قال مالك في رجل اشترى من رجل سلعة بدينار نقدا او بشاة موصوفة إلى اجل قد وجب عليه باحد الثمنين: إن ذلك مكروه لا ينبغي، لان رسول الله صلى الله عليه وسلم قد نهى عن بيعتين في بيعة، وهذا من بيعتين في بيعة. قَالَ مَالِك فِي رَجُلٍ اشْتَرَى مِنْ رَجُلٍ سِلْعَةً بِدِينَارٍ نَقْدًا أَوْ بِشَاةٍ مَوْصُوفَةٍ إِلَى أَجَلٍ قَدْ وَجَبَ عَلَيْهِ بِأَحَدِ الثَّمَنَيْنِ: إِنَّ ذَلِكَ مَكْرُوهٌ لَا يَنْبَغِي، لِأَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ نَهَى عَنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ، وَهَذَا مِنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے ایک چیز خریدی ایک دینار نقد کے بدلے میں، یا ایک بکری اُدھار کے بدلے میں، ان دونوں میں سے ایک مشتری کو ضرور دینا ہو تو یہ جائز نہیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا ہے دو بیعوں سے ایک بیع میں، اور یہ وہی ہے۔
قال مالك في رجل قال لرجل: اشتري منك هذه العجوة خمسة عشر صاعا او الصيحاني عشرة اصوع، او الحنطة المحمولة خمسة عشر صاعا او الشامية عشرة اصوع بدينار، قد وجبت لي إحداهما: إن ذلك مكروه لا يحل، وذلك انه قد اوجب له عشرة اصوع صيحانيا، فهو يدعها وياخذ خمسة عشر صاعا من العجوة، او تجب عليه خمسة عشر صاعا من الحنطة المحمولة فيدعها وياخذ عشرة اصوع من الشامية، فهذا ايضا مكروه لا يحل، وهو ايضا يشبه ما نهي عنه من بيعتين في بيعة، وهو ايضا مما نهي عنه ان يباع من صنف واحد من الطعام اثنان بواحدقَالَ مَالِك فِي رَجُلٍ قَالَ لِرَجُلٍ: أَشْتَرِي مِنْكَ هَذِهِ الْعَجْوَةَ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا أَوِ الصَّيْحَانِيَّ عَشَرَةَ أَصْوُعٍ، أَوِ الْحِنْطَةَ الْمَحْمُولَةَ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا أَوِ الشَّامِيَّةَ عَشَرَةَ أَصْوُعٍ بِدِينَارٍ، قَدْ وَجَبَتْ لِي إِحْدَاهُمَا: إِنَّ ذَلِكَ مَكْرُوهٌ لَا يَحِلُّ، وَذَلِكَ أَنَّهُ قَدْ أَوْجَبَ لَهُ عَشَرَةَ أَصْوُعٍ صَيْحَانِيًّا، فَهُوَ يَدَعُهَا وَيَأْخُذُ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا مِنَ الْعَجْوَةِ، أَوْ تَجِبُ عَلَيْهِ خَمْسَةَ عَشَرَ صَاعًا مِنَ الْحِنْطَةِ الْمَحْمُولَةِ فَيَدَعُهَا وَيَأْخُذُ عَشَرَةَ أَصْوُعٍ مِنَ الشَّامِيَّةِ، فَهَذَا أَيْضًا مَكْرُوهٌ لَا يَحِلُّ، وَهُوَ أَيْضًا يُشْبِهُ مَا نُهِيَ عَنْهُ مِنْ بَيْعَتَيْنِ فِي بَيْعَةٍ، وَهُوَ أَيْضًا مِمَّا نُهِيَ عَنْهُ أَنْ يُبَاعَ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ مِنَ الطَّعَامِ اثْنَانِ بِوَاحِدٍ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مشتری نے بائع سے کہا: میں نے تجھ سے اس قسم کی کھجور پندرہ صاع یا اس قسم کی دس صاع ایک دینار کے بدلے میں لی، دونوں میں سے ایک ضرور لوں گا۔ یا یوں کہا: میں نے تجھ سے اس قسم کی گیہوں پندرہ صاع یا اس قسم کی گیہوں دس صاع ایک دینار کے بدلے میں لیے، دونوں میں سے ایک ضرور لوں گا، تو یہ درست نہیں، گویا اس نے دس صاع کھجور لے کر پھر اس کو چھوڑ کر پندرہ صاع کھجور لی، یا دس صاع گیہوں چھوڑ کر اس کے عوض میں پندرہ صاع لیے، یہ بھی اس میں داخل ہے، یعنی دو بیع کرنا ایک بیع میں۔
حضرت سعید بن مسیّب سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع کیا دھوکے کی بیع سے۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 1513، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3376، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1230، والنسائي فى «المجتبيٰ» برقم: 4522، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2194، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7405، والدارمي فى «سننه» برقم: 2554، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 75»
قال مالك: ومن الغرر والمخاطرة ان يعمد الرجل قد ضلت دابته، او ابق غلامه، وثمن الشيء من ذلك خمسون دينارا، فيقول رجل: انا آخذه منك بعشرين دينارا، فإن وجده المبتاع ذهب من البائع ثلاثون دينارا، وإن لم يجده ذهب البائع من المبتاع بعشرين دينارا. قَالَ مَالِكٌ: وَمِنَ الْغَرَرِ وَالْمُخَاطَرَةِ أَنْ يَعْمِدَ الرَّجُلُ قَدْ ضَلَّتْ دَابَّتُهُ، أَوْ أَبَقَ غُلَامُهُ، وَثَمَنُ الشَّيْءِ مِنْ ذَلِكَ خَمْسُونَ دِينَارًا، فَيَقُولُ رَجُلٌ: أَنَا آخُذُهُ مِنْكَ بِعِشْرِينَ دِينَارًا، فَإِنْ وَجَدَهُ الْمُبْتَاعُ ذَهَبَ مِنَ الْبَائِعِ ثَلَاثُونَ دِينَارًا، وَإِنْ لَمْ يَجِدْهُ ذَهَبَ الْبَائِعُ مِنَ الْمُبْتَاعِ بِعِشْرِينَ دِينَارًا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ دھوکے کی بیع میں یہ داخل ہے: کسی شخص کا جانور گم ہوگیا ہو، یا غلام بھاگ گیا ہو، اور اس کی قیمت پچاس دینار ہو، ایک شخص اس سے کہے: میں تیرے اس جانور یا غلام کو بیس دینار کو لیتا ہوں، اگر وہ مل گیا تو بائع کے تیس دینار نقصان ہوئے، اور جو نہ ملا تو مشتری کے بیس دینار گئے۔
قال مالك: وفي ذلك عيب آخر إن تلك الضالة، إن وجدت، لم يدر ازادت ام نقصت، ام ما حدث بها من العيوب فهذا اعظم المخاطرة. _x000D_ قَالَ مَالِكٌ: وَفِي ذَلِكَ عَيْبٌ آخَرُ إِنَّ تِلْكَ الضَّالَّةَ، إِنْ وُجِدَتْ، لَمْ يُدْرَ أَزَادَتْ أَمْ نَقَصَتْ، أَمْ مَا حَدَثَ بِهَا مِنَ الْعُيُوبِ فَهَذَا أَعْظَمُ الْمُخَاطَرَةِ. _x000D_
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس میں ایک بڑا دھوکا ہے، معلوم نہیں وہ جانور یا غلام اسی حال میں ہے یا اس میں کوئی عیب ہوگیا یا ہنر ہوگیا، جس کی وجہ سے اس کی قیمت گھٹ بڑھ گئی۔
قال مالك: والامر عندنا ان من المخاطرة والغرر اشتراء ما في بطون الإناث من النساء والدواب، لانه لا يدرى ايخرج ام لا يخرج؟ فإن خرج لم يدر ايكون حسنا ام قبيحا؟ ام تاما ام ناقصا؟ ام ذكرا ام انثى؟ وذلك كله يتفاضل، إن كان على كذا فقيمته كذا، وإن كان على كذا فقيمته كذا. قَالَ مَالِكٌ: وَالْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّ مِنَ الْمُخَاطَرَةِ وَالْغَرَرِ اشْتِرَاءَ مَا فِي بُطُونِ الْإِنَاثِ مِنَ النِّسَاءِ وَالدَّوَابِّ، لِأَنَّهُ لَا يُدْرَى أَيَخْرُجُ أَمْ لَا يَخْرُجُ؟ فَإِنْ خَرَجَ لَمْ يُدْرَ أَيَكُونُ حَسَنًا أَمْ قَبِيحًا؟ أَمْ تَامًّا أَمْ نَاقِصًا؟ أَمْ ذَكَرًا أَمْ أُنْثَى؟ وَذَلِكَ كُلُّهُ يَتَفَاضَلُ، إِنْ كَانَ عَلَى كَذَا فَقِيمَتُهُ كَذَا، وَإِنْ كَانَ عَلَى كَذَا فَقِيمَتُهُ كَذَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ حمل کا خریدنا بھی دھوکے کی بیع میں داخل ہے، معلوم نہیں بچہ نکلتا ہے یا نہیں، اگر نکلے تو خوبصورت ہوگا یا بدصورت، پورا ہوگا یا لنڈورا، نر ہوگا یا مادہ، اور ہر ایک کی قیمت کم وبیش ہے۔
قال مالك: ولا ينبغي بيع الإناث، واستثناء ما في بطونها، وذلك ان يقول الرجل للرجل: ثمن شاتي الغزيرة ثلاثة دنانير فهي لك بدينارين، ولي ما في بطنها، فهذا مكروه لانه غرر ومخاطرة. _x000D_ قَالَ مَالِكٌ: وَلَا يَنْبَغِي بَيْعُ الْإِنَاثِ، وَاسْتِثْنَاءُ مَا فِي بُطُونِهَا، وَذَلِكَ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ: ثَمَنُ شَاتِي الْغَزِيرَةِ ثَلَاثَةُ دَنَانِيرَ فَهِيَ لَكَ بِدِينَارَيْنِ، وَلِي مَا فِي بَطْنِهَا، فَهَذَا مَكْرُوهٌ لِأَنَّهُ غَرَرٌ وَمُخَاطَرَةٌ. _x000D_
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مادہ کو بیچنا اور اس کے حمل کو مستثنیٰ کر لینا درست نہیں، جیسے کوئی کسی سے کہے: میری دودھ والی بکری کی قیمت تین دینار ہیں، تو دو دینار کو لے لے، مگر اس کے پیٹ کا بچہ جب پیدا ہوگا تو میں لے لوں گا، یہ مکروہ ہے، درست نہیں۔
قال مالك: والامر عندنا ان من المخاطرة والغرر اشتراء ما في بطون الإناث من النساء والدواب، لانه لا يدرى ايخرج ام لا يخرج؟ فإن خرج لم يدر ايكون حسنا ام قبيحا؟ ام تاما ام ناقصا؟ ام ذكرا ام انثى؟ وذلك كله يتفاضل، إن كان على كذا فقيمته كذا، وإن كان على كذا فقيمته كذا. قَالَ مَالِكٌ: وَالْأَمْرُ عِنْدَنَا أَنَّ مِنَ الْمُخَاطَرَةِ وَالْغَرَرِ اشْتِرَاءَ مَا فِي بُطُونِ الْإِنَاثِ مِنَ النِّسَاءِ وَالدَّوَابِّ، لِأَنَّهُ لَا يُدْرَى أَيَخْرُجُ أَمْ لَا يَخْرُجُ؟ فَإِنْ خَرَجَ لَمْ يُدْرَ أَيَكُونُ حَسَنًا أَمْ قَبِيحًا؟ أَمْ تَامًّا أَمْ نَاقِصًا؟ أَمْ ذَكَرًا أَمْ أُنْثَى؟ وَذَلِكَ كُلُّهُ يَتَفَاضَلُ، إِنْ كَانَ عَلَى كَذَا فَقِيمَتُهُ كَذَا، وَإِنْ كَانَ عَلَى كَذَا فَقِيمَتُهُ كَذَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا نے کہ زیتون کی لکڑی اس کے تیل کے، اور تل تیل کے بدلے میں، اور مکھن گھی کے بدلے میں بیچنا درست نہیں، اس لیے کہ یہ مزابنہ میں داخل ہے، اور اس میں دھوکہ ہے، معلوم نہیں اس تل یا لکڑی یا مکھن میں اسی قدر تیل یا گھی نکلتا ہے یا اس سے کم یا زیادہ۔
قال مالك: ولا ينبغي بيع الإناث، واستثناء ما في بطونها، وذلك ان يقول الرجل للرجل: ثمن شاتي الغزيرة ثلاثة دنانير فهي لك بدينارين، ولي ما في بطنها، فهذا مكروه لانه غرر ومخاطرة. قَالَ مَالِكٌ: وَلَا يَنْبَغِي بَيْعُ الْإِنَاثِ، وَاسْتِثْنَاءُ مَا فِي بُطُونِهَا، وَذَلِكَ أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ لِلرَّجُلِ: ثَمَنُ شَاتِي الْغَزِيرَةِ ثَلَاثَةُ دَنَانِيرَ فَهِيَ لَكَ بِدِينَارَيْنِ، وَلِي مَا فِي بَطْنِهَا، فَهَذَا مَكْرُوهٌ لِأَنَّهُ غَرَرٌ وَمُخَاطَرَةٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسی طرح حب البان کا بیچنا روغن بان کے بدلے میں نادرست ہے، البتہ حب البان کو خوشبودار بان کے بدلے میں بیچنا درست ہے، کیونکہ وہ خوشبو ملانے سے تیل کے حکم میں نہ رہا۔
قال مالك: ولا يحل بيع الزيتون بالزيت، ولا الجلجلان بدهن الجلجلان، ولا الزبد بالسمن، لان المزابنة تدخله، ولان الذي يشتري الحب وما اشبهه بشيء مسمى مما يخرج منه، لا يدري ايخرج منه اقل من ذلك او اكثر؟ فهذا غرر ومخاطرة. قَالَ مَالِكٌ: وَلَا يَحِلُّ بَيْعُ الزَّيْتُونِ بِالزَّيْتِ، وَلَا الْجُلْجُلَانِ بِدُهْنِ الْجُلْجُلَانِ، وَلَا الزُّبْدِ بِالسَّمْنِ، لِأَنَّ الْمُزَابَنَةَ تَدْخُلُهُ، وَلِأَنَّ الَّذِي يَشْتَرِي الْحَبَّ وَمَا أَشْبَهَهُ بِشَيْءٍ مُسَمًّى مِمَّا يَخْرُجُ مِنْهُ، لَا يَدْرِي أَيَخْرُجُ مِنْهُ أَقَلُّ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَكْثَرُ؟ فَهَذَا غَرَرٌ وَمُخَاطَرَةٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک شخص نے اپنی چیز کسی کے ہاتھ اس شرط پر بیچی کہ مشتری کو نقصان نہ ہوگا، تو یہ جائز نہیں، گویا بائع نے مشتری کو نوکر رکھا، اگر اس چیز میں نفع ہو، اور اگر اتنے ہی کو بکے جتنے کو خریدا ہے یا کم کو، مشتری کی محنت برباد ہوئی تو یہ درست نہیں، مشتری کو اس کی محنت کے موافق مزدوری ملے گی، اور جو کچھ نفع نقصان ہو بائع کا ہوگا، مگر یہ حکم جب ہے کہ مشتری اس چیز کو بیچ چکا ہو، اگر اس نے نہیں بیچا تو بیع کو فسخ کریں گے۔