عبدالعزیز بن محمد نے حمید کے واسطے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر اللہ تعالیٰ اسے بارآور نہ کرے تو تم میں سے کوئی اپنے بھائی کے مال کو کس بنیاد پر اپنے یے حلال سمجھے گا
امام صاحب ایک اور استاد کی سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
بشر بن حکم، ابراہیم بن دینار اور عبدالجبار بن علاء سے روایت ہے، الفاظ بشر کے ہیں، سب نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے حمید اعرج سے حدیث بیان کی، انہوں نے سلیمان بن عتیق سے اور انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آفات سے پہنچنے والے نقصان کی صورت میں (قیمت) ساقط کر دینے کا حکم دیا ہے۔ ابواسحاق ابراہیم نے، وہ امام مسلم کے شاگرد ہیں، کہا: مجھے عبدالرحمٰن بن بشر نے بھی سفیان سے یہی حدیث بیان کی
مجھے بہت سے اساتذہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی یہ حدیث سنائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازہ پر جھگڑنے والوں کی آواز سنی، جو بلند ہو رہی تھی، ان میں سے ایک دوسرے سے نقصان وضع کرنے کی استدعا کر رہا تھا، اور اس سے اصل رقم میں کچھ کمی کا مطالبہ کر رہا تھا اور دوسرا کہہ رہا تھا، اللہ کی قسم! میں یہ نہیں کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکل کر اس کے پاس آئے، اور فرمایا: ”کہاں ہے وہ جو اللہ کی قسم اٹھا رہا تھا، کہ میں نیکی اور بھلائی کا کام نہیں کروں گا؟“ اس نے کہا، میں ہوں، اے اللہ کے رسول! میں اس کی پسند کا کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔
حدثنا حرملة بن يحيى ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، حدثني عبد الله بن كعب بن مالك ، اخبره عن ابيه ، انه تقاضى ابن ابي حدرد دينا كان له عليه في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد، فارتفعت اصواتهما حتى سمعها رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في بيته، فخرج إليهما رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى كشف سجف حجرته ونادى كعب بن مالك، فقال: يا كعب، فقال: لبيك يا رسول الله، " فاشار إليه بيده ان ضع الشطر من دينك، قال كعب: قد فعلت يا رسول الله، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قم فاقضه ".حَدَّثَنَا حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، أَخْبَرَهُ عَنْ أَبِيهِ ، أَنَّهُ تَقَاضَى ابْنَ أَبِي حَدْرَدٍ دَيْنًا كَانَ لَهُ عَلَيْهِ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ، فَارْتَفَعَتْ أَصْوَاتُهُمَا حَتَّى سَمِعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي بَيْتِهِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَشَفَ سِجْفَ حُجْرَتِهِ وَنَادَى كَعْبَ بْنَ مَالِكٍ، فَقَالَ: يَا كَعْبُ، فَقَالَ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، " فَأَشَارَ إِلَيْهِ بِيَدِهِ أَنْ ضَعِ الشَّطْرَ مِنْ دَيْنِكَ، قَالَ كَعْبٌ: قَدْ فَعَلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قُمْ فَاقْضِهِ ".
لیث نے ہمیں بکیر سے حدیث بیان کی، انہوں نے عیاض بن عبداللہ سے اور انہوں نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی کا ان پھلوں میں نقصان ہو گیا جو اس نے خریدے تھے، اس کا قرض بڑھ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس پر صدقہ کرو۔" لوگوں نے اس پر صدقہ کیا لیکن وہ بھی قرض کی ادائیگی (جتنی مالیت) تک نہ پہنچا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قرض داروں سے فرمایا: "جو تمہیں مل جائے، وہ لے لو، تمہارے لیے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں
حضرت عبداللہ بن کعب بن مالک، اپنے باپ (کعب) سے بیان کرتے ہیں، کہ میں نے اپنا قرض جو ابن ابی حدرد رضی اللہ تعالی عنہ کے ذمہ تھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، اس کا اس سے مسجد میں مطالبہ کیا، ہم دونوں کی (تکرار کی وجہ سے) آوازیں بلند ہو گئیں، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر وہ سن لیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ان تک آنے کے لیے اپنے حجرہ کا پردہ اٹھایا اور کعب بن مالک کو آواز دی، فرمایا: ”اے کعب!“ اس نے کہا، حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول! تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے اسے اشارہ فرمایا، اپنا آدھا قرضہ چھوڑ دو، کعب نے عرض کیا، اے اللہ کے رسول! میں نے کر دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقروض کو فرمایا، ”اٹھ اور اس کا قرض ادا کر۔“
عمرو بن حارث نے بکیر بن اشج سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی
عبداللہ بن کعب بن مالک سے روایت ہے کہ اسے کعب بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ میں نے ابن ابی حدرد رضی اللہ تعالی عنہ سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا، آگے مذکورہ بالا حدیث ہے۔
عمرہ بنت عبدالرحمان (بن عوف) نے کہا: میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے ہوئے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازے کے پاس جھگڑا کرنے والوں کی آواز سنی، ان دونوں کی آوازیں بلند تھیں اور ان میں سے ایک دوسرے سے کچھ کمی کرنے کی اور کسی چیز میں نرمی کی درخواست کر رہا تھا اور وہ (دوسرا) کہہ رہا تھا: اللہ کی قسم! میں ایسا نہیں کروں گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کے پاس باہر تشریف لے گئے اور فرمانے لگے: "اللہ (کے نام) پر قسم اٹھانے والا کہاں ہے کہ وہ نیکی کا کام نہیں کرے گا؟" اس نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میں ہوں، اس شخص کے لیے وی صورت ہے جو یہ پسند کرے۔ (وہ فورا اپنے بھائی کا مطالبہ مان گیا
امام مسلم بیان کرتے ہیں کہ لیث بن سعد نے اپنی سند سے کعب بن مالک ؓ کی روایت بیان کی، کہ میرا، عبداللہ ابن ابی حدرد کے ذمے مال تھا، وہ مجھے مل گئے تو میں نے انہیں پکڑ لیا، دونوں میں تکرار ہوا، جس سے ان کی آوازیں بلند ہو گئیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے، اور فرمایا: ”اے کعب!“ آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ فرمایا، گویا کہ آپ فرما رہے ہیں، آدھ لے لو، تو انہوں نے آدھا قرضہ ان سے لے لیا اور آدھا چھوڑ دیا۔
عبداللہ بن وہب نے ہمیں خبر دی، کہا: مجھے یونس نے ابن شہاب سے خبر دی، کہا: مجھے عبداللہ بن کعب بن مالک نے حدیث بیان کی، انہوں نے اپنے والد سے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں، مسجد میں، ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے قرض کا مطالبہ کیا جو ان کے ذمے تھا تو ان کی آوازیں بلند ہو گئیں، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کے اندر ان کی آوازیں سنیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف گئے یہاں تک کہ آپ نے اپنے حجرے کا پردہ ہٹایا اور کعب بن مالک کو آواز دی: "کعب!" انہوں نے عرض کی: حاضر ہوں، اے اللہ کے رسول! آپ نے اپنے ہاتھ سے انہیں اشارہ کیا کہ اپنے قرض کا آدھا حصہ معاف کر دو۔ کعب نے کہا: اللہ کے رسول! کر دیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (دوسرے سے) فرمایا: "اٹھو اور اس کا قرض چکا دو
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا: ”جس نے اپنا ہو بہو مال اس انسان کے پاس پایا جو مفلس ہو چکا ہے یا اسے دیوالیہ قرار دے دیا گیا ہے، تو وہ دوسروں سے اس کا زیادہ حقدار ہے۔“
عثمان بن عمر نے ہمیں خبر دی، انہوں نے کہا: ہمیں یونس نے زہری سے خبر دی، انہوں نے عبداللہ بن کعب بن مالک سے روایت کی کہ انہیں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ انہوں نے ابن ابی حدرد رضی اللہ عنہ سے اپنے قرض کا مطالبہ کیا۔۔۔ (آگے) ابن وہب کی حدیث کی طرح ہے
امام صاحب پانچ سندوں سے سات اساتذہ سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں، صرف ابن رمح کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: ”جس انسان کو دیوالیہ قرار دیا گیا ہے۔“
عبدالرحمٰن بن ہُرمز نے عبداللہ بن کعب بن مالک سے اور انہوں نے حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ان کا کچھ مال عبداللہ بن ابی حدرد اسلمی رضی اللہ عنہ کے ذمے تھا۔ وہ انہیں ملے تو کعب رضی اللہ عنہ ان کے ساتھ لگ گئے، ان کی باہم تکرار ہوئی حتی کہ ان کی آوازیں بلند ہو گئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان سے پاس سے گزرا تو آپ نے فرمایا: "کعب!" پھر آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا، گویا آپ فرما رہے تھے کہ آدھا لے لو، چنانچہ انہوں نے اس مال میں سے جو اس (ابن ابی حدرد اسلمی رضی اللہ عنہ) کے ذمے تھا، آدھا لے لیا اور آدھا چھوڑ دیا
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ جو آدمی مال سے محروم ہو جاتا ہے، جب اس کے پاس ایسا سامان پایا جائے، جس میں اس نے تصرف نہیں کیا ہے، ”تو وہ اس کے اس مالک کا ہے، جس نے اسے فروخت کیا تھا۔“
زہیر بن حرب نے کہا: ہمیں یحییٰ بن سعید نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم نے خبر دی کہ انہیں عمر بن عبدالعزیز نے خبر دی، انہیں ابوبکر بن عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام نے بتایا کہ انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔ یا (اس طرح کہا:) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے۔۔: "جس نے اپنا مال جوں کا توں اس شخص کے پاس پایا جو مفلس ہو چکا ہے۔۔ یا اس انسان کے پاس جو مفلس ہو چکا ہے۔۔ تو وہ دوسروں کی نسبت اس (مال) کا زیادہ حق دار ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو انسان دیوالیہ ہو جائے، اور دوسرا انسان اسی کے پاس اپنا مال بعینہ پائے، تو وہی اس کا حقدار ہے۔“
یحییٰ بن یحییٰ نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ہشیم نے خبر دی، (اسی طرح) قتیبہ بن سعید اور محمد بن رمح دونوں نے لیث بن سعد سے روایت کی اور (اسی طرح) ابوربیع اور یحییٰ بن حبیب حارثی نے کہا: ہمیں حماد بن زید نے حدیث بیان کی۔ ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے حدیث سنائی۔ محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا: ہمیں عبدالوہاب، یحییٰ بن سعید (القطان) اور حفص بن غیاث، سب نے یحییٰ بن سعید سے، اسی سند کے ساتھ زہیر کی حدیث کے ہم معنی حدیث بیان کی، البتہ ان میں سے ابن رمح نے اپنی روایت میں کہا: "جس کسی آدمی کو مفلس قرار دیا گیا ہو
امام قتادہ کے دو شاگرد، مذکورہ بالا سند سے، مذکورہ بالا روایت میں یہ بیان کرتے ہیں کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ قرض خواہوں کے مقابلہ میں اس کا زیادہ حق دار ہے۔“