وحدثني وحدثني مالك، عن نافع ، ان رجلا وجد لقطة، فجاء إلى عبد الله بن عمر، فقال له: إني وجدت لقطة، فماذا ترى فيها؟ فقال له عبد الله بن عمر :" عرفها". قال: قد فعلت. قال:" زد". قال: قد فعلت. فقال عبد الله: " لا آمرك ان تاكلها، ولو شئت لم تاخذها" وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ رَجُلًا وَجَدَ لُقَطَةً، فَجَاءَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَقَالَ لَهُ: إِنِّي وَجَدْتُ لُقَطَةً، فَمَاذَا تَرَى فِيهَا؟ فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ :" عَرِّفْهَا". قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ. قَالَ:" زِدْ". قَالَ: قَدْ فَعَلْتُ. فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: " لَا آمُرُكَ أَنْ تَأْكُلَهَا، وَلَوْ شِئْتَ لَمْ تَأْخُذْهَا"
نافع سے روایت ہے کہ ایک شخص نے لقطہ پایا، اس کو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس لے آیا اور پوچھا: کیا کہتے ہو اس باب میں؟ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: لوگوں سے پوچھ اور بتا۔ اس نے کہا: میں پوچھ چکا اور بتا چکا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: اور سہی۔ اس نے کہا: میں پوچھ چکا اور بتا چکا۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: میں کبھی تجھ کو حکم نہ کروں گا اس کے کھانے کا، اگر تو چاہتا تو اس کو نہ لیتا۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12063، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3824، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 18623، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 22061، والشافعي فى «المسنده» برقم: 282/2، والشافعي فى «الاُم» برقم: 69/4، 226/7، فواد عبدالباقي نمبر: 36 - كِتَابُ الْأَقْضِيَةِ-ح: 48»
قال مالك: الامر عندنا في العبد يجد اللقطة فيستهلكها، قبل ان تبلغ الاجل الذي اجل في اللقطة وذلك سنة، انها في رقبته، إما ان يعطي سيده ثمن ما استهلك غلامه، وإما ان يسلم إليهم غلامه، وإن امسكها حتى ياتي الاجل الذي اجل في اللقطة ثم استهلكها، كانت دينا عليه. يتبع به، ولم تكن في رقبته، ولم يكن على سيده فيها شيء.قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِي الْعَبْدِ يَجِدُ اللُّقَطَةَ فَيَسْتَهْلِكُهَا، قَبْلَ أَنْ تَبْلُغَ الْأَجَلَ الَّذِي أُجِّلَ فِي اللُّقَطَةِ وَذَلِكَ سَنَةٌ، أَنَّهَا فِي رَقَبَتِهِ، إِمَّا أَنْ يُعْطِيَ سَيِّدُهُ ثَمَنَ مَا اسْتَهْلَكَ غُلَامُهُ، وَإِمَّا أَنْ يُسَلِّمَ إِلَيْهِمْ غُلَامَهُ، وَإِنْ أَمْسَكَهَا حَتَّى يَأْتِيَ الْأَجَلُ الَّذِي أُجِّلَ فِي اللُّقَطَةِ ثُمَّ اسْتَهْلَكَهَا، كَانَتْ دَيْنًا عَلَيْهِ. يُتْبَعُ بِهِ، وَلَمْ تَكُنْ فِي رَقَبَتِهِ، وَلَمْ يَكُنْ عَلَى سَيِّدِهِ فِيهَا شَيْءٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ غلام اگر لقطہ پائے اور اس کو خرچ کر ڈالے میعاد گزرنے سے پہلے، یعنی ایک برس سے پہلے تو وہ اس کے ذمہ رہے گا، اب جب اس کا مالک آئے تو غلام کا مولیٰ لقطے کی قیمت ادا کرے، یا غلام کو حوالے کر دے، اگر غلام نے میعاد گزرنے کے بعد اس کو صرف کیا تو وہ اس کے ذمے قرض رہے گا، جب آزاد ہو اس سے لے لے، فی الحال کچھ نہیں لے سکتا، نہ مولیٰ کو اس کا دینا لازم ہے۔