امام صاحب جناب الدورقی کی سند سے روایت کرتے ہیں کہ اور آپ سیدہ زینب کی بیٹی کو اپنی گردن پر بٹھائے لوگوں کی امامت کرواتے، پھر جب رُکوع کرتے تو اُسے بٹھا دیتے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوتے تو اُسے اُٹھا لیتے۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ کر رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد چند قریشی بیٹھے تھے، جب عقبہ بن ابی معیط اُونٹ کی اوجھری لیکر آیا اور اُسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ڈال دیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا سر مبارک اُٹھا نہ سکے، چنانچہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور اُسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کمر سے اُتارا اور اس بُرے کام کے کرنے والے پر بد دعا کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بد دعا کی: ”اے اللہ! قریش کی اس جماعت ابوجہل بن ہشام، عتبہ بن ربیعہ، شیبہ بن ربیعہ، عقبہ بن ابی معیط اور امیہ بن خلف یا ابی بن خلف، امام شعبہ کو شک ہے، کو (اپنے درد ناک عذاب کے ساتھ) پکڑ لے، سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، میں نے ان قریش سرداروں کو دیکھا کہ وہ بدر والے دن قتل کر دیے گئے اور ایک کنویں میں پھینک دیے گئے، سوائے امیہ یا ابی کے کہ اُس کے جوڑ ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے تھے تو اُسے کنویں میں نہ پھینکا گیا۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن ہمیں نماز پڑھائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جوتے اُتار کر اپنی بائیں جانب رکھ دیئے۔ جب صحابہ کرام نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جوتے اُتار دیئے ہیں تو اُنہوں نے بھی اپنے جوتے اُتار دیئے، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم فارغ ہوئے تو اُنہیں فرمایا: ”تمہیں کیا ہوا تھا کہ تم نے اپنے جوتے اُتار دیئے تھے؟“ اُنہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ہم نے آپ کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جوتے اُتار دیئے ہیں تو ہم نے بھی اپنے جوتے اُتار دیئے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(میں نے تو اس لئے اُتارے تھے) کہ میرے پاس ایک آنے والا (فرشتہ) آیا تو اُس نے مجھے بتایا کہ میرے جوتوں میں گندگی لگی ہوئی ہے تو میں نے اُتار دیا۔ لہٰذا جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو وہ (جوتے) دیکھ لے، اگر وہ اپنے جوتوں میں گندگی دیکھے تو اُنہیں زمین کے ساتھ رگڑ لے، پھر اُنہیں پہن کر نماز پڑھ لے۔“