سیدنا مہاجر بن قنفذ بن عمر بن جدعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو کر رہے تھے، اُنہوں نے آپکو سلام کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے سلام کا جواب نہ دیا حتیٰ کہ وضو کر لیا (اور سلام کا جواب دیا) اس سے معذرت کی اور فرمایا: ”میں نے ناپسند کیا کہ میں بغیر طہارت کے اللہ تعالیٰ کا ذکر کروں۔“ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ اس حدیث کے مطابق عمل کرتے تھے۔ یعنی سلام کا جواب با وضو حالت میں دیتے تھے۔
إذ الذكر على طهارة افضل، لا انه غير جائز ان يذكر الله على غير طهر، إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد كان يذكر الله على كل احيانه.إِذِ الذِّكْرُ عَلَى طَهَارَةٍ أَفْضَلُ، لَا أَنَّهُ غَيْرُ جَائِزٍ أَنْ يُذْكَرَ اللَّهُ عَلَى غَيْرِ طُهْرٍ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ.
اس لیے تھا کہ طہارت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا افضل ہے، اس لیے نہیں کہ بغیر طہارت کے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا جائز نہیں ہے۔ کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے
نا بندار ، نا محمد بن جعفر ، نا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، قال: سمعت عبد الله بن سلمة ، قال: دخلت على علي بن ابي طالب انا ورجلان: رجل منا، ورجل من بني اسد، احسب فبعثهما وجها، وقال: إنكما علجان فعالجا عن دينكما، ثم دخل المخرج ثم خرج، فاخذ حفنة من ماء فتمسح بها ثم جاء، فقرا القرآن قراءة فانكرنا ذلك، فقال علي :" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ياتي الخلاء فيقضي الحاجة، ثم يخرج فياكل معنا الخبز واللحم، ويقرا القرآن، ولا يحجبه عن القرآن شيء ليس الجنابة، او إلا الجنابة" . قال: سمعت احمد بن المقدام العجلي ، يقول: حدثنا سعيد بن الربيع ، عن شعبة ، بهذا الحديث، قال شعبة:" هذا ثلث راس مالي". قال ابو بكر: قد كنت بينت في كتاب البيوع ان بين المكروه وبين المحرم فرقانا، واستدللت على الفرق بينهما بقول النبي صلى الله عليه وسلم:" إن الله كره لكم ثلاثا، وحرم عليكم ثلاثا، كره لكم قيل وقال، وكثرة السؤال، وإضاعة المال، وحرم عليكم عقوق الامهات، وواد البنات، ومنعا وهات"، ففرق بين المكروه، وبين المحرم بقوله في خبر المهاجر بن قنفذ:" كرهت ان اذكر الله إلا على طهر"، قد يجوز ان يكون إنما كره ذلك إذ الذكر على طهر افضل لا ان ذكر الله على غير طهر محرم، إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد كان يقرا القرآن على غير طهر، والقرآن افضل الذكر، وقد كان النبي صلى الله عليه وسلم يذكر الله على كل احيانه، على ما روينا عن عائشة رضي الله عنها، وقد يجوز ان تكون كراهته لذكر الله إلا على طهر، ذكر الله الذي هو فرض على المرء دون ما هو متطوع به، فإذا كان ذكر الله فرضا لم يؤد الفرض على غير طهر حتى يتطهر، ثم يؤدي ذلك الفرض على طهارة، لان رد السلام فرض عند اكثر العلماء، فلم يرد صلى الله عليه وسلم وهو على غير طهر حتى تطهر، ثم رد السلام، فاما ما كان المرء متطوعا به من ذكر الله ولو تركه في حالة هو فيها غير طاهر، لم يكن عليه إعادته، فله ان يذكر الله متطوعا بالذكر، وإن كان غير متطهرنا بُنْدَارٌ ، نا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، نا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَلَمَةَ ، قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ أَنَا وَرَجُلانِ: رَجُلٌ مِنَّا، وَرَجُلٌ مِنْ بَنِي أَسَدٍ، أَحْسَبُ فَبَعَثَهُمَا وَجْهًا، وَقَالَ: إِنَّكُمَا عِلْجَانِ فَعَالِجَا عَنْ دِينِكُمَا، ثُمَّ دَخَلَ الْمَخْرَجَ ثُمَّ خَرَجَ، فَأَخَذَ حَفْنَةً مِنْ مَاءٍ فَتَمَسَّحَ بِهَا ثُمَّ جَاءَ، فَقَرَأَ الْقُرْآنَ قِرَاءَةً فَأَنْكَرْنَا ذَلِكَ، فَقَالَ عَلِيّ :" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي الْخَلاءَ فَيَقْضِي الْحَاجَةَ، ثُمَّ يَخْرُجُ فَيَأْكُلُ مَعَنَا الْخُبْزَ وَاللَّحْمَ، وَيَقْرَأُ الْقُرْآنَ، وَلا يَحْجُبُهُ عَنِ الْقُرْآنِ شَيْءٌ لَيْسَ الْجَنَابَةَ، أَوْ إِلا الْجَنَابَةُ" . قَالَ: سَمِعْتُ أَحْمَدَ بْنَ الْمِقْدَامِ الْعِجْلِيَّ ، يَقُولُ: حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ ، عَنْ شُعْبَةَ ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ شُعْبَةُ:" هَذَا ثُلُثُ رَأْسِ مَالِي". قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ كُنْتُ بَيَّنْتُ فِي كِتَابِ الْبُيُوعِ أَنَّ بَيْنَ الْمَكْرُوهِ وَبَيْنَ الْمُحَرَّمِ فُرْقَانًا، وَاسْتَدْلَلْتُ عَلَى الْفَرْقِ بَيْنَهُمَا بِقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلاثًا، وَحَرَّمَ عَلَيْكُمْ ثَلاثًا، كَرِهَ لَكُمْ قِيلَ وَقَالَ، وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ، وَإِضَاعَةَ الْمَالِ، وَحَرَّمَ عَلَيْكُمْ عُقُوقَ الأُمَّهَاتِ، وَوَأْدَ الْبَنَاتِ، وَمَنْعًا وَهَاتِ"، فَفَرَّقَ بَيْنَ الْمَكْرُوهِ، وَبَيْنَ الْمُحَرَّمِ بِقَوْلِهِ فِي خَبَرِ الْمُهَاجِرِ بْنِ قُنْفُذٍ:" كَرِهْتُ أَنْ أَذْكُرَ اللَّهَ إِلا عَلَى طُهْرٍ"، قَدْ يَجُوزُ أَنْ يَكُونَ إِنَّمَا كَرِهَ ذَلِكَ إِذِ الذِّكْرُ عَلَى طُهْرٍ أَفْضَلُ لا أَنَّ ذِكْرَ اللَّهِ عَلَى غَيْرِ طُهْرٍ مُحَرَّمٌ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ يُقْرَأُ الْقُرْآنَ عَلَى غَيْرِ طُهْرٍ، وَالْقُرْآنُ أَفْضَلُ الذِّكْرِ، وَقَدْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ اللَّهَ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ، عَلَى مَا رُوِّينَا عَنْ عَائِشَةَ رَضِي اللَّهُ عَنْهَا، وَقَدُ يَجُوزُ أَنْ تَكُونَ كَرَاهَتُهُ لِذِكْرِ اللَّهِ إِلا عَلَى طُهْرٍ، ذِكْرُ اللَّهِ الَّذِي هُوَ فَرْضٌ عَلَى الْمَرْءِ دُونَ مَا هُوَ مُتَطَوَّعٌ بِهِ، فَإِذَا كَانَ ذِكْرُ اللَّهِ فَرْضًا لَمْ يُؤَدِّ الْفَرْضَ عَلَى غَيْرِ طُهْرٍ حَتَّى يَتَطَهَّرَ، ثُمَّ يُؤَدِّي ذَلِكَ الْفَرْضَ عَلَى طَهَارَةٍ، لأَنَّ رَدَّ السَّلامِ فَرْضٌ عِنْدَ أَكْثَرِ الْعُلَمَاءِ، فَلَمْ يَرُدَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى غَيْرِ طُهْرٍ حَتَّى تَطَهَّرَ، ثُمَّ رَدَّ السَّلامَ، فَأَمَّا مَا كَانَ الْمَرْءُ مُتَطَوِّعًا بِهِ مِنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَلَوْ تَرَكَهُ فِي حَالَةٍ هُوَ فِيهَا غَيْرُ طَاهِرٍ، لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ إِعَادَتُهُ، فَلَهُ أَنْ يَذْكُرَ اللَّهَ مُتَطَوِّعًا بِالذِّكْرِ، وَإِنْ كَانَ غَيْرَ مُتَطَهِّرٍ
حضرت عمرو بن مرہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عبداللہ بن سلمہ رحمہ اللہ کو سنا، اُنہوں نے فرمایا کہ میں اور دوسرے افراد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، ایک آدمی ہم سے (یعنی ہمارے قبیلے کا فرد) اور ایک بنی اسد سے تھا۔ میرا خیال ہے کہ اُنہوں نے اُن دونوں کو ایک سمت (علاقے عامل یا گورنر بنا کر) بھیجا اور فرمایا کہ دونوں خوب صحت مند اور طاقتور ہو لہٰذا اپنے فرض کو خوب اچھی طرح انجام دینا۔ پھر آپ بیت الخلاء میں داخل ہوئے پھر (قضائے حاجت سے فارغ ہوکر باہر) نکلے، پھر ایک چُلّو پانی لیا اور (اپنے ہاتھوں کو) دھویا، پھر (ہمارے پاس) آئے، اور قرآن مجید کی کچھ تلاوت کی، توہم نےاُسے ناپسند کیا، تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیت الخلاء میں داخل ہو کر قضائے حاجت کیا کرتے تھے۔ پھر باہر تشریف لاتے تو ہمارے ساتھی روٹی اور گوشت کھاتے اور قرآن مجید کی تلاوت کرتے اور جنابت کے سوا کوئی چیز بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کی تلاوت سے نہیں روکتی تھی۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ نے یہ حدیث امام شعبہ رحمہ اللہ سے بھی روایت کی ہے۔ امام شعبہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث میرے اصل مال (یعنی علم) کا تہائی حصّہ ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں کتاب البیوع میں بیان کرچُکا ہوں کہ مکروہ اور حرام کے درمیان فرق ہے۔ میں نے اُن دونوں میں فرق کے لئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے دلیل لی ہے «ان الله كره لكم ثلاثا و حرم عليكم ثلاثا...» اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے تین چیزوں کو ناپسند فرمایا ہے اور تین چیزوں کو تم پر حرام قرار دیا ہے۔ تمہارے لئے قبل وقال (بے مقصد گفتگو)، کثرتِ سوال اور مال ضائع کرنےکو مکروہ اور ناپسند کیا ہے۔ ماؤں کی نافرمانی، بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے اور بخل و لالچ کوتم پر حرام قرار دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےمہاجربن قنفذ کی حدیث میں اپنےاس فرمان سےمکروہ اور حرام میں فرق کیا ہے۔ «كرهت ان اذكر الله على طهر» (میں نے بغیر طہارت کے اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کو نا پسند کیا۔) یہ ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے اس لئے نا پسند کیا ہو کہ طہارت کی حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنا افضل ہے، اس لئے نہیں کہ بغیر طہارت ذکر کرنا حرام ہے، کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بغیر طہارت کے قرآن مجید پڑھا کرتے تھے اور قرآن مجید کی تلاوت افضل ترین ذکر ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے، جیسا کہ ہمیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث بیان کی گئی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بغیر وضو کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کو مکروہ سمجھنا اس لیے ہو کہ اس ذکر سے مراد وہ ذکر ہو جو مسلمان پر نفل کی بجائے فرض ہوتا ہے۔ اور جو ذکر الٰہی فرض ہو وہ بغیر طہارت کے ادا نہیں ہوتا۔ بلکہ اسے طہارت حاصل کرکے ہی ادا کر نا چا ہیے. کیونکہ اکثرعلما ئے کرام کے نزدیک سلام کا جواب دینا فرض ہے، اسی لیے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے بغیر طہارت کے سلام کا جواب نہیں دیا تھا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےطہارت حاصل کر کے سلام کا جواب دیا لیکن اگرکوئی شخص نفلی ذکر کر رہا ہو اور ناپاکی کی حالت میں اسے ترک کر دیتا ہے تو اُس پر اس ذکر کا اعادہ کرنا ضروری نہیں ہے۔ لہٰذا اُس کے لئے نفلی ذکر کرنا جائز ہے اگرچہ وہ پاک (باوضو) نہ ہو۔
سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتےہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ روانہ ہوئے حتیٰ کہ جب ہم سقیا مقام پر سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی پھتریلی سیاہ زمین پر پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے لئے وضو کا) پانی لاؤ“ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرلیا تو قبلہ کی طرف مُنہ کر کے کھڑے ہوئے، پھر «اللهُ أَكْبَرُ» کہا اور پھر کہا «أبِي إِبْرَاهِيمُ كَانَ عَبْدُكَ وَخَلِيلُكَ، وَدَعَاكِ لِأهْلِ مؐكّةَ وَأَنَا مُحَمَّدٌ، عَبْدُكَ وَرَسُوْلُكَ، أَدْعُوكَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ أَنْ تَبَارَكْ لَهُمْ فِي مُدِّهِمْ وَصَاعِهِمْ مِثْلَ مَا بَارَكْتَ لِأَهْلِ مَكَّةَ مَعَ الْبَرَكَةِ بَرَكَتَيْنِ» ”(اے اللہ) میرے باپ ابراہیم تیرے بندے اور تیرے خلیل تھے اور انہوں نے تجھہ سے اہل مکہ کے لئے دعا کی تھی، اور میں محمد تیرا بندہ اور رسول ہوں، میں تجھ سے اہل مدینہ کے لئے دعا کرتا ہوں کہ تُو ان کے مد اور صاع میں اسی طرح برکت عطا فرما جس طرح تُو نے اہل مکہ کو برکت عطا فرمائی تھی، برکت دو برکتوں کےساتھ (عطا فرما)۔“
سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کی زمین میں نماز ادا کی۔ پھر باقی قصّہ بیان کیا۔
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، کیا ہم میں سے کوئی شخص جنابت کی حالت میں سو سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو سکتا ہے، اگر چاہے تو وضو کرلے۔ “
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سےروایت ہےکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، کیا ہم میں سے کوئی شخص جنابت کی حالت میں سو جائے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب وہ سونے کا ارادہ کرے تو اُسے چاہیے کہ وضو کر لے۔“
166. اس بات کی دلیل کا بیان کہ جنبی شخص کو سونے کے لیے جس وضو کا حکم دیا گیا ہے وہ نماز کے وضو جیسا ہے کیونکہ عرب دونوں ہاتھ دھونے کو بھی وضو کہہ دیتے ہیں
حضرت عبداللہ بن دینار رحمہ اللہ کہتےہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نےرسول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ میں رات کو جنبی ہو جاتا ہوں، تو میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی شرم گاہ دھو لو اور وضو کرلو پھر سو جاؤ۔“