْبَارِ، أَنَّ الشَّاكَّ فِي صَلَاتِهِ جَائِزٌ لَهُ أَنْ يَنْصَرِفَ مِنْ صَلَاتِهِ عَلَى الشَّكِّ بَعْدَ أَنْ يَسْجُدَ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک شیطان تم میں سے کسی شخص کے پاس آتا ہے جبکہ وہ اپنی نماز پڑھ رہا ہوتا ہے، تو وہ اس کی نماز کو خلط ملط کر دیتا ہے، حتیٰ کہ اُسے پتہ نہیں چلتا کہ اُس نے کتنی رکعتیں پڑھی ہیں - تو جس شخص کو ایسی صورت حال کا سامنا کرنا پڑھے تو وہ بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے۔“ جناب یحیٰی بن ابی کثیر اور محمد بن عمرو کی روایت کا مفہوم بھی اسی طرح کا ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حتیٰ کہ نمازی کی یہ حالت ہو جاتی ہے کہ اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ اس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، تین پڑھی ہیں یا چار؟ تو اسے چاہیے کہ (تشہد میں) بیٹھے بیٹھے دو سجدے کر لے۔“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب وہ (نمازی) بھول جائے اور اسے معلوم نہ ہو کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے تو وہ دو سجدے کرلے جبکہ وہ (تشہد میں) بیٹھا ہوا ہو ـ“
وفي خبر عياض، عن ابي سعيد الخدري، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" إذا سها فلم يدر كم صلى فليسجد سجدتين وهو جالس". وفي خبر عبد الله بن جعفر، ومعاوية، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" من شك في صلاته، فليسجد سجدتين وهو جالس". خرجت هذه الاخبار باسانيدها في كتاب الكبير، وهذه اللفظة مختصرة غير متقصاةوَفِي خَبَرِ عِيَاضٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا سَهَا فَلَمْ يَدْرِ كَمْ صَلَّى فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ". وَفِي خَبَرِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، وَمُعَاوِيَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ شَكِّ فِي صَلاتِهِ، فَلْيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ". خَرَّجْتُ هَذِهِ الأَخْبَارَ بِأَسَانِيدِهَا فِي كِتَابِ الْكَبِيرُ، وَهَذِهِ اللَّفْظَةُ مُخْتَصَرَةٌ غَيْرُ مُتَقَصَّاةٍ
سیدنا عبداللہ بن جعفر اور سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہما کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت میں ہے کہ ”جسے اپنی نماز میں شک ہو جائے تو اسے چاہیے کہ وہ تشہد میں بیٹھے بیٹھے دو سجدے کرلے۔“(صاحب کتاب کا بیان ہے کہ) میں نے یہ احادیث ان کی اسانید کے سات کتاب الکبیر میں بیان کی ہیں۔ اور یہ الفاظ مختصر غیر مفصل ہیں۔
والدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما امر الشاك في صلاته بسجدتي السهو بعدما يبني على الاقل، فيتمم صلاته على يقين إذا لم يكن له تحر وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَمَرَ الشَّاكَّ فِي صَلَاتِهِ بِسَجْدَتَيِ السَّهْوِ بَعْدَمَا يَبْنِي عَلَى الْأَقَلِّ، فَيُتَمِّمُ صَلَاتَهُ عَلَى يَقِينٍ إِذَا لَمْ يَكُنْ لَهُ تَحَرٍّ
سیدنا ابوسعید خدری رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” جب تم میں سے کسی کو اپنی نماز میں شک ہو جائے تو وہ شک کو چھوڑ دے اور یقین پر بنا کرے۔ پھر اگر اسے نماز مکمّل ہونے کا یقین ہو جائے تو وہ دو (سہو کے) سجدے کرلے۔ اگر اس کی نماز پوری ہوئی تو اس کی وہ رکعت اور دو سجدے نفل ہوں گے، اور اگر نماز پوری نہ ہوئی تو یہ رکعت اس کی نماز مکمّل کر دے گی اور دو سجدے شیطان کو ذلیل و رسوا کر نے کا باعث ہوں گے۔
إذا بنى على اليقين فيسجدهما قبل السلام لا بعد السلام ضد قول من زعم ان سجدتي السهو في جميع الاحوال تكونان بعد السلام إِذَا بَنَى عَلَى الْيَقِينِ فَيَسْجُدُهُمَا قَبْلَ السَّلَامِ لَا بَعْدَ السَّلَامِ ضِدَّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ سَجْدَتَيِ السَّهْوِ فِي جَمِيعِ الْأَحْوَالِ تَكُونَانِ بَعْدَ السَّلَامِ
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں کسی شخص کو اپنی نماز میں شک ہو جائے اور اسے پتہ نہ چلے کہ اُس نے کتنی رکعات پڑھی ہیں، ایک، دو، تین یا چار پڑھی ہیں؟ تو وہ اتنی رکعات مکمّل کرلے جن میں اسے شک ہو، پھر وہ تشہد میں بیٹھے بیٹھے دو سجے کرلے، چنانچہ اگر اس کی نماز نا مکمّل تھی تو اُس نے اب پوری کرلی اور دو سجدے شیطان کی ذلت و خواری کا سبب ہوں گے، اور اگر اُس نے اپنی نماز مکمّل کرلی تھی تو (یہ زائد) رکعت اور دو سجدے اس کے لئے نفل ہوں گے۔“
ثنا به الربيع مرة اخرى من كتابه، وقال:" فليبن على ما استيقن، ثم يسجد سجدتين من قبل السلام". وقال ابو موسى، والدورقي، ويونس: إذا شك احدكم في صلاته فلا يدري ثلاثا صلى ام اربعا، فليصل ركعة، ويسجد سجدتين قبل السلام، ثم باقي حديثهم مثل حديث الربيع. قال لنا ابو بكر: في هذا الخبر عندي دلالة على ان صاحب المال إذا كان ماله غائبا عنه، فاخرج زكاته واوصلها إلى اهل سهمان الصدقة، ناويا إن كان ماله سالما فهي زكاته، وإن كان ماله مستهلكا فهو تطوع، ثم بان عنده وصح ان ماله كان سالما، ان ماله الذي اوصله إلى اهل سهمان الصدقة كان جائزا عنه في الصدقة المفروضة في ماله الغائب، إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد اجاز عن المصلي هذه الركعة التي صلاها بإحدى اثنتين، إن كانت صلاته التي صلاها ثلاثا، فهذه الركعة رابعة التي هي فرض عليه، وإن كانت صلاته تامة فهذه الركعة نافلة، فقد اجزت عنه هذه الركعة من الفريضة، وهو إنما صلاها على انها فريضة او نافلةثنا بِهِ الرَّبِيعُ مَرَّةً أُخْرَى مِنْ كِتَابِهِ، وَقَالَ:" فَلْيَبْنِ عَلَى مَا اسْتَيْقَنَ، ثُمَّ يَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ مِنْ قَبْلِ السَّلامِ". وَقَالَ أَبُو مُوسَى، وَالدَّوْرَقِيُّ، وَيُونُسُ: إِذَا شَكَّ أَحَدُكُمْ فِي صَلاتِهِ فَلا يَدْرِي ثَلاثًا صَلَّى أَمْ أَرْبَعًا، فَلْيُصَلِّ رَكْعَةً، وَيَسْجُدْ سَجْدَتَيْنِ قَبْلَ السَّلامِ، ثُمَّ بَاقِي حَدِيثِهِمْ مِثْلُ حَدِيثِ الرَّبِيعِ. قَالَ لَنَا أَبُو بَكْرٍ: فِي هَذَا الْخَبَرِ عِنْدِي دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ صَاحِبَ الْمَالِ إِذَا كَانَ مَالُهُ غَائِبًا عَنْهُ، فَأَخْرَجَ زَكَاتَهُ وَأَوْصَلَهَا إِلَى أَهْلِ سُهْمَانَ الصَّدَقَةِ، نَاوِيًا إِنْ كَانَ مَالُهُ سَالِمًا فَهِيَ زَكَاتُهُ، وَإِنْ كَانَ مَالُهُ مُسْتَهْلَكًا فَهُوَ تَطَوُّعٌ، ثُمَّ بَانَ عِنْدَهُ وَصَحَّ أَنَّ مَالَهُ كَانَ سَالِمًا، أَنَّ مَالَهُ الَّذِي أَوْصَلَهُ إِلَى أَهْلِ سُهْمَانَ الصَّدَقَةِ كَانَ جَائِزًا عَنْهُ فِي الصَّدَقَةِ الْمَفْرُوضَةِ فِي مَالِهِ الْغَائِبِ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَجَازَ عَنِ الْمُصَلِّي هَذِهِ الرَّكْعَةَ الَّتِي صَلاهَا بِإِحْدَى اثْنَتَيْنِ، إِنْ كَانَتْ صَلاتُهُ الَّتِي صَلاهَا ثَلاثًا، فَهَذِهِ الرَّكْعَةُ رَابِعَةُ الَّتِي هِيَ فَرْضٌ عَلَيْهِ، وَإِنْ كَانَتْ صَلاتُهُ تَامَّةً فَهَذِهِ الرَّكْعَةُ نَافِلَةٌ، فَقَدْ أَجْزَتْ عَنْهُ هَذِهِ الرَّكْعَةُ مِنَ الْفَرِيضَةِ، وَهُوَ إِنَّمَا صَلاهَا عَلَى أَنَّهَا فَرِيضَةٌ أَوْ نَافِلَةٌ
امام صاحب فرماتے ہیں کہ امام ربیع نے ہمیں ایک مر تبہ اپنی کتاب سے بیان کر تے ہوئے فرمایا کہ لہٰذا وہ یقین پر بنا کرے، پھر سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرے اور جناب ابوموسٰی دورتی اور یونس نے اپنی روایت میں کہا کہ جب تم میں سے کسی شخص کو اپنی نماز میں شک ہو جائے، پھر اسے پتہ نہ چلے کہ اس نے تین رکعات پڑھی ہیں یا چار، تو اسے ایک رکعت پڑھ لینی چاہیے اور سلام پھیرنے سے پہلے دو سجدے کرلے۔ ان کی باقی روایت جناب ربیع کی روایت کی طرح ہی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله نے فرمایا کہ اس حدیث میں میرے نزدیک اس بات کی دلیل ہے کہ مالدار شخص کا مال جب اس کے پاس موجود نہ ہو (تجارت وغیرہ کی غرض سے کسی علاقے میں بیٹھا ہوا ہو) پھر وہ اس کی زکوٰۃ نکال کر صدقے کے حق داروں کو پہنچادے اور اس کی نیت یہ ہو کہ اگر اس کا مال صحیح سلامت ہوا تو یہ اس کی زکوٰۃ ہے اور اگر اس کا مال ہلاک و تباہ ہو چکا ہوا تو یہ نفلی صدقہ ہے، پھر اسے صحیح اطلاع مل گئی کہ اس کا مال صحیح سلامت ہے تو اس کا وہ مال جو اُس نے اپنے غیر موجود مال کی فرض زکوٰۃ کے طور پر صدقہ و زکوٰۃ کے حق داروں کو پہنچایا تھا وہ جائز اور درست ہو گا۔ کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کی ایک رکعت کو جائز قرار دیا ہے۔ جو اُس نے دو طرح کی نیت سے ادا کی تھی۔ کہ اگر اس کی ادا شدہ نماز تین رکعات ہوئی تو یہ اس کی چوتھی فرض رکعت ہوگی، اور اگر اس کی نماز مکمّل ہو چکی تھی تو یہ رکعت نفل ہوگی۔ اور اس کی یہ رکعت فرض نماز سے کفایت کرجائے گی حالانکہ اس نے یہ رکعت فرض یا نفل کی نیت سے ادا کی تھی۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھے اور اسے یہ پتہ نہ چلے کہ اس نے کتنی نماز پڑھی ہے، تین رکعات یا چار؟ تو اسے چاہیے کہ ایک رکعت پڑھ لے، اس کے رکوع و سجود خوب سنوار کر ادا کرے اور (آخر میں) دو سجدے کر لے۔“ محمد بن یحییٰ بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ روایت ایوب کی کتاب میں ایک اور جگہ پر موقوف بھی دیکھی ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ عمر بن محمد، وہ زید بن عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہے اور عاصم اور واقد کا بڑا بھائی ہے۔“ وہ فرماتے ہیں کہ میں نے احمد بن سعید الداری رحمه الله کو فرماتے ہوئے سنا کہ عاصم، عمر، زید، واقد، ابوبکر اور فرقد یہ سب بھائی ہیں۔ اور عاصم وہ محمد بن زید بن عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا بیٹا ہے۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ امام درامی نے ہمیں یہ بات اپنی روایت کے بعد بیان کی۔