صحيح ابن خزيمه کل احادیث 3080 :حدیث نمبر
صحيح ابن خزيمه
وضو کو واجب کرنے والے احداث کے ابواب کا مجموعہ
19. ‏(‏19‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الْوُضُوءَ لَا يَجِبُ إِلَّا بِيَقِينِ حَدَثٍ؛
19. اس بات کی دلیل کا بیان کہ وضو صرف یقینی حدث ہی سے واجب ہوتا ہے
حدیث نمبر: Q25
Save to word اعراب
إذ الطهارة بيقين لا تزول بشك وارتياب، وإنما يزول اليقين باليقين، فإذا كانت الطهارة قد تقدمت بيقين لم تبطل الطهارة إلا بيقين حدثإِذِ الطَّهَارَةُ بِيَقِينٍ لَا تَزُولُ بِشَكٍّ وَارْتِيَابٍ، وَإِنَّمَا يَزُولُ الْيَقِينُ بِالْيَقِينِ، فَإِذَا كَانَتِ الطَّهَارَةُ قَدْ تَقَدَّمَتْ بِيَقِينٍ لَمْ تُبْطَلِ الطَّهَارَةُ إِلَّا بِيَقِينِ حَدَثٍ
کیونکہ یقینی طہارت شک و شبہ سے زائل نہیں ہوتی، یقین تو یقین ہی سے زائل ہوتا ہے، لہذا پہلے سے موجو یقینی طہارت یقینی حدث ہی سے باطل ہوگی۔
حدیث نمبر: 25
Save to word اعراب
سیدنا عبدالله بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے اس آدمی کے متعلق پوچھا جو نماز کے دوران کچھ محسوس کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ (نماز توڑ کر) نہ پھرے حتیٰ کہ (ہوا خارج ہونے) کی آواز سن لے یا بو محسوس کر لے۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
20. ‏(‏20‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ عَلَى أَنَّ الِاسْمَ بِاسْمِ الْمَعْرِفَةِ بِالْأَلِفِ وَاللَّامِ قَدْ لَا يَحْوِي جَمِيعَ الْمَعَانِي الَّتِي تَدْخُلُ فِي ذَلِكَ الِاسْمِ،
20. اس بات کی دلیل کا بیان کہ الف و لام کے ساتھ معرفہ بننے والا اسم کبھی ان تمام معانی کا احاطہ نہیں کرتا جو اس اسم میں داخل ہوتے ہیں
حدیث نمبر: Q26
Save to word اعراب
خلاف قول من يزعم ممن شاهدنا من اهل عصرنا ممن كان يدعي اللغة من غير معرفة بها، ويدعي العلم من غير معرفة به، ان الاسم باسم المعرفة يحوي جميع معاني الشيء الذي يوقع عليه باسم المعرفة بالالف واللام، إذ النبي صلى الله عليه وسلم قد اوقع اسم الاحداث على الريح خاصة باسم المعرفة، واسم جميع الاحداث الموجبة للوضوء الريح يخرج من الدبر خاصة، وقد بينت هذه المسالة في كتاب الإيمانخِلَافَ قَوْلِ مَنْ يَزْعُمُ مِمَّنْ شَاهَدْنَا مِنْ أَهْلِ عَصْرِنَا مِمَّنْ كَانَ يَدَّعِي اللُّغَةَ مِنْ غَيْرِ مَعْرِفَةٍ بِهَا، وَيَدَّعِي الْعِلْمَ مِنْ غَيْرِ مَعْرِفَةٍ بِهِ، أَنَّ الِاسْمَ بِاسْمِ الْمَعْرِفَةِ يَحْوِي جَمِيعَ مَعَانِي الشَّيْءِ الَّذِي يُوقَعُ عَلَيْهِ بِاسْمِ الْمَعْرِفَةِ بِالْأَلِفِ وَاللَّامِ، إِذِ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ أَوْقَعَ اسْمَ الْأَحْدَاثِ عَلَى الرِّيحِ خَاصَّةً بِاسْمَ الْمَعْرِفَةِ، وَاسْمِ جَمِيعِ الْأَحْدَاثِ الْمُوجِبَةِ لِلْوُضُوءِ الرِّيحُ يَخْرُجُ مِنَ الدُّبُرِ خَاصَّةً، وَقَدْ بَيَّنْتُ هَذِهِ الْمَسْأَلَةَ فِي كِتَابِ الْإِيمَانِ
ہمارے اس ہم عصر کے قول کے برعکس جولغت عربی کے قواعد وضوابط کی معرفت کے بغیر لغت جاننے کا دعویدار ہے اور بغیر علم کے عالم ہونے کا مدعی ہے کہ اسم معرفہ ان تمام اشیاء کو شامل ہوتا ہے جن پر الف ولام کےساتھ معرفہ بننے والے اسم کا اطلاق ہوتا ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لفظ احداث کو ریح پر خاص طور پر اور وضو کو واجب کرنے والے تمام احداث پر اسم معرفہ کے ساتھ واضح کیا ہے۔ ریح خاص طور پر دبر سے نکلتی ہے۔ میں یہ مسئلہ کتاب الایمان میں وضاحت سے بیان کر چکا ہوں۔
حدیث نمبر: 26
Save to word اعراب
حدثنا علي بن خشرم ، اخبرنا عيسى يعني ابن يونس ، عن الاوزاعي ، عن حسان وهو ابن عطية ، عن محمد ابن ابي عائشة ، قال: حدثني ابو هريرة ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا يزال العبد في الصلاة ما كانت الصلاة تحبسه، ما لم يحدث" . والإحداث: ان يفسو او يضرط، إني لا استحيي مما لم يستحي منه رسول الله صلى الله عليه وسلمحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ ، عَنِ الأَوْزَاعِيِّ ، عَنْ حَسَّانَ وَهُوَ ابْنُ عَطِيَّةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ ابْنِ أَبِي عَائِشَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو هُرَيْرَةَ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لا يَزَالُ الْعَبْدُ فِي الصَّلاةِ مَا كَانَتِ الصَّلاةُ تَحْبِسُهُ، مَا لَمْ يُحْدِثْ" . وَالإِحْدَاثُ: أَنْ يَفْسُوَ أَوْ يَضْرِطَ، إِنِّي لا أَسْتَحْيِي مِمَّا لَمْ يَسْتَحِي مِنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندہ اس وقت تک حالت نماز میں ہی رہتا ہے جب تک نماز اسے روکے رکھتی ہے اور وہ وضو نہ توڑے۔ «‏‏‏‏احداث» ‏‏‏‏ یہ ہے کہ بلا آواز یا بآواز ہوا جارج کرے۔ میں اس چیز (کو بیان کرنے) سے نہیں شرماتا جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (بیان کرتے ہوے) شرم محسوس نہیں کی۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري
21. ‏(‏21‏)‏ بَابُ ذِكْرِ خَبَرٍ رُوِيَ مُخْتَصَرًا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
21. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی مختصر روایت کا بیان
حدیث نمبر: Q27
Save to word اعراب
اوهم عالما ممن لم يميز بين الخبر المختصر، والخبر المتقصى ان الوضوء لا يجب إلا من الحدث الذي له صوت او رائحةأَوْهَمَ عَالِمًا مِمَّنْ لَمْ يُمَيِّزْ بَيْنَ الْخَبَرِ الْمُخْتَصَرِ، وَالْخَبَرِ الْمُتَقَصَّى أَنَّ الْوُضُوءَ لَا يَجِبُ إِلَّا مِنَ الْحَدَثِ الَّذِي لَهُ صَوْتٌ أَوْ رَائِحَةٌ
جس نے مختصر اور مفصل روایت کا فرق نہ کرنے والے عالم کو وہم میں ڈال دیا ہے کہ وضو صرف اس حدث سے واجب ہوتا ہے کہ جس کی آواز یا بُو ہو۔
حدیث نمبر: 27
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن بشار ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت سهيل بن ابي صالح يحدث، عن ابيه ، عن ابي هريرة . ح وحدثنا سلم بن جنادة ، حدثنا وكيع ، عن شعبة . ح وحدثنا بندار ، وابو موسى ، قالا: حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا شعبة . ح وحدثنا محمد بن عبد الاعلى ، حدثنا خالد يعني ابن الحارث ، حدثنا شعبة ، عن سهيل بن ابي صالح ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا وضوء إلا من صوت او ريح" حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ سُهَيْلَ بْنَ أَبِي صَالِحٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ . ح وَحَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ شُعْبَةَ . ح وَحَدَّثَنَا بُنْدَارٌ ، وَأَبُو مُوسَى ، قَالا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . ح وَحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الأَعْلَى ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ يَعْنِي ابْنَ الْحَارِثِ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لا وَضُوءَ إِلا مِنْ صَوْتٍ أَوْ رِيحٍ"
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آواز یا بُو محسوس کیے بغیر وضو (واجب) نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: اسناده صحيح
22. ‏(‏22‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الْخَبَرِ الْمُتَقَصِّي لِلَّفْظَةِ الْمُخْتَصَرَةِ الَّتِي ذَكَرْتُهَا،
22. گزشتہ مختصر روایت کی مفسر روایت کا بیان
حدیث نمبر: Q28
Save to word اعراب
والدليل على ان النبي صلى الله عليه وسلم إنما اعلم ان لا وضوء إلا من صوت او ريح عند مسالة سئل عنها في الرجل يخيل إليه انه قد خرجت منه ريح فيشك في خروج الريح، وكانت هذه المقالة عنه صلى الله عليه وسلم: «لا وضوء إلا من صوت او ريح»  جوابا عما عنه سئل فقط لا ابتداء كلام مسقطا بهذه المسالة إيجاب الوضوء من غير الريح التي لها صوت او رائحة، إذ لو كان هذا القول منه صلى الله عليه وسلم ابتداء من غير ان تقدمته مسالة كانت هذه المقالة تنفي إيجاب الوضوء من البول والنوم والمذي، إذ قد يكون البول لا صوت له ولا ريح، وكذلك النوم والمذي لا صوت لهما ولا ريح، وكذلك الوديوَالدَّلِيلُ عَلَى أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا أَعْلَمَ أَنْ لَا وُضُوءَ إِلَّا مِنْ صَوْتٍ أَوْ رِيحٍ عِنْدَ مَسْأَلَةٍ سُئِلَ عَنْهَا فِي الرَّجُلِ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ قَدْ خَرَجَتْ مِنْهُ رِيحٌ فَيَشُكُّ فِي خُرُوجِ الرِّيحِ، وَكَانَتْ هَذِهِ الْمَقَالَةُ عَنْهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا وُضُوءَ إِلَّا مِنْ صَوْتٍ أَوْ رِيحٍ»  جَوَابًا عَمَّا عَنْهُ سُئِلَ فَقَطْ لَا ابْتِدَاءَ كَلَامٍ مُسْقَطًا بِهَذِهِ الْمَسْأَلَةِ إِيجَابَ الْوُضُوءِ مِنْ غَيْرِ الرِّيحِ الَّتِي لَهَا صَوْتٌ أَوْ رَائِحَةٌ، إِذْ لَوْ كَانَ هَذَا الْقَوْلُ مِنْهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابْتِدَاءً مِنْ غَيْرِ أَنْ تَقَدَّمَتْهُ مَسْأَلَةٌ كَانَتْ هَذِهِ الْمَقَالَةُ تَنْفِي إِيجَابَ الْوُضُوءِ مِنَ الْبَوْلِ وَالنَّوْمِ وَالْمَذْيِ، إِذْ قَدْ يَكُونُ الْبَوْلُ لَا صَوْتٌ لَهُ وَلَا رِيحٌ، وَكَذَلِكَ النَّوْمُ وَالْمَذْيُ لَا صَوْتَ لَهُمَا وَلَا رِيحَ، وَكَذَلِكَ الْوَدْيُ
اور اس بات کی دلیل کا بیان کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد وضو صرف آواز یا بُو محسوس ہونے پر واجب ہوتا ہے اس سوال کے جواب میں تھا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کوئی شخص خیال کرتا ہے کہ اس کے پیٹ سے کوئی چیز نکل گئی ہے تو وہ ہوا خارج ہونے کے متعلق شک میں پڑ جاتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان فقط اس سوال کا جواب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد ایسا مستقل کلام نہ تھا جو بغیر آواز یا بُو کے وضو کے واجب ہونے کو ساقط کر دیتی ہے۔ کیونکہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بغیر سوال کے مستقل ہوتا تو اس سے پیشاب، نیند اور مذی سے وضو کے وجوب کی نفی ہو جاتی ہے، کیونکہ کبھی پیشاب کی آواز اور بُو نہیں ہوتی، اسی طرح نیند، مذی اور ودی کی نہ آواز ہوتی ہے نہ بُو۔
حدیث نمبر: 28
Save to word اعراب
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص اپنے پیٹ میں کوئی چیز محسوس کرے اور شک میں مُبتلا ہوجائے کہ آیا اس کے پیٹ سے کوئی چیز نکلی ہے یا نہیں، تو وہ (مسجد سے) ہر گز نہ نکلے حتیٰ کہ آواز سن لے یا بُو محسوس کرے۔

تخریج الحدیث: صحيح مسلم
حدیث نمبر: 29
Save to word اعراب
حدثنا ابو موسى محمد بن المثنى ، حدثنا معاذ بن هشام ، حدثني ابي ، عن يحيى بن ابي كثير ، حدثني عياض ، انه سال ابا سعيد الخدري ، فقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم. ح وحدثنا سلم بن جنادة القرشي ، حدثنا وكيع ، حدثنا علي بن المبارك ، عن يحيى بن ابي كثير، عن عياض بن هلال ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الشيطان ياتي احدكم في صلاته، فيقول: إنك قد احدثت، فليقل: كذبت إلا ما وجد ريحه بانفه، او سمع صوته باذنه" . هذا لفظ وكيع. قال ابو بكر: قوله: فليقل كذبت: اراد: فليقل كذبت بضميره لا ينطق بلسانه، إذ المصلي غير جائز له ان يقول كذبت نطقا بلسانهحَدَّثَنَا أَبُو مُوسَى مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، حَدَّثَنِي عِيَاضٌ ، أَنَّهُ سَأَلَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، فَقَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. ح وَحَدَّثَنَا سَلْمُ بْنُ جُنَادَةَ الْقُرَشِيُّ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ الْمُبَارَكِ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ هِلالٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الشَّيْطَانَ يَأْتِي أَحَدَكُمْ فِي صَلاتِهِ، فَيَقُولُ: إِنَّكَ قَدْ أَحْدَثْتَ، فَلْيَقُلْ: كَذَبْتَ إِلا مَا وَجَدَ رِيحَهُ بِأَنْفِهِ، أَوْ سَمِعَ صَوْتَهُ بِأُذُنِهِ" . هَذَا لَفْظُ وَكِيعٍ. قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَوْلُهُ: فَلْيَقُلْ كَذَبْتَ: أَرَادَ: فَلْيَقُلْ كَذَبْتَ بِضَمِيرِهِ لا يَنْطِقُ بِلِسَانِهِ، إِذِ الْمُصَلِّي غَيْرُ جَائِزٍ لَهُ أَنْ يَقُولَ كَذَبْتَ نُطْقًا بِلِسَانِهِ
سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شیطان تم میں سے کسی ایک کے پاس اس کی نماز کے دوران آتا ہے اور کہتا ہے کہ تم نے وضو توڑ لیا ہے، تو اسےکہنا چاہیے کہ تُو نے جھوٹ کہا ہے سوائے اس کے کہ اپنے کان سے آواز سن لے یا اپنی ناک سے بُومحسوس کرلے۔ امام ابوبکر رحمہ اللّٰہ کہتےہیں کہ «‏‏‏‏فَلْیَقُلْ کَذَبْتَ» ‏‏‏‏ اسےکہنا چاہیے کہ تو نے جھوٹ بولا ہے۔ اس سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ نمازی اپنے دل میں کہے (تا کہ اس کا وسوسہ دور ہو جائے) زبان سے نہ کہے کیونکہ نمازی کے لیے زبان سے «‏‏‏‏کَذَبْتَ» ‏‏‏‏ کہنا جائز نہیں ہے (یعنی اس کے لیے کلام کرنا منع ہے۔)

تخریج الحدیث: اسناده الضعيفه
23. ‏(‏23‏)‏ بَابُ ذِكْرِ الدَّلِيلِ ‏[‏عَلَى‏]‏ أَنَّ اللَّمْسَ قَدْ يَكُونُ بِالْيَدِ ضِدَّ قَوْلِ مَنْ زَعَمَ أَنَّ اللَّمْسَ لَا يَكُونُ إِلَّا بِجِمَاعٍ بِالْفَرْجِ فِي الْفَرْجِ
23. اس بات کی دلیل کا بیان کہ لمس (چھونا) کبھی ہاتھ سے بھی ہوتا ہے اس شخص کے قول کے برعکس جو کہتا ہے کہ لمس صرف شرم گاہ کے شرم گاہ میں جماع کرنے ہی کو کہتے ہیں
حدیث نمبر: 30
Save to word اعراب
حدثنا الربيع بن سليمان المرادي ، حدثنا شعيب يعني ابن الليث ، عن الليث ، عن جعفر بن ربيعة وهو ابن شرحبيل ابن حسنة ، عن عبد الرحمن بن هرمز ، قال: قال ابو هريرة ياثره، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كل ابن آدم اصاب من الزنا لا محالة، فالعين زناؤها النظر، واليد زناؤها اللمس، والنفس تهوى او تحدث، ويصدقه او يكذبه الفرج" . قال ابو بكر: قد اعلم النبي صلى الله عليه وسلم ان اللمس قد يكون باليد، قال الله عز وجل: ولو نزلنا عليك كتابا في قرطاس فلمسوه بايديهم سورة الانعام آية 7، قد علم ربنا عز وجل ان اللمس قد يكون باليد، وكذلك النبي صلى الله عليه وسلم لما نهى عن بيع اللماس، دلهم نهيه عن بيع اللمس ان اللمس باليد، وهو ان يلمس المشتري الثوب من غير ان يقلبه وينشره، ويقول عند عقد الشراء: إذا لمست الثوب بيدي فلا خيار لي بعد إذا نظرت إلى طول الثوب وعرضه او ظهرت منه على عيب، والنبي صلى الله عليه وسلم قال لماعز بن مالك حين اقر عنده بالزنا: لعلك قبلت او لمست، فدلت هذه اللفظة على انه إنما اراد بقوله: او لمست غير الجماع الموجب للحد، وكذلك خبر عائشة، قال ابو بكر: ولم يختلف علماؤنا من الحجازيين والمصريين والشافعي واهل الاثر ان القبلة واللمس باليد، إذا لم يكن بين اليد وبين بدن المراة إذا لمسها حجاب ولا سترة من ثوب ولا غيره، ان ذلك يوجب الوضوء، غير ان مالك بن انس، كان يقول: إذا كانت القبلة واللمس باليد ليس بقبلة شهوة، فإن ذلك لا يوجب الوضوء، قال ابو بكر: هذه اللفظة: ويصدقه او يكذبه الفرج: من الجنس الذي اعلمت في كتاب الإيمان ان التصديق قد يكون ببعض الجوارح، لا كما ادعى من موه على بعض الناس ان التصديق لا يكون في لغة العرب إلا بالقلب، قد بينت هذه المسالة بتمامها في كتاب الإيمانحَدَّثَنَا الرَّبِيعُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْمُرَادِيُّ ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ يَعْنِي ابْنَ اللَّيْثِ ، عَنِ اللَّيْثِ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ رَبِيعَةَ وَهُوَ ابْنُ شُرَحْبِيلَ ابْنِ حَسَنَةٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ يَأْثُرُهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كُلُّ ابْنِ آدَمَ أَصَابَ مِنَ الزِّنَا لا مَحَالَةَ، فَالْعَيْنُ زِنَاؤُهَا النَّظَرُ، وَالْيَدُ زِنَاؤُهَا اللَّمْسُ، وَالنَّفْسُ تَهْوَى أَوْ تُحَدِّثُ، وَيُصَدِّقُهُ أَوْ يُكَذِّبُهُ الْفَرْجُ" . قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَدْ أَعْلَمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ اللَّمْسَ قَدْ يَكُونُ بِالْيَدِ، قَالَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ: وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ سورة الأنعام آية 7، قَدْ عَلَّمَ رَبُّنَا عَزَّ وَجَلَّ أَنَّ اللَّمْسَ قَدْ يَكُونُ بِالْيَدِ، وَكَذَلِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا نَهَى عَنْ بَيْعِ اللِّمَاسِ، دَلَّهُمْ نَهْيُهُ عَنْ بَيْعِ اللَّمْسِ أَنَّ اللَّمْسَ بِالْيَدِ، وَهُوَ أَنْ يَلْمِسَ الْمُشْتَرِي الثَّوْبَ مِنْ غَيْرِ أَنْ يُقَلِّبَهُ وَيَنْشُرَهُ، وَيَقُولُ عِنْدَ عَقْدِ الشِّرَاءِ: إِذَا لَمَسْتُ الثَّوْبَ بِيَدِي فَلا خِيَارَ لِي بَعْدُ إِذَا نَظَرْتُ إِلَى طُولِ الثَّوْبِ وَعَرْضِهِ أَوْ ظَهَرْتُ مِنْهُ عَلَى عَيْبٍ، وَالنَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ حِينَ أَقَرَّ عِنْدَهُ بِالزِّنَا: لَعَلَّكَ قَبَّلْتَ أَوْ لَمَسْتَ، فَدَلَّتْ هَذِهِ اللَّفْظَةُ عَلَى أَنَّهُ إِنَّمَا أَرَادَ بِقَوْلِهِ: أَوْ لَمَسْتَ غَيْرَ الْجِمَاعِ الْمُوجِبِ لِلْحَدِّ، وَكَذَلِكَ خَبَرُ عَائِشَةَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَلَمْ يَخْتَلِفْ عُلَمَاؤُنَا مِنَ الْحِجَازِيِّينَ وَالْمِصْرِيِّينَ وَالشَّافِعِيُّ وَأَهْلُ الأَثَرِ أَنَّ الْقُبْلَةَ وَاللَّمْسَ بِالْيَدِ، إِذَا لَمْ يَكُنْ بَيْنَ الْيَدِ وَبَيْنَ بَدَنِ الْمَرْأَةِ إِذَا لَمِسَهَا حِجَابٌ وَلا سُتْرَةٌ مِنْ ثَوْبٍ وَلا غَيْرِهِ، أَنَّ ذَلِكَ يُوجِبُ الْوُضُوءَ، غَيْرَ أَنَّ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، كَانَ يَقُولُ: إِذَا كَانَتِ الْقُبْلَةُ وَاللَّمْسُ بِالْيَدِ لَيْسَ بِقُبْلَةِ شَهْوَةٍ، فَإِنَّ ذَلِكَ لا يُوجِبُ الْوُضُوءَ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: هَذِهِ اللَّفْظَةُ: وَيُصَدِّقُهُ أَوْ يُكَذِّبُهُ الْفَرَجُ: مِنَ الْجِنْسِ الَّذِي أَعْلَمْتُ فِي كِتَابِ الإِيمَانِ أَنَّ التَّصْدِيقَ قَدْ يَكُونُ بِبَعْضِ الْجَوَارِحِ، لا كَمَا ادَّعَى مَنْ مَوَّهَ عَلَى بَعْضِ النَّاسِ أَنَّ التَّصْدِيقَ لا يَكُونُ فِي لُغَةِ الْعَرَبِ إِلا بِالْقَلْبِ، قَدْ بَيَّنْتُ هَذِهِ الْمَسْأَلَةَ بِتَمَامِهَا فِي كِتَابِ الإِيمَانِ
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ ہر ابن آدم زِنا سے کچھ نہ کچھ پاتا ہے۔ آنکھ کا زِنا دیکھنا ہے، ہاتھ کا زِنا لمس (چُھونا) ہے، نفس چاہتا ہے یا خیال کرتا ہے کہ اور شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کردیتی ہے۔ اما م ابوبکر بن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں (اس حدیث) میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہے۔ لمس کبھی ہاتھ سے بھی ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: «‏‏‏‏وَلَوْ نَزَّلْنَا عَلَيْكَ كِتَابًا فِي قِرْطَاسٍ فَلَمَسُوهُ بِأَيْدِيهِمْ» ‏‏‏‏ [ سورة الأنعام ] اور اگر ہم کاغذ پر لکھا ہوا کوئی نوشتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پرنازل کرتے پھر اس کو یہ لوگ ا پنے ہاتھوں سے چھو بھی لیتے(اس آیت مبارکہ میں) ہمارے پروردگار عزوجل نے بھی بیان فرما دیا کہ لمس ہاتھ سے بھی ہوتا ہے۔ اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا بیع اللماس سے منع کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ لمس ہاتھ سے ہوتا ہے۔ بیع لمس کا مطلب یہ ہے کہ خریدار کپڑے کو پلٹے اور کھولے بغیر ہاتھ سے چھوئے اور خریدتے وقت کہے کہ جب میں کپڑے کو چھو لوں گا تو پھر کپڑے کے طول و عرض کو دیکھنے کے بعد یا کوئی عیب معلوم ہونے پر مجھے کوئی اختیار نہ ہو گا- نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ سے فرمایا تھا، جب اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر زنا کاری کا اقرار کیا تھا۔ شاید کہ تم نے بوسہ لیا ہو یا چُھوا ہو۔ یہ لفظ بھی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس فرمان سے مقصد یہ تھا کہ یا تُو نے حد کو واجب کرنے والے جماع کے علاوہ چھوا ہو۔ اسی طرح سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث ہے۔ امام ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے حجازی مصری، شافعی اور محدثین کا اس میں اختلاف نہیں ہے کہ بوسہ لیتے ہوئے یا ہاتھ سے چھوتے وقت جب ہاتھ اور عورت کے جسم کے درمیان کوئی پردہ یا کپڑے کی آڑ نہ ہو تو وضو واجب ہوجاتا ہے۔ البتہ امام مالک بن انس رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے کہ جب بوسہ اور ہاتھ سے چھونا بغیر شہوت کے ہو تواس سے وضو واجب نہیں ہوتا۔ اما م ابوبکر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے) یہ الفاظ شرم گاہ اس کی تصدیق یا تکذیب کرتی ہے اسی قبیل سے ہیں جسے میں نے کتاب الایمان میں بیان کیا ہے کہ تصدیق (دل کے علاوہ) کبھی دیگر اعضاء سے بھی ہوتی ہے۔ اس شخص کے دعوے کے برعکس جس نے کچھ لوگوں کو فریب دیا ہے کہ لغت عربی میں تصدیق صرف دل سے ہوتی ہے۔ میں نے یہ مسئلہ کتاب الایمان میں مکمل بیان کر دیا ہے۔

تخریج الحدیث: صحيح بخاري

Previous    1    2    3    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.