والدليل على ان البزاق ليس بنجس، إذ لو كان نجسا لم يامر النبي صلى الله عليه وسلم المصلي للبصق في ثوبه في الصلاةوَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْبُزَاقَ لَيْسَ بِنَجَسٍ، إِذْ لَوْ كَانَ نَجِسًا لَمْ يَأْمُرِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُصَلِّيَ لِلْبَصْقِ فِي ثَوْبِهِ فِي الصَّلَاةِ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ تھوک نجس نہیں ہے۔ کیونکہ اگر یہ ناپاک و نجس ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نمازی کو نماز کی حالت میں اسے اپنے کپڑے میں تھوکنے کا حُکم نہ دیتے
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھجور کے خوشے اپنے ہاتھ میں رکھنا بہت پسند تھا، ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے اس حال میں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک میں ایک خوشہ تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد کے قبلہ میں بلغم دیکھی تو اسے کھرچ کر خوب صاف کر دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراضگی کی حالت میں لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ”کیا تم میں سے کوئی شخص پسند کرے گا کہ کوئی شخص اس کے سامنے آکر اس کے منہ پر تھوک دے؟ بلاشبہ جب تم میں سے کوئی شخص نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اپنے رب کی طرف منہ کرکے کھڑا ہوتا ہے اور فرشتہ اس کی دائیں طرف ہوتا ہے، لہٰذا اُسے اپنے سامنے اور اپنی دائیں جانب نہیں تھوکنا چاہئے، اُسے اپنے بائیں پاؤں یا اپنی بائیں جانب تھوکنا چاہیے، لیکن اگر وہ جلدی آجائے تو وہ اپنے کپڑے کے ایک کنارے میں تھوک کر کنارے کو آپس میں مل لے۔“ جناب دورقی کہتے ہیں کہ استاد محترم جناب یحیٰی نے ہمیں اس طرح کر کے دکھایا۔
سیدنا ابوسیعد خدری رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز میں ہو تو وہ اپنے سامنے نہ تھوکے کیونکہ اُس کا پروردگار اُس کے سامنے ہوتا ہے، اور اُسے چاہیے کہ اپنی بائیں طرف یا اپنے قدم کے نیچے تھوک لے، اگر اُسے تھوکنے کے لئے جگہ نہ ملے تو اپنے کپڑے یا اپنے جوتے میں تھوک لے (اور نماز کے بعد) اُسے باہر لے جائے۔“
جناب ابوالصہباء کہتے ہیں کہ ہم سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس تھے تو اُنہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو نماز پڑھا رہے تھے کہ بنو عبدالمطلب کی دو بچّیاں لڑتی جھگڑتی ہوئی آئیں چنانچہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن دونوں کو پکڑ لیا اور ایک کو دوسری سے کھینچ کر چھڑا دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کوئی پرواہ نہ کی (یعنی اپنی نماز بھی جاری رکھی)۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں گزشتہ صفحات پر املا کروا چکا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو تو اُسے اپنے آگے سے گزرنے نہیں دینا چاہیے اور اگر وہ (رکنے سے) انکار کر دے تو اسے اُس کے ساتھ لڑائی کرنی چاہیے، کیونکہ وہ شیطان ہے ـ“
امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں گزشتہ صفحات پر املا کروا چکا ہوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص نماز پڑھ رہا ہو تو اسے اپنے آگے سے گزرنے نہیں دینا چاہیے اور اگر وہ (رکنے سے) انکار کر دے تو اسے اس کے ساتھ لڑائی کرنی چاہیے، کیونکہ وہ شیطان ہے ـ“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں (ایک رات) اپنی خالہ میمونہ کے گھر سویا، جب رات کا کچھ حصّہ گزر گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُٹھے اور نماز پڑھنا شروع کر دی ـ پھر کچھ حدیث بیان کی اور فرمایا: ”پھر میں بھی اُٹھا اور آپکی بائیں جانب کھڑا ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے گھما کر اپنی دائیں جانب کھڑا کر لیا۔
ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی حدیث لکھوا چکا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہو گئے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے (کھڑے ہو کر) نماز پڑھی جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں (بھی بیٹھ کر پڑھنے کا) اشارہ کیا تو ہم بھی بیٹھ گئے۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے ہوتے تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کرتے تو سیدنا حسن اور حسین رضی اللہ عنہما اچھل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر پر بیٹھ جاتے، جب صحابہ کرام اُن دونوں کو منع کرتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام کو اشارہ کرتے کہ انہیں چھوڑ دو (جو کرتے ہیں کرنے دو)، پھر جب نماز مکمّل کی تو دونوں کو اپنی گود میں بٹھایا اور فرمایا: ”جسے میرے ساتھ محبت ہے وہ ان دونوں سے بھی محبت کرے۔“
سیدنا ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قبا میں داخل ہوئے تو کچھ انصاری صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کرنے کے لئے حاضر ہو گئے، میں نے حضرت صہیب سے پوچھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی حالت میں سلام کا جواب کیسے دیتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھ کے اشارے کے ساتھ جو اب دیتے تھے۔ جناب سفیان کہتے ہیں کہ میں نے زید بن اسلم سے پوچھا تو کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ روایت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سنی ہے؟ انہوں نے کہا کہ، ہاں (سنی ہے)۔