غلط في الاحتجاج بها بعض من اجاز المسح على النعلين في الوضوء الواجب من الحدث.غَلِطَ فِي الِاحْتِجَاجِ بِهَا بَعْضُ مَنْ أَجَازَ الْمَسْحَ عَلَى النَّعْلَيْنِ فِي الْوُضُوءِ الْوَاجِبِ مِنَ الْحَدَثِ.
ان سے دلیل لینے میں ان علماء سے غلطی ہوئی ہے جنہوں نے حدث سے واجب ہونے والے وضو میں جوتوں پر مسح کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔
حضرت عبید بن جریج رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کی گئی، ہم نے آپ کو ایسا کام کرتے ہوئے دیکھا ہے کہ آپ کے علاوہ کسی اور کو کرتے ہوئے ہم نے نہیں دیکھا، اُنہوں نے پوچھا کہ وہ کیا ہے؟ اُنہوں نے عرض کی کہ ہم نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ یہ سبتی جوتے پہنتے ہیں۔ اُنہوں نے فرمایا کہ بیشک میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ جوتے پہنتے ہوئے اُن میں وضو کرتے ہوئے اور اُس پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا ابن عباس اور اوس بن اوس رضی اللہ عنہم کی حدیث اسی باب سے ہے۔
155. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جوتوں پر مسح کرنا نفلی وضو میں تھا، اس وضو میں نہیں تھا جو آپ پر اس حدث کی وجہ سے واجب ہوتا جو وضو کو واجب کرتا ہے
عبید خیر سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اُنہوں نے پانی کا ڈونگا منگوایا پھر اُس سے ہلکا سا وضو کیا، پھر اپنے جوتوں پر مسح کیا پھر فرمایا کہ طاہر (با وضو) شخص کا جب تک وضو نہ ٹوٹے، اُس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وضو اسی طرح تھا۔
غلط في الاحتجاج بها بعض من لم ينعم الروية في الاخبار، واباح للمحدث المسح على الرجلين.غَلِطَ فِي الِاحْتِجَاجِ بِهَا بَعْضُ مَنْ لَمْ يُنْعِمِ الرَّوِيَّةَ فِي الْأَخْبَارِ، وَأَبَاحَ لِلْمُحْدِثِ الْمَسْحَ عَلَى الرِّجْلَيْنِ.
ان سے دلیل لینے میں ان علماء سے غلطی ہوئی ہے جو احادیث میں گہری نظر نہیں رکھتے اور انہوں نے محدث (جس کا وضو ٹوٹ گیا ہو) کے لیے دونوں پاؤں پرمسح کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔
عباد بن تمیم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے اور اپنے دونوں پاؤں قدموں پر پانی سے مسح کرتے ہوئے ديکھا۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ کہتے ہيں کہ نافع کی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روايت اسی باب سے ہے۔
157. اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا دونوں قدموں پر مسح کرنا طہارت (با وضو ہونے) کی حالت میں تھا۔ بے وضو ہونے کی حالت میں نہ تھا۔
حضرت نزال بن سبرہ بیان کرتے ہیں کہ ہم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھی، پھر ہم (مسجد کے) صحن کی طرف چلے گئے، کہتے ہیں کہ اُنہوں نے پانی کا برتن منگوایا، اُنہوں نے وہ پانی لیا اور کُلّی کی، منصور کہتے ہیں کہ میرے خیال میں اُنہوں نے یہ کہا کہ اُنہوں نے ناک میں پانی ڈالا اور اپنے چہرے، دونوں بازؤوں، اپنے سر اور اپنے دونوں قدموں کا مسح کیا، پھر اپنا باقی ماندہ پانی پی لیا جبکہ آپ کھڑے تھے، پھر فرمایا کہ کچھ لوگ کھڑے ہو کر پینےکو ناپسند کرتے ہیں، بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے ہی کیا جیسے میں نے کیا ہے۔ اور فرمایا کہ یہ اُس شخص کا وضو ہے جس کا وضو ٹوٹا نہ ہو۔ یہ زائدہ کی حدیث کے الفاظ ہیں۔
عروہ بن مغیرہ بن شعبہ سےروایت ہےکہ اُنہوں نے اپنے والد محترم کو فرماتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب غزوہ تبوک میں وضو کیا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم (کے اعضائے وضو) پر پانی ڈالا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موزوں پر مسح کیا۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بیشک تم آیات (معجزات اور نشانیوں) کو عذاب شمار کرتے ہو، اور ہم اُنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں برکت شمار کرتے تھے۔ ہم رسول الله صل اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھانا کھایا کرتے تھے اور کھانے کی تسبیح سنا کرتے تھے۔ فرمایا کہ نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی کا برتن لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ مبارک اُس میں رکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اُنگلیوں کے درمیان سے پانی پھوٹنے لگا، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مبارک پانی کی طرف آؤ اور برکت اللہ تعالٰی کی طرف سے ہے۔“ حتیٰ کہ ہم سب نے وضو کر لیا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں مردوں اور عورتوں کو ایک ہی برتن سے وضو کرتے ہوئے دیکھا۔ سب کی روایات کا معنی ایک ہے اور یہ ابن علیہ کی روایت ہے۔