الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
کتاب: گروی رکھنے کے بیان میں
حدیث نمبر: 1474ب1
Save to word اعراب
قال: وسمعت مالكا، يقول: من استعان عبدا بغير إذن سيده في شيء له بال، ولمثله إجارة فهو ضامن لما اصاب العبد إن اصيب العبد بشيء، وإن سلم العبد فطلب سيده إجارته لما عمل فذلك لسيده، وهو الامر عندنا.قَالَ: وَسَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ: مَنِ اسْتَعَانَ عَبْدًا بِغَيْرِ إِذْنِ سَيِّدِهِ فِي شَيْءٍ لَهُ بَالٌ، وَلِمِثْلِهِ إِجَارَةٌ فَهُوَ ضَامِنٌ لِمَا أَصَابَ الْعَبْدَ إِنْ أُصِيبَ الْعَبْدُ بِشَيْءٍ، وَإِنْ سَلِمَ الْعَبْدُ فَطَلَبَ سَيِّدُهُ إِجَارَتَهُ لِمَا عَمِلَ فَذَلِكَ لِسَيِّدِهِ، وَهُوَ الْأَمْرُ عِنْدَنَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے دوسرے کے غلام سے بغیر اس کی اجازت کے کسی بڑے کام میں مدد لی جس کے واسطے نوکر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے یا مزدور بلانے کی، اور غلام میں کوئی عیب ہو گیا اس کا کام کرنے کی وجہ سے، تو اس پر ضمان لازم آئے گی، اور جو غلام صحیح وسالم رہا اور اس کے مولیٰ (مالک) نے مزدوری طلب کی تو مزدوری دینی پڑے گی۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 37 - كِتَابُ الْوَصِيَّةِ-ح: 7»
حدیث نمبر: 1474ب2
Save to word اعراب
قال: وسمعت مالكا يقول، في العبد يكون بعضه حرا وبعضه مسترقا: إنه يوقف ماله بيده، وليس له ان يحدث فيه شيئا، ولكنه ياكل فيه ويكتسي بالمعروف، فإذا هلك فماله للذي بقي له فيه الرق.قَالَ: وَسَمِعْتُ مَالِكًا يَقُولُ، فِي الْعَبْدِ يَكُونُ بَعْضُهُ حُرًّا وَبَعْضُهُ مُسْتَرَقًّا: إِنَّهُ يُوقَفُ مَالُهُ بِيَدِهِ، وَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُحْدِثَ فِيهِ شَيْئًا، وَلَكِنَّهُ يَأْكُلُ فِيهِ وَيَكْتَسِي بِالْمَعْرُوفِ، فَإِذَا هَلَكَ فَمَالُهُ لِلَّذِي بَقِيَ لَهُ فِيهِ الرِّقُّ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر غلام کا ایک حصّہ آزاد ہو اور کچھ رقیق (مملوک) تو مال اس کا اس کے پاس رہے گا، اس میں کوئی نیا کام نہیں کر سکتا، بلکہ بقدرِ ضرورت کھاتا پیتا ہے تو جب مر جائے گا تو وہ مال اس کو ملے گا جس کی ملک باقی تھی۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 37 - كِتَابُ الْوَصِيَّةِ-ح: 7»
حدیث نمبر: 1474ب3
Save to word اعراب
قال: وسمعت مالكا، يقول: الامر عندنا ان الوالد يحاسب ولده بما انفق عليه من يوم يكون للولد مال ناضا كان او عرضا، إن اراد الوالد ذلكقَالَ: وَسَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ: الْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّ الْوَالِدَ يُحَاسِبُ وَلَدَهُ بِمَا أَنْفَقَ عَلَيْهِ مِنْ يَوْمِ يَكُونُ لِلْوَلَدِ مَالٌ نَاضًّا كَانَ أَوْ عَرْضًا، إِنْ أَرَادَ الْوَالِدُ ذَلِكَ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس روز سے لڑکا مالدار ہو جائے، تو والد نے جو اس پر خرچ کیا ہو اس روز سے حساب کر کے اس سے مجرا لے سکتا ہے اگر چاہے، خواہ مال لڑکے کا نقد کی قسم سے ہو یا جنس کی قسم سے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 37 - كِتَابُ الْوَصِيَّةِ-ح: 7»
حدیث نمبر: 1475
Save to word اعراب
وحدثني وحدثني مالك، عن عمر بن عبد الرحمن بن دلاف المزني ، عن ابيه ، ان رجلا من جهينة كان يسبق الحاج فيشتري الرواحل فيغلي بها، ثم يسرع السير فيسبق الحاج، فافلس، فرفع امره إلى عمر بن الخطاب ، فقال:" اما بعد ايها الناس، فإن الاسيفع اسيفع جهينة، رضي من دينه وامانته بان يقال سبق الحاج، الا وإنه قد دان معرضا، فاصبح قد رين به، فمن كان له عليه دين فلياتنا بالغداة نقسم ماله بينهم وإياكم والدين، فإن اوله هم وآخره حرب" وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ دَلَافٍ الْمُزَنِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ جُهَيْنَةَ كَانَ يَسْبِقُ الْحَاجَّ فَيَشْتَرِي الرَّوَاحِلَ فَيُغْلِي بِهَا، ثُمَّ يُسْرِعُ السَّيْرَ فَيَسْبِقُ الْحَاجَّ، فَأَفْلَسَ، فَرُفِعَ أَمْرُهُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ:" أَمَّا بَعْدُ أَيُّهَا النَّاسُ، فَإِنَّ الْأُسَيْفِعَ أُسَيْفِعَ جُهَيْنَةَ، رَضِيَ مِنْ دِينِهِ وَأَمَانَتِهِ بِأَنْ يُقَالَ سَبَقَ الْحَاجَّ، أَلَا وَإِنَّهُ قَدْ دَانَ مُعْرِضًا، فَأَصْبَحَ قَدْ رِينَ بِهِ، فَمَنْ كَانَ لَهُ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَلْيَأْتِنَا بِالْغَدَاةِ نَقْسِمُ مَالَهُ بَيْنَهُمْ وَإِيَّاكُمْ وَالدَّيْنَ، فَإِنَّ أَوَّلَهُ هَمٌّ وَآخِرَهُ حَرْبٌ"
حضرت عمر بن عبدالرحمٰن بن دلاف مزنی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص قبیلہ جہینہ کا (اسیفع) سب حاجیوں سے آگے جا کر اچھے اچھے اونٹ مہنگے خرید کرتا تھا، اور جلدی چلا کرتا تھا تو سب حاجیوں سے پہلے پہنچتا تھا، ایک بار وہ مفلس ہو گیا اور اس کا مقدمہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، آپ رضی اللہ عنہ نے کہا: بعد حمد وصلوٰۃ کے، لوگوں کو معلوم ہو کہ اسیفع نے جو جہینہ کے قبیلے کا ہے، دین اور امانت میں بھی بات پسند کی کہ لوگ اس کو کہا کریں کہ وہ سب حاجیوں سے پہلے پہنچا۔ آگاہ رہو کہ اس نے قرض خریدا، ادا کرنے کا خیال نہ رکھا تو وہ مفلس ہو گیا، اور قرض نے اس کے مال کو لپیٹ لیا، تو جس شخص کا اس پر قرض آتا ہو وہ ہمارے پاس صبح کو آئے، ہم اس کا مال قرض خواہوں کو تقسیم کریں گے، تم لوگوں کو چاہیے کہ قرض لینے سے پرہیز کرو، قرض میں لیتے ہی رنج ہوتا ہے، اور آخر میں لڑائی ہوتی ہے۔

تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11265، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3640، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 22905، فواد عبدالباقي نمبر: 37 - كِتَابُ الْوَصِيَّةِ-ح: 8»
41. بَابُ مَا جَاءَ فِيمَا أَفْسَدَ الْعَبِيدُ أَوْ جَرَحُوا
41. غلام کسی کانقصان کریں یا کسی کو زخمی کریں تو کیا حکم ہے
حدیث نمبر: 1476Q1
Save to word اعراب
قال مالك: السنة عندنا في جناية العبيد. ان كل ما اصاب العبد من جرح جرح به إنسانا. او شيء اختلسه. او حريسة احترسها، او تمر معلق جذه او افسده او سرقة سرقها لا قطع عليه فيها، إن ذلك في رقبة العبد. لا يعدو ذلك الرقبة. قل ذلك او كثر فإن شاء سيده ان يعطي قيمة ما اخذ غلامه، او افسد او عقل ما جرح، اعطاه. وامسك غلامه وإن شاء ان يسلمه اسلمه، وليس عليه شيء غير ذلك فسيده في ذلك بالخيار.قَالَ مَالِكٌ: السُّنَّةُ عِنْدَنَا فِي جِنَايَةِ الْعَبِيدِ. أَنَّ كُلَّ مَا أَصَابَ الْعَبْدُ مِنْ جُرْحٍ جَرَحَ بِهِ إِنْسَانًا. أَوْ شَيْءٍ اخْتَلَسَهُ. أَوْ حَرِيسَةٍ احْتَرَسَهَا، أَوْ تَمْرٍ مُعَلَّقٍ جَذَّهُ أَوْ أَفْسَدَهُ أَوْ سَرِقَةٍ سَرَقَهَا لَا قَطْعَ عَلَيْهِ فِيهَا، إِنَّ ذَلِكَ فِي رَقَبَةِ الْعَبْدِ. لَا يَعْدُو ذَلِكَ الرَّقَبَةَ. قَلَّ ذَلِكَ أَوْ كَثُرَ فَإِنْ شَاءَ سَيِّدُهُ أَنْ يُعْطِيَ قِيمَةَ مَا أَخَذَ غُلَامُهُ، أَوْ أَفْسَدَ أَوْ عَقْلَ مَا جَرَحَ، أَعْطَاهُ. وَأَمْسَكَ غُلَامَهُ وَإِنْ شَاءَ أَنْ يُسْلِمَهُ أَسْلَمَهُ، وَلَيْسَ عَلَيْهِ شَيْءٌ غَيْرُ ذَلِكَ فَسَيِّدُهُ فِي ذَلِكَ بِالْخِيَارِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک غلام کی جنایت میں سنت یہ ہے کہ اگر غلام کسی شخص کو زخمی کرے، یا کسی کی چیز اڑا لے، یا کسی کا میوہ درخت سے کاٹ لے، یا چرا لے جس میں اس کا ہاتھ کاٹنا لازم نہ آئے تو غلام کا رقبہ (گردن، آزادی یا غلامی) اس میں پھنس جائے گا، تو مولیٰ (مالک) کو اختیار ہے، چاہے ان چیزوں کی قیمت یا زخم کی دیت ادا کرے اور اپنے غلام کو رکھ لے، چاہے اس غلام ہی کو صاحبِ جنایت کے حوالے کردے، غلام کی قیمت سے زیادہ مولیٰ (مالک) کو کچھ نہ دینا ہوگا، اگرچہ اس چیز کی قیمت یا دیت اس کی قیمت سے زیادہ ہو۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 37 - كِتَابُ الْوَصِيَّةِ-ح: 8ق»
42. بَابُ مَا يَجُوزُ مِنَ النُّحْلِ
42. اپنی اولاد کو جو دینا درست ہے اس کا بیان
حدیث نمبر: 1476
Save to word اعراب
عن سعيد بن المسيب، ان عثمان بن عفان، قال: من نحل ولدا له صغيرا لم يبلغ ان يحوز نحله فاعلن ذلك له. واشهد عليها. فهي جائزة. وإن وليها ابوه.
عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ، قَالَ: مَنْ نَحَلَ وَلَدًا لَهُ صَغِيرًا لَمْ يَبْلُغْ أَنْ يَحُوزَ نُحْلَهُ فَأَعْلَنَ ذَلِكَ لَهُ. وَأَشْهَدَ عَلَيْهَا. فَهِيَ جَائِزَةٌ. وَإِنْ وَلِيَهَا أَبُوهُ.
حضرت سعید بن مسیّب سے روایت ہے کہ سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جو شخص اپنے نابالغ لڑکے کو کوئی چیز ہبہ کرے تو درست ہے، جب کہ علانیہ دے اور اس پر گواہ کر دے، پھر اس کا ولی باپ ہی رہے گا۔ (وہی اس کی طرف سے اس شئے پر قابض رہے گا جب تک لڑکا بڑا ہو)۔

تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، أخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 12072، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم: 3783، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 16510، فواد عبدالباقي نمبر: 37 - كِتَابُ الْوَصِيَّةِ-ح: 9»
حدیث نمبر: 1476ب1
Save to word اعراب
قال مالك: الامر عندنا ان من نحل ابنا له صغيرا ذهبا او ورقا ثم هلك وهو يليه، إنه لا شيء للابن من ذلك إلا ان يكون الاب عزلها بعينها، او دفعها إلى رجل وضعها لابنه عند ذلك الرجل فإن فعل ذلك فهو جائز للابن. قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّ مَنْ نَحَلَ ابْنًا لَهُ صَغِيرًا ذَهَبًا أَوْ وَرِقًا ثُمَّ هَلَكَ وَهُوَ يَلِيهِ، إِنَّهُ لَا شَيْءَ لِلْابْنِ مِنْ ذَلِكَ إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْأَبُ عَزَلَهَا بِعَيْنِهَا، أَوْ دَفَعَهَا إِلَى رَجُلٍ وَضَعَهَا لِابْنِهِ عِنْدَ ذَلِكَ الرَّجُلِ فَإِنْ فَعَلَ ذَلِكَ فَهُوَ جَائِزٌ لِلْابْنِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ جو شخص اپنے نابالغ بچے کو سونا یا چاندی دے، پھر وہ بچہ مر جائے اور باپ ہی اس کا ولی تھا تو وہ مال اس بچے کا شمار نہ کیا جائے گا، اِلا جس صورت میں باپ نے اس مال کو جدا کر دیا ہو، یا کسی کے پاس رکھوایا ہو، تو وہ بیٹے کا ہوگا (اب وہ مال بیٹے کے سب وارثوں کو بموجب فرائض کے پہنچے گا)۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 37 - كِتَابُ الْوَصِيَّةِ-ح: 9»

Previous    8    9    10    11    12    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.