قال مالك: الامر عندنا الذي لا اختلاف فيه، ان كل من تصدق على ابنه بصدقة قبضها الابن. او كان في حجر ابيه فاشهد له على صدقته. فليس له ان يعتصر شيئا من ذلك. لانه لا يرجع في شيء من الصدقة. قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ عِنْدَنَا الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ، أَنَّ كُلَّ مَنْ تَصَدَّقَ عَلَى ابْنِهِ بِصَدَقَةٍ قَبَضَهَا الِابْنُ. أَوْ كَانَ فِي حَجْرِ أَبِيهِ فَأَشْهَدَ لَهُ عَلَى صَدَقَتِهِ. فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَعْتَصِرَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ. لِأَنَّهُ لَا يَرْجِعُ فِي شَيْءٍ مِنَ الصَّدَقَةِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک اس میں کچھ اختلاف نہیں ہے، باپ اگر اپنے بیٹے کو کچھ صدقہ کے طور پر دے تو بیٹا اس کو اپنے قبضے میں کر لے۔ یا بیٹا صغیر سن ہو، خود باپ کی گود میں ہو، اور وہ صدقہ پر گواہ کر دے، تو اب باپ کو اس میں رجوع کرنا درست نہیں، کیونکہ کسی صدقہ میں رجوع درست نہیں۔
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا فيمن نحل ولده نحلا، او اعطاه عطاء ليس بصدقة. إن له ان يعتصر ذلك. ما لم يستحدث الولد دينا يداينه الناس به. ويامنونه عليه. من اجل ذلك العطاء الذي اعطاه ابوه. فليس لابيه ان يعتصر من ذلك شيئا، بعد ان تكون عليه الديون. قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا فِيمَنْ نَحَلَ وَلَدَهُ نُحْلًا، أَوْ أَعْطَاهُ عَطَاءً لَيْسَ بِصَدَقَةٍ. إِنَّ لَهُ أَنْ يَعْتَصِرَ ذَلِكَ. مَا لَمْ يَسْتَحْدِثِ الْوَلَدُ دَيْنًا يُدَايِنُهُ النَّاسُ بِهِ. وَيَأْمَنُونَهُ عَلَيْهِ. مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ الْعَطَاءِ الَّذِي أَعْطَاهُ أَبُوهُ. فَلَيْسَ لِأَبِيهِ أَنْ يَعْتَصِرَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا، بَعْدَ أَنْ تَكُونَ عَلَيْهِ الدُّيُونُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اجماع ہے کہ اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کو کوئی چیز محبت کی وجہ سے دے، نہ کہ صدقہ کے طور پر، تو وہ اس میں رجوع کرسکتا ہے، جب تک کہ بیٹا اس جائداد کے اعتماد پر معاملہ نہ کرنے لگے، اور لوگ اس کو اس جائداد کے بھروسے پر قرض نہ دیں، لیکن جب ایسا ہو جائے تو پھر رجوع نہیں کرسکتا۔
قال مالك: او يعطي الرجل ابنه او ابنته. فتنكح المراة الرجل. وإنما تنكحه لغناه. وللمال الذي اعطاه ابوه. فيريد ان يعتصر ذلك الاب. او يتزوج الرجل المراة قد نحلها ابوها النحل. إنما يتزوجها ويرفع في صداقها لغناها ومالها. وما اعطاها ابوها. ثم يقول الاب: انا اعتصر ذلك. فليس له ان يعتصر من ابنه ولا من ابنته شيئا من ذلك. إذا كان على ما وصفت لك. قَالَ مَالِكٌ: أَوْ يُعْطِي الرَّجُلُ ابْنَهُ أَوِ ابْنَتَهُ. فَتَنْكِحُ الْمَرْأَةُ الرَّجُلَ. وَإِنَّمَا تَنْكِحُهُ لِغِنَاهُ. وَلِلْمَالِ الَّذِي أَعْطَاهُ أَبُوهُ. فَيُرِيدُ أَنْ يَعْتَصِرَ ذَلِكَ الْأَبُ. أَوْ يَتَزَوَّجُ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ قَدْ نَحَلَهَا أَبُوهَا النُّحْلَ. إِنَّمَا يَتَزَوَّجُهَا وَيَرْفَعُ فِي صِدَاقِهَا لِغِنَاهَا وَمَالِهَا. وَمَا أَعْطَاهَا أَبُوهَا. ثُمَّ يَقُولُ الْأَبُ: أَنَا أَعْتَصِرُ ذَلِكَ. فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يَعْتَصِرَ مِنِ ابْنِهِ وَلَا مِنِ ابْنَتِهِ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ. إِذَا كَانَ عَلَى مَا وَصَفْتُ لَكَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کوئی شخص اپنے بیٹے کو ہبہ کرے اور کوئی عورت اس بیٹے سے اس واسطے نکاح کرے کہ جائداد ہبہ میں پاکر غنی (مالدار) ہو گیا ہے، یا کوئی شخص اپنی بیٹی کو ہبہ کرے، پھر اس سے کوئی مرد نکاح کرے اس جائداد کے خیال سے، تو اب باپ رجوع نہیں کر سکتا۔
سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی کو عمریٰ دے اس کے واسطے اور اس کے وارثوں کے واسطے، تو پھر وہ عمریٰ اس کا ہو جاتا ہے، دینے والے کو پھر نہیں مل سکتا۔“(کیونکہ اس نے ایسی چیز دی جس میں وراثت ہونے لگی)۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2625، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1625، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5130، 5135، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 3776، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6536، 6537، أبو داود فى «سننه» برقم: 3550، 3551، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1350، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2380، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12080، وأحمد فى «مسنده» برقم: 14932، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 43»
وحدثني مالك، عن يحيى بن سعيد ، عن عبد الرحمن بن القاسم ، انه سمع مكحولا الدمشقي يسال القاسم بن محمد عن العمرى وما يقول الناس فيها، فقال القاسم بن محمد :" ما ادركت الناس، إلا وهم على شروطهم في اموالهم، وفيما اعطوا" . وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، أَنَّهُ سَمِعَ مَكْحُولًا الدِّمَشْقِيَّ يَسْأَلُ الْقَاسِمَ بْنَ مُحَمَّدٍ عَنِ الْعُمْرَى وَمَا يَقُولُ النَّاسُ فِيهَا، فَقَالَ الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ :" مَا أَدْرَكْتُ النَّاسَ، إِلَّا وَهُمْ عَلَى شُرُوطِهِمْ فِي أَمْوَالِهِمْ، وَفِيمَا أُعْطُوا" .
حضرت عبدالرحمٰن بن قاسم نے سنا مکحول سے، پوچھتے ہوئے قاسم سے: عمریٰ کے متعلق کیا قول ہے لوگوں کا اس میں؟ قاسم نے کہا: میں نے تو لوگوں کو اپنی شرطیں پوری کرتے ہوئے پایا اپنے مالوں میں، اور جو کچھ وہ دیا کرتے تھے اس کو بھی پورا کرتے تھے۔
قال يحيى: سمعت مالكا، يقول: وعلى ذلك الامر عندنا ان العمرى ترجع إلى الذي اعمرها، إذا لم يقل هي لك ولعقبكقَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ: وَعَلَى ذَلِكَ الْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّ الْعُمْرَى تَرْجِعُ إِلَى الَّذِي أَعْمَرَهَا، إِذَا لَمْ يَقُلْ هِيَ لَكَ وَلِعَقِبِكَ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ عمریٰ دینے والے کو پھر عمریٰ مل جائے گا، جب کہ معمر لہُ مر جائے اور دینے والے نے اس کے وارثوں کو نہ دیا ہو، بلکہ معمر لہُ کے حین حیات تک دیا ہو۔
وحدثني وحدثني مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر ورث من حفصة بنت عمر دارها، قال: وكانت حفصة قد اسكنت بنت زيد بن الخطاب ما عاشت، فلما توفيت بنت زيد، " قبض عبد الله بن عمر المسكن، وراى انه له" وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ وَرِثَ مِنْ حَفْصَةَ بِنْتِ عُمَرَ دَارَهَا، قَالَ: وَكَانَتْ حَفْصَةُ قَدْ أَسْكَنَتْ بِنْتَ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ مَا عَاشَتْ، فَلَمَّا تُوُفِّيَتْ بِنْتُ زَيْدٍ، " قَبَضَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ الْمَسْكَنَ، وَرَأَى أَنَّهُ لَهُ"
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما وارث ہوئے اُم المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کے، وہ اپنا گھر سیدنا زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کی بیٹی کو زندگی بھر رہنے کو دے گئی تھیں، جب وہ مر گئیں تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس گھر کو لے لیا اپنا سمجھ کر۔
حدثني مالك، عن ربيعة بن ابي عبد الرحمن ، عن يزيد مولى المنبعث، عن زيد بن خالد الجهني ، انه قال: جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فساله عن اللقطة، فقال: " اعرف عفاصها ووكاءها، ثم عرفها سنة، فإن جاء صاحبها، وإلا فشانك بها". قال فضالة: الغنم يا رسول الله؟ قال:" هي لك او لاخيك او للذئب". قال فضالة: الإبل. قال:" ما لك ولها، معها سقاؤها وحذاؤها ترد الماء وتاكل الشجر حتى يلقاها ربها" حَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ يَزِيدَ مَوْلَى الْمُنْبَعِثِ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلَهُ عَنِ اللُّقَطَةِ، فَقَالَ: " اعْرِفْ عِفَاصَهَا وَوِكَاءَهَا، ثُمَّ عَرِّفْهَا سَنَةً، فَإِنْ جَاءَ صَاحِبُهَا، وَإِلَّا فَشَأْنَكَ بِهَا". قَالَ فَضَالَّةُ: الْغَنَمِ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" هِيَ لَكَ أَوْ لِأَخِيكَ أَوْ لِلذِّئْبِ". قَالَ فَضَالَّةُ: الْإِبِلِ. قَالَ:" مَا لَكَ وَلَهَا، مَعَهَا سِقَاؤُهَا وَحِذَاؤُهَا تَرِدُ الْمَاءَ وَتَأْكُلُ الشَّجَرَ حَتَّى يَلْقَاهَا رَبُّهَا"
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص آیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور پوچھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے لقطہ کو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پہچان رکھ ظرف اس کا (جس میں لقطہ ہو، خواہ چمڑے میں ہو یا کپڑے میں ہو) اور پہچان رکھ بندھن اس کا، پھر ایک برس تک لوگوں سے اس کا حال کہا کر، اگر اس کا مالک مل جائے تو اس کو دے دے، نہیں تو لے لے۔“ پھر اس نے کہا: اگر کوئی بکری بہکی بھٹکی مل جائے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بکری تیرے کام میں آئے گی، یا تیرے بھائی کے، نہیں تو بھیڑیا کھا جائے گا۔“ پھر اس شخص نے کہا: اگر اونٹ بھولا بھٹکا ملے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اونٹ سے تجھے کیا کام، وہ تو اپنے ساتھ اپنا پانی رکھتا ہے، اور موزے رکھتا ہے، جہاں اس کو پانی مل جاتا ہے پی لیتا ہے، جو درخت ملتا ہے کھالیتا ہے، یہاں تک کہ مالک اس کا اس کو پا لیتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 91، 2372، 2427، 2428، 2429، 2436، 2438، 5292، 6112، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1722،وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4889، 4890، 4893، والنسائی فى «الكبریٰ» برقم: 5738، 5739، 5740، 5786، 5814، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1704،1705، 1706، 1707، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1372، 1373، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2504، 2507، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12175، 12176، والدارقطني فى «سننه» برقم: 4566، 4569، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17311، والحميدي فى «مسنده» برقم: 835، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 18601، 18602، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 22063، 37348، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 6066، 6067، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 4702، 4728، والطبراني فى «الكبير» برقم: 5237، 5238، والطبراني فى «الأوسط» برقم: 2496، 8380، 8685، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 46»
وحدثني مالك، عن ايوب بن موسى ، عن معاوية بن عبد الله بن بدر الجهني ، ان اباه اخبره، انه نزل منزل قوم بطريق الشام فوجد صرة فيها ثمانون دينارا، فذكرها لعمر بن الخطاب، فقال له عمر : " عرفها على ابواب المساجد، واذكرها لكل من ياتي من الشام سنة، فإذا مضت السنة فشانك بها" وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ أَيُّوبَ بْنِ مُوسَى ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بَدْرٍ الْجُهَنِيِّ ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ نَزَلَ مَنْزِلَ قَوْمٍ بِطَرِيقِ الشَّامِ فَوَجَدَ صُرَّةً فِيهَا ثَمَانُونَ دِينَارًا، فَذَكَرَهَا لِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ : " عَرِّفْهَا عَلَى أَبْوَابِ الْمَسَاجِدِ، وَاذْكُرْهَا لِكُلِّ مَنْ يَأْتِي مِنَ الشَّأْمِ سَنَةً، فَإِذَا مَضَتِ السَّنَةُ فَشَأْنَكَ بِهَا"
حضرت معاویہ بن عبداللہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ نے بیان کیا کہ انہوں نے شام کے راستے میں ایک منزل میں جہاں لوگ اتر چکے تھے، ایک تھیلی پائی جس مں اسّی (80) دینار تھے، انہوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، آپ رضی اللہ عنہ نے کہا: مسجدوں کے دروازوں پر لوگوں سے کہا کر، اور جو شخص شام سے آئے اس سے بیان کیا کر ایک برس تک، جب ایک برس گزر جائے پھر تجھ کو اختیار ہے۔
تخریج الحدیث: «موقوف حسن، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12090، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3818، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 18619، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 22083، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 118/12، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 47»
وحدثني وحدثني مالك، عن نافع ، ان رجلا وجد لقطة، فجاء إلى عبد الله بن عمر، فقال له: إني وجدت لقطة، فماذا ترى فيها؟ فقال له عبد الله بن عمر :" عرفها". قال: قد فعلت. قال:" زد". قال: قد فعلت. فقال عبد الله: " لا آمرك ان تاكلها، ولو شئت لم تاخذها" وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ لُقَطَةً، فَجَاءَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ: إِنِّي وَجَدْتُ لُقَطَةً، فَمَاذَا تَرَى فِيهَا؟ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ :" عَرِّفْهَا". قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ. قَالَ:" زِدْ". قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ. فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: " لَا آمُرُكَ أَنْ تَأْكُلَهَا، وَلَوْ شِئْتَ لَمْ تَأْخُذْهَا"
نافع سے روایت ہے کہ ایک شخص نے لقطہ پایا، اس کو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس لے آیا اور پوچھا: کیا کہتے ہو اس باب میں؟ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: لوگوں سے پوچھ اور بتا۔ اس نے کہا: میں پوچھ چکا اور بتا چکا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اور سہی۔ اس نے کہا: میں پوچھ چکا اور بتا چکا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں کبھی تجھ کو حکم نہ کروں گا اس کے کھانے کا، اگر تو چاہتا تو اس کو نہ لیتا۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12063، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3824، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 18623، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 22061، والشافعي فى «المسنده» برقم: 282/2، والشافعي فى «الاُم» برقم: 69/4، 226/7، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 48»