والدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما نهى عن استقبال القبلة واستدبارها عند الغائط والبول في الصحاري، والمواضع اللواتي لا سترة فيها، وان الرخصة في ذلك في الكنف والمواضع التي [فيها] بين المتغوط والبائل وبين القبلة حائط او سترة.وَالدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا نَهَى عَنِ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ وَاسْتِدْبَارِهَا عِنْدَ الْغَائِطِ وَالْبَوْلِ فِي الصَّحَارِي، وَالْمَوَاضِعِ اللَّوَاتِي لَا سُتْرَةَ فِيهَا، وَأَنَّ الرُّخْصَةَ فِي ذَلِكَ فِي الْكُنُفِ وَالْمَوَاضِعِ الَّتِي [فِيهَا] بَيْنَ الْمُتَغَوِّطِ وَالْبَائِلِ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ حَائِطٌ أَوْ سُتْرَةٌ.
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ پاخانہ اور پیشاب کرتے وقت قبلہ کی طرف مُنہ کرنے اور پُشت کرنے کے متعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت صحراؤں اور اُن جگہوں کے بارے میں ہے جن میں پردہ یا آڑ نہ ہو۔ بیت الخلاء اور وہ مقامات جہاں پاخانہ اور پیشاب کرنے والے اور قبلہ کے درمیان کوئی دیوار یا آڑ ہو، اس کی رخصت ہے۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما کے پاس گیا تو میں (اُن کے) گھر کی چھت پر چڑھا۔ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ کی طرف پُشت کیے، شام کی طرف مُنہ کرکے قضائے حاجت کر رہے تھے۔ یہ عبدالاعلیٰ کی حدیث کے الفاظ ہیں اور ابو ہشام کی خبر (حدیث میں) «مستقبل القبلة» ”قبلہ کی طرف منہ کیے ہوئے“ کے الفاظ ہیں۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري: كتاب الوضوء، باب التبرز فى البيوت، رقم: 148، 145، ومسلم: كتاب الطهارة: باب الاستطابة، رقم: 266، و أبو داؤد: رقم: 12، مسند احمد: 13/2، 41، موطا: امام مالك: 193/1، 194»
حضرت مروان اصغر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا کہ انہوں نے اپنی سواری کو قبلہ رُخ بٹھایا، پھر وہ اُس کی طرف (منہ کر کے) بیٹھ کر پیشاب کرنے لگے۔ میں نے عرض کی کہ (اے) ابوعبدالرحمٰن کیا اس سے منع نہیں کیا گیا تھا؟ انہوں نے فرمایا کہ کیوں نہیں۔ بلاشبہ کھلی فضا میں اس سےمنع کیا گیا ہے۔ لیکن جب آپ کےاور قبلہ کےدرمیان پردہ کرنے والی کوئی چیز ہو تو پھر کوئی حرج نہیں۔
تخریج الحدیث: «اسناده حسن: سنن ابي داوٗد: كتاب الطهارة، باب كراهية استقبال القبلة منه قضاء الحاجة، رقم: 11، والبيهقي: 92/1، من حديث أبى داؤد به، والدار قطني: 58/1، والحاكم على شرط البخاري: 154/1، ووافقه الذهبي»
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے گھورے (کوڑے کرکٹ کے ڈھیر) پر آئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑ ے ہو کر پیشاب کیا۔ پھرآ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخاري: كتاب الوضوء، باب البول قائما و قاعداء، رقم: 224، 226، سنن ترمذي: رقم: 13، صحيح مسلم: الطهارة باب المسح على الحفين: رقم: 273۔ من حديث الأعمش به، سنن نسائي: 28، سنن ابي داوٗد: 23، مسند احمد: 382/5، 402»
حضرت ابوحازم فرماتے ہیں کہ میں نے سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کو کھڑے ہوکر پیشاب کرتےہوئے دیکھا۔ تو انہوں نےفارغ ہوکراپنےاس فعل کی دلیل بیان کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنے سے افضل شخص کو یہ کام کرتے ہوئے دیکھا ہے (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو۔)
تخریج الحدیث: «اسناده الطبراني: فى الأوسط: 152/6، 153، 171، مجمع الزوائد للهيثمي: 206/1»
سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلاں لوگوں کے گھوڑے پر آئے، پھر اپنے دونوں پاؤں پھیلائے اور کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح: سنن ابن ماجه: كتاب الطهارة: باب ماجاء فى البول قائما: 306، صحيح سنن ترمذي: 12، 13، مسند احمد: 246/6، والحميدي: 152/1، والطبراني فى الكبير: 405/2، والبيهقي: 101/1، رقم الحديث: 17448»
سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مزدلفہ کی رات گھاٹی میں (اُتر کر) پیشاب کیا۔ یہ نہیں کہا کہ (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے) پانی بہایا۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم: كتاب الحج، باب الافاضة من عرفات الى المزدلفة، رقم الحديث: 1280، بخاري: رقم: 139، سنن ابي داوٗد: رقم: 1921، والنسائي: رقم: 3019، مسند احمد: 21639»
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے سینے کے ساتھ ٹیک لگوائی ہوئی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پیالہ منگوایا اور اس میں پیشاب کیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک طرف) جُھک گئےاور فوت ہو گئے۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخارى: كتاب الوصايا، باب الوصايا رقم الحديث: 2741، صحيح مسلم: الوصية، باب ترك الوصية لمن ليس له شيء يوصى فيه: 1636، سنن نسائي: رقم: 32، سنن ابن ماجة: 626، وابن حبان فى صحيحه: 6603، والبيهقي: 484، والترمذي فى الشمائل: رقم: 387، مسند احمد: 22911»
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص کھڑے پانی میں ہر گز پیشاب نہ کرے، کہ (پیشاب کرنے کے بعد) پھر اس سے غسل کرے۔ مخزومی کی روایت میں یہ ہے کہ ٹھہرے ہوئے پانی میں (پیشاب نہ کرے) کہ پھر اس سے غسل کرے۔
تخریج الحدیث: «صحيح بخارى: كتاب الوضوء، باب البول فى الماء الدائم: 239، صحيح مسلم: الطهارة، باب النهي عن البول فى الماء الراكد: 282، سنن نسائي: 58، سنن ابي داوٗد: 69، 70، و ابن ماجه: رقم: 344، مسند احمد: 394/2، 464»
حدثنا علي بن حجر ، حدثنا إسماعيل ، حدثنا العلاء بن عبد الرحمن ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " اتقوا اللعنتين او اللعانين"، قيل: وما هما؟ قال: الذي يتخلى في طريق الناس او ظلهم" . قال ابو بكر: وإنما استدللت على ان النبي صلى الله عليه وسلم اراد بقوله:" او ظلهم": الظل الذي يستظلون به إذا جلسوا مجالسهم بخبر عبد الله بن جعفر، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان احب ما استتر به في حاجته هدفا او حائش نخل، إذ الهدف هو الحائط، والحائش من النخل النخلات المجتمعات، وإنما سمي البستان حائشا لكثرة اشجاره، ولا يكاد الهدف يكون إلا وله ظل، إلا وقت استواء الشمس، فاما الحائش من النخل فلا يكون وقت من الاوقات بالنهار إلا ولها ظل، والنبي صلى الله عليه وسلم قد كان يستحب ان يستتر الإنسان في الغائط بالهدف والحائش، وإن كان لهما ظلحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا الْعَلاءُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اتَّقُوا اللَّعْنَتَيْنِ أَوِ اللَّعَّانَيْنِ"، قِيلَ: وَمَا هُمَا؟ قَالَ: الَّذِي يَتَخَلَّى فِي طَرِيقِ النَّاسِ أَوْ ظِلِّهِمْ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَإِنَّمَا اسْتَدْلَلْتُ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَرَادَ بِقَوْلِهِ:" أَوْ ظِلِّهِمُ": الظِّلَّ الَّذِي يَسْتَظِلُّونَ بِهِ إِذَا جَلَسُوا مَجَالِسَهُمْ بِخَبَرِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ أَحَبَّ مَا اسْتَتَرَ بِهِ فِي حَاجَتِهِ هَدَفًا أَوْ حَائِشَ نَخْلٍ، إِذِ الْهَدَفُ هُوَ الْحَائِطُ، وَالْحَائِشُ مِنَ النَّخْلِ النَّخْلاتُ الْمُجْتَمِعَاتُ، وَإِنَّمَا سُمِّيَ الْبُسْتَانُ حَائِشًا لِكَثْرَةِ أَشْجَارِهِ، وَلا يَكَادُ الْهَدَفُ يَكُونُ إِلا وَلَهُ ظِلٌّ، إِلا وَقْتَ اسْتِوَاءِ الشَّمْسِ، فَأَمَّا الْحَائِشُ مِنَ النَّخْلِ فَلا يَكُونُ وَقْتٌ مِنَ الأَوْقَاتِ بِالنَّهَارِ إِلا وَلَهَا ظِلٌّ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ كَانَ يَسْتَحِبُّ أَنْ يَسْتَتِرَ الإِنْسَانُ فِي الْغَائِطِ بِالْهَدَفِ وَالْحَائِشِ، وَإِنْ كَانَ لَهُمَا ظِلٌّ
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو لعنتوں سے بچو“ یا فرمایا: ”لعنت کا باعث بننے والی دو چیزوں سے بچو“(یعنی جن کی وجہ سے لوگ لعنت کرتے ہیں) عرض کی گئی کہ وہ کونسی دو چیزیں ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ شخص جو لوگوں کے راستے یا ان کے سائے والی جگہ میں قضائے حاجت کرتا ہے۔“ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «او ظلهم» ”ان کےسائےوالی جگہ میں سے“ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد وہ سایہ دار جگہیں ہیں جن میں وہ اپنی محفلیں قائم کرتے وقت سایہ حاصل کرتے ہیں۔ میں نے یہ استدال سیدنا عبد اللہ بن جعفر رضی اللہ عنہما کی اس حدیث سےکیا ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لیے اونچی جگہ (جیسے دیوار یا ٹیلہ وغیرہ) یا کھجوروں کے جھنڈے سے پردہ کرنا پسند کرتےتھے۔ کیونکہ ھدف سے مراد دیوار ہےاور کھجوروں کے جھنڈ سےمراد کھجوروں کا مجموعہ ہے۔ باغ کو درختوں کی کثرت کی بنا پر حائش (جھنڈ) کہتے ہیں۔ ھدف کا سایہ سورج کے استوا کےسوا ہروقت ہوتا ہے۔ جبکہ کھجوروں کے جھنڈ کا سایہ سارا دن رہتا ہے (یعنی استوا کے وقت بھی اس کا سایہ ہوتا ہے) اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پسند کیا کرتے تھے کہ انسان قضائے حاجت کے لئے ھدف (دیوار یا ٹیلے وغیرہ) یا جھنڈ سے پردہ کرے اگر چہ ان دونوں کا سایہ ہو۔
تخریج الحدیث: «صحيح مسلم: كتاب الطهارة، باب النهي عن النخلى فى الطرق والظلال، رقم: 269، سنن أبى داوٗد: 25، مسند احمد: 372/2، وابن حبان فى صحيحه: 1415، والحاكم: 296/1»