حبیب سے روایت ہے کہ انہوں نے ابومنہال سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے دینار کی درہم سے یا سونے کی چاندی سے بیع کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: زید بن ارقم سے پوچھو، وہ زیادہ جاننے والے ہیں، چنانچہ میں نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا: براء سے پوچھو، وہ زیادہ جاننے والے ہیں، پھر دونوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کے عوض چاندی کی ادھار بیع سے منع فرمایا۔
ابو منہال بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ سے کرنسی کے تبادلے کے بارے میں سوال کیا؟ تو انہوں نے کہا حضرت زید بن ارقم رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھو، کیونکہ وہ زیادہ جانتے ہیں، پھر ان دونوں نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کی سونے سے ادھار، بیع کرنے سے منع فرمایا ہے۔
عباد بن عوام نے کہا: یحییٰ بن ابی اسحاق نے ہمیں خبر دی، انہوں نے کہا: ہمیں عبدالرحمٰن بن ابی بکرہ نے اپنے والد سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کے عوض چاندی اور سونے کے عوض سونے کی بیع سے منع فرمایا، الا یہ کہ برابر برابر ہو اور آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم سونے کے عوض چاندی جیسے چاہیں خریدیں اور چاندی کے عوض سونا جیسے چاہیں خریدیں۔ کہا: اس پر ایک آدمی نے ان سے سوال کیا اور کہا: دست بدست؟ تو انہوں نے کہا: میں نے اسی طرح سنا ہے۔
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی، چاندی کے عوض اور سونا، سونے کے عوض فروخت کرنے سے روکا ہے، الا یہ کہ برابر برابر ہوں، اور آپصلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا کہ ہم چاندی، سونے کے عوض جیسے چاہیں خرید لیں اور سونا، چاندی کے عوض جیسے چاہیں خرید لیں، تو ایک آدمی نے سوال کیا، نقد بنقد ہوں؟ تو انہوں نے کہا، میں نے ایسے ہی سنا ہے۔
یحییٰ بن ابی کثیر نے یحییٰ بن ابی اسحاق سے روایت کی کہ انہیں عبدالرحمان بن ابی بکرہ نے بتایا کہ حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا۔۔ (آگے) اسی کے مانند ہے۔
امام صاحب اپنے ایک اور استاد کی سند سے بیان کرتے ہیں کہ ابوبکرہ رضی اللہ تعالی عنہ نے بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع فرمایا، آگے مذکورہ بالا روایت بیان کی۔
علی بن رباح لخمی نے کہا: میں نے حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس، جبکہ آپ خیبر میں تھے، ایک ہار لایا گیا، اس میں نگینے تھے اور سونا تھا اور وہ ان غنائم میں سے تھا جو فروخت کی جا رہی تھیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سونے کے بارے میں حکم دیا جو ہار میں تھا، تو اکیلے اسی کو الگ کر دیا گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں سے (جو لین دین کر رہے تھے) فرمایا: "سونے کے عوض سونا برابر برابر وزن کا (خریدو اور بیچو۔) "
حضرت فضالہ بن عبید انصاری رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جب کہ آپ خیبر میں تھے، ایک ہار لایا گیا، جس میں پتھر کے نگینے اور سونا تھا، اور وہ غنیمت کے مال سے تھا اور فروخت کیا جا رہا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہار سے اس کے سونے کو الگ کر لیا گیا، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونا، سونے کے عوض ہم وزن ہو گا۔“
لیث نے ہمیں ابوشجاع سعید بن یزید سے حدیث بیان کی، انہوں نے خالد بن ابی عمران سے، انہوں نے حنش صنعانی سے اور انہوں نے حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: میں نے خیبر کے دن بارہ دینار میں ایک ہار خریدا، اس میں سونا اور نگینے تھے۔ میں نے انہیں الگ الگ کیا تو مجھے اس میں بارہ دینار سے زیادہ مل گئے، میں نے اس بات کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا: "اسے الگ الگ کرنے سے پہلے فروخت نہ کیا جائے۔"
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے خیبر کے دن ایک ہار بارہ (12) دینار میں خریدا، ہار میں سونا اور پتھر کے نگینے تھے، میں نے ان کو الگ کیا، تو مجھے اس میں بارہ (12) دینار سے زیادہ مل گئے، تو میں نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے الگ کیے بغیر فروخت نہ کیا جائے۔“
جلاح ابوکثیر سے روایت ہے، انہوں نے کہا: مجھے حنش صنعانی نے حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: خیبر کے دن ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم یہود کے ساتھ دو یا تین دیناروں کے عوض ایک اوقیہ سونے کی بیع کرتے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سونے کے عوض سونے کی بیع نہ کرو مگر برابر برابر وزن کے ساتھ۔"
حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اور سونے کا ایک اوقیہ، یہودیوں کو دو یا تین دینار کے عوض بیچ رہے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سونا، سونے کے عوض فروخت نہ کرو، الا یہ کہ دونوں ہم وزن ہوں۔“
حدثني ابو الطاهر ، اخبرنا ابن وهب ، عن قرة بن عبد الرحمن المعافري وعمرو بن الحارث ، وغيرهما، ان عامر بن يحيى المعافري ، اخبرهم، عن حنش : انه قال: " كنا مع فضالة بن عبيد في غزوة فطارت لي ولاصحابي قلادة فيها ذهب وورق وجوهر، فاردت ان اشتريها، فسالت فضالة بن عبيد ، فقال: انزع ذهبها فاجعله في كفة واجعل ذهبك في كفة ثم لا تاخذن إلا مثلا بمثل، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فلا ياخذن إلا مثلا بمثل ".حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ قُرَّةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُعَافِرِيِّ وَعَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، وَغَيْرِهِمَا، أَنَّ عَامِرَ بْنَ يَحْيَى الْمُعَافِرِيَّ ، أَخْبَرَهُمْ، عَنْ حَنَشٍ : أَنَّهُ قَالَ: " كُنَّا مَعَ فَضَالَةَ بْنِ عُبَيْدٍ فِي غَزْوَةٍ فَطَارَتْ لِي وَلِأَصْحَابِي قِلَادَةٌ فِيهَا ذَهَبٌ وَوَرِقٌ وَجَوْهَرٌ، فَأَرَدْتُ أَنْ أَشْتَرِيَهَا، فَسَأَلْتُ فَضَالَةَ بْنَ عُبَيْدٍ ، فَقَالَ: انْزِعْ ذَهَبَهَا فَاجْعَلْهُ فِي كِفَّةٍ وَاجْعَلْ ذَهَبَكَ فِي كِفَّةٍ ثُمَّ لَا تَأْخُذَنَّ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يَأْخُذَنَّ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ ".
عامر بن یحییٰ معافری نے حنش سے خبر دی کہ انہوں نے کہا: ہم ایک غزوے میں حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، میرے اور میرے ساتھیوں کے حصے میں ایک ہار آیا جس میں سونا، چاندی اور جواہر تھے۔ میں نے اسے خریدنے کا ارادہ کیا، چنانچہ میں نے حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا: اس کا سونا اتار لو اور اسے ایک پلڑے میں رکھو اور اپنا سونا دوسرے پلڑے میں رکھو، پھر برابر برابر کے سوا نہ لو (کیونکہ) میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرما رہے تھے: "جو اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے وہ (اس طرح کی بیع میں) مثل بمثل (یکساں) کے سوا ہرگز نہ لے۔"
حنش رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک غزوہ میں حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ تھے تو میرے اور میرے ساتھیوں کے حصے میں ایک ہار آیا جس میں سونا چاندی اور موتی تھے تو میں نے اس کے خریدنے کا ارادہ کیا، اس سلسلہ میں، میں نے حضرت فضالہ رضی اللہ تعالی عنہ سے پوچھا، تو انہوں نے فرمایا: ”اس کا سونا الگ کر لو، اور اس کو ایک پلڑے میں رکھو اور اپنا سونا دوسرے پلڑے میں رکھو پھر اس کو برابر، برابر سونا لو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے "جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے، وہ برابر، برابر کے سوا ہرگز نہ لے۔“
حدثنا هارون بن معروف ، حدثنا عبد الله بن وهب ، اخبرني عمرو . ح وحدثني ابو الطاهر ، اخبرنا ابن وهب ، عن عمرو بن الحارث ، ان ابا النضر حدثه، ان بسر بن سعيد حدثه، عن معمر بن عبد الله " انه ارسل غلامه بصاع قمح، فقال: بعه ثم اشتر به شعيرا، فذهب الغلام، فاخذ صاعا وزيادة بعض صاع، فلما جاء معمرا اخبره بذلك، فقال له معمر: لم فعلت ذلك انطلق فرده ولا تاخذن إلا مثلا بمثل، فإني كنت اسمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: الطعام بالطعام مثلا بمثل، قال: وكان طعامنا يومئذ الشعير، قيل له: فإنه ليس بمثله، قال: إني اخاف ان يضارع ".حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرٌو . ح وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ ، أَنَّ أَبَا النَّضْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ بُسْرَ بْنَ سَعِيدٍ حَدَّثَهُ، عَنْ مَعْمَرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ " أَنَّهُ أَرْسَلَ غُلَامَهُ بِصَاعِ قَمْحٍ، فَقَالَ: بِعْهُ ثُمَّ اشْتَرِ بِهِ شَعِيرًا، فَذَهَبَ الْغُلَامُ، فَأَخَذَ صَاعًا وَزِيَادَةَ بَعْضِ صَاعٍ، فَلَمَّا جَاءَ مَعْمَرًا أَخْبَرَهُ بِذَلِكَ، فَقَالَ لَهُ مَعْمَرٌ: لِمَ فَعَلْتَ ذَلِكَ انْطَلِقْ فَرُدَّهُ وَلَا تَأْخُذَنَّ إِلَّا مِثْلًا بِمِثْلٍ، فَإِنِّي كُنْتُ أَسْمَعُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: الطَّعَامُ بِالطَّعَامِ مِثْلًا بِمِثْلٍ، قَالَ: وَكَانَ طَعَامُنَا يَوْمَئِذٍ الشَّعِيرَ، قِيلَ لَهُ: فَإِنَّهُ لَيْسَ بِمِثْلِهِ، قَالَ: إِنِّي أَخَافُ أَنْ يُضَارِعَ ".
بُسر بن سعید نے معمر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ انہوں نے گندم کا ایک صاع دے کر اپنا غلام بھیجا اور کہا: اسے بیچ دو، پھر اس (کی قیمت) سے جو خرید لاؤ۔ غلام گیا اور (گندم کے صاع کے عوض) ایک صاع اور صاع سے کچھ زیادہ (جو) لے آیا، جب وہ معمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو انہیں یہ بات بتائی، تو حضرت معمر رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: تم نے یہ کام کیوں کیا؟ جاؤ اور اسے واپس کرو اور مثل بمثل کے سوا کچھ نہ لو، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کرتے تھا، آپ فرماتے تھے: "غلے کے عوض غلے کی بیع مثل بمثل ہے۔" کہا: ان دنوں ہماری خوراک جَو کی تھی۔ ان سے کہا گیا: وہ تو اس (گندم) کی مثل نہیں ہے۔ (یعنی دو الگ جنسیں ہیں، اس لیے تفاضل جائز ہے۔) انہوں نے کہا: مجھے خدشہ ہے کہ وہ اس کے مشابہ ہو گی۔
معمر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے، انہوں نے اپنے غلام کو گندم کا ایک صاع دے کر بھیجا اور اسے کہا، اسے بیچ کر اس کے عوض جو خرید لاؤ، تو غلام گیا اور اس کے عوض صاع سے کچھ زائد جو خرید لایا، اور جب معمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا، تو انہیں اس کی اطلاع دی، تو معمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے پوچھا، تو نے باہمی تبادلہ کیوں کیا؟ جاؤ، اس کو واپس کر دو، اور برابر، برابر کے سوا نہ لو، کیونکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سنتا رہا ہوں، ”طعام، طعام کے بدلے برابر، برابر ہو گا۔“ اور ان دنوں ہمارا طعام، کھانا جو تھے، ان سے کہا گیا، ان دونوں کی جنس ایک نہیں ہے، انہوں نے جواب دیا، مجھے اندیشہ ہے کہ یہ اس کے مشابہ ہے۔
حدثنا عبد الله بن مسلمة بن قعنب ، حدثنا سليمان يعني ابن بلال ، عن عبد المجيد بن سهيل بن عبد الرحمن : انه سمع سعيد بن المسيب ، يحدث ان ابا هريرة ، وابا سعيد حدثاه، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث اخا بني عدي الانصاري، فاستعمله على خيبر، فقدم بتمر جنيب، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اكل تمر خيبر هكذا، قال: لا والله يا رسول الله، إنا لنشتري الصاع بالصاعين من الجمع، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا تفعلوا ولكن مثلا بمثل او بيعوا هذا واشتروا بثمنه من هذا وكذلك الميزان ".حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ بْنِ قَعْنَبٍ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ يَعْنِي ابْنَ بِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ الْمَجِيدِ بْنِ سُهَيْلِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ : أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيِّبِ ، يُحَدِّثُ أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، وَأَبَا سَعِيدٍ حَدَّثَاهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ أَخَا بَنِي عَدِيٍّ الْأَنْصَارِيَّ، فَاسْتَعْمَلَهُ عَلَى خَيْبَرَ، فَقَدِمَ بِتَمْرٍ جَنِيبٍ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَكُلُّ تَمْرِ خَيْبَرَ هَكَذَا، قَالَ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا لَنَشْتَرِي الصَّاعَ بِالصَّاعَيْنِ مِنَ الْجَمْعِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَفْعَلُوا وَلَكِنْ مِثْلًا بِمِثْلٍ أَوْ بِيعُوا هَذَا وَاشْتَرُوا بِثَمَنِهِ مِنْ هَذَا وَكَذَلِكَ الْمِيزَانُ ".
) سلیمان بن بلال نے ہمیں عبدالمجید بن سہیل بن عبدالرحمان سے حدیث بیان کی کہ انہوں نے سعید بن مسیب سے سنا، وہ حدیث بیان کر رہے تھے کہ حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے انہیں حدیث بیان کی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عدی سے تعلق رکھنے والے ایک انصاری کو بھیجا اور اسے خیبر کا عامل مقرر کیا، وہ جنیب (عمدہ قسم کی) کھجور لے کر آیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: "کیا خیبر کی تمام کھجور اسی طرح کی ہے؟ اس نے عرض کی: اللہ کے رسول! واللہ! نہیں۔ہم ملی جلی کھجور کے دو صاع کے عوض (عمدہ کھجور کا) ایک صاع خریدتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایسا نہ کرو بلکہ مثل بمثل (یکساں خریدو بیچو) یا پھر اسے بیچ دو اور اس کی قیمت سے دوسری قسم خرید لو، اسی طرح وزن (کے ذریعے سے لین دین کرنا ہو تو بھی برابر ہونا ضروری) ہے۔"
حضرت ابوہریرہ اور حضرت ابو سعید رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عدی انصار کے قبیلہ کے ایک فرد کو خیبر کا عامل (حاکم) بنا کر بھیجا، اور وہ کھجور کی جنیب نامی اعلیٰ قسم لایا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”کیا خیبر کی تمام کھجوریں اس قسم کی ہیں؟“ اس نے کہا، نہیں، اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول! ہم ردی یا ملی جلی دو صاع کھجوروں کے عوض ایک صاع اچھی کھجوریں خرید لیتے ہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسا مت کرو، لیکن برابر، برابر تبادلہ کرو، یا یہ ردی کھجوریں بیچ کر، قیمت سے اچھی کھجوریں خرید لو، اس طرح ماپ کی طرح تول میں بھی برابری ہو۔“