یحییٰ بن سعید قطان نے ہمیں عبیداللہ سے حدیث بیان کی کہا: مجھے نافع نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کسی مسلمان کو، جس کے پاس کچھ ہو اور وہ اس میں وصیت کرنا چاہتا ہو، اس بات کا حق نہیں کہ وہ دو راتیں (بھی) گزارے مگر اس طرح کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہو
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسے مسلمان کے لیے جس کے پاس وصیت کے لائق چیز ہو، جس کے بارے میں وہ وصیت کرنا چاہتا ہے، اس کے لیے درست نہیں ہے کہ وصیت لکھے بغیر دو راتیں بسر کرے۔“
عبدہ بن سلیمان اور عبداللہ بن نمیر دونوں نے عبیداللہ سے اسی سند کے ساتھ روایت کی، البتہ ان دونوں نے کہا: "اس کے پاس (مال) ہو جس میں وصیت کرے (قابل وصیت مال ہو۔) " اور اس طرح نہیں کہا: "جس میں وصیت کرنا چاہتا ہو۔" (مفہوم وہی ہے، الفاظ کا فرق ہے
امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ کی سند سے عبیداللہ کی مذکورہ بالا سند سے مذکورہ روایت، اس فرق سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے پاس وصیت کے لائق کوئی چیز موجود ہے“ یہ نہیں کہا، ”وہ اس کے بارے میں وصیت کرنا چاہتا ہے۔“
ایوب، یونس، اسامہ بن زید لیثی اور ہشام بن سعد سب نے نافع سے، انہوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عبیداللہ کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی اور ان سب نے کہا: "اس کے پاس کوئی (ایسی) چیز ہے جس میں وہ وصیت کرے۔" البتہ ایوب کی حدیث میں ہے کہ انہوں نے کہا: "وہ اس میں وصیت کرنا چاہتا ہو" عبیداللہ سے یحییٰ کی روایت کی طرح
امام صاحب اپنے پانچ اساتذہ کی سندوں سے نافع ہی کی سند مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں، ان میں سے ایوب کے سوا سب کے الفاظ یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے پاس وصیت کے لائق کوئی چیز ہے۔“ اور ایوب کہتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اس کے بارے میں وصیت کرنا چاہتا ہے۔“ جیسا کہ حدیث نمبر 1 میں ہے۔
حدثنا هارون بن معروف ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني عمرو وهو ابن الحارث ، عن ابن شهاب ، عن سالم ، عن ابيه : انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " ما حق امرئ مسلم له شيء يوصي فيه يبيت ثلاث ليال، إلا ووصيته عنده مكتوبة "، قال عبد الله بن عمر: ما مرت علي ليلة منذ سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال ذلك إلا وعندي وصيتي،حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو وَهُوَ ابْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ : أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا حَقُّ امْرِئٍ مُسْلِمٍ لَهُ شَيْءٌ يُوصِي فِيهِ يَبِيتُ ثَلَاثَ لَيَالٍ، إِلَّا وَوَصِيَّتُهُ عِنْدَهُ مَكْتُوبَةٌ "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ: مَا مَرَّتْ عَلَيَّ لَيْلَةٌ مُنْذُ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ ذَلِكَ إِلَّا وَعِنْدِي وَصِيَّتِي،
عمرو بن حارث نے مجھے ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے سالم سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ نے فرمایا: کسی مسلمان آدمی کے لیے، جس کے پاس کوئی (ایسی) چیز ہو جس میں وہ وصیت کرے، یہ جائز نہیں کہ وہ تین راتیں (بھی) گزارے مگر اس طرح کہ اس کی وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی ہو۔" حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان سنا ہے مجھ پر ایک رات بھی نہیں گزری مگر میری وصیت میرےپاس موجود تھی
حضرت سالم اپنے باپ (ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما) سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان انسان کے لیے جائز نہیں ہے کہ اس کے پاس قابل وصیت چیز ہو، اور وہ تین راتیں وصیت اپنے پاس لکھے بغیر بسر کرے۔“ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کہتے ہیں، جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ فرمان سنا ہے، میں نے ایک رات بھی وصیت کی تحریر کے بغیر نہیں گزاری۔
حدثنا يحيى بن يحيى التميمي ، اخبرنا إبراهيم بن سعد ، عن ابن شهاب ، عن عامر بن سعد ، عن ابيه ، قال: " عادني رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع، من وجع اشفيت منه على الموت، فقلت: يا رسول الله، بلغني ما ترى من الوجع وانا ذو مال ولا يرثني إلا ابنة لي واحدة، افاتصدق بثلثي مالي، قال: لا، قال: قلت: افاتصدق بشطره، قال: لا الثلث والثلث كثير، إنك ان تذر ورثتك اغنياء خير من ان تذرهم عالة يتكففون الناس، ولست تنفق نفقة تبتغي بها وجه الله، إلا اجرت بها حتى اللقمة تجعلها في في امراتك، قال: قلت: يا رسول الله، اخلف بعد اصحابي، قال: إنك لن تخلف، فتعمل عملا تبتغي به وجه الله، إلا ازددت به درجة ورفعة، ولعلك تخلف حتى ينفع بك اقوام ويضر بك آخرون، اللهم امض لاصحابي هجرتهم ولا تردهم على اعقابهم " لكن البائس سعد بن خولة، قال: رثى له رسول الله صلى الله عليه وسلم من ان توفي بمكة،حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " عَادَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ، مِنْ وَجَعٍ أَشْفَيْتُ مِنْهُ عَلَى الْمَوْتِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، بَلَغَنِي مَا تَرَى مِنَ الْوَجَعِ وَأَنَا ذُو مَالٍ وَلَا يَرِثُنِي إِلَّا ابْنَةٌ لِي وَاحِدَةٌ، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي، قَالَ: لَا، قَالَ: قُلْتُ: أَفَأَتَصَدَّقُ بِشَطْرِهِ، قَالَ: لَا الثُّلُثُ وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَلَسْتَ تُنْفِقُ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللَّهِ، إِلَّا أُجِرْتَ بِهَا حَتَّى اللُّقْمَةُ تَجْعَلُهَا فِي فِي امْرَأَتِكَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي، قَالَ: إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ، فَتَعْمَلَ عَمَلًا تَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ، إِلَّا ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً، وَلَعَلَّكَ تُخَلَّفُ حَتَّى يُنْفَعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، اللَّهُمَّ أَمْضِ لِأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلَا تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ " لَكِنْ الْبَائِسُ سَعْدُ بْنُ خَوْلَةَ، قَالَ: رَثَى لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ أَنْ تُوُفِّيَ بِمَكَّةَ،
ابراہیم بن سعد (بن ابراہیم بن عبدالرحمان بن عوف) نے ہمیں ابن شہاب سے خبر دی، انہوں نے عامر بن سعد اور انہوں نے اپنے والد (حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انہوں نے کہا: حجۃ الوداع کی موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بیماری میں میری عیادت کی جس کی وجہ سے میں موت کے کنارے پہنچ چکا تھا۔ میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! مجھے ایسی بیماری نے آ لیا ہے جو آپ دیکھ رہے ہیں اور میں مالدار آدمی ہوں اور صرف ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں (بنتا۔) تو کیا میں اپنے مال کا دو تہائی حصہ صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں۔" میں نے عرض کی: کیا میں اس کا آدھا حصہ صدقہ کر دوں؟ آپ نے فرمایا: "نہیں، (البتہ) ایک تہائی (صدقہ کر دو) اور ایک تہائی بہت ہے، بلاشبہ اگر تم اپنے ورثاء کو مالدار چھوڑ جاؤ، وہ لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کرتے پھریں، اور تم کوئی چیز بھی خرچ نہیں کرتے جس کے ذریعے سے تم اللہ کی رضا چاہتے ہو، مگر تمہیں اس کا اجر دیا جاتا ہے حتی کہ اس لقمے کا بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو۔" کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! میں اپنے ساتھیوں کے (مدینہ لوٹ جانے کے بعد) پیچھے (یہیں مکہ میں) چھوڑ دیا جاؤں گا؟ آپ نے فرمایا: "تمہیں پیچھے نہیں چھوڑا جائے گا، پھر تم کوئی ایسا عمل نہیں کرو گے جس کے ذریعے سے تم اللہ کی رضا چاہتے ہو گے، مگر اس کی بنا پر تم درجے اور بلندی میں (اور) بڑھ جاؤ گے اور شاید تمہیں چھوڑ دیا جائے (لمبی عمر دی جائے) حتی کہ تمہارے ذریعے سے بہت سی قوموں کو نفع ملے اور دوسری بہت سی قوموں کو نقصان پہنچے۔ اے اللہ! میرے ساتھیوں کے لیے ان کی ہجرت کو جاری رکھ اور انہیں ان کی ایڑیوں کے بل واپس نہ لوٹا، لیکن بے چارے سعد بن خولہ (وہ تو فوت ہو ہی گئے۔) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وجہ سے ان کے لیے غم کا اظہارِ افسوس کیا کہ وہ (اس سے پہلے ہی) مکہ میں (آ کر) فوت ہو گئے تھے۔
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری بیمار پرسی ایسے مرض کے سلسلہ میں کی جس سے میں قریب الموت ہو گیا تھا، تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! بیماری سے میں کس حالت کو پہنچ گیا ہوں، آپ دیکھ رہے ہیں، اور میں مالدار ہوں اور میری وارث صرف ایک بیٹی ہے تو کیا میں دو تہائی مال کا صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں۔“ میں نے عرض کیا، تو کیا میں اس کا آدھا حصہ صدقہ کر سکتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، ایک تہائی صدقہ کرو، اور ایک تہائی بہت ہے۔ اگر تم ورثاء کو مستغنی چھوڑو، تو اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو محتاج چھوڑو، وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائیں، اور تم جو کچھ خرچ بھی اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے حصول کے لیے کرو گے، تمہیں اس کا اجر ملے گا، حتی کہ اس لقمہ کا بھی جو اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتے ہو۔“ میں نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میں اپنے ساتھیوں کے پیچھے (مکہ میں) چھوڑ دیا جاؤں گا؟ (وہ حج کر کے مدینہ واپس چلے جائیں گے) آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے ساتھیوں کے بعد عمر نہیں دئیے جاؤ گے کہ اس میں اللہ کی رضا کے حصول کے کام کرو، مگر اس سے تمہارا درجہ بڑھے گا اور بلندی حاصل ہو گی، اور امید ہے تمہیں طویل عمر ملے گی، (اپنے ساتھیوں کے بعد زندہ چھوڑے جاؤ گے) حتی کہ تم سے مسلمانوں کو نفع حاصل ہو گا، اور ان کے مخالفوں کو تم سے نقصان پہنچے گا، اے اللہ! میرے ساتھیوں کی ہجرت کو پوری فرما، اور انہیں الٹے پاؤں نہ لوٹا، لیکن سعد بن خولہ رضی اللہ تعالی عنہ قابل رحم ہیں۔“ حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ترس کا اظہار اس لیے فرمایا کہ وہ مکہ میں فوت ہو گئے تھے۔
سعد بن ابراہیم نے عامر بن سعد سے اور انہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کرنے کے لیے میرے ہاں تشریف لائے۔۔۔ آگے زہری کی حدیث کے ہم معنی بیان کیا اور انہوں نے سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کا تذکرہ نہیں کیا، مگر انہوں نے کہا: اور وہ (حضرت سعد بن خولہ رضی اللہ عنہ) ناپسند کرتے تھے کہ اس سرزمین میں وفات پائیں جہاں سے ہجرت کر گئے تھے
امام صاحب اپنے استاد اسحاق بن منصور کی سند سے حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس، میری عیادت کے لیے تشریف لائے، آگے زہری کی روایت کی طرح ہے، اور اس میں حضرت سعد بن خولہ رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کا ذکر نہیں ہے، ہاں یہ اضافہ ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس جگہ فوت ہونے کو ناپسند کرتے تھے، جہاں سے انسان نے ہجرت کی ہے۔
زہیر نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں سماک بن حرب نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے مصعب بن سعد (بن ابی وقاص) نے اپنے والد سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں بیمار ہوا تو میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا، میں نے عرض کی: مجھے اجازت دیجیے کہ میں اپنا مال جہاں چاہوں تقسیم کر دوں۔ آپ نے انکار فرمایا، میں نےعرض کی: آدھا مال (تقسیم کر دوں؟) آپ نے انکار فرمایا، میں نے عرض کی: ایک تہائی؟ کہا: (میرے) ایک تہائی (کہنے) کے بعد آپ خاموش ہو گئے۔ (ایک تہائی کی وصیت سے آپ نے منع نہ فرمایا مگر اس کے بارے میں بھی یہ فرمایا: ایک تہائی بھی بہت ہے، حدیث: 4215، 4214) کہا: اس کے بعد ایک تہائی (کی وصیت) جائز ٹھہری۔
حضرت سعد رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میں بیمار پڑ گیا تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیغام بھیجا، (آپصلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد) میں نے عرض کیا، مجھے اجازت دیجئے کہ میں جیسے چاہوں اپنا مال تقسیم کروں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا، میں نے کہا، تو آدھے کی اجازت فرمائیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے انکار کر دیا، میں نے کہا، تہائی ہی صحیح، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اس پر خاموش ہو گئے، تو اس کے بعد سے تہائی مال کی وصیت جائز ٹھہری۔