قال مالك: إن ابن شهاب قال: «مضت السنة في قتل العمد حين يعفو اولياء المقتول، ان الدية تكون على القاتل في ماله خاصة إلا ان تعينه العاقلة عن طيب نفس منها» . قَالَ مَالِكٌ: إِنَّ ابْنَ شِهَابٍ قَالَ: «مَضَتِ السُّنَّةُ فِي قَتْلِ الْعَمْدِ حِينَ يَعْفُو أَوْلِيَاءُ الْمَقْتُولِ، أَنَّ الدِّيَةَ تَكُونُ عَلَى الْقَاتِلِ فِي مَالِهِ خَاصَّةً إِلَّا أَنْ تُعِينَهُ الْعَاقِلَةُ عَنْ طِيبِ نَفْسٍ مِنْهَا» .
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ابن شہاب کہتے تھے: سنّت یوں ہے کہ جب قتلِ عمد میں مقتول کے وارث قصاص کو عفو کر کے دیت پر راضی ہو جائیں تو وہ دیت قاتل کے مال سے لی جائے گی، عاقلہ سے کچھ غرض نہیں، مگر جب عاقلہ خود دینا چاہیں۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ دیت عاقلہ پر لازم نہیں آتی جب ایک تہائی یا زیادہ نہ ہو، اگر تہائی سے کم ہو تو جنایت کرنے والے کے مال سے لی جائے گی۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے کہ قتلِ عمد یا اور جراحات میں جن میں قصاص لازم آتا ہے، اگر دیت قبول کر لی جائے تو قاتل یا جارح کی ذات پر ہوگی، عاقلہ پر نہ ہوگی، اگر اس کے پاس مال ہو، اور جو مال نہ ہو تو اس پر قصاص رہے گا، البتہ اگر عاقلہ خوشی سے دینا چاہیں تو اور بات ہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اپنے تئیں آپ عمداً یا خطاءً زخمی کرے تو اس کی دیت عاقلہ پر نہ ہوگی، اور میں نے کسی کو نہیں سنا جو عمد کی دیت عاقلہ سے دلائے، اس وجہ سے کہ اللہ جل جلالہُ نے قتلِ عمد میں فرمایا: ”جس کا بھائی معاف کردے کچھ (یعنی قصاص چھوڑ دے) تو چاہیے کہ دستور کے موافق چلے اور دیت اچھی طرح ادا کرے۔“(اس سے معلوم ہوا کہ عمد کی دیت قاتل کو ادا کرنی چاہیے)۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس لڑکے کے پاس کچھ مال نہ ہو یا جس عورت کے پاس مال نہ ہو اور وہ کوئی جنایت کرے جس میں تہائی سے کم دیت واجب ہوتی ہے، تو دیت انہی کے مال میں سے دی جائے گی، اگر مال نہ ہو تو ان پر قرض کے طور پر رہے گی، عاقلہ پر یا لڑکے کے باپ پر کچھ لازم نہیں آئے گا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب غلام قتل کیا جائے تو اس کی قیمت جو قتل کے روز ہے دینی ہوگی، قاتل کے عاقلہ پر کچھ لازم نہ آئے گا، بلکہ قاتل کے خاص مال میں سے لیا جائے گا، اگرچہ اس غلام کی قیمت دیت سے زیادہ ہو۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16460، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 17812، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 28003، فواد عبدالباقي نمبر: 43 - كِتَابُ الْعُقُولِ-ح: 8ق9»
حدثني يحيى، عن مالك، عن ابن شهاب ، ان عمر بن الخطاب، نشد الناس بمنى: من كان عنده علم من الدية ان يخبرني؟ فقام الضحاك بن سفيان الكلابي ، فقال: كتب إلي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ان اورث امراة اشيم الضبابي من دية زوجها" . فقال له عمر بن الخطاب: ادخل الخباء حتى آتيك، فلما نزل عمر بن الخطاب اخبره الضحاك، فقضى بذلك عمر بن الخطاب. قال ابن شهاب: وكان قتل اشيم خطاحَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، نَشَدَ النَّاسَ بِمِنًى: مَنْ كَانَ عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الدِّيَةِ أَنْ يُخْبِرَنِي؟ فَقَامَ الضَّحَّاكُ بْنُ سُفْيَانَ الْكِلَابِيُّ ، فَقَالَ: كَتَبَ إِلَيّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَنْ أُوَرِّثَ امْرَأَةَ أَشْيَمَ الضِّبَابيِّ مِنْ دِيَةِ زَوْجِهَا" . فَقَالَ لَهُ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: ادْخُلِ الْخِبَاءَ حَتَّى آتِيَكَ، فَلَمَّا نَزَلَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَخْبَرَهُ الضَّحَّاكُ، فَقَضَى بِذَلِكَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ. قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَكَانَ قَتْلُ أَشْيَمَ خَطَأً
ابن شہاب سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بلایا لوگوں کو منیٰ میں اور کہا کہ جس شخص کو دیت کا مسئلہ معلوم ہو وہ بیان کرے مجھ سے، تو ضحاک بن سفیان کلابی کھڑے ہوئے اور کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے لکھ بھیجا تھا کہ اشیم ضبابی کی عورت کو میراث دلاؤں اشیم کی دیت میں سے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تو خیمے میں جا جب تک میں آؤں، جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے تو ضحاک نے یہی بیان کیا، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اسی کا حکم کیا۔ ابن شہاب نے کہا کہ اشیم خطا سے مارا گیا تھا۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه وأبو داود فى «سننه» برقم: 2927، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1415، 2110، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2642، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 295، 296، 297، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16165، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 6363، وأحمد فى «مسنده» برقم: 15837، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 17764، فواد عبدالباقي نمبر: 43 - كِتَابُ الْعُقُولِ-ح: 9»
وحدثني مالك، عن يحيى بن سعيد ، عن عمرو بن شعيب : ان رجلا من بني مدلج يقال له قتادة حذف ابنه بالسيف فاصاب ساقه فنزي في جرحه فمات، فقدم سراقة بن جعشم على عمر بن الخطاب فذكر ذلك له، فقال له عمر :" اعدد على ماء قديد عشرين ومائة بعير حتى اقدم عليك"، فلما قدم إليه عمر بن الخطاب اخذ من تلك الإبل ثلاثين حقة وثلاثين جذعة واربعين خلفة، ثم قال:" اين اخو المقتول؟" قال: هانذا، قال: خذها، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " ليس لقاتل شيء" وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ : أَنَّ رَجُلًا مِنْ بَنِي مُدْلِجٍ يُقَالُ لَهُ قَتَادَةُ حَذَفَ ابْنَهُ بِالسَّيْفِ فَأَصَابَ سَاقَهُ فَنُزِيَ فِي جُرْحِهِ فَمَاتَ، فَقَدِمَ سُرَاقَةُ بْنُ جُعْشُمٍ عَلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ :" اعْدُدْ عَلَى مَاءِ قُدَيْدٍ عِشْرِينَ وَمِائَةَ بَعِيرٍ حَتَّى أَقْدَمَ عَلَيْكَ"، فَلَمَّا قَدِمَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَخَذَ مِنْ تِلْكَ الْإِبِلِ ثَلَاثِينَ حِقَّةً وَثَلَاثِينَ جَذَعَةً وَأَرْبَعِينَ خَلِفَةً، ثُمّ قَالَ:" أَيْنَ أَخُو الْمَقْتُولِ؟" قَالَ: هَأَنَذَا، قَالَ: خُذْهَا، فَإِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَيْسَ لِقَاتِلٍ شَيْءٌ"
حضرت عمرو بن شعیب سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بنی مدلج میں سے جس کا نام قتادہ تھا، اپنے لڑکے کو تلوار ماری، وہ اس کے پنڈلی میں لگی، خون بند نہ ہوا، آخر مر گیا، تو سراقہ بن جعشم سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ان سے بیان کیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: قدید کے پانی پر (قدید ایک مقام ہے مکہ اور مدینہ کے درمیان، وہاں پانی بھی ہے) ایک سو بیس اونٹ تیار رکھ جب تک میں وہاں آؤں۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ وہاں آئے تو اُن اونٹوں میں سے تیس حقے اور تیس جزعے لئے، اور چالیس خلفے (حاملہ اونٹنیاں) لیں، پھر کہا: کہاں ہے مقتول کا بھائی؟ اس نے کہا: کیوں میں موجود ہوں۔ کہا: تو یہ سب اونٹ لے لے، اس واسطے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قاتل کو میراث نہیں ملتی۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع ضعيف، وأخرجه ابن ماجه فى «سننه» برقم: 2646، 2662، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1400، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2646، 2662، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12367، والدارقطني فى «سننه» برقم: 3273، وأحمد فى «مسنده» برقم: 346، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 17782، فواد عبدالباقي نمبر: 43 - كِتَابُ الْعُقُولِ-ح: 10»
وحدثني مالك انه بلغه , ان سعيد بن المسيب، وسليمان بن يسار سئلا اتغلظ الدية في الشهر الحرام؟ فقالا:" لا ولكن يزاد فيها للحرمة"، فقيل لسعيد: هل" يزاد في الجراح كما يزاد في النفس؟ فقال: نعم" . وَحَدَّثَنِي مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ , أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، وَسُلَيْمَانَ بْنَ يَسَارٍ سُئِلَا أَتُغَلَّظُ الدِّيَةُ فِي الشَّهْرِ الْحَرَامِ؟ فَقَالَا:" لَا وَلَكِنْ يُزَادُ فِيهَا لِلْحُرْمَةِ"، فَقِيلَ لِسَعِيدٍ: هَلْ" يُزَادُ فِي الْجِرَاحِ كَمَا يُزَادُ فِي النَّفْسِ؟ فَقَالَ: نَعَمْ" .
حضرت سعید بن مسیّب اور سلیمان بن یسار سے سوال ہوا کہ ماہِ حرام میں (محرم اور رجب اور ذیقعدہ اور ذی الحجہ میں) اگر کوئی قتل کرے تو دیت میں سختی کریں گے؟ انہوں نے کہا: نہیں، بلکہ بڑھا دیں گے، بوجہ ان مہینوں کی حرمت کے۔ پھر سعید سے پوچھا: اگر کوئی زخمی کرے ان مہینوں میں تو اس کی بھی دیت بڑھا دیں گے، جیسے قتل کی دیت بڑھا دیں گے؟ سعید نے کہا: ہاں۔
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16136، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 17696، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 27601، فواد عبدالباقي نمبر: 43 - كِتَابُ الْعُقُولِ-ح: 10ق»
قال مالك: اراهما ارادا مثل الذي صنع عمر بن الخطاب في عقل المدلجي حين اصاب ابنهقَالَ مَالِك: أُرَاهُمَا أَرَادَا مِثْلَ الَّذِي صَنَعَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ فِي عَقْلِ الْمُدْلِجِيِّ حِينَ أَصَابَ ابْنَهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں سمجھتا ہوں کہ مراد ان دونوں صاحبوں کی بڑھانے سے وہی ہے جیسا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کیا مدلجی کی دیت میں، جب اس نے اپنے بیٹے کو مار ڈالا۔