وحدثني وحدثني مالك، عن عمر بن عبد الرحمن بن دلاف المزني ، عن ابيه ، ان رجلا من جهينة كان يسبق الحاج فيشتري الرواحل فيغلي بها، ثم يسرع السير فيسبق الحاج، فافلس، فرفع امره إلى عمر بن الخطاب ، فقال:" اما بعد ايها الناس، فإن الاسيفع اسيفع جهينة، رضي من دينه وامانته بان يقال سبق الحاج، الا وإنه قد دان معرضا، فاصبح قد رين به، فمن كان له عليه دين فلياتنا بالغداة نقسم ماله بينهم وإياكم والدين، فإن اوله هم وآخره حرب" وَحَدَّثَنِي وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ دَلَافٍ الْمُزَنِيِّ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ جُهَيْنَةَ كَانَ يَسْبِقُ الْحَاجَّ فَيَشْتَرِي الرَّوَاحِلَ فَيُغْلِي بِهَا، ثُمَّ يُسْرِعُ السَّيْرَ فَيَسْبِقُ الْحَاجَّ، فَأَفْلَسَ، فَرُفِعَ أَمْرُهُ إِلَى عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ ، فَقَالَ:" أَمَّا بَعْدُ أَيُّهَا النَّاسُ، فَإِنَّ الْأُسَيْفِعَ أُسَيْفِعَ جُهَيْنَةَ، رَضِيَ مِنْ دِينِهِ وَأَمَانَتِهِ بِأَنْ يُقَالَ سَبَقَ الْحَاجَّ، أَلَا وَإِنَّهُ قَدْ دَانَ مُعْرِضًا، فَأَصْبَحَ قَدْ رِينَ بِهِ، فَمَنْ كَانَ لَهُ عَلَيْهِ دَيْنٌ فَلْيَأْتِنَا بِالْغَدَاةِ نَقْسِمُ مَالَهُ بَيْنَهُمْ وَإِيَّاكُمْ وَالدَّيْنَ، فَإِنَّ أَوَّلَهُ هَمٌّ وَآخِرَهُ حَرْبٌ"
حضرت عمر بن عبدالرحمٰن بن دلاف مزنی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص قبیلہ جہینہ کا (اسیفع) سب حاجیوں سے آگے جا کر اچھے اچھے اونٹ مہنگے خرید کرتا تھا، اور جلدی چلا کرتا تھا تو سب حاجیوں سے پہلے پہنچتا تھا، ایک بار وہ مفلس ہو گیا اور اس کا مقدمہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، آپ رضی اللہ عنہ نے کہا: بعد حمد وصلوٰۃ کے، لوگوں کو معلوم ہو کہ اسیفع نے جو جہینہ کے قبیلے کا ہے، دین اور امانت میں بھی بات پسند کی کہ لوگ اس کو کہا کریں کہ وہ سب حاجیوں سے پہلے پہنچا۔ آگاہ رہو کہ اس نے قرض خریدا، ادا کرنے کا خیال نہ رکھا تو وہ مفلس ہو گیا، اور قرض نے اس کے مال کو لپیٹ لیا، تو جس شخص کا اس پر قرض آتا ہو وہ ہمارے پاس صبح کو آئے، ہم اس کا مال قرض خواہوں کو تقسیم کریں گے، تم لوگوں کو چاہیے کہ قرض لینے سے پرہیز کرو، قرض میں لیتے ہی رنج ہوتا ہے، اور آخر میں لڑائی ہوتی ہے۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11265، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3640، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 22905، فواد عبدالباقي نمبر: 37 - كِتَابُ الْوَصِيَّةِ-ح: 8»
قال مالك: السنة عندنا في جناية العبيد. ان كل ما اصاب العبد من جرح جرح به إنسانا. او شيء اختلسه. او حريسة احترسها، او تمر معلق جذه او افسده او سرقة سرقها لا قطع عليه فيها، إن ذلك في رقبة العبد. لا يعدو ذلك الرقبة. قل ذلك او كثر فإن شاء سيده ان يعطي قيمة ما اخذ غلامه، او افسد او عقل ما جرح، اعطاه. وامسك غلامه وإن شاء ان يسلمه اسلمه، وليس عليه شيء غير ذلك فسيده في ذلك بالخيار.قَالَ مَالِكٌ: السُّنَّةُ عِنْدَنَا فِي جِنَايَةِ الْعَبِيدِ. أَنَّ كُلَّ مَا أَصَابَ الْعَبْدُ مِنْ جُرْحٍ جَرَحَ بِهِ إِنْسَانًا. أَوْ شَيْءٍ اخْتَلَسَهُ. أَوْ حَرِيسَةٍ احْتَرَسَهَا، أَوْ تَمْرٍ مُعَلَّقٍ جَذَّهُ أَوْ أَفْسَدَهُ أَوْ سَرِقَةٍ سَرَقَهَا لَا قَطْعَ عَلَيْهِ فِيهَا، إِنَّ ذَلِكَ فِي رَقَبَةِ الْعَبْدِ. لَا يَعْدُو ذَلِكَ الرَّقَبَةَ. قَلَّ ذَلِكَ أَوْ كَثُرَ فَإِنْ شَاءَ سَيِّدُهُ أَنْ يُعْطِيَ قِيمَةَ مَا أَخَذَ غُلَامُهُ، أَوْ أَفْسَدَ أَوْ عَقْلَ مَا جَرَحَ، أَعْطَاهُ. وَأَمْسَكَ غُلَامَهُ وَإِنْ شَاءَ أَنْ يُسْلِمَهُ أَسْلَمَهُ، وَلَيْسَ عَلَيْهِ شَيْءٌ غَيْرُ ذَلِكَ فَسَيِّدُهُ فِي ذَلِكَ بِالْخِيَارِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک غلام کی جنایت میں سنت یہ ہے کہ اگر غلام کسی شخص کو زخمی کرے، یا کسی کی چیز اڑا لے، یا کسی کا میوہ درخت سے کاٹ لے، یا چرا لے جس میں اس کا ہاتھ کاٹنا لازم نہ آئے تو غلام کا رقبہ (گردن، آزادی یا غلامی) اس میں پھنس جائے گا، تو مولیٰ (مالک) کو اختیار ہے، چاہے ان چیزوں کی قیمت یا زخم کی دیت ادا کرے اور اپنے غلام کو رکھ لے، چاہے اس غلام ہی کو صاحبِ جنایت کے حوالے کردے، غلام کی قیمت سے زیادہ مولیٰ (مالک) کو کچھ نہ دینا ہوگا، اگرچہ اس چیز کی قیمت یا دیت اس کی قیمت سے زیادہ ہو۔