وحدثني مالك، عن زيد بن اسلم، انه قال: " كان الربا في الجاهلية ان يكون للرجل على الرجل الحق إلى اجل، فإذا حل الاجل، قال: اتقضي ام تربي؟ فإن قضى اخذ، وإلا زاده في حقه واخر عنه في الاجل" . وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، أَنَّهُ قَالَ: " كَانَ الرِّبَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ يَكُونَ لِلرَّجُلِ عَلَى الرَّجُلِ الْحَقُّ إِلَى أَجَلٍ، فَإِذَا حَلَّ الْأَجَلُ، قَالَ: أَتَقْضِي أَمْ تُرْبِي؟ فَإِنْ قَضَى أَخَذَ، وَإِلَّا زَادَهُ فِي حَقِّهِ وَأَخَّرَ عَنْهُ فِي الْأَجَلِ" .
حضرت زید بن اسلم نے کہا: ایامِ جاہلیت میں سود اس طور پر ہوتا تھا، ایک شخص کا قرض میعادی دوسرے شخص پر آتا ہو، جب میعاد گزر جائے تو قرض خواہ قرضدار سے کہے: یا تم قرض ادا کرو یا سود دو، اگر اس نے قرض ادا کیا تو بہتر ہے، نہیں تو قرض خواہ اپنا قرضہ بڑھا دیتا اور پھر میعاد کراتا۔
قال مالك: والامر المكروه الذي لا اختلاف فيه عندنا: ان يكون للرجل على الرجل الدين إلى اجل، فيضع عنه الطالب ويعجله المطلوب، وذلك عندنا بمنزلة الذي يؤخر دينه بعد محله عن غريمه ويزيده الغريم في حقه، قال: فهذا الربا بعينه، لا شك فيه قَالَ مَالِك: وَالْأَمْرُ الْمَكْرُوهُ الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ عِنْدَنَا: أَنْ يَكُونَ لِلرَّجُلِ عَلَى الرَّجُلِ الدَّيْنُ إِلَى أَجَلٍ، فَيَضَعُ عَنْهُ الطَّالِبُ وَيُعَجِّلُهُ الْمَطْلُوبُ، وَذَلِكَ عِنْدَنَا بِمَنْزِلَةِ الَّذِي يُؤَخِّرُ دَيْنَهُ بَعْدَ مَحِلِّهِ عَنْ غَرِيمِهِ وَيَزِيدُهُ الْغَرِيمُ فِي حَقِّهِ، قَالَ: فَهَذَا الرِّبَا بِعَيْنِهِ، لَا شَكَّ فِيهِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک اس امر کی کراہت میں کچھ اختلاف نہیں۔ ایک شخص کا میعادی قرض کسی پر آتا ہو، قرض خواہ قرض میں کمی کر دے اور قرض دار نقد ادا کردے، یہ بعینہ ایسا ہے کہ میعاد گزرنے کے بعد قرض خواہ میعاد بڑھا دے اور قرض دار قرض کو بڑھا دے، یہ تو بالکل سود ہے، اس میں کچھ شک نہیں۔
قال مالك في الرجل يكون له على الرجل مائة دينار إلى اجل، فإذا حلت، قال له الذي عليه الدين: بعني سلعة يكون ثمنها مائة دينار نقدا بمائة وخمسين إلى اجل: هذا بيع لا يصلح، ولم يزل اهل العلم ينهون عنه قَالَ مَالِك فِي الرَّجُلِ يَكُونُ لَهُ عَلَى الرَّجُلِ مِائَةُ دِينَارٍ إِلَى أَجَلٍ، فَإِذَا حَلَّتْ، قَالَ لَهُ الَّذِي عَلَيْهِ الدَّيْنُ: بِعْنِي سِلْعَةً يَكُونُ ثَمَنُهَا مِائَةَ دِينَارٍ نَقْدًا بِمِائَةٍ وَخَمْسِينَ إِلَى أَجَلٍ: هَذَا بَيْعٌ لَا يَصْلُحُ، وَلَمْ يَزَلْ أَهْلُ الْعِلْمِ يَنْهَوْنَ عَنْهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص کے دوسرے شخص پر سو دینار آتے ہوں وعدے پر، جب وعدہ گزر جائے تو قرضدار قرض خواہ سے کہے: تو میرے ہاتھ کوئی ایسی چیز جس کی قیمت سو دینار ہوں، ڈیڑھ سو دینار کو بیچ ڈال ایک میعاد پر، یہ بیع درست نہیں اور ہمیشہ اہلِ علم اس سے منع کرتے رہے۔
قال مالك: وإنما كره ذلك، لانه إنما يعطيه ثمن ما باعه بعينه ويؤخر عنه المائة الاولى إلى الاجل الذي ذكر له آخر مرة، ويزداد عليه خمسين دينارا في تاخيره عنه، فهذا مكروه ولا يصلح، وهو ايضا يشبه حديث زيد بن اسلم في بيع اهل الجاهلية، إنهم كانوا إذا حلت ديونهم، قالوا للذي عليه الدين: إما ان تقضي وإما ان تربي، فإن قضى اخذوا، وإلا زادوهم في حقوقهم وزادوهم في الاجل قَالَ مَالِك: وَإِنَّمَا كُرِهَ ذَلِكَ، لِأَنَّهُ إِنَّمَا يُعْطِيهِ ثَمَنَ مَا بَاعَهُ بِعَيْنِهِ وَيُؤَخِّرُ عَنْهُ الْمِائَةَ الْأُولَى إِلَى الْأَجَلِ الَّذِي ذَكَرَ لَهُ آخِرَ مَرَّةٍ، وَيَزْدَادُ عَلَيْهِ خَمْسِينَ دِينَارًا فِي تَأْخِيرِهِ عَنْهُ، فَهَذَا مَكْرُوهٌ وَلَا يَصْلُحُ، وَهُوَ أَيْضًا يُشْبِهُ حَدِيثَ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فِي بَيْعِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ، إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا حَلَّتْ دُيُونُهُمْ، قَالُوا لِلَّذِي عَلَيْهِ الدَّيْنُ: إِمَّا أَنْ تَقْضِيَ وَإِمَّا أَنْ تُرْبِيَ، فَإِنْ قَضَى أَخَذُوا، وَإِلَّا زَادُوهُمْ فِي حُقُوقِهِمْ وَزَادُوهُمْ فِي الْأَجَلِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اس لیے کہ قرض خواہ نے اپنی چیز کی قیمت سو دینار وصول کر لی، اور وہ جو سو دینار قرضے کے تھے ان کی میعاد بڑھا دی، بعوض پچاس دینار کے، جو اس کو فائدہ حاصل ہو اس شئے کے بیچنے میں۔ یہ بیع مشابہ ہے اس کے جو زید بن اسلم نے روایت کیا کہ جاہلیت کے زمانے میں جب قرض کی مدت گزر جاتی تو قرض خواہ قرضدار سے کہتا یا تو قرض ادا کر یا سود دے، اگر وہ ادا کردیتا تو لے لیتا، نہیں تو اور مہلت دے کر قرضہ کو بڑھا دیتا۔