سیدنا عبدالرحمٰن بن ابزی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو اس نے کہا کہ میں جنبی ہوگیا ہوں اور مجھے پانی نہیں ملا (تو میں کیا کروں؟) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےفرمایا کہ تم نماز نہ پڑھو۔ (بلکہ پانی ملنے تک انتظار کرو) تو سیدنا عمار رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے امیرالمومنین، کیا آپ کویاد نہیں جب میں اور آپ ایک سریہ میں تھے تو ہم جنبی ہو گئے تھے اور ہمیں پانی نہیں ملا تھا۔ تو آپ نے نماز نہیں پڑھی تھی جبکہ میں نے مٹی میں لوٹ پوٹ ہوکر نماز پڑھ لی تھی۔ پھر جب ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو میں نے یہ واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیان کیا تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ”تمہیں صرف اتنا ہی کافی تھا۔“ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ زمین پر مارا پھر اس میں پُھونک ماری اور اُس کے ساتھ اپنے چہرے اور دونوں ہاتوں کا مسح کیا۔
212. تیمّم کے لیے دونوں ہاتھوں کو زمین پر مارنے کے بعد، ان میں پھونک مارنے سے پہلے اور چہرے اور ہاتھوں کے مسح سے پہلے، دونوں ہاتھوں سے مٹی جھاڑنے کا بیان
سیدنا عبدالرحمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو اُس نے کہا کہ ہم جنبی ہو جاتے ہیں اور ہمارے پاس پانی نہیں ہے (تو نماز کیسے ادا کریں) پھر اُنہوں نے سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اُن کا واقعہ بیان کیا۔ کہتے ہیں کہ اور حضرت عمار نے فرمایا، تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ واقعہ بتایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے لئے یہی کافی تھا کہ تُو اپنے دونوں ہاتھوں سے ایسے ایسے کرتا۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھ مٹی پر مارے، پھر اُنہیں جھاڑا پھر اُن میں پھونک ماری اور اُن سے اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کا مسح کیا۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث کی سند میں امام شعبہ نے سلمہ بن کھیل اور سعید بن عبدالرحمٰن کے درمیان ذر (راوی) کو داخل کر دیا ہے۔ اس حدیث کا امام ثوری نے سلمہ سے اور اُنہوں نے ابومالک اور عبداللہ بن عبدالرحمٰن بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ سے انہوں نے عبدالرحمان بن ابزیٰ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا ہے۔ مگر امام ثوری اور شعبہ کی روایت میں ”ہاتھوں سے مٹّی جھاڑنے“ کا ذکر نہیں ہے۔
نا يوسف بن موسى ، حدثنا ابو معاوية ، نا الاعمش ، عن شقيق ، قال: كنت جالسا مع عبد الله، وابي موسى، فقال ابو موسى: يا ابا عبد الرحمن، ارايت لو ان رجلا اجنب فلم يجد الماء شهرا يتيمم؟ فقال عبد الله: لا يتيمم، فقال ابو موسى : الم تسمع قول عمار لعمر: بعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في حاجة، فاجنبت، فلم اجد الماء، فتمرغت في الصعيد كما تمرغ الدابة، فذكرت ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إنما كان يكفيك على ان تضرب بكفيك على الارض، ثم تمسحهما، ثم تمسح بهما وجهك وكفيك" . قال ابو بكر: فقوله في هذا الخبر: ثم تمسحهما هو النفض بعينه وهو مسح إحدى الراحتين بالاخرى لينفض ما عليهما من الترابنا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، نا الأَعْمَشُ ، عَنْ شَقِيقٍ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا مَعَ عَبْدِ اللَّهِ، وَأَبِي مُوسَى، فَقَالَ أَبُو مُوسَى: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَرَأَيْتَ لَوْ أَنَّ رَجُلا أَجْنَبَ فَلَمْ يَجِدِ الْمَاءَ شَهْرًا يَتَيَمَّمُ؟ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لا يَتَيَمَّمُ، فَقَالَ أَبُو مُوسَى : أَلَمْ تَسْمَعْ قَوْلَ عَمَّارٍ لِعُمَرَ: بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَاجَةٍ، فَأَجْنَبْتُ، فَلَمْ أَجِدِ الْمَاءَ، فَتَمَرَّغْتُ فِي الصَّعِيدِ كَمَا تَمَرَّغُ الدَّابَّةُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيكَ عَلَى أَنْ تَضْرِبَ بِكَفَّيْكَ عَلَى الأَرْضِ، ثُمَّ تَمْسَحَهُمَا، ثُمَّ تَمْسَحَ بِهِمَا وَجْهَكَ وَكَفَّيْكَ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَقَوْلُهُ فِي هَذَا الْخَبَرِ: ثُمَّ تَمْسَحَهُمَا هُوَ النَّفْضُ بِعَيْنِهِ وَهُوَ مَسْحُ إِحْدَى الرَّاحَتَيْنِ بِالأُخْرَى لِيَنْفُضَ مَا عَلَيْهِمَا مِنَ التُّرَابِ
حضرت شقیق رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں سیدنا عبداللہ اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہما کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اے ابوعبدالرحمان، آپ کا کیا خیال ہے اگر ایک شخص جنبی ہو جائے تو اُسے ایک ماہ تک پانی نہ ملے، کیا وہ تیمّم کرتا رہے گا؟ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ وہ تیمّم نہیں کرے گا (اور نہ نماز پڑھے گا) تو سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا، کیا آپ نے سیدنا عمار کا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا ہوا قول نہیں سنا، (جس میں وہ کہتے ہیں کہ) مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ضروری کام کے لئے بھیجا تو (راستے میں) میں جنبی ہو گیا اور مجھے پانی نہ ملا تو میں جانور کی طرح مٹی میں لوٹ پوٹ ہو گیا (اور نماز پڑھ لی) پھر میں نے (واپس آکر) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہیں اتنا ہی کافی تھا کہ تم اپنے دونوں ہاتھ زمیں پر مارتے پھر اُن کو (آپس میں) ملتے پھر اُن سے اپنے چہرے اور دونوں ہاتھوں کا مسح کر لیتے۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان «ثُمَّ تَمْسَحَ» اس سے مراد دونوں ہاتھوں سے مٹی جھاڑنا ہی ہے۔ (کیونکہ) النفض ایک ہتھیلی کو دوسری کے ساتھ ملنے کو کہتے ہیں تاکہ اُن پر لگی ہوئی مٹی جھڑ جائے۔
والدليل على ان التيمم ليس كالغسل في جميع احكامه، إذ المغتسل من الجنابة لا يجب عليه غسل ثان إلا بجنابة حادثة، والتيمم في الجنابة عند الإعواز من الماء يجب عليه غسل عند وجود الماءوَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ التَّيَمُّمَ لَيْسَ كَالْغُسْلِ فِي جَمِيعِ أَحْكَامِهِ، إِذِ الْمُغْتَسِلُ مِنَ الْجَنَابَةِ لَا يَجِبُ عَلَيْهِ غُسْلٌ ثَانٍ إِلَّا بِجَنَابَةٍ حَادِثَةٍ، وَالتَّيَمُّمُ فِي الْجَنَابَةِ عِنْدَ الْإِعْوَازِ مِنَ الْمَاءِ يَجِبُ عَلَيْهِ غُسْلٌ عِنْدَ وُجُودِ الْمَاءِ
اور اس دلیل کا بیان کہ تیمّم تمام احکام نسل میں غسل کی مانند نہیں ہے کیونکہ جنابت کی وجہ سے غسل کرنے والے شخص پر دوبارہ غسل اُس وقت واجب ہوگا جب وہ دوبارہ جنبی ہو گا۔ جبکہ پانی کی عدم موجودگی میں تیمّم کرنے والا جنبی شخص پانی ملنے پرلازم غسل کرے گا۔
نا بندار ، نا يحيى بن سعيد ، وابن ابي عدي ، ومحمد بن جعفر ، وسهل بن يوسف ، وعبد الوهاب بن عبد المجيد الثقفي ، قالوا: حدثنا عوف ، عن ابي رجاء العطاردي ، نا عمران بن حصين ، قال: كنا في سفر مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، وإنا سرينا ذات ليلة، حتى إذا كان السحر قبل الصبح وقعنا تلك الوقعة، ولا وقعة احلى عند المسافر منها، فما ايقظنا إلا حر الشمس، فذكر بعض الحديث، وقال: ثم نادى بالصلاة، فصلى باناس , ثم انفتل من صلاته، فإذا رجل معتزل لم يصل مع القوم، فقال له:" ما منعك يا فلان ان تصلي مع القوم؟" فقال: يا رسول الله اصابتني جنابة ولا ماء، فقال:" عليك بالصعيد فإنه يكفيك" ، ثم سار واشتكى إليه الناس، فدعا فلانا قد سماه ابو رجاء ونسيه عوف، ودعا علي بن ابي طالب، فقال لهما:" اذهبا، فابغيا لنا الماء"، فانطلقا فتلقيا امراة بين سطيحتين او مزادتين على بعير، فذكر الحديث، وقال: ثم نودي في الناس ان اسقوا واستقوا، فسقي من شاء واستقى من شاء، قال: وكان آخر ذلك ان اعطى الذي اصابته الجنابة إناء من ماء، وقال:" اذهب، فافرغه عليك". قال ابو بكر: ففي هذا الخبر ايضا دلالة على ان المتيمم إذا صلى بالتيمم، ثم وجد الماء فاغتسل إن كان جنبا، او توضا إن كان محدثا، لم يجب عليه إعادة ما صلى بالتيمم، إذ النبي صلى الله عليه وسلم لم يامر المصلي بالتيمم، لما امره بالاغتسال بإعادة ما صلى بالتيمم، وفي الخبر ايضا دلالة على ان المغتسل بالجنابة لا يجب عليه الوضوء قبل إفاضة الماء على الجسد غير اعضاء الوضوء، إذ النبي صلى الله عليه وسلم لما امر الجنب بإفراغ الماء على نفسه، ولم يامره بالبدء بالوضوء وغسل اعضاء الوضوء , ثم إفاضة الماء على سائر البدن، كان في امره إياه ما بان، وصح ان الجنب إذا افاض على نفسه كان مؤد يا لما عليه من فرض الغسل، وفي هذا ما دل على ان بدء المغتسل بالوضوء , ثم إفاضة الماء على سائر البدن، اختيار واستحباب لا فرض وإيجابنا بُنْدَارٌ ، نا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، وَابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، وَسَهْلُ بْنُ يُوسُفَ ، وَعَبْدُ الْوَهَّابِ بْنُ عَبْدِ الْمَجِيدِ الثَّقَفِيُّ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ أَبِي رَجَاءٍ الْعُطَارِدِيِّ ، نا عِمْرَانُ بْنُ حُصَيْنٍ ، قَالَ: كُنَا فِي سَفَرٍ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّا سَرَيْنَا ذَاتَ لَيْلَةٍ، حَتَّى إِذَا كَانَ السَّحَرُ قَبْلَ الصُّبْحِ وَقَعْنَا تِلْكَ الْوَقْعَةِ، وَلا وَقْعَةَ أَحْلَى عِنْدَ الْمُسَافِرِ مِنْهَا، فَمَا أَيْقَظَنَا إِلا حَرُّ الشَّمْسِ، فَذَكَرَ بَعْضَ الْحَدِيثِ، وَقَالَ: ثُمَّ نادَى بِالصَّلاةِ، فَصَلَّى بِأُنَاسٍ , ثُمَّ انْفَتَلَ مِنْ صَلاتِهِ، فَإِذَا رَجُلٌ مُعْتَزِلٌ لَمْ يُصَلِّ مَعَ الْقَوْمِ، فَقَالَ لَهُ:" مَا مَنَعَكَ يَا فُلانُ أَنْ تُصَلِّيَ مَعَ الْقَوْمِ؟" فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَصَابَتْنِي جَنابَةٌ وَلا مَاءَ، فَقَالَ:" عَلَيْكَ بِالصَّعِيدِ فَإِنَّهُ يَكْفِيكَ" ، ثُمَّ سَارَ وَاشْتَكَى إِلَيْهِ النَّاسُ، فَدَعَا فُلانًا قَدْ سَمَّاهُ أَبُو رَجَاءٍ وَنَسِيَهُ عَوْفٌ، وَدَعَا عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَقَالَ لَهُمَا:" اذْهَبَا، فَابْغِيَا لَنَا الْمَاءَ"، فَانْطَلَقَا فَتَلَقَّيَا امْرَأَةً بَيْنَ سَطِيحَتَيْنِ أَوْ مَزَادَتَيْنِ عَلَى بَعِيرٍ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، وَقَالَ: ثُمَّ نُودِيَ فِي النَّاسِ أَنِ اسْقُوا وَاسْتَقُوا، فَسُقِيَ مَنْ شَاءَ وَاسْتَقَى مَنْ شَاءَ، قَالَ: وَكَانَ آخِرُ ذَلِكَ أَنْ أَعْطَى الَّذِي أَصَابَتْهُ الْجَنَابَةُ إِنَاءً مِنْ مَاءٍ، وَقَالَ:" اذْهَبْ، فَأَفْرِغْهُ عَلَيْكَ". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: فَفِي هَذَا الْخَبَرِ أَيْضًا دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ الْمُتَيَمِّمَ إِذَا صَلَّى بِالتَّيَمُّمِ، ثُمَّ وَجَدَ الْمَاءَ فَاغْتَسَلَ إِنْ كَانَ جُنُبًا، أَوْ تَوَضَّأَ إِنْ كَانَ مُحْدِثًا، لَمْ يَجِبْ عَلَيْهِ إِعَادَةُ مَا صَلَّى بِالتَّيَمُّمِ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَأْمُرِ الْمُصَلِّيَ بِالتَّيَمُّمِ، لَمَّا أَمْرَهُ بِالاغْتِسَالِ بِإِعَادَةِ مَا صَلَّى بِالتَّيَمُّمِ، وَفِي الْخَبَرِ أَيْضًا دَلالَةٌ عَلَى أَنَّ الْمُغْتَسَلَ بِالْجَنَابَةِ لا يَجِبُ عَلَيْهِ الْوُضُوءُ قَبْلَ إِفَاضَةِ الْمَاءِ عَلَى الْجَسَدِ غَيْرَ أَعْضَاءِ الْوُضُوءِ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَمَرَ الْجُنُبَ بِإِفْرَاغِ الْمَاءِ عَلَى نَفْسِهِ، وَلَمْ يَأْمُرْهُ بِالْبَدْءِ بِالْوَضُوءِ وَغَسْلِ أَعْضَاءِ الْوُضُوءِ , ثُمَّ إِفَاضَةِ الْمَاءِ عَلَى سَائِرِ الْبَدَنِ، كَانَ فِي أَمْرِهِ إِيَّاهُ مَا بَانَ، وَصَحَّ أَنَّ الْجُنُبَ إِذَا أَفَاضَ عَلَى نَفْسِهِ كَانَ مُؤَدِّ يًا لِمَا عَلَيْهِ مِنْ فَرْضِ الْغُسْلِ، وَفِي هَذَا مَا دَلَّ عَلَى أَنَّ بَدْءَ الْمُغْتَسِلِ بِالْوَضُوءِ , ثُمَّ إِفَاضَةُ الْمَاءِ عَلَى سَائِرِ الْبَدَنِ، اخْتِيَارٌ وَاسْتِحْبَابٌ لا فَرْضٌ وَإِيجَابٌ
سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہم ایک رات چلتے رہے حتیٰ کہ جب صبح سے قبل سحر کا وقت ہوا تو ہم نے پڑاؤ ڈالا، اور مسافر کے نزدیک آخری رات کی نیند سے زیادہ پُر لُطف لمحہ کوئی نہیں ہوتا (لہٰذا ہم سو گئے) تو ہمیں سورج کی حرارت ہی نے بیدار کیا (یعنی صبح دیر تک سوتے رہے اور فجر کی نماز رہ گئی) پھر اُنہوں نے حدیث کا کچھ حصّہ بیان کیا۔ اور کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے لیے اذان کہلوائی اور لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوئے تو اچانک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر الگ تھلگ بیٹھے ایک شخص پر پڑی جس نے لوگوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھی تھی . آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے پوچھا: ”اے فلاں، تجھے لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روکا ہے؟“ تواُس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، میں جنبی ہو گیا ہوں اور (نہا نے کے لیے) پانی نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھ پر پاک مٹّی (سے تمیّم کرنا) لازم ہے کیونکہ وہ تُجھے کافی ہو جائے گا۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چل پڑے (راستے میں) لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (پانی کی قلّت کا) شکوہ کیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں کو بلایا۔ ابورجاء نے اُن کا نام بیان کیا تھا مگر عوف بھول گئے۔ اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کوبُلایا اور اُن دونوں کوحکم دیا ”جاؤ، ہمارے لیے پانی تلاش کر کے لاؤ۔“ تو وہ دونوں (پانی کی تلاش میں) چل پڑے۔ تو وہ ایک عورت سے ملے جو اپنے اونٹ پر دو پانی کے تھیلوں یا مشکیزوں کے درمیان سوار جا رہی تھی۔ پھر حدیث کا کچھ حصّہ بیان کیا۔ اور کہا کہ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں میں اعلان کروا دیا: ”جانوروں کو پلا لو اور خود بھی پی لو“ تو جس نے چاہا (اپنے جانوروں کو) پلا لیا اور جس نے چاہا خود پی لیا۔ سب سے آخر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس شخص کو پانی کا برتن دیا جو جنبی ہوگیا تھا۔ اور فرمایا: ”جاؤ اُسے اپنے اوپر بہالو۔ (یعنی غسل کرلو)“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے کہ تیمّم کر کے نماز پڑھنے والا شخص جب پانی پالے تو اُسے غسل کرنا ہو گا اگر وہ جنبی تھا۔ اور اگر مُحدث تھا تو اُسے وضو کرنا ہو گا۔ لیکن تیمّم کے ساتھ ادا کی گئی نمازوں کا اعادہ اس پر واجب نہیں ہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمّم کرکے نماز پڑھنے والے کو جب (پانی ملنے پر) غسل کرنے کا حُکم دیا تو اُسے تیمّم کے ساتھ پڑھی گئی نمازوں کے اعادے کا حُکم نہیں دیا۔ اس حدیث میں یہ بھی دلیل ہے کہ غسلِ جنابت کرنے والے شخص پر اعضائے وضو کے علاوہ (باقی) جسم پر پانی بہانے سے پہلے وضو کرنا واجب نہیں ہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جنبی شخص کو اپنے جسم پر پانی بہانے کا حُکم دیا تو اُسے وضو اور اعضائے وضو کو دھونے سے ابتدا کرنے اور پھر پورے جسم پر پانی بہانے کا حُکم نہیں دیا، جنبی شخص کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حُکم سے یہ واضح اور صحیح ثابت ہو گیا کہ جنبی شخص جب اپنے جسم پر پانی بہا لے تو وہ فرض غسل کو ادا کرنے والا سمجھا جائے گا۔ اور اس میں یہ بھی دلیل ہے کہ غسل کرنے والے شخص کا وضو سے ابتداء کرنا پھر سارے بدن پر پانی بہانا اختیاری اور مستحب عمل ہے، فرضی اور و جوبی نہیں۔
214. چیچک زدہ اور زخمی شخص کے لیے پانی کی موجودگی میں بھی تیمّم کرنے کی رخصت ہے جبکہ وہ بدن پر پانی لگنے سے ہلاک ہونے، مرض بڑھنے یا شدید درد میں مبتلا ہونے سے خوف زدہ ہو
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اللہ تعالیٰ کے اس فرمان «وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ» [ سورة النساء ]” اور اگر تم بیمار ہو یا سفر پر ہو“ کے متعلق مرفوع روایت بیان کرتے ہیں کہ اگر مسلمان شخص اللہ تعالیٰ کے راستے میں زخمی ہو جائے یا اُسے پھوڑے پُھنسی نکل آئیں یا وہ چیچک میں مُبتلا ہو جائے اور وہ جنبی ہوجائے تو غسل کرنے کی صورت میں موت سے ڈرے تو وہ تیمّم کرلے۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس روایت کو عطاء بن سائب کے سوا کسی نے مرفوعاً روایت نہیں کیا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص سردیوں میں جنبی ہوگیا تو اُس نے (مسئلہ) پوچھا تو اُسے غسل کرنے کا حُکم دیا گیا۔ (اُس نے غسل کیا) تو وہ فوت ہوگیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انہیں کیا ہوا تھا، اُنہوں نے اسے قتل کر دیا اللہّ تعالیٰ انہیں قتل کرے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین مرتبہ فرمایا: ”اللہّ تعالیٰ نے مٹّی یا تیمّم کو پاک کرنے والا بنایا ہے۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں شک ہے (اُنہوں نے مٹّی کہا یا تیمّم) پھر یہ شک ختم ہو گیا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام حضرت عمیر رحمہ اللہ بیان کرتے کہ میں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ محترمہ سیدہ میمونہ رضی اللہ عنہا کے آزاد کردہ غلام عبداللہ بن یسار آئے حتیٰ کہ ہم سیدنا ابوجہیم بن حارث بن صمہ انصاری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ابوجہیم رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمل کنویں کی جانب سے تشریف لائے تو ایک آدمی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملا اور اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام کا جواب نہ دیا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دیوار کے پاس آئے (اور اپنے ہاتھوں کو دیوار پر مارکر) اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کیا، اُس کے سلام کا جواب دیا۔