حضرت سعید بن مسیّب اور سلیمان بن یسار منع کرتے تھے اس بات سے کہ کوئی شخص گیہوں کو سونے کے بدلے میں یبچے معیاد لگا کر، پھر قبل سونا لینے کے اس کے بدلے میں کھجور لے لے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 14124، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 47»
حضرت کثیر بن فرقد نے ابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے پوچھا: کوئی شخص اناج کو سونے کے بدلے میں میعاد لگا کر بیچے، پھر قبل سونا لینے کے اس کے بدلے میں کھجور خرید لے؟ انہوں نے کہا: یہ مکروہ ہے، اور منع کیا اس سے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 48»
قال مالك: وإنما نهى سعيد بن المسيب، وسليمان بن يسار، وابو بكر بن محمد بن عمرو بن حزم، وابن شهاب عن ان لا يبيع الرجل حنطة بذهب، ثم يشتري الرجل بالذهب تمرا قبل ان يقبض الذهب من بيعه الذي اشترى منه الحنطة، فاما ان يشتري بالذهب التي باع بها الحنطة إلى اجل تمرا من غير بائعه الذي باع منه الحنطة، قبل ان يقبض الذهب ويحيل الذي اشترى منه التمر على غريمه الذي باع منه الحنطة بالذهب، التي له عليه في ثمر التمر، فلا باس بذلك.قَالَ مَالِك: وَإِنَّمَا نَهَى سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ، وَسُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، وَابْنُ شِهَابٍ عَنْ أَنْ لَا يَبِيعَ الرَّجُلُ حِنْطَةً بِذَهَبٍ، ثُمَّ يَشْتَرِي الرَّجُلُ بِالذَّهَبِ تَمْرًا قَبْلَ أَنْ يَقْبِضَ الذَّهَبَ مِنْ بَيْعِهِ الَّذِي اشْتَرَى مِنْهُ الْحِنْطَةَ، فَأَمَّا أَنْ يَشْتَرِيَ بِالذَّهَبِ الَّتِي بَاعَ بِهَا الْحِنْطَةَ إِلَى أَجَلٍ تَمْرًا مِنْ غَيْرِ بَائِعِهِ الَّذِي بَاعَ مِنْهُ الْحِنْطَةَ، قَبْلَ أَنْ يَقْبِضَ الذَّهَبَ وَيُحِيلَ الَّذِي اشْتَرَى مِنْهُ التَّمْرَ عَلَى غَرِيمِهِ الَّذِي بَاعَ مِنْهُ الْحِنْطَةَ بِالذَّهَبِ، الَّتِي لَهُ عَلَيْهِ فِي ثَمَرِ التَّمْرِ، فَلَا بَأْسَ بِذَلِكَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ سعید بن مسیّب اور سلیمان بن یسار اور ابوبکر بن محمد اور ابن شہاب نے اس بات سے منع کیا ہے کہ کوئی آدمی گیہوں کو سونے کے بدلے میں بیچے، پھر اس سونے کے بدلے کھجور خرید لے اسی شخص سے جس کے ہاتھ گیہوں بیچے قبل اس بات کے کہ سونے پر قبضہ کرے، اگر اس سونے کے بدلے میں کسی اور شخص سے کھجور خریدے سوائے اس شخص کے جس کے ہاتھ گیہوں بیچے ہیں، اور کھجور کی قیمت کا حوالہ کر دے اس شخص پر جس کے ہاتھوں گیہوں بیچے ہیں تو درست ہے۔
قال مالك: وقد سالت عن ذلك غير واحد من اهل العلم، فلم يروا به باسا قَالَ مَالِك: وَقَدْ سَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ غَيْرَ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، فَلَمْ يَرَوْا بِهِ بَأْسًا
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: میں نے بہت سے اہلِ علم سے اس مسئلہ کو پوچھا، اُن سب نے کہا درست ہے۔
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، انه قال: " لا باس بان يسلف الرجل الرجل في الطعام الموصوف بسعر معلوم إلى اجل مسمى، ما لم يكن في زرع لم يبد صلاحه او تمر لم يبد صلاحه" . حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ قَالَ: " لَا بَأْسَ بِأَنْ يُسَلِّفَ الرَّجُلُ الرَّجُلَ فِي الطَّعَامِ الْمَوْصُوفِ بِسِعْرٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى، مَا لَمْ يَكُنْ فِي زَرْعٍ لَمْ يَبْدُ صَلَاحُهُ أَوْ تَمْرٍ لَمْ يَبْدُ صَلَاحُهُ" .
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: کچھ قباحت نہیں اگر ایک مرد دوسرے مرد سے سلف کرے اناج میں، جب اس کا وصف بیان کر دے، نرخ مقرر کر کے میعاد معین پر، جب وہ سلم کسی ایسے کھیت میں نہ ہو جس کی بہتری کا حال معلوم نہ ہو، یا ایسی کھجور میں نہ ہو جس کی بہتری کا حال معلوم نہ ہو۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2253، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3467، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 14061، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 20474، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11137، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 49»
قال مالك: الامر عندنا فيمن سلف في طعام بسعر معلوم إلى اجل مسمى، فحل الاجل فلم يجد المبتاع عند البائع وفاء مما ابتاع منه فاقاله، فإنه لا ينبغي له ان ياخذ منه إلا ورقه او ذهبه او الثمن الذي دفع إليه بعينه، وإنه لا يشتري منه بذلك الثمن شيئا حتى يقبضه منه، وذلك انه إذا اخذ غير الثمن الذي دفع إليه، او صرفه في سلعة غير الطعام الذي ابتاع منه فهو بيع الطعام قبل ان يستوفى. قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِيمَنْ سَلَّفَ فِي طَعَامٍ بِسِعْرٍ مَعْلُومٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى، فَحَلَّ الْأَجَلُ فَلَمْ يَجِدِ الْمُبْتَاعُ عِنْدَ الْبَائِعِ وَفَاءً مِمَّا ابْتَاعَ مِنْهُ فَأَقَالَهُ، فَإِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنْهُ إِلَّا وَرِقَهُ أَوْ ذَهَبَهُ أَوِ الثَّمَنَ الَّذِي دَفَعَ إِلَيْهِ بِعَيْنِهِ، وَإِنَّهُ لَا يَشْتَرِي مِنْهُ بِذَلِكَ الثَّمَنِ شَيْئًا حَتَّى يَقْبِضَهُ مِنْهُ، وَذَلِكَ أَنَّهُ إِذَا أَخَذَ غَيْرَ الثَّمَنِ الَّذِي دَفَعَ إِلَيْهِ، أَوْ صَرَفَهُ فِي سِلْعَةٍ غَيْرِ الطَّعَامِ الَّذِي ابْتَاعَ مِنْهُ فَهُوَ بَيْعُ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَوْفَى.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ہے: جو شخص سلف کرے اناج میں نرخ مقرر کر کے مدت معین پر، تو جب مدت گزرے اور خریدار بائع کے پاس وہ اناج نہ پائے اور سلف کو مسخ کرے، تو خریدار کو چاہیے اپنی چاندی یا سونا دیا ہوا یا قیمت دی ہوئی بعینہ پھیر لے، یہ نہ کرے کہ اس کے بدلے میں دوسری شئے بائع سے خرید لے جب تک اپنے ثمن پر قبضہ نہ کر لے، کیونکہ اگر خریدار نے جو قیمت دی ہے اس کے سوا کچھ لے آیا اس کے بدلے میں دوسرا اسباب خرید لے، تو اس نے اناج کو قبل قبضہ کے بیچا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع کیا ہے۔
قال مالك: وقد" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الطعام قبل ان يستوفى". قال مالك: فإن ندم المشتري، فقال للبائع: اقلني وانظرك بالثمن الذي دفعت إليك، فإن ذلك لا يصلح، واهل العلم ينهون عنه، وذلك انه لما حل الطعام للمشتري على البائع اخر عنه حقه على ان يقيله فكان ذلك بيع الطعام إلى اجل قبل ان يستوفى. قَالَ مَالِك: وَقَدْ" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الطَّعَامِ قَبْلَ أَنْ يُسْتَوْفَى". قَالَ مَالِك: فَإِنْ نَدِمَ الْمُشْتَرِي، فَقَالَ لِلْبَائِعِ: أَقِلْنِي وَأُنْظِرُكَ بِالثَّمَنِ الَّذِي دَفَعْتُ إِلَيْكَ، فَإِنَّ ذَلِكَ لَا يَصْلُحُ، وَأَهْلُ الْعِلْمِ يَنْهَوْنَ عَنْهُ، وَذَلِكَ أَنَّهُ لَمَّا حَلَّ الطَّعَامُ لِلْمُشْتَرِي عَلَى الْبَائِعِ أَخَّرَ عَنْهُ حَقَّهُ عَلَى أَنْ يُقِيلَهُ فَكَانَ ذَلِكَ بَيْعَ الطَّعَامِ إِلَى أَجَلٍ قَبْلَ أَنْ يُسْتَوْفَى.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مشتری نے بائع سے کہا: سلف کو فسخ کر ڈال اور ثمن واپس کرنے کے لیے میں تجھ کو مہلت دیتا ہوں، تو یہ جائز نہیں، اور اہلِ علم اس کو منع کرتے ہیں، کیونکہ جب میعاد گزر گئی اور اناج بائع کے ذمہ واجب ہو، اب مشتری نے اپنے حق وصول کرنے میں دیر کی اس شرط سے کہ بائع سلم کو فسخ کر ڈالے، تو گویا مشتری نے اپنے اناج کو ایک مدت پر بیچا قبل قبضے کے۔
قال مالك: وتفسير ذلك: ان المشتري حين حل الاجل وكره الطعام اخذ به دينارا إلى اجل وليس ذلك بالإقالة، وإنما الإقالة ما لم يزدد فيه البائع ولا المشتري، فإذا وقعت فيه الزيادة بنسيئة إلى اجل او بشيء يزداده احدهما على صاحبه او بشيء ينتفع به احدهما، فإن ذلك ليس بالإقالة، وإنما تصير الإقالة إذا فعلا ذلك بيعا، وإنما ارخص في الإقالة والشرك والتولية ما لم يدخل شيئا من ذلك زيادة او نقصان او نظرة، فإن دخل ذلك زيادة او نقصان او نظرة، صار بيعا يحله ما يحل البيع ويحرمه ما يحرم البيع. قَالَ مَالِك: وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ: أَنَّ الْمُشْتَرِيَ حِينَ حَلَّ الْأَجَلُ وَكَرِهَ الطَّعَامَ أَخَذَ بِهِ دِينَارًا إِلَى أَجَلٍ وَلَيْسَ ذَلِكَ بِالْإِقَالَةِ، وَإِنَّمَا الْإِقَالَةُ مَا لَمْ يَزْدَدْ فِيهِ الْبَائِعُ وَلَا الْمُشْتَرِي، فَإِذَا وَقَعَتْ فِيهِ الزِّيَادَةُ بِنَسِيئَةٍ إِلَى أَجَلٍ أَوْ بِشَيْءٍ يَزْدَادُهُ أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ أَوْ بِشَيْءٍ يَنْتَفِعُ بِهِ أَحَدُهُمَا، فَإِنَّ ذَلِكَ لَيْسَ بِالْإِقَالَةِ، وَإِنَّمَا تَصِيرُ الْإِقَالَةُ إِذَا فَعَلَا ذَلِكَ بَيْعًا، وَإِنَّمَا أُرْخِصَ فِي الْإِقَالَةِ وَالشِّرْكِ وَالتَّوْلِيَةِ مَا لَمْ يَدْخُلْ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ زِيَادَةٌ أَوْ نُقْصَانٌ أَوْ نَظِرَةٌ، فَإِنْ دَخَلَ ذَلِكَ زِيَادَةٌ أَوْ نُقْصَانٌ أَوْ نَظِرَةٌ، صَارَ بَيْعًا يُحِلُّهُ مَا يُحِلُّ الْبَيْعَ وَيُحَرِّمُهُ مَا يُحَرِّمُ الْبَيْعَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی مثال یہ ہے کہ جب مدت پوری ہوئی اور خریدار نے اناج لینا پسند نہ کیا تو اس اناج کے بدلے میں کچھ روپے ٹھہرا لیے ایک مدت پر، تو یہ اقالہ نہیں ہے، اقالہ وہ ہے جس میں کمی بیشی بائع یا مشتری کی طرف سے نہ ہو، اگر اس میں کمی بیشی ہوگی یا کوئی میعاد بڑھ جائے گی یا کچھ فائدہ مقرر ہوگا بائع کا یا مشتری کا، تو وہ اقالہ بیع سمجھا جائے گا، اور اقالہ اور شرکت اور تولیہ جب تک درست ہیں کہ کمی بیشی یا میعاد نہ ہو، اگر یہ چیزیں ہوں گی تو وہ نئی بیع سمجھیں گے۔ جن وجوہ سے بیع درست ہوتی ہے یہ بھی درست ہوں گی، اور جن وجوہ سے بیع نادرست ہوتی ہے یہ بھی نادرست ہوگی۔ _x000D_
قال مالك: من سلف في حنطة شامية، فلا باس ان ياخذ محمولة بعد محل الاجل. قَالَ مَالِك: مَنْ سَلَّفَ فِي حِنْطَةٍ شَامِيَّةٍ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يَأْخُذَ مَحْمُولَةً بَعْدَ مَحِلِّ الْأَجَلِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص سلف میں عمدہ گیہوں ٹھہرائے، پھر میعاد گزرنے کے بعد اس سے بہتر یا بری لے لے، تو کچھ قباحت نہیں بشرطیکہ وزن وہی ہو جو ٹھہرا ہو، یہی حکم انگور اور کھجور میں ہے۔