الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا
The Book of Musaqah
19. باب لَعْنِ آكِلِ الرِّبَا وَمُؤْكِلِهِ:
19. باب: سود کھانے اور کھلانے والے پر لعنت۔
Chapter: Cursing the one who consumes Riba and the one who pays it
حدیث نمبر: 4092
Save to word اعراب
حدثنا عثمان بن ابي شيبة ، وإسحاق بن إبراهيم واللفظ لعثمان، قال إسحاق: اخبرنا، وقال عثمان، حدثنا جرير ، عن مغيرة ، قال: سال شباك إبراهيم فحدثنا، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: " لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ومؤكله "، قال: قلت: وكاتبه وشاهديه، قال: إنما نحدث بما سمعنا.حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَاللَّفْظُ لِعُثْمَانَ، قَالَ إِسْحَاق: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ عُثْمَانُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، قَالَ: سَأَلَ شِبَاكٌ إِبْرَاهِيمَ فَحَدَّثَنَا، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ "، قَالَ: قُلْتُ: وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ، قَالَ: إِنَّمَا نُحَدِّثُ بِمَا سَمِعْنَا.
) علقمہ نے حضرت عبداللہ (بن مسعود رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے اور کھلانے والے پر لعنت کی۔ کہا: میں نے پوچھا: اس کے لکھنے والے اور دونوں گواہوں پر بھی؟ انہوں نے کہا: ہم صرف وہ حدیث بیان کرتے ہیں جو ہم نے سنی ہے۔
حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے پر، اور سود کھلانے والے پر لعنت بھیجی ہے، علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا، اور سودی معاملہ لکھنے والے پر اور اس کے گواہوں پر؟ تو انہوں نے (عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ نے) کہا، ہم اتنی ہی بات بیان کرتے ہیں، جو ہم نے سنی ہے۔
حدیث نمبر: 4093
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن الصباح ، وزهير بن حرب ، وعثمان بن ابي شيبة ، قالوا: حدثنا هشيم ، اخبرنا ابو الزبير ، عن جابر ، قال: " لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا ومؤكله وكاتبه وشاهديه وقال: هم سواء ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا أَبُو الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: " لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ آكِلَ الرِّبَا وَمُؤْكِلَهُ وَكَاتِبَهُ وَشَاهِدَيْهِ وَقَالَ: هُمْ سَوَاءٌ ".
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے، کھلانے والے، لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا: (گناہ میں) یہ سب برابر ہیں۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود لینے والے پر، سود دینے والے پر، یہ معاملہ لکھنے والے پر، اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت بھیجی ہے، اور فرمایا، یہ سب برابر ہیں۔
20. باب أَخْذِ الْحَلاَلِ وَتَرْكِ الشُّبُهَاتِ:
20. باب: حلال کو حاصل کرنے اور شبہ والی اشیاء کو چھوڑنے کا بیان۔
Chapter: Taking that which is lawful and leaving that which is unclear
حدیث نمبر: 4094
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير الهمداني ، حدثنا ابي ، حدثنا زكرياء ، عن الشعبي ، عن النعمان بن بشير ، قال: سمعته يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " واهوى النعمان بإصبعيه إلى اذنيه، إن الحلال بين وإن الحرام بين، وبينهما مشتبهات لا يعلمهن كثير من الناس، فمن اتقى الشبهات استبرا لدينه وعرضه، ومن وقع في الشبهات وقع في الحرام كالراعي يرعى حول الحمى يوشك ان يرتع فيه، الا وإن لكل ملك حمى، الا وإن حمى الله محارمه، الا وإن في الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد كله، وإذا فسدت فسد الجسد كله الا وهي القلب "،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " وَأَهْوَى النُّعْمَانُ بِإِصْبَعَيْهِ إِلَى أُذُنَيْهِ، إِنَّ الْحَلَالَ بَيِّنٌ وَإِنَّ الْحَرَامَ بَيِّنٌ، وَبَيْنَهُمَا مُشْتَبِهَاتٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ، فَمَنِ اتَّقَى الشُّبُهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ، وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ وَقَعَ فِي الْحَرَامِ كَالرَّاعِي يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يَرْتَعَ فِيهِ، أَلَا وَإِنَّ لِكُلِّ مَلِكٍ حِمًى، أَلَا وَإِنَّ حِمَى اللَّهِ مَحَارِمُهُ، أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ "،
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنی دو انگلیاں اپنے دونوں کانوں کی طرف اٹھاتے ہوئے کہا، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: حلال واضح ہے، اور حرام واضح ہے، اور ان کے درمیان کچھ شبہ والی چیزیں ہیں، جن کو بہت لوگ نہیں (یعنی ان کے حکم کو) جانتے (کہ حلال ہیں یا حرام) تو جو انسان مشتبہ یا شبہ والی چیزوں سے بچ گیا، اس نے دپنے دین اور اپنی عزت کو بچا لیا، اور جو شبہ والی چیزوں میں پڑ گیا، وہ حرام میں مبتلا ہو گا، اس چرواہے کی طرح جو چراگاہ کے آس پاس جانور چراتا ہے، قریب ہے وہ اس میں ڈال لے یا اس میں گھس جائے، خبردار ہر بادشاہ کی ایک چراگاہ ہے، خبردار، اللہ تعالیٰ کی چراگاہ، اس کی زمین میں، اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں اور سنو، بدن انسانی میں گوشت کا ایک ٹکڑا ہے، جب وہ درست ہو گیا، تو سارا بدن ٹھیک ہو گیا، سنور گیا، اور جب وہ بگڑ گیا، تو پورا جسم بگڑ گیا، سنو! وہ ٹکڑا دل ہے۔
حدیث نمبر: 4095
Save to word اعراب
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة، حدثنا وكيع . ح وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا عيسى بن يونس ، قالا: حدثنا زكرياء بهذا الإسناد مثله،وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ . ح وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ،
وکیع اور عیسیٰ بن یونس نے زکریا سے اسی سند کے ساتھ اسی کی مانند حدیث بیان کی۔
امام صاحب اپنے تین اور اساتذہ کی سند سے زکریا کی سند سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 4096
Save to word اعراب
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا جرير ، عن مطرف ، وابى فروة الهمداني . ح وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا يعقوب يعني ابن عبد الرحمن القاري ، عن ابن عجلان ، عن عبد الرحمن بن سعيد كلهم، عن الشعبي ، عن النعمان بن بشير ، عن النبي صلى الله عليه وسلم بهذا الحديث غير ان حديث زكرياء اتم من حديثهم واكثر،وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، وَأَبِى فَرْوَةَ الهمداني . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيَّ ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعِيدٍ كُلُّهُمْ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِهَذَا الْحَدِيثِ غَيْرَ أَنَّ حَدِيثَ زَكَرِيَّاءَ أَتَمُّ مِنْ حَدِيثِهِمْ وَأَكْثَرُ،
امام صاحب اپنے دو اور اساتذہ کی سند سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، لیکن زکریاء کی روایت زیادہ کامل اور زائد ہے۔
حدیث نمبر: 4097
Save to word اعراب
حدثنا عبد الملك بن شعيب بن الليث بن سعد ، حدثني ابي ، عن جدي ، حدثني خالد بن يزيد ، حدثني سعيد بن ابي هلال ، عن عون بن عبد الله ، عن عامر الشعبي : انه سمع نعمان بن بشير بن سعد صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يخطب الناس بحمص وهو يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " الحلال بين، والحرام بين " فذكر بمثل حديث زكرياء عن الشعبي إلى قوله يوشك ان يقع فيه.حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ بْنِ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي خَالِدُ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ أَبِي هِلَالٍ ، عَنْ عَوْنِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ : أَنَّهُ سَمِعَ نُعْمَانَ بْنَ بَشِيرِ بْنِ سَعْدٍ صَاحِبَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ النَّاسَ بِحِمْصَ وَهُوَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " الْحَلَالُ بَيِّنٌ، وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ " فَذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ زَكَرِيَّاءَ عَنْ الشَّعْبِيِّ إِلَى قَوْلِهِ يُوشِكُ أَنْ يَقَعَ فِيهِ.
امام عامر شعبی بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی نعمان بن بشیر بن سعد رضی اللہ تعالی عنہ سے حمص میں خطبہ دیتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے، حلال واضح ہے اور حرام واضح ہے، آگے زکریا کی امام شعبی سے يُوشِكُ أَنْ يَقَعَ فِيهِ،
21. باب بَيْعِ الْبَعِيرِ وَاسْتِثْنَاءِ رُكُوبِهِ:
21. باب: اونٹ کا بیچنا اور سواری کی شرط کر لینا۔
Chapter: Selling Camels and Stipulating that one may ride them
حدیث نمبر: 4098
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا زكرياء ، عن عامر ، حدثني جابر بن عبد الله " انه كان يسير على جمل له قد اعيا، فاراد ان يسيبه، قال: فلحقني النبي صلى الله عليه وسلم، فدعا لي وضربه، فسار سيرا لم يسر مثله، قال: بعنيه بوقية، قلت: لا، ثم قال: بعنيه فبعته بوقية واستثنيت عليه حملانه إلى اهلي، فلما بلغت اتيته بالجمل، فنقدني ثمنه ثم رجعت، فارسل في اثري، فقال: اتراني ماكستك لآخذ جملك، خذ جملك ودراهمك فهو لك "،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ ، عَنْ عَامِرٍ ، حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ " أَنَّهُ كَانَ يَسِيرُ عَلَى جَمَلٍ لَهُ قَدْ أَعْيَا، فَأَرَادَ أَنْ يُسَيِّبَهُ، قَالَ: فَلَحِقَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَا لِي وَضَرَبَهُ، فَسَارَ سَيْرًا لَمْ يَسِرْ مِثْلَهُ، قَالَ: بِعْنِيهِ بِوُقِيَّةٍ، قُلْتُ: لَا، ثُمَّ قَالَ: بِعْنِيهِ فَبِعْتُهُ بِوُقِيَّةٍ وَاسْتَثْنَيْتُ عَلَيْهِ حُمْلَانَهُ إِلَى أَهْلِي، فَلَمَّا بَلَغْتُ أَتَيْتُهُ بِالْجَمَلِ، فَنَقَدَنِي ثَمَنَهُ ثُمَّ رَجَعْتُ، فَأَرْسَلَ فِي أَثَرِي، فَقَالَ: أَتُرَانِي مَاكَسْتُكَ لِآخُذَ جَمَلَكَ، خُذْ جَمَلَكَ وَدَرَاهِمَكَ فَهُوَ لَكَ "،
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے ایک اونٹ پر سفر کر رہے تھے، جو چلتے چلتے تھک چکا تھا، تو میں نے چاہا کہ اس کو چھوڑ دوں، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آ ملے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے حق میں دعا کی اور اسے مارا، تو وہ اس قدر تیز چلنے لگا، اس قدر تیز کبھی نہیں چلا تھا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے یہ ایک اوقیہ میں بیچ دو، میں نے کہا، نہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا، یہ مجھے بیچ دو۔ تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو وہ ایک اوقیہ میں بیچ دیا، اور میں نے اپنے گھر تک اس پر سوار ہونے کو مستثنیٰ کر لیا، تو میں جب گھر پہنچ گیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں اونٹ لے کر حاضر ہوا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی قیمت نقد ادا کر دی، پھر میں واپس پلٹا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پیچھے آدمی بھیجا، اور فرمایا، کیا تم میرے بارے میں یہ سمجھتے ہو کہ میں نے تیرا اونٹ لینے کے لیے تمہیں کم قیمت لگائی ہے؟ اپنا اونٹ اور اپنے دراہم لے لو، وہ تیرے ہی ہیں۔
حدیث نمبر: 4099
Save to word اعراب
وحدثناه علي بن خشرم ، اخبرنا عيسى يعني ابن يونس ، عن زكرياء ، عن عامر ، حدثني جابر بن عبد الله بمثل حديث ابن نمير.وحَدَّثَنَاه عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى يَعْنِي ابْنَ يُونُسَ ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ ، عَنْ عَامِرٍ ، حَدَّثَنِي جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ نُمَيْرٍ.
امام صاحب ایک اور استاد سے مذکورہ بالا روایت بیان کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 4100
Save to word اعراب
حدثنا عثمان بن ابي شيبة ، وإسحاق بن إبراهيم واللفظ لعثمان، قال إسحاق، اخبرنا، وقال عثمان، حدثنا جرير ، عن مغيرة ، عن الشعبي ، عن جابر بن عبد الله ، قال: " غزوت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فتلاحق بي وتحتي ناضح لي قد اعيا ولا يكاد يسير، قال: فقال لي: ما لبعيرك؟ قال: قلت: عليل، قال: فتخلف رسول الله صلى الله عليه وسلم، فزجره ودعا له، فما زال بين يدي الإبل قدامها يسير، قال: فقال لي: كيف ترى بعيرك؟، قال: قلت: بخير قد اصابته بركتك، قال: افتبيعنيه؟ فاستحييت ولم يكن لنا ناضح غيره، قال: فقلت: نعم، فبعته إياه على ان لي فقار ظهره حتى ابلغ المدينة، قال: فقلت له: يا رسول الله، إني عروس، فاستاذنته فاذن لي، فتقدمت الناس إلى المدينة حتى انتهيت، فلقيني خالي فسالني عن البعير، فاخبرته بما صنعت فيه فلامني فيه قال: وقد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال لي حين استاذنته: ما تزوجت ابكرا ام ثيبا؟، فقلت له: تزوجت ثيبا، قال: افلا تزوجت بكرا تلاعبك وتلاعبها؟، فقلت له: يا رسول الله، توفي والدي او استشهد ولي اخوات صغار، فكرهت ان اتزوج إليهن مثلهن، فلا تؤدبهن ولا تقوم عليهن، فتزوجت ثيبا لتقوم عليهن وتؤدبهن، قال: فلما قدم رسول الله صلى الله عليه وسلم المدينة غدوت إليه بالبعير، فاعطاني ثمنه ورده علي "،حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ وَاللَّفْظُ لِعُثْمَانَ، قَالَ إِسْحَاق، أَخْبَرَنَا، وَقَالَ عُثْمَانُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: " غَزَوْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَلَاحَقَ بِي وَتَحْتِي نَاضِحٌ لِي قَدْ أَعْيَا وَلَا يَكَادُ يَسِيرُ، قَالَ: فَقَالَ لِي: مَا لِبَعِيرِكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: عَلِيلٌ، قَالَ: فَتَخَلَّفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَزَجَرَهُ وَدَعَا لَهُ، فَمَا زَالَ بَيْنَ يَدَيِ الْإِبِلِ قُدَّامَهَا يَسِيرُ، قَالَ: فَقَالَ لِي: كَيْفَ تَرَى بَعِيرَكَ؟، قَالَ: قُلْتُ: بِخَيْرٍ قَدْ أَصَابَتْهُ بَرَكَتُكَ، قَالَ: أَفَتَبِيعُنِيهِ؟ فَاسْتَحْيَيْتُ وَلَمْ يَكُنْ لَنَا نَاضِحٌ غَيْرُهُ، قَالَ: فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَبِعْتُهُ إِيَّاهُ عَلَى أَنَّ لِي فَقَارَ ظَهْرِهِ حَتَّى أَبْلُغَ الْمَدِينَةَ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي عَرُوسٌ، فَاسْتَأْذَنْتُهُ فَأَذِنَ لِي، فَتَقَدَّمْتُ النَّاسَ إِلَى الْمَدِينَةِ حَتَّى انْتَهَيْتُ، فَلَقِيَنِي خَالِي فَسَأَلَنِي عَنِ الْبَعِيرِ، فَأَخْبَرْتُهُ بِمَا صَنَعْتُ فِيهِ فَلَامَنِي فِيهِ قَالَ: وَقَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِي حِينَ اسْتَأْذَنْتُهُ: مَا تَزَوَّجْتَ أَبِكْرًا أَمْ ثَيِّبًا؟، فَقُلْتُ لَهُ: تَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا، قَالَ: أَفَلَا تَزَوَّجْتَ بِكْرًا تُلَاعِبُكَ وَتُلَاعِبُهَا؟، فَقُلْتُ لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، تُوُفِّيَ وَالِدِي أَوِ اسْتُشْهِدَ وَلِي أَخَوَاتٌ صِغَارٌ، فَكَرِهْتُ أَنْ أَتَزَوَّجَ إِلَيْهِنَّ مِثْلَهُنَّ، فَلَا تُؤَدِّبُهُنَّ وَلَا تَقُومُ عَلَيْهِنَّ، فَتَزَوَّجْتُ ثَيِّبًا لِتَقُومَ عَلَيْهِنَّ وَتُؤَدِّبَهُنَّ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ غَدَوْتُ إِلَيْهِ بِالْبَعِيرِ، فَأَعْطَانِي ثَمَنَهُ وَرَدَّهُ عَلَيَّ "،
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں شریک ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے آ ملے، جبکہ میں پانی ڈھونے والے اونٹ پر سوار تھا، جو تھک چکا تھا، اور تقریبا چلنے سے عاجز آ چکا تھا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے پوچھا، تمہارے اونٹ کو کیا ہوا؟ میں نے عرض کیا، وہ بیمار ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیچھے ہو کر اس کو ڈانٹا اور اس کے لیے دعا فرمائی، تو پھر وہ مسلسل اونٹوں کے آگے چلنے لگا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا، اپنے اونٹ کو کیسا پا رہے ہو؟ میں نے عرض کیا، بہت بہتر، اسے آپصلی اللہ علیہ وسلم کی برکت پہنچ چکی ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو کیا اسے مجھے بیچو گے؟ (آپصلی اللہ علیہ وسلم کے تکرار سے) مجھے شرم محسوس ہوئی، حالانکہ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی پانی لانے والا اونٹ نہ تھا، تو میں نے عرض کیا، جی ہاں، میں نے اسے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو فروخت کر دیا، اس شرط پر کہ مدینہ پہنچنے تک میں اس پر سوار رہوں گا، مرحمت فرمائیے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت عنایت فرما دی، میں مدینہ تک لوگوں کے آگے رہا، حتی کہ میں اپنی منزل پر پہنچ گیا، اور میرے ماموں مجھے ملے، تو انہوں نے مجھ سے اونٹ کے بارے میں پوچھا، تو میں نے اس کے بارے میں جو کچھ کیا، انہیں بتا دیا، اس کے بارے میں انہوں نے مجھے ملامت کی، اور جب میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت طلب کی تھی، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا تھا، کس سے شادی کی ہے؟ دوشیزہ (کنواری) سے یا شوہر دیدہ سے؟ تو میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا، میں نے شوہر دیدہ سے شادی کی ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کنواری سے شادی کیوں نہیں کی! تم اس سے اٹھکیلیاں کرتے، وہ تم سے اٹھکیلیاں کرتی میں نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! میرے والد فوت ہو گئے یا شہید ہو گئے، اور میری چھوٹی چھوٹی بہنیں ہیں، تو میں نے ناپسند کیا، کہ ان کے پاس ان جیسی بیاہ کر لے آؤں، جو نہ ان کو ادب سکھائے اور نہ ان کی نگہداشت کر سکے، اس لیے میں نے بیوہ سے شادی کر لی تاکہ وہ ان کی دیکھ بھال کرے، اور انہیں سلیقہ سکھائے، تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ پہنچ گئے، میں اونٹ لے کر آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو گیا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اس کی قیمت عنایت فرمائی، اور اسے بھی مجھے لوٹا دیا۔
حدیث نمبر: 4101
Save to word اعراب
حدثنا عثمان بن ابي شيبة ، حدثنا جرير ، عن الاعمش ، عن سالم بن ابي الجعد ، عن جابر ، قال: اقبلنا من مكة إلى المدينة مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاعتل جملي وساق الحديث بقصته وفيه، ثم قال: " لي بعني جملك هذا، قال: قلت: لا بل هو لك، قال: لا بل بعنيه، قال: قلت: لا بل هو لك يا رسول الله، قال: لا بل بعنيه، قال: قلت: فإن لرجل علي اوقية ذهب فهو لك بها، قال: قد اخذته، فتبلغ عليه إلى المدينة، قال: فلما قدمت المدينة قال رسول الله صلى الله عليه وسلم لبلال: " اعطه اوقية من ذهب وزده " قال: فاعطاني اوقية من ذهب وزادني قيراطا، قال: فقلت: لا تفارقني زيادة رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فكان في كيس لي فاخذه اهل الشام يوم الحرة،حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: أَقْبَلْنَا مِنْ مَكَّةَ إِلَى الْمَدِينَةِ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاعْتَلَّ جَمَلِي وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِقِصَّتِهِ وَفِيهِ، ثُمَّ قَالَ: " لِي بِعْنِي جَمَلَكَ هَذَا، قَالَ: قُلْتُ: لَا بَلْ هُوَ لَكَ، قَالَ: لَا بَلْ بِعْنِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: لَا بَلْ هُوَ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: لَا بَلْ بِعْنِيهِ، قَالَ: قُلْتُ: فَإِنَّ لِرَجُلٍ عَلَيَّ أُوقِيَّةَ ذَهَبٍ فَهُوَ لَكَ بِهَا، قَالَ: قَدْ أَخَذْتُهُ، فَتَبَلَّغْ عَلَيْهِ إِلَى الْمَدِينَةِ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْتُ الْمَدِينَةَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِبِلَالٍ: " أَعْطِهِ أُوقِيَّةً مِنْ ذَهَبٍ وَزِدْهُ " قَالَ: فَأَعْطَانِي أُوقِيَّةً مِنْ ذَهَبٍ وَزَادَنِي قِيرَاطًا، قَالَ: فَقُلْتُ: لَا تُفَارِقُنِي زِيَادَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَكَانَ فِي كِيسٍ لِي فَأَخَذَهُ أَهْلُ الشَّامِ يَوْمَ الْحَرَّةِ،
سالم بن ابی جعد نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں مکہ (کی جانب) سے مدینہ آئے، تو میرا اونٹ بیمار ہو گیا۔۔۔ اور انہوں نے (ان سے) مکمل قصے سمیت حدیث بیان کی، اس میں ہے: پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: "مجھے اپنا یہ اونٹ فروخت کر دو۔" میں نے کہا: نہیں، بلکہ وہ (ویسے ہی) آپ ہی کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، بلکہ وہ مجھے فروخت کر دو۔" میں نے کہا: نہیں، اے اللہ کے رسول! وہ آپ ہی کا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "نہیں، بلکہ اسے میرے یاتھ فروخت کر دو۔" میں نے کہا: ایک آدمی کا میرے ذمے سونے کا ایک اوقیہ (تقریبا 29 گرام) ہے، اس کے عوض یہ آپ کا ہوا۔ آپ نے فرمایا: "میں نے لے لیا، تم اس پر مدینہ تک پہنچ جاؤ۔" کہا: جب میں مدینہ پہنچا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "انہیں ایک اوقیہ سونا اور کچھ زیادہ بھی دو۔" کہا: انہوں نے مجھے ایک اوقیہ سونا دیا اور ایک قیراط زائد دیا۔ کہا: میں نے (دل میں) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ زائد عطیہ مجھ سے کبھی الگ نہ ہو گا۔ کہا: تو وہ میری تھیلی میں رہا حتی کہ حرہ کی جنگ کے دن اہل شام نے اسے (مجھ سے) چھین لیا۔
حضرت جابر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ سے مدینہ کی طرف بڑھے، تو میرا اونٹ بیمار ہو گیا، آگے حدیث پورے واقعہ سمیت سنائی، جس میں یہ بھی ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے فرمایا، "اپنا یہ اونٹ مجھے بیچ دو،" میں نے عرض کیا، نہیں یہ آپ کا ہی تو ہے، آپ نے فرمایا، "نہیں، بلکہ مجھے اسے بیچو۔" میں نے عرض کیا، تو مجھ پر ایک آدمی کا اوقیہ سونا قرضہ ہے، اس کے عوض، یہ آپ کو دیتا ہوں، آپ نے فرمایا، "میں نے اسے لے لیا، تو اس پر مدینہ تک پہنچو،" تو جب میں مدینہ پہنچ گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال ؓ کو فرمایا: "اسے سونے کا ایک اوقیہ دو اور زائد بھی دو۔" تو اس نے مجھے سونے کا اوقیہ دیا، اور مجھے ایک قیراط زائد دیا، میں نے دل میں کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اضافہ کبھی مجھ سے جدا نہیں ہو گا، تو وہ میرے کیسہ (تھیلی) میں رہا، حتی کہ حرہ کے دن، اہل شام نے وہ مجھ سے لے لیا۔

Previous    10    11    12    13    14    15    16    17    18    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.