لیث نے ہمیں ابوزبیر سے خبر دی، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ام مبشر انصاریہ رضی اللہ عنہا کے ہاں ان کے نخلستان میں تشریف لے گئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "یہ کھجور کے درخت کس نے لگائے ہیں، کسی مسلمان نے یا کافر نے؟" انہوں نے عرض کی: بلکہ مسلمان نے۔ تو آپ نے فرمایا: "جو مسلمان درخت لگاتا ہے یا کاشت کاری کرتا ہے، پھر اس میں سے انسان، چوپایہ یا کوئی بھی (جانور) کھاتا ہے تو وہ اس کے لیے صدقہ ہوتا ہے
امام صاحب نے مذکورہ بالا روایت چار مختلف سندوں سے بیان کی ہے، کسی نے جابر کے بعد عمار کا نام لیا، اور کسی نے ابی معاویہ کا، ان دونوں نے عن ام مبشر کہا، لیکن ابن فضیل نے عن امرأة زيد بن حارثه:
محمد بن حاتم اور ابن ابی خلف نے مجھے حدیث بیان کی، دونوں نے کہا: ہمیں رَوح نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں ابن جریج نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابوزبیر نے خبر دی کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے: "جو بھی مسلمان آدمی درخت لگاتا ہے اور کاشت کاری کرتا ہے، پھر اس سے کوئی جنگلی جانور، پرندہ یا کوئی بھی کھائے تو اس کے لیے اس میں اجر ہے۔" ابن ابی خلف نے (یا کے بغیر) "پرندہ کوئی چیز" کہا
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو مسلمان کوئی درخت لگاتا ہے، یا اناج بوتا ہے اور اس سے کوئی پرندہ یا انسان یا چوپایہ یا مویشی کھاتا ہے، تو اس کے سبب اسے اجر و ثواب ملتا ہے، (ان کا کھانا، اس کے لیے صدقہ بنتا ہے۔)“
وحدثنا عبد بن حميد ، حدثنا مسلم بن إبراهيم ، حدثنا ابان بن يزيد ، حدثنا قتادة ، حدثنا انس بن مالك : ان نبي الله صلى الله عليه وسلم دخل نخلا لام مبشر امراة من الانصار، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من غرس هذا النخل، امسلم ام كافر؟ "، قالوا: مسلم، بنحو حديثهم.وحَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا أَبَانُ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ : أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ نَخْلًا لِأُمِّ مُبَشِّرٍ امْرَأَةٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ غَرَسَ هَذَا النَّخْلَ، أَمُسْلِمٌ أَمْ كَافِرٌ؟ "، قَالُوا: مُسْلِمٌ، بِنَحْوِ حَدِيثِهِمْ.
مجھے عمرو بن دینار نے بتایا کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم ام معبد رضی اللہ عنہا (خلیدہ، حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ، ان کی دوسری کنیت ام مبشر بھی تھی) کے پاس باغ میں تشریف لے گئے تو آپ نے پوچھا: "ام معبد! یہ کھجور کے درخت کس نے لگائے ہیں، کسی مسلمان نے یا کافر نے؟" انہوں نے عرض کی: بلکہ مسلمان نے۔ آپ نے فرمایا: "جو بھی مسلمان درخت لگاتا ہے، پھر اس میں سے کوئی انسان، چوپایہ اور پرندہ نہیں کھاتا مگر وہ اس کے لیے قیامت کے دن تک صدقہ ہوتا ہے
حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری عورت ام مبشر ؓ کے باغ میں تشریف لے گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: "یہ کھجور کے درخت کس نے لگائے ہیں؟ کیا مسلمان نے یا کافر نے؟" انہوں (ام مبشر) نے کہا مسلمان نے، آگے مذکورہ بالا روایت ہے۔
ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں حفص بن غیاث نے حدیث بیان کی، نیز ابوکریب اور اسحاق بن ابراہیم نے ابومعاویہ سے روایت کی، اور عمرو ناقد نے کہا: ہمیں عمار بن محمد نے حدیث بیان کی، نیز ابوبکر بن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں ابن فُضیل نے حدیث بیان کی، ان سب (حفص، ابومعاویہ، عمار اور ابن فضیل) نے اعمش سے، انہوں نے ابوسفیان (واسطی) سے اور انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی۔ عمرو (ناقد) نے عمار سے روایت کردہ روایت میں اور ابوکریب نے ابومعاویہ سے روایت کردہ اپنی روایت میں کہا: ام مبشر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے۔ ابن فضیل کی روایت میں ہے: زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کی بیوی سے روایت ہے، ابومعاویہ سے اسحاق کی روایت میں ہے، انہوں نے کہا: کبھی انہوں نے (ابومعاویہ) نے کہا: ام مبشر نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی اور بسا اوقات انہوں نے (ام مبشر) نہیں کہا۔ ان سب نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت ہے۔۔۔ (آگے) عطاء، اور ابوزبیر اور عمرو بن دینار کی حدیث (3968-3971) کی طرح ہے
امام صاحب اپنے دو اساتذہ کی سند سے ابن جریج کے واسطہ سے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت بیان کرتے ہیں، ایک استاد کہتے ہیں، إن بعت
ابوعوانہ نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی مسلمان نہیں جو درخت لگائے یا کاشت کاری کرے، پھر اس سے کوئی پرندہ، انسان یا چوپایہ کھائے مگر اس کے بدلے میں اس کے لیے صدقہ ہو گا
امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
ابان بن یزید نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں قتادہ نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انصار کی ایک عورت ام مبشر رضی اللہ عنہا کے نخلستان میں داخل ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ کھجور کے درخت کس نے لگائے ہیں، کسی مسلمان نے یا کسی کافر نے؟" ان لوگوں نے کہا: مسلمان نے۔۔۔ (آگے) ان سب کی حدیث کی طرح ہے
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھجوروں کا پھل رنگت کی تبدیلی سے پہلے فروخت کرنے سے منع فرمایا، ہم نے انس رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا، ذهو سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے جواب دیا، سرخ و زرد رنگ ہونا، بتاؤ، اگر اللہ تعالیٰ نے پھل سے محروم کر دیا، تو اپنے بھائی کا مال تمہارے لیے کیسے حلال ہو گیا؟
حدثني ابو الطاهر ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني مالك ، عن حميد الطويل ، عن انس بن مالك : ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نهى عن بيع الثمرة حتى تزهي "، قالوا: وما تزهي؟ قال: تحمر، فقال: إذا منع الله الثمرة، فبم تستحل مال اخيك؟.حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي مَالِكٌ ، عَنْ حُمَيْدٍ الطَّوِيلِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ : أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَى عَنْ بَيْعِ الثَّمَرَةِ حَتَّى تُزْهِيَ "، قَالُوا: وَمَا تُزْهِيَ؟ قَالَ: تَحْمَرُّ، فَقَالَ: إِذَا مَنَعَ اللَّهُ الثَّمَرَةَ، فَبِمَ تَسْتَحِلُّ مَالَ أَخِيكَ؟.
ابن وہب نے ہمیں ابن جریج سے خبر دی کہ ابوزبیر نے انہیں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم نے اپنے بھائی کو پھل بیچا ہے۔" نیز ابوضمرہ نے ہمیں ابن جریج سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابوزبیر سے روایت کی کہ انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر تم اپنے بھائی کو پھل بیچو اور وہ کسی قدرتی آفات کا شکار ہو جائے تو تمہارے لیے حلال نہیں کہ تم اس سے کچھ وصول کرو۔ تم ناحق اپنے بھائی کا مال کس بنا پر وصول کرو گے
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زهو
ابوعاصم نے ابن جریج سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اللہ تعالیٰ نے پھل نہ لگایا تو تم اپنے بھائی کے مال کو اپنے لیے کیسے حلال قرار دو گے۔“
اسماعیل بن جعفر نے حمید سے اور انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رنگ بدلنے تک کھجور کا پھل بیچنے سے منع فرمایا۔ ہم نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: اس کے رنگ بدلنے (زھو) سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے کہا: وہ سرخ ہو جائے اور زرد ہو جائے، تمہاری کیا رائے ہے اگر اللہ تعالیٰ نے پھل روک دیا، تو تم کس بنیاد پر اپنے بھائی کا مال اپنے لیے حلال سمجھو گے
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے آفات سے پہنچنے والے نقصان کو وضع کرنے کا حکم دیا۔
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن بكير ، عن عياض بن عبد الله ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: اصيب رجل في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في ثمار ابتاعها، فكثر دينه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تصدقوا عليه "، فتصدق الناس عليه، فلم يبلغ ذلك وفاء دينه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لغرمائه: " خذوا ما وجدتم وليس لكم إلا ذلك ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ بُكَيْرٍ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: أُصِيبَ رَجُلٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثِمَارٍ ابْتَاعَهَا، فَكَثُرَ دَيْنُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَصَدَّقُوا عَلَيْهِ "، فَتَصَدَّقَ النَّاسُ عَلَيْهِ، فَلَمْ يَبْلُغْ ذَلِكَ وَفَاءَ دَيْنِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِغُرَمَائِهِ: " خُذُوا مَا وَجَدْتُمْ وَلَيْسَ لَكُمْ إِلَّا ذَلِكَ ".
امام مالک نے حمید الطویل سے اور انہوں نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رنگ پکڑنے سے پہلے پھل کی بیع سے منع فرمایا۔ لوگوں نے پوچھا: رنگ پکڑنے سے کیا مراد ہے؟ انہوں نے جواب دیا: وہ سرخ ہو جائے اور کہا: جب اللہ تعالیٰ پھلوں سے محروم کر دے تو تم کس بنیاد پر اپنے بھائی کا مال اپنے لیے حلال سمجھو گے
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک آدمی کو ان پھلوں کی بنا پر جو اس نے خریدے تھے، نقصان پہنچ گیا اور اس پر کافی قرض چڑھ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو صدقہ دو۔“ تو لوگوں نے اس کو صدقہ دیا، اور اس سے اس کا قرض ادا نہ ہو سکا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے قرض خواہوں سے فرمایا: ”جو تم نے پا لیا ہے وہ لے لو، اور تمہارے لیے بس یہی ہے۔“