ولم يخف الإمام ضعف الضعيف وسقم السقيم فتفوتهم الجماعة لتاخير الإمام الصلاة، او يشق عليهم حضور الجماعة إذا اخر صلاة العشاء.وَلَمْ يَخَفِ الْإِمَامُ ضَعْفَ الضَّعِيفِ وَسَقَمَ السَّقِيمِ فَتَفُوتُهُمُ الْجَمَاعَةُ لِتَأْخِيرِ الْإِمَامِ الصَّلَاةَ، أَوْ يَشُقُّ عَلَيْهِمْ حُضُورُ الْجَمَاعَةِ إِذَا أَخَّرَ صَلَاةَ الْعِشَاءِ.
نیز امام کو نماز عشاء مؤخر کرنے کی صورت میں کمزور شخص کی کمزوری اور بیمار کی بیماری کا ڈر نہ ہو کہ ان کی نماز با جماعت فوت ہو جائے گی یا نماز مؤخر کرنے سے ان کے لیے جماعت میں حاضر ہونا مشکل ہو جائے گا تو نماز عشاء مؤخر کرنا مستحب ہے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات نماز عشاء مؤخر کردی تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ باہر نکلے اور عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، نماز (پڑھا دیجئے) عورتیں اور بچّے سو گئے ہیں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم باہر تشریف لائے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر مبارک سے پانی کے قطرے گر رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دونوں جانب سے پانی جھاڑ رہے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے کہ ”اگر مجھے خدشہ نہ ہوتا کہ میں اپنی اُمّت کو مشقّت میں ڈال دوں گا تو میں اُنہیں (یہ نماز) اسی وقت پڑھنے کا حُکم دیتا۔“(ابن جریج اور عمر) دو میں سے کسی ایک نے یہ الفاظ روایت کئے کہ ”یہی وقت ہے اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ میں اپنی اُمّت کو مشکل و مشقت میں ڈال دوں گا۔“ یہ عبدالجبار کی حدیث کے الفاظ ہیں جب اُنہوں نے ابن جریح اور عمر بن دینار سے روایت کو جمع کر کے بیان کیا۔ اور جب ابن جریح کی روایت کو منفرد بیان کیا تو کہا کہ ”یہی وقت ہے کہ اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میں اپنی اُمُت کو مشقْت میں ڈال دوں گا۔“ احمد بن عبدہ نے اپنی روایت میں یہ الفاظ بیان کیے ہیں کہ ”اگر مُجھے یہ خدشہ نہ ہوتا کہ میں مؤمنوں کومُشقّت میں ڈال دوں گا تو میں اُنہیں یہ نماز اسی وقت ادا کرنے کا حُکم دیتا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء کو مؤخر کر دیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے با آواز آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ (حضور) عورتیں اور بچّے سو گئے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُن کی طرف تشریف لائے اور فرمایا: ”اہل زمین میں سے تمہارے سوا کوئی بھی اس نماز کا انتظار نہیں کررہا۔“ امام زہری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اُن دنوں صرف اہل مدینہ ہی نماز پڑھتے تھے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک رات نماز عشاء کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کر رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تہائی رات گزر جانے کے بعد تشریف لائے۔ اور ہمیں معلوم نہیں کہ کس چیز نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والوں میں یا کسی اور کام میں مشغول کر دیا تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک تم اس نماز کا انتظار کر رہے ہو کہ تمہارے سوا کوئی مذہب والے اس کا انتظار نہیں کررہے۔ اور اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میری اُمّت پر گراں ہوگا تو میں اُنہیں (یہ نماز) اسی وقت پڑھاتا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذّن کو حُکم دیا تو اُس نے نماز کی اقامت کہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نماز عشاء کے لئے تقریبا آدھی رات تک انتظار کیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ہمیں نماز پڑھائی اور فرمایا: ”اپنی نشستوں کو سنبھالو۔ بیشک لوگ سو چُکے ہیں۔ بیشک تم جب سے نماز کا انتظار کر رہے ہو، اُس وقت سے مسلسل نماز ہی میں ہو۔ اور اگر مجھے کمزور شخص کی کمزوری، بیمار شخص کی بیماری اور حاجت مند کی حاجت و ضرورت کا خیال نہ ہوتا تو میں اس نماز کوآدھی رات تک مؤخر کر دیتا۔“ یہ بندار کی حدیث ہے۔
سیدنا ابوبرزہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے اور اس کے بعد باتیں کرنے کو ناپسند کرتے تھے۔ یہ احمد بن منیع کی حدیث ہے۔ یحییٰ بن سعید کی روایت میں ہے، وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ابومنہال سیاربن سلامہ نے بیان کیا کہ میں اپنے والد کے ساتھ سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوا تو میرے والد نے اُن سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرض نماز کیسے ادا کرتے تھے؟ اُنہوں نے فرمایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز جسے تم عتمہ کہتے ہو کو مؤخر کرنا پسند کرتے تھے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونا اور اس کے بعد گُفتگو کرنا ناپسند کرتے تھے۔ محمد بن جعفر اور عبدالوھاب کی روایت میں «عَنْ اَبِی الْمِنْھَالِ» ہے جبکہ متن یحییٰ کی روایت ہی کی طرح ہے۔
وفيه ما دل على ان كراهة النبي صلى الله عليه وسلم النوم قبلها إذا لم تؤخر.وَفِيهِ مَا دَلَّ عَلَى أَنَّ كَرَاهَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّوْمَ قَبْلَهَا إِذَا لَمْ تُؤَخَّرْ.
اس میں یہ دلیل ہے کہ عشاء سے پہلے سونے کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس کراہت کا اظہار کیا ہے وہ اُس وقت ہے جب نماز مؤخر نہ کی گئی ہو۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز عشاء سے مشغول ہوگئے حتیٰ کہ ہم سو گئے پھر ہم بیدار ہوئے، پھر ہم سو گئے، پھر ہم بیدار ہوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو فرمایا: ”تمہارے سوا اہل زمین میں سے کوئی بھی نماز کا منتظر نہیں ہے۔“ یہ محمد بن بکر کی حدیث ہے، ابن رافع کی روایت میں ہے کہ حتیٰ کہ ہم مسجد میں سوگئے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ باہر نکلے تو اُنہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نماز (پڑھا دیجئے) عورتیں اور بچّے سو گئے ہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (نماز عشاء) مؤخر کردی حتیٰ کے رات کا اکثر حصّہ گزر گیا اور مسجد والے سو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور نماز پڑھائی اور فرمایا: ”بیشک اس کا یہی وقت ہے اگر مجھے یہ ڈر نہ ہوتا کہ میں اپنی اُمّت کو مشقّت میں ڈال دوں گا۔“ ابوعاصم اور محمد بن کر کی روایت میں۔ «حدثنی المغيرة بن حكيم» ”یعنی اخبرنی کے بجائے حدثنی کہا ہے“ امام ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عشاء کو مؤخر کیا حتیٰ کہ اہل مسجد سوگئے اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم اُن کے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں (عشاء سے قبل سونے پر) ڈانٹا نہیں ہے، اور اگر نماز عشاء سے پہلے اُن کا سونا مکروہ ہوتا جبکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو مؤخر کر دیا تھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اُنہیں اُن کے اس فعل پر ڈانٹ ڈپٹ کرتے اور اُنہیں اس کام پر سرزنش کرتے جو اُن کے لئے جائز نہ تھا۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اوقاتِ نماز کے متعلق روایت میں ہے، وہ دوسری رات نمازِ عشاء کے وقت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ہم سو گئے پھر بیدار ہو گئے، پھر ہم سو گئے، پھر ہم بیدار ہو گئے، پھر ہم کئی بار سوئے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”اعرابی تمہاری نماز کے نام کے بارے میں تم پر ہرگزغالب نہ آجائیں، بیشک وہ اُونٹوں پر (دودھ دوہنے کی وجہ سے) دیرکیا کرتے تھے (اس لیے عشاء کوعتمہ کہتے تھے) بیشک وہ نماز عشاء ہے۔