بشر بن حکم، ابراہیم بن دینار اور عبدالجبار بن علاء سے روایت ہے، الفاظ بشر کے ہیں، سب نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے حمید اعرج سے حدیث بیان کی، انہوں نے سلیمان بن عتیق سے اور انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آفات سے پہنچنے والے نقصان کی صورت میں (قیمت) ساقط کر دینے کا حکم دیا ہے۔ ابواسحاق ابراہیم نے، وہ امام مسلم کے شاگرد ہیں، کہا: مجھے عبدالرحمٰن بن بشر نے بھی سفیان سے یہی حدیث بیان کی
مجھے بہت سے اساتذہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی یہ حدیث سنائی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دروازہ پر جھگڑنے والوں کی آواز سنی، جو بلند ہو رہی تھی، ان میں سے ایک دوسرے سے نقصان وضع کرنے کی استدعا کر رہا تھا، اور اس سے اصل رقم میں کچھ کمی کا مطالبہ کر رہا تھا اور دوسرا کہہ رہا تھا، اللہ کی قسم! میں یہ نہیں کروں گا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے نکل کر اس کے پاس آئے، اور فرمایا: ”کہاں ہے وہ جو اللہ کی قسم اٹھا رہا تھا، کہ میں نیکی اور بھلائی کا کام نہیں کروں گا؟“ اس نے کہا، میں ہوں، اے اللہ کے رسول! میں اس کی پسند کا کام کرنے کے لیے تیار ہوں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3983
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: وضع سے مراد یہ ہے کہ اصل رقم میں کمی کردو، اور اس کا مطالبہ کرنے میں نرمی، اور سہولت سے کام لو، یایہ ہے جو مجھے نقصان ہو گیا ہے، اس کو چھوڑ دو اور جو باقی بچا ہے، اس کی قیمت بھی کم کر دو، جب فریقین کی آواز سن کر حضور تشریف لائے اور فرمایا، مقروض کا مطالبہ منظور نہ کرنے کی قسم اٹھانا، نیکی نہ کرنے کی قسم اٹھانا ہے، جومسلمان کے لیے زیبا نہیں ہے، تو حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ آپﷺ کی بات سمجھ گئے، اور عبداللہ بن ابی حدرد کا مطالبہ منظور کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے کہ وہ جو پسند کریں، میں وہی کرنے کے لیے تیار ہوں، پھر آپﷺ کے کہنے پر آدھا قرضہ معاف کر دیا، اس حدیث سے معلوم ہوا، مقروض، قرض خواہ سے قرض کے کل یا جز کی معافی کی درخواست کر سکتا ہے، اور اس کو معاف کر دینا پسندیدہ عمل ہے، اور اس سلسلہ میں سفارش کرنا بھی درست ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3983
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2705
2705. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے دروازے پر دو جھگڑنے والوں کی آوازیں سنیں جو بلند ہورہی تھیں۔ واقعہ یہ تھا کہ ان میں سے ایک دوسرے سے قرض میں کمی کرنے اور تقاضے میں کچھ نرمی برتنے کے لیے کہہ رہا تھا جبکہ دوسرا کہتاتھا کہ اللہ کی قسم!میں ایسا نہیں کروں گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: ”اس بات پر اللہ کی قسم اٹھانے والے صاحب کہاں ہیں جو کہتے ہیں کہ میں نیکی کاکام نہیں کروں گا؟“ قسم اٹھانے والے نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!میں موجود ہوں۔ اب میرا بھائی جو چاہتا ہے مجھے وہی پسند ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2705]
حدیث حاشیہ: آنحضرت ﷺ نے ہر دو میں صلح کا ارشاد فرمایا، اسی سے مقصد باب ثابت ہوا۔ حافظ ؒنے کہا، ان لوگوں کے نام معلوم نہیں ہوئے۔ ترجمہ باب اس سے نکلتا ہے کہ آپ نے اس شخص کو پوچھا تھا وہ کہاں ہے جو اچھی بات نہ کرنے کے لیے قسم کھارہا تھا۔ گویا آپ نے اس کے فعل کو برا سمجھا اور صلح کا اشارہ کیا۔ وہ سمجھ گیا اور آپ کے پوچھتے ہی خود بخود کہنے لگا میرا مقروض جو چاہے وہ مجھ کو منظور ہے۔ اس شخص نے آنحضرت ﷺ کے ادب و احترام میں فوراً ہی آپ کا اشارہ پاکر مقروض کے قرض میں تخفیف کا اعلان کردیا۔ بڑوں کے احترام میں انسان اپنا کچھ نقصان بھی برداشت کرلے تو بہتر ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 2705
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2705
2705. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے دروازے پر دو جھگڑنے والوں کی آوازیں سنیں جو بلند ہورہی تھیں۔ واقعہ یہ تھا کہ ان میں سے ایک دوسرے سے قرض میں کمی کرنے اور تقاضے میں کچھ نرمی برتنے کے لیے کہہ رہا تھا جبکہ دوسرا کہتاتھا کہ اللہ کی قسم!میں ایسا نہیں کروں گا، چنانچہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: ”اس بات پر اللہ کی قسم اٹھانے والے صاحب کہاں ہیں جو کہتے ہیں کہ میں نیکی کاکام نہیں کروں گا؟“ قسم اٹھانے والے نے عرض کیا: اللہ کے رسول ﷺ!میں موجود ہوں۔ اب میرا بھائی جو چاہتا ہے مجھے وہی پسند ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:2705]
حدیث حاشیہ: (1) رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا: ”وہ کہاں ہے جو اچھی بات نہ کرنے کے لیے قسم اٹھا رہا تھا؟“ گویا آپ ﷺ نے اس فعل کو برا خیال کیا اور اسے صلح کا مشورہ دیا۔ وہ آپ کے اشارے کو سمجھ گیا اور خود بہ خود کہنے لگا: میرا مقروض جو چاہے مجھے منظور ہے۔ (2) امام بخاری ؒ کا مقصد یہ ہے کہ حاکم ایسے فیصلے کا حکم دے سکتا ہے جس میں فریقین کی بھلائی ہو اگرچہ کسی کے حق ادائیگی میں دیر ہو جائے بشرطیکہ اس کا زیادہ نقصان نہ ہو۔ اگر فریق ثانی راضی نہ ہو تو حاکم مقروض کو پورا حق ادا کرنے کا حکم دیا، چنانچہ صاحب واقعہ نے رسول اللہ ﷺ کا ادب و احترام کرتے ہوئے آپ کا اشارہ پا کر مقروض کے قرض میں کمی کا اعلان کر دیا۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 2705