حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن ابي الزناد ، عن بسر بن سعيد ، عن عبيد ابي صالح مولى السفاح، انه قال:" بعت بزا لي من اهل دار نخلة إلى اجل، ثم اردت الخروج إلى الكوفة، فعرضوا علي ان اضع عنهم بعض الثمن وينقدوني، فسالت عن ذلك زيد بن ثابت، فقال: " لا آمرك ان تاكل هذا ولا توكله" حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدٍ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى السَّفَّاحِ، أَنَّهُ قَالَ:" بِعْتُ بَزًّا لِي مِنْ أَهْلِ دَارِ نَخْلَةَ إِلَى أَجَلٍ، ثُمَّ أَرَدْتُ الْخُرُوجَ إِلَى الْكُوفَةِ، فَعَرَضُوا عَلَيَّ أَنْ أَضَعَ عَنْهُمْ بَعْضَ الثَّمَنِ وَيَنْقُدُونِي، فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، فَقَالَ: " لَا آمُرُكَ أَنْ تَأْكُلَ هَذَا وَلَا تُوكِلَهُ"
عبید ابوصالح نے کہا: میں نے اپنا کپڑا دار نخلہ (ایک مقام ہے مکّہ اور طائف کے بیچ میں) والوں کے ہاتھ بیچا ایک وعدے پر، جب میں کوفہ جانے لگا تو ان لوگوں نے کہا: اگر کچھ کم کر دو تو تمہارا روپیہ ہم ابھی دے دیتے ہیں۔ میں نے یہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں تجھے اس روپے کے کھانے اور کھلانے کی اجازت نہیں دیتا۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11138، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 14355، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 61/11، 62/11، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 81»
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال ہوا ایک شخص کا: میعادی قرض کسی پر آتا ہو، قرضدار یہ کہے: یہ مجھ سے کچھ کم کر کے نقد لے لے، اور قرض خواہ اس پر راضی ہو جائے؟ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کو مکروہ جانا، اور اس سے منع کیا۔
وحدثني مالك، عن زيد بن اسلم، انه قال: " كان الربا في الجاهلية ان يكون للرجل على الرجل الحق إلى اجل، فإذا حل الاجل، قال: اتقضي ام تربي؟ فإن قضى اخذ، وإلا زاده في حقه واخر عنه في الاجل" . وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، أَنَّهُ قَالَ: " كَانَ الرِّبَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ يَكُونَ لِلرَّجُلِ عَلَى الرَّجُلِ الْحَقُّ إِلَى أَجَلٍ، فَإِذَا حَلَّ الْأَجَلُ، قَالَ: أَتَقْضِي أَمْ تُرْبِي؟ فَإِنْ قَضَى أَخَذَ، وَإِلَّا زَادَهُ فِي حَقِّهِ وَأَخَّرَ عَنْهُ فِي الْأَجَلِ" .
حضرت زید بن اسلم نے کہا: ایامِ جاہلیت میں سود اس طور پر ہوتا تھا، ایک شخص کا قرض میعادی دوسرے شخص پر آتا ہو، جب میعاد گزر جائے تو قرض خواہ قرضدار سے کہے: یا تم قرض ادا کرو یا سود دو، اگر اس نے قرض ادا کیا تو بہتر ہے، نہیں تو قرض خواہ اپنا قرضہ بڑھا دیتا اور پھر میعاد کراتا۔
قال مالك: والامر المكروه الذي لا اختلاف فيه عندنا: ان يكون للرجل على الرجل الدين إلى اجل، فيضع عنه الطالب ويعجله المطلوب، وذلك عندنا بمنزلة الذي يؤخر دينه بعد محله عن غريمه ويزيده الغريم في حقه، قال: فهذا الربا بعينه، لا شك فيه قَالَ مَالِك: وَالْأَمْرُ الْمَكْرُوهُ الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ عِنْدَنَا: أَنْ يَكُونَ لِلرَّجُلِ عَلَى الرَّجُلِ الدَّيْنُ إِلَى أَجَلٍ، فَيَضَعُ عَنْهُ الطَّالِبُ وَيُعَجِّلُهُ الْمَطْلُوبُ، وَذَلِكَ عِنْدَنَا بِمَنْزِلَةِ الَّذِي يُؤَخِّرُ دَيْنَهُ بَعْدَ مَحِلِّهِ عَنْ غَرِيمِهِ وَيَزِيدُهُ الْغَرِيمُ فِي حَقِّهِ، قَالَ: فَهَذَا الرِّبَا بِعَيْنِهِ، لَا شَكَّ فِيهِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک اس امر کی کراہت میں کچھ اختلاف نہیں۔ ایک شخص کا میعادی قرض کسی پر آتا ہو، قرض خواہ قرض میں کمی کر دے اور قرض دار نقد ادا کردے، یہ بعینہ ایسا ہے کہ میعاد گزرنے کے بعد قرض خواہ میعاد بڑھا دے اور قرض دار قرض کو بڑھا دے، یہ تو بالکل سود ہے، اس میں کچھ شک نہیں۔
قال مالك في الرجل يكون له على الرجل مائة دينار إلى اجل، فإذا حلت، قال له الذي عليه الدين: بعني سلعة يكون ثمنها مائة دينار نقدا بمائة وخمسين إلى اجل: هذا بيع لا يصلح، ولم يزل اهل العلم ينهون عنه قَالَ مَالِك فِي الرَّجُلِ يَكُونُ لَهُ عَلَى الرَّجُلِ مِائَةُ دِينَارٍ إِلَى أَجَلٍ، فَإِذَا حَلَّتْ، قَالَ لَهُ الَّذِي عَلَيْهِ الدَّيْنُ: بِعْنِي سِلْعَةً يَكُونُ ثَمَنُهَا مِائَةَ دِينَارٍ نَقْدًا بِمِائَةٍ وَخَمْسِينَ إِلَى أَجَلٍ: هَذَا بَيْعٌ لَا يَصْلُحُ، وَلَمْ يَزَلْ أَهْلُ الْعِلْمِ يَنْهَوْنَ عَنْهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص کے دوسرے شخص پر سو دینار آتے ہوں وعدے پر، جب وعدہ گزر جائے تو قرضدار قرض خواہ سے کہے: تو میرے ہاتھ کوئی ایسی چیز جس کی قیمت سو دینار ہوں، ڈیڑھ سو دینار کو بیچ ڈال ایک میعاد پر، یہ بیع درست نہیں اور ہمیشہ اہلِ علم اس سے منع کرتے رہے۔
قال مالك: وإنما كره ذلك، لانه إنما يعطيه ثمن ما باعه بعينه ويؤخر عنه المائة الاولى إلى الاجل الذي ذكر له آخر مرة، ويزداد عليه خمسين دينارا في تاخيره عنه، فهذا مكروه ولا يصلح، وهو ايضا يشبه حديث زيد بن اسلم في بيع اهل الجاهلية، إنهم كانوا إذا حلت ديونهم، قالوا للذي عليه الدين: إما ان تقضي وإما ان تربي، فإن قضى اخذوا، وإلا زادوهم في حقوقهم وزادوهم في الاجل قَالَ مَالِك: وَإِنَّمَا كُرِهَ ذَلِكَ، لِأَنَّهُ إِنَّمَا يُعْطِيهِ ثَمَنَ مَا بَاعَهُ بِعَيْنِهِ وَيُؤَخِّرُ عَنْهُ الْمِائَةَ الْأُولَى إِلَى الْأَجَلِ الَّذِي ذَكَرَ لَهُ آخِرَ مَرَّةٍ، وَيَزْدَادُ عَلَيْهِ خَمْسِينَ دِينَارًا فِي تَأْخِيرِهِ عَنْهُ، فَهَذَا مَكْرُوهٌ وَلَا يَصْلُحُ، وَهُوَ أَيْضًا يُشْبِهُ حَدِيثَ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فِي بَيْعِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ، إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا حَلَّتْ دُيُونُهُمْ، قَالُوا لِلَّذِي عَلَيْهِ الدَّيْنُ: إِمَّا أَنْ تَقْضِيَ وَإِمَّا أَنْ تُرْبِيَ، فَإِنْ قَضَى أَخَذُوا، وَإِلَّا زَادُوهُمْ فِي حُقُوقِهِمْ وَزَادُوهُمْ فِي الْأَجَلِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اس لیے کہ قرض خواہ نے اپنی چیز کی قیمت سو دینار وصول کر لی، اور وہ جو سو دینار قرضے کے تھے ان کی میعاد بڑھا دی، بعوض پچاس دینار کے، جو اس کو فائدہ حاصل ہو اس شئے کے بیچنے میں۔ یہ بیع مشابہ ہے اس کے جو زید بن اسلم نے روایت کیا کہ جاہلیت کے زمانے میں جب قرض کی مدت گزر جاتی تو قرض خواہ قرضدار سے کہتا یا تو قرض ادا کر یا سود دے، اگر وہ ادا کردیتا تو لے لیتا، نہیں تو اور مہلت دے کر قرضہ کو بڑھا دیتا۔
حدثنا يحيى، عن مالك، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " مطل الغني ظلم، وإذا اتبع احدكم على مليء فليتبع" حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَطْلُ الْغَنِيِّ ظُلْمٌ، وَإِذَا أُتْبِعَ أَحَدُكُمْ عَلَى مَلِيءٍ فَلْيَتْبَعْ"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مالدار شخص کا دیر کرنا قرض ادا کرنے میں ظلم ہے، اور جب تم میں سے کوئی حوالہ کیا جائے مالدار شخص پر، تو چاہیے کہ حوالہ قبول کرے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2287، 2288، 2400، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1564، 1564، ومالك فى «الموطأ» برقم:، وابن الجارود فى "المنتقى"، 611، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5053، 5090، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4695، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6241، 6244، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3345، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1308، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2628، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2403، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11399، وأحمد فى «مسنده» برقم: 10003، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1062، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 15355، 15356، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 22845، والطبراني فى «الصغير» برقم: 646، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 84»
وحدثني مالك، عن موسى بن ميسرة ، انه سمع رجلا يسال سعيد بن المسيب، فقال: إني رجل ابيع بالدين، فقال سعيد : " لا تبع إلا ما آويت إلى رحلك" . وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ مُوسَى بْنِ مَيْسَرَةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَجُلًا يَسْأَلُ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ، فَقَالَ: إِنِّي رَجُلٌ أَبِيعُ بِالدَّيْنِ، فَقَالَ سَعِيدٌ : " لَا تَبِعْ إِلَّا مَا آوَيْتَ إِلَى رَحْلِكَ" .
حضرت موسیٰ بن میسرہ نے سنا، ایک شخص پوچھ رہا تھا سعید بن مسیّب سے: میں قرض کے بدل میں بیچا کرتا ہوں؟ سعید نے کہا: تو نہ بیچ مگر اس چیز کو جو تیرے پاس ہو۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 85»
قال مالك في الذي يشتري السلعة من الرجل على ان يوفيه تلك السلعة إلى اجل مسمى، إما لسوق يرجو نفاقها فيه، وإما لحاجة في ذلك الزمان الذي اشترط عليه، ثم يخلفه البائع عن ذلك الاجل، فيريد المشتري رد تلك السلعة على البائع: إن ذلك ليس للمشتري، وإن البيع لازم له، وإن البائع لو جاء بتلك السلعة قبل محل الاجل لم يكره المشتري على اخذها. قَالَ مَالِك فِي الَّذِي يَشْتَرِي السِّلْعَةَ مِنَ الرَّجُلِ عَلَى أَنْ يُوَفِّيَهُ تِلْكَ السِّلْعَةَ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى، إِمَّا لِسُوقٍ يَرْجُو نَفَاقَهَا فِيهِ، وَإِمَّا لِحَاجَةٍ فِي ذَلِكَ الزَّمَانِ الَّذِي اشْتَرَطَ عَلَيْهِ، ثُمَّ يُخْلِفُهُ الْبَائِعُ عَنْ ذَلِكَ الْأَجَلِ، فَيُرِيدُ الْمُشْتَرِي رَدَّ تِلْكَ السِّلْعَةِ عَلَى الْبَائِعِ: إِنَّ ذَلِكَ لَيْسَ لِلْمُشْتَرِي، وَإِنَّ الْبَيْعَ لَازِمٌ لَهُ، وَإِنَّ الْبَائِعَ لَوْ جَاءَ بِتِلْكَ السِّلْعَةِ قَبْلَ مَحِلِّ الْأَجَلِ لَمْ يُكْرَهْ الْمُشْتَرِي عَلَى أَخْذِهَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص کوئی چیز خرید کرے اس شرط پر کہ بائع وہ شئے مشتری کو اتنی مدت میں سپرد کردے، اس میں مشتری نے کوئی مصلحت رکھی ہو، مثلاً اس وقت بازار میں اس مال کی نکاسی کی امید ہو، یا اور کچھ غرض ہو، پھر بائع اس وعدے میں خلاف کرے اور مشتری چاہے کہ وہ شئے بائع کو پھیر دے، تو مشتری کو یہ حق نہیں پہنچتا، اور بیع لازم رہے گی، اگر بائع اس شئے کو قبل میعاد کے لے آیا تو مشتری پر جبر نہ کیا جائے گا اس کے لینے پر۔
. قال مالك في الذي يشتري الطعام فيكتاله، ثم ياتيه من يشتريه منه فيخبر الذي ياتيه انه قد اكتاله لنفسه واستوفاه، فيريد المبتاع ان يصدقه وياخذه بكيله: إن ما بيع على هذه الصفة بنقد فلا باس به، وما بيع على هذه الصفة إلى اجل فإنه مكروه، حتى يكتاله المشتري الآخر لنفسه، وإنما كره الذي إلى اجل لانه ذريعة إلى الربا، وتخوف ان يدار ذلك على هذا الوجه بغير كيل ولا وزن، فإن كان إلى اجل فهو مكروه ولا اختلاف فيه عندنا. . قَالَ مَالِك فِي الَّذِي يَشْتَرِي الطَّعَامَ فَيَكْتَالُهُ، ثُمَّ يَأْتِيهِ مَنْ يَشْتَرِيهِ مِنْهُ فَيُخْبِرُ الَّذِي يَأْتِيهِ أَنَّهُ قَدِ اكْتَالَهُ لِنَفْسِهِ وَاسْتَوْفَاهُ، فَيُرِيدُ الْمُبْتَاعُ أَنْ يُصَدِّقَهُ وَيَأْخُذَهُ بِكَيْلِهِ: إِنَّ مَا بِيعَ عَلَى هَذِهِ الصِّفَةِ بِنَقْدٍ فَلَا بَأْسَ بِهِ، وَمَا بِيعَ عَلَى هَذِهِ الصِّفَةِ إِلَى أَجَلٍ فَإِنَّهُ مَكْرُوهٌ، حَتَّى يَكْتَالَهُ الْمُشْتَرِي الْآخَرُ لِنَفْسِهِ، وَإِنَّمَا كُرِهَ الَّذِي إِلَى أَجَلٍ لِأَنَّهُ ذَرِيعَةٌ إِلَى الرِّبَا، وَتَخَوُّفٌ أَنْ يُدَارَ ذَلِكَ عَلَى هَذَا الْوَجْهِ بِغَيْرِ كَيْلٍ وَلَا وَزْنٍ، فَإِنْ كَانَ إِلَى أَجَلٍ فَهُوَ مَكْرُوهٌ وَلَا اخْتِلَافَ فِيهِ عِنْدَنَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص اناج خرید کر اس کو تول لے، پھر ایک خریدار آئے جو مشتری سے اس اناج کو خرید کرنا چاہے، مشتری اس سے کہے کہ میں اناج تول چکا ہوں اور وہ شخص مشتری کو سچا سمجھ کر اس غلّے کو نقد مول لے لے تو کچھ قباحت نہیں، مگر وعدے پر لینا مکروہ ہے، جب تک وہ خریدار دوبارہ اس کو تول نہ لے۔