سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ وہ نماز ظہر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سورہ «سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى» [ سورة الأعلى ] اور «هَلْ أَتَاكَ حَدِيثُ الْغَاشِيَةِ» [ سورة الغاشية ] کی قرأت ترنم کے ساتھ سنا کرتے تھے۔
343. اس بات کی دلیل کا بیان کہ دیگر سورتوں کی قرأت کے بغیر صرف سورۂ فاتحہ کی قرأت کے ساتھ نماز پڑھنا جائز اور درست ہے اور بلاشبہ نماز میں سورۂ فاتحہ کے علاوہ مزید قرأت کرنا افضل و اعلیٰ ہے، فرض نہیں ہے
في خبر عبادة بن الصامت: " لا صلاة لمن لم يقرا بفاتحة الكتاب " دلالة على ان من قرا بها له صلاة. وفي خبر ابي هريرة: " من صلى صلاة لم يقرا فيها بام القرآن فهي خداج " دلالة على ان من قرا بفاتحة الكتاب في الصلاة لم تكن صلاته خداجا.فِي خَبَرِ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ: " لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ " دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ مَنْ قَرَأَ بِهَا لَهُ صَلَاةٌ. وَفِي خَبَرِ أَبِي هُرَيْرَةَ: " مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فَهِيَ خِدَاجٌ " دَلَالَةٌ عَلَى أَنَّ مَنْ قَرَأَ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فِي الصَّلَاةِ لَمْ تَكُنْ صَلَاتُهُ خِدَاجًا.
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے: ”اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا-“یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جو شخص سورت فاتحہ پڑھ لے اس کی نماز ہوجاتی ہے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے:”جس شخص نے کوئی نماز پڑھی اور اس میں ام القرآن نہ پڑھی تو وہ نماز ناقص وناتمام ہے-“یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جس شخص نے نماز میں سورہ فاتحہ پڑھ لی،اس کی نماز ناقص نہیں ہوتی۔(بلکہ مکمل ہوتی ہے)
حضرت حنظلہ سدوسی کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عکرمہ رحمہ اﷲ سے کہا کہ میں نماز مغرب میں بعض اوقات «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ» [ سورة الفلق ] اور «قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ» [ سورة الناس ] کی قرﺀات کرتا ہوں اور کُچھ لوگ اس کی وجہ سے میری عیب جوئی کرتے ہیں (مجھے ملامت کرتے ہیں) تو اُنہوں نے (تعجب سے) فرمایا کہ «سُبْحَانَ الله» ”اس میں کیا حرج ہے۔“ تم ان دونوں سورتوں کو پڑھا کرو کیونکہ وہ قرآن مجید کا حصّہ ہیں، پھر فرمایا کہ مجھے سیدنا ابن عباس رضی عنہما نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت ادا کیں، ان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُم الکتاب کے سوا کوئی سورت نہ پڑھی۔ یہ محمد بن یحییٰ کی حدیث ہے۔ اور محمد بن زیاد نے یہ الفاظ روایت کیے کہ «أَنَّ أَقوَامَا يعِيبُون» کچھ لوگ اسے عیب سمجھتے تھے (یعنی انہوں نے «نَا سا» کی جگہ «أَقوَامَا» کا لفظ بیان کیا ہے، معنیٰ ایک ہی ہے) اور یہ الفاظ روایت نہیں کیے، ” اس میں کیا حرج ہے۔“ اور کہا کہ مجھے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے حدیث بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت ادا کیں، اُن میں سوره فاتحه کے علاوہ کوئی سورت نہ پڑھی، سوره فاتحه کے بعد مزید کچھ نہ پڑھا۔
حضرت محمد بن جبیربن مطعم اپنے والد سیدنا جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز مغرب میں ”سورۃ الطور“ پڑھتے ہوئے سنا۔ امام صاحب اپنے اساتذہ کرام جناب علی بن خشرم اور سعید بن عبدالرحمٰن مخزومی کی سند سے مذکورہ بالا روایت کی طرح روایت بیان کرتے ہیں۔
حضرت مروان بن الحکم بیان کرتے ہیں کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے (اُن سے) فرمایا کہ تمہیں کیا ہوا ہے کہ تم مغرب کی نماز میں قصار مفصل (چھوٹی چھوٹی) سورتیں پڑھتے ہو؟ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب میں دو بہت لمبی سورتوں میں سے ایک لمبی سورت پڑھا کرتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی، دو طویل ترین سورتوں میں سے ایک طویل تر سورت کونسی ہے (جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے؟) تو اُنہوں نے فرمایا کہ وہ «سورة الأعراف» ہے۔ (جناب ابن جریج) کہتے ہیں کہ میں نے ابن ابی ملیکہ سے پوچھا کہ وہ طویل ترین سورتیں کون سی ہیں؟ تو انہوں نے اپنی رائے سے جواب دیا کہ «سورة الأنعام» اور «سورة الأعراف» ۔ یہ عبد الرزاق کی روایت کے الفاظ ہیں۔ امام ابوبکر رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت احمد بن نصر المقری کو فرماتے ہوئے سنا، میری خواہش ہے کہ میں نماز مغرب میں (سنّت نبوی پر عمل کرتے ہوئے) ایک بار «سورة الأعراف» پڑھوں۔
345. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو طویل سورتوں میں سے ایک طویل تر سورت نماز مغرب کی پہلی دوںوں رکعتوں میں پڑھا کرتے تھے، صرف ایک رکعت میں (پوری سورت) نہیں پڑھتے تھے
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب میں دونوں رکعتوں میں «سورة الأعراف» پڑھا کرتے تھے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے علم نہیں کہ اس سند میں کسی راوی نے محاضر بن مورع کی متابعت کی ہو۔ جناب ہشام کے شاگرد اس سند میں شک کے ساتھ روایت کرتے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ یا سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ یہ شک ہشام کو ہوا ہے۔
جناب ہشام اپنے والد محترم سے روایت کرتے ہیں کہ سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ یا سیدنا زید بن ثابت ضی اللہ عنہ (ہشام کو شک ہے) نے مروان کو کہا جبکہ وہ مدینہ منوّرہ کے گورنرتھے، بیشک آپ نماز مغرب کی دونوں رکعتوں میں بہت کم قرأت کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم، بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ان دونوں رکعتوں میں پوری «سورة الأعراف» پڑھا کرتے تھے۔ (ہشام) کہتے ہیں کہ تو میں نے اپنے والد محترم سے پوچھا، مروان ان دونوں رکعتوں میں کیا پڑھا کرتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا، وہ طول المفصل (لمبی سورتوں میں سے) پڑھا کرتا تھا۔ ہشام سے وکیع اور شعیب بن اسحاق نے اسی طرح روایت کیا ہے، دونوں شک کے ساتھ بیان کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ سیدنا زید یا سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہما سے روایت ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اپنی والدہ محترمہ سیدہ اُم الفضل بنت الحارث رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز مغرب میں «سورة المرسلات» پڑھتے ہوئے سنا۔ یہ دورقی کی روایت کے الفاظ ہیں۔ مگر (امام صاحب کے استاد محترم) عبدالجبار نے یہ الفاظ روایت نہیں کیے کہ ”نماز مغرب میں“(یہ سورت سنی ہے)۔
جناب سلیمان بن یسار بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے مدینہ منوّرہ کے فلاں امیر سے زیادہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے مشابہ (نماز پڑھنے والے) کسی شخص کو نہیں دیکھا۔ جناب سلیمان فرماتے ہیں، تو میں نے بھی اس امیر کے پیچھے نماز پڑھی (وہ اس طرح نماز پڑھتے کہ)(ظہر کی) پہلی دو رکعتوں میں طویل قراءت کرتے اور آخری دو رکعتوں میں کم قراءت کرتے۔ اور عصر کی نماز مختصر پڑھاتے۔ وہ نماز مغرب کی پہلی دو رکعتوں میں قصار المفصل (چھوٹی) سورتیں پڑھتے اور عشاء کی نماز کی پہلی دو رکعتوں میں اوساط المفصل (درمیانی) سورتیں پڑھتے، اور صبح کی نماز میں طوال المفصل (لمبی) سورتیں پڑھتے۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قراءت کے متعلق یہ اختلاف جائز قسم کے اختلاف سے ہے۔ نمازی کے لیے جائز ہے کہ وہ نماز مغرب اور دیگر تمام نمازوں، جن میں سورہ فاتحہ کے علاوہ مزید قراءت کی جاتی ہے، میں قرآن مجید کی جو سورت اُسے محبوب ہو وہ پڑھ لے، اس کے لئے یہ ممنوع نہیں کی وہ اپنی چاہت کے مطابق قرآن مجید کی کوئی سورت پڑھے۔ سوائے اس حالت کے کہ وہ امام ہو تو پھر بہتر یہ ہے کہ وہ مختصر قراءت کرے اور طویل قراءت کرکے لوگوں کو آزمائش میں نہ ڈالے (کہ نماز باجماعت پڑھنا ترک کر دیں) جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (طویل قراءت کرنے پر) سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا، ” کیا تم فتنہ باز بننا چاہتے ہو۔“ اور جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےائمہ کو ہلکی اور مختصر نماز پڑھانے کا حُکم دیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جو شخص لوگوں کی امامت کروائے تو اُسے تخفیف کرنی چاہیے (مختصر نماز پڑھانی چاہیے۔)“ عنقریب میں ان تمام احادیث یا ان میں سے بعض احادیث كتاب الامامه میں بیان کروں گا کیونکہ ان احادیث کا اصل مقام وہی کتاب ہے۔