سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ مسلمان جب مدینہ منورہ آئے تو وہ یونہی جمع ہو جاتے تو نماز کے لئے ایک وقت مقرر کر لیتے، اُنہیں کوئی بُلاتا نہیں تھا، پھر ایک دن اُنہوں نے اس سلسلے میں بات چیت کی تو اُن کے بعض افراد نے کہا کہ عیسائیوں کے گھنٹے جیسا گھنٹا بنالو، جبکہ بعض نے کہا کہ یہودیوں کے نرسنگے جیسا نرسنگا بنالو، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم ایک آدمی کو کیوں نہیں بھیجتے جو نماز کا اعلان کرے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بلال، اُٹھو نماز کے لئے اعلان کرو۔“
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ شروع میں اذان ان کلمات کے ساتھ کہتے تھے۔ «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» ”میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں ہے“ «حَيَّ عَلَى الصَّلَاةِ» (نماز کے لیے آؤ) تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اُنہیں کہا: «أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ» کے بعد «أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهُ» (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے رسول ہیں) کہا کرو، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسی طرح کہا کرو جیسے تمہیں عمر حُکم دے رہے ہیں۔“
267. اس بات کی دلیل کا بیان کہ بلند اور زوردار آواز والا شخص پست آواز والے شخص کی نسبت اذان کہنے کا زیادہ حق دار ہے کیونکہ اذان لوگوں کو نماز کے لیے جمع کرنے کے لیے دی جاتی ہے
سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ جب ہم نے صبح کی تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو (آذان کے متعلق) خواب بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک یہ سچا خواب ہے۔ بلال کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ کیونکہ وہ تم سے بلند آواز ہیں، اسے وہ کلمات بتاؤ جو تمہیں (خواب میں) بتائے گئے ہیں اور وہ ان کے ساتھ اذان کہیں۔“ کہتے ہیں کہ تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم کی تعمیل کی، پھر جب سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی نماز کے لئے اذان سُنی تو وہ اپنی چادر گھسیٹتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نکلے اور کہنے لگے کہ اے اللہ کے رسول، اس ذات اقدس کی قسم جس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ معبوث فرمایا ہے، یقیناًً ً میں نے اسی طرح دیکھا ہے جیسے انہوں نے پکارا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پس سب تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں۔ (جس نے یہ خواب سچ کر دکھایا ہے۔)“
إذ الاذان قائما احرى ان يسمعه من بعد عن المؤذن من ان يؤذن وهو قاعد. إِذِ الْأَذَانُ قَائِمًا أَحْرَى أَنْ يَسْمَعَهُ مَنْ بَعُدَ عَنِ الْمُؤَذِّنِ مِنْ أَنْ يُؤَذِّنَ وَهُوَ قَاعِدٌ.
کیونکہ کھڑے ہو کراذان کہنے سے مؤذن سے دور شخص بھی اذان بخوبی سن سکتا ہے جبکہ بیٹھ کر اذان کہنے سے یہ فائدہ حاصل نہیں ہوسکتا
قال ابو بكر: في خبر نافع، عن ابن عمر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «قم يا بلال فناد بالصلاة» قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فِي خَبَرِ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «قُمْ يَا بِلَالُ فَنَادِ بِالصَّلَاةِ»
امام ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بلال کھڑے ہو جاؤ اور نماز کے لیے اذان کہو۔“
269. اس بات کی دلیل کا بیان کہ اذان کی ابتدا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ ہجرت کے بعد ہوئی ہے اور مکہ مکرمہ میں آپ کی نماز بغیر اذان اور بغیر اقامت کے تھی
قال ابو بكر في خبر عبد الله بن زيد: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قدم المدينة إنما يجتمع الناس إليه للصلاة بحين مواقيتها بغير دعوة» قَالَ أَبُو بَكْرٍ فِي خَبَرِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَيْدٍ: «كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ إِنَّمَا يَجْتَمِعُ النَّاسُ إِلَيْهِ لِلصَّلَاةِ بِحِينِ مَوَاقِيتِهَا بِغَيْرِ دَعْوَةٍ»
امام ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منوّرہ تشریف لائے تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نماز کے لئے اُن کے اوقات میں بغیر اذان کے جمع ہو جاتے تھے۔
لا بعده ابو بكر ولا عمر، كما ادعى بعض الجهلة انه جائز ان يكون الصديق او الفاروق امر بلالا بذلك.لَا بَعْدَهُ أَبُو بَكْرٍ وَلَا عُمَرُ، كَمَا ادَّعَى بَعْضُ الْجَهَلَةِ أَنَّهُ جَائِزٌ أَنْ يَكُونَ الصِّدِّيقُ أَوِ الْفَارُوقُ أَمَرَ بِلَالًا بِذَلِكَ.
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیدنا ابوبکر یا سیدنا عمر رضی اللہ عنہما نہیں تھے جیسا کہ بعض جہلاء نے دعویٰ کیا ہے کہ ممکن ہے سیدنا ابوبکر صدیق یا سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہما نے بلال رضی اللہ عنہ کو اس کا حُکم دیا ہو۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نے کسی ایسی چیز کی تلاش کی جس کے ذریعے وہ نماز کے وقت کی خبر دینے کے لیے اذان کہہ سکیں، کہتے ہیں کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حُکم دیا گیا کہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ اور اقامت کے ایک ایک بار کہیں۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب (مسلمان) لوگ زیادہ ہو گئے تو اُنہوں نے تذکرہ کیا کہ کوئی ایسی معروف چیز ہونی چاہئے جس سے وہ نماز کا وقت معلوم کرسکیں (اور نماز کے لئے جمع ہو سکیں) تو اُنہوں نے تذکرہ کیا کہ وہ آگ جلا لیا کریں، یا وہ گھنٹہ بجالیا کریں تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کو حُکم دیا گیا کہ وہ اذان کے کلمات دو دو مرتبہ اور تکبیر کے کلمات ایک ایک بار کہیں۔