ابوعوانہ نے قتادہ سے اور انہوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کوئی مسلمان نہیں جو درخت لگائے یا کاشت کاری کرے، پھر اس سے کوئی پرندہ، انسان یا چوپایہ کھائے مگر اس کے بدلے میں اس کے لیے صدقہ ہو گا
امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3976
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: جائحة جمع جوائح: قدرتی آفت جو پھل کو تباہ و برباد کر دے۔ فوائد ومسائل: وہ باغ جس کا پھل فروخت کیا گیاہے، اور پھل آفت کے نتیجہ میں ضائع ہو گیا ہے، اس کی مندرجہ ذیل صورت ہیں: (ا) پھل پکنے کی صلاحیت کے ظاہر ہونے کے بعد پکانے کے لیے فروخت کیا گیا تھا، پھر وہ آفت کا شکار ہو گیا، تو اس صورت میں بالاتفاق، بائع، مشتری سے قیمت وصول نہیں کرسکتا، کیونکہ بالاتفاق یہ بیع باطل اور ناجائزہے، کالعدم ہے۔ (ب) باغ کا پھل اس شرط پر فروخت کیا گیا کہ اس کو فورا توڑ لینا ہے، درختوں پر پکانا نہیں ہے، بدوصلاح سے چاہے پہلے فروخت کیا گیا، یا بعد میں، لیکن ابھی مشتری کو قبضہ نہیں دیا گیا تھا کہ وہ آفت کا شکار ہو گیا، اس صورت میں بھی بالا تفاق فروخت کرنے والا ذمہ دار ہے، وہ قیمت وصول نہیں کر سکتا، ہاں اگر مشتری کو قبضہ دے دیا، اور کہا اپناپھل فوراً توڑ لے، لیکن اس نے لیت ولعل سے کام لیا، (آج توڑتا ہوں، کل توڑلوں گا) اور وقت گزرتا گیا، اور باغ آفت کا شکار ہو گیا، تو اس صورت میں بالاتفاق مشتری ذمہ دار ہے، اسے قیمت ادا کرنی ہو گی۔ (ج) باغ فروخت کیا، (بدوصلاح سے پہلے یا بعد) اور پھل توڑنے کے قابل ہو گیا، لیکن توڑنے سے پہلے آفت کا شکار ہو گیا، اس صورت میں مشتری ذمہ دار ہے، اور بالاتفاق بائع اس سے قیمت وصول کر سکتا ہے، اگر وہ چھوڑ دیتا ہے، یا کم کر دیتا ہے تو یہ اس کی نیکی اور احسان ہوگا، اس پر لازم نہیں ہے۔ (د) باغ بدو صلاح کے بعد فروخت کیا ہے، توڑنے یا پکانے کی شرط نہیں لگائی، اور مشتری کے حوالہ کر دیا، پھر وہ آفت کا شکار ہو گیا، اس میں ائمہ کا اختلاف ہے، (1) جمہور سلف، امام ابو حنیفہ، امام لیث بن سعد، اور امام شافعی کا قول جدید اور امام داؤد کا یہی موقف ہے کہ اس صورت میں مشتری ذمہ دار ہے۔ (2) اہل مدینہ، امام مالک اور یحیٰ بن سعید انصاری کے نزدیک، اگر مال پھل کا تہائی حصہ یا اس سے کم ضائع ہواہے تو مشتری ذمہ دار ہے، اور اگر ایک تہائی سے زائد نقصان ہوا ہے، تو پھر بائع ذمہ دار ہے۔ (3) جتنا پھل ضائع ہواہے، الا یہ کہ معمولی ہو، اس کا ذمہ دار مالک ہے، امام احمد، ابو عبید اور امام شافعی کا قول قدیم یہی ہے، مسلمان کی ہمدردی اور خیرخواہی کا تقاضا یہی ہے، لیکن اس کی ترغیب اور تحریص ہی دلائی جاسکتی ہے، اس کو لازم یا فرض قرار نہیں دیا جا سکتا۔