قال مالك: وإن كانوا صغارا لا يطيقون السعي. لم ينتظر بهم ان يكبروا، وكانوا رقيقا لسيد ابيهم إلا ان يكون المكاتب ترك ما يؤدى به عنهم نجومهم. إلى ان يتكلفوا السعي. فإن كان فيما ترك ما يؤدى عنهم، ادي ذلك عنهم. وتركوا على حالهم. حتى يبلغوا السعي. فإن ادوا عتقوا وإن عجزوا رقوا. قَالَ مَالِكٌ: وَإِنْ كَانُوا صِغَارًا لَا يُطِيقُونَ السَّعْيَ. لَمْ يُنْتَظَرْ بِهِمْ أَنْ يَكْبَرُوا، وَكَانُوا رَقِيقًا لِسَيِّدِ أَبِيهِمْ إِلَّا أَنْ يَكُونَ الْمُكَاتَبُ تَرَكَ مَا يُؤَدَّى بِهِ عَنْهُمْ نُجُومُهُمْ. إِلَى أَنْ يَتَكَلَّفُوا السَّعْيَ. فَإِنْ كَانَ فِيمَا تَرَكَ مَا يُؤَدَّى عَنْهُمْ، أُدِّيَ ذَلِكَ عَنْهُمْ. وَتُرِكُوا عَلَى حَالِهِمْ. حَتَّى يَبْلُغُوا السَّعْيَ. فَإِنْ أَدَّوْا عَتَقُوا وَإِنْ عَجَزُوا رَقُّوا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مکاتب کے بیٹے کمسن ہوں، محنت مزدوری نہ کر سکیں، تو ان کے بڑے ہونے کا انتظار نہ کیا جائے گا، اور اپنے باپ کے مولیٰ کے غلام ہو جائیں گے، مگر جس صورت میں مکاتب اس قدر مال چھوڑ جائے جو ان کے بلوغ تک کی قسطوں کو کافی ہو، اس صورت میں بلوغ تک انتظار کیا جائے گا، بعد بلوغ کے اگر بدل کتابت کو ادا کر دیں تو آزاد ہو جائیں گے، اور اگر عاجز ہو جائیں تو غلام ہو جائیں گے۔
قال مالك في المكاتب يموت ويترك مالا ليس فيه وفاء الكتابة. ويترك ولدا معه في كتابته وام ولد. فارادت ام ولده ان تسعى عليهم: إنه يدفع إليها المال إذا كانت مامونة على ذلك قوية على السعي. وإن لم تكن قوية على السعي. ولا مامونة على المال لم تعط شيئا من ذلك. ورجعت هي وولد المكاتب رقيقا لسيد المكاتب. قَالَ مَالِكٌ فِي الْمُكَاتَبِ يَمُوتُ وَيَتْرُكُ مَالًا لَيْسَ فِيهِ وَفَاءُ الْكِتَابَةِ. وَيَتْرُكُ وَلَدًا مَعَهُ فِي كِتَابَتِهِ وَأُمَّ وَلَدٍ. فَأَرَادَتْ أُمُّ وَلَدِهِ أَنْ تَسْعَى عَلَيْهِمْ: إِنَّهُ يُدْفَعُ إِلَيْهَا الْمَالُ إِذَا كَانَتْ مَأْمُونَةً عَلَى ذَلِكَ قَوِيَّةً عَلَى السَّعْيِ. وَإِنْ لَمْ تَكُنْ قَوِيَّةً عَلَى السَّعْيِ. وَلَا مَأْمُونَةً عَلَى الْمَالِ لَمْ تُعْطَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ. وَرَجَعَتْ هِيَ وَوَلَدُ الْمُكَاتَبِ رَقِيقًا لِسَيِّدِ الْمُكَاتَبِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مکاتب مر جائے اور اس قدر مال چھوڑ جائے جو بدل کتابت کو مکتفی نہ ہو اور اپنی اولاد اور اُم ولد کو جو کتابت میں داخل ہو چھوڑ جائے، پھر اُم ولد یہ چاہے وہ مال لے کر اولاد کے اور اپنے آزاد کرنے میں محنت مزدوری کرے، تو اگر وہ اُم ولد معتبر اور مشقت محنت پر قادر ہو تو وہ مال اس کے حوالے کیا جائے گا، ورنہ وہ مال مولیٰ لے لے گا اور اُم ولد اور مکاتب کی اولاد غلام ہو جائیں گے مولیٰ کے۔
حدثني مالك، انه سمع ربيعة بن ابي عبد الرحمن، وغيره، يذكرون ان مكاتبا كان للفرافصة بن عمير الحنفي، وانه عرض عليه ان يدفع إليه جميع ما عليه من كتابته، فابى الفرافصة، فاتى المكاتب مروان بن الحكم وهو امير المدينة، فذكر ذلك له، فدعا مروان، الفرافصة، فقال له ذلك، فابى، فامر مروان بذلك المال " ان يقبض من المكاتب، فيوضع في بيت المال، وقال للمكاتب: اذهب، فقد عتقت". فلما راى ذلك الفرافصة، قبض المال . حَدَّثَنِي مَالِك، أَنَّهُ سَمِعَ رَبِيعَةَ بْنَ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، وَغَيْرَهُ، يَذْكُرُونَ أَنَّ مُكَاتَبًا كَانَ لِلْفُرَافِصَةِ بْنِ عُمَيْرٍ الْحَنَفِيِّ، وَأَنَّهُ عَرَضَ عَلَيْهِ أَنْ يَدْفَعَ إِلَيْهِ جَمِيعَ مَا عَلَيْهِ مِنْ كِتَابَتِهِ، فَأَبَى الْفُرَافِصَةُ، فَأَتَى الْمُكَاتَبُ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ وَهُوَ أَمِيرُ الْمَدِينَةِ، فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَدَعَا مَرْوَانُ، الْفُرَافِصَةَ، فَقَالَ لَهُ ذَلِكَ، فَأَبَى، فَأَمَرَ مَرْوَانُ بِذَلِكَ الْمَالِ " أَنْ يُقْبَضَ مِنَ الْمُكَاتَبِ، فَيُوضَعَ فِي بَيْتِ الْمَالِ، وَقَالَ لِلْمُكَاتَبِ: اذْهَبْ، فَقَدْ عَتَقْتَ". فَلَمَّا رَأَى ذَلِكَ الْفُرَافِصَةُ، قَبَضَ الْمَالَ .
حضرت ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن وغیرہ سے روایت ہے کہ فرافصہ بن عمیر کا ایک مکاتب تھا، جو مدت پوری ہونے سے پہلے سب بدل کتابت لے کر آیا، فرافصہ نے اس کے لینے سے انکار کیا، مکاتب مروان کے پاس گیا جو حاکم تھا مدینہ کا، اس سے بیان کیا، مروان نے فرافصہ کو بلا بھیجا اور کہا: بدل کتابت لے لے۔ فرافصہ نے انکار کیا، مروان نے حکم کیا کہ مکاتب سے وہ مال لے کر بیت المال میں رکھا جائے، اور مکاتب سے کہا: جا تو آزاد ہو گیا۔ جب فرافصہ نے یہ حال دیکھا تو مال لے لیا۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 39 - كِتَابُ الْمُكَاتَبِ-ح: 9»
قال مالك: فالامر عندنا، ان المكاتب إذا ادى جميع ما عليه من نجومه قبل محلها جاز ذلك له ولم يكن لسيده ان يابى ذلك عليه، وذلك انه يضع عن المكاتب بذلك كل شرط او خدمة او سفر، لانه لا تتم عتاقة رجل وعليه بقية من رق ولا تتم حرمته ولا تجوز شهادته ولا يجب ميراثه ولا اشباه هذا من امره، ولا ينبغي لسيده ان يشترط عليه خدمة بعد عتاقته. قَالَ مَالِك: فَالْأَمْرُ عِنْدَنَا، أَنَّ الْمُكَاتَبَ إِذَا أَدَّى جَمِيعَ مَا عَلَيْهِ مِنْ نُجُومِهِ قَبْلَ مَحِلِّهَا جَازَ ذَلِكَ لَهُ وَلَمْ يَكُنْ لِسَيِّدِهِ أَنْ يَأْبَى ذَلِكَ عَلَيْهِ، وَذَلِكَ أَنَّهُ يَضَعُ عَنِ الْمُكَاتَبِ بِذَلِكَ كُلَّ شَرْطٍ أَوْ خِدْمَةٍ أَوْ سَفَرٍ، لِأَنَّهُ لَا تَتِمُّ عَتَاقَةُ رَجُلٍ وَعَلَيْهِ بَقِيَّةٌ مِنْ رِقٍّ وَلَا تَتِمُّ حُرْمَتُهُ وَلَا تَجُوزُ شَهَادَتُهُ وَلَا يَجِبُ مِيرَاثُهُ وَلَا أَشْبَاهُ هَذَا مِنْ أَمْرِهِ، وَلَا يَنْبَغِي لِسَيِّدِهِ أَنْ يَشْتَرِطَ عَلَيْهِ خِدْمَةً بَعْدَ عَتَاقَتِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم ہے کہ مکاتب اگر اپنی سب قسطوں کو مدت سے پیشتر ادا کر دے تو درست ہے، اس کے مولیٰ کو درست نہیں کہ لینے سے انکار کرے، کیونکہ مولیٰ اس کے سبب سے ہر شرط کو اور خدمت کو اس کے ذمے سے اتار دیتا ہے، اس لیے کہ کسی آدمی کی آزادی پوری نہیں ہوتی جب تک اس کی حرمت تمام نہ ہو، اور اس کی گواہی جائز نہ ہو، اور اس کو میراث کا استحقاق نہ ہو، اور اس کے مولیٰ کو لائق نہیں کہ بعد آزادی کے اس پر کسی کام یا خدمت کی شرط لگائے۔
قال مالك، في مكاتب مرض مرضا شديدا، فاراد ان يدفع نجومه كلها إلى سيده لان يرثه ورثة له احرار، وليس معه في كتابته ولد له، قال مالك: ذلك جائز له، لانه تتم بذلك حرمته وتجوز شهادته ويجوز اعترافه بما عليه من ديون الناس وتجوز وصيته، وليس لسيده ان يابى ذلك عليه، بان يقول: فر مني بمالهقَالَ مَالِك، فِي مُكَاتَبٍ مَرِضَ مَرَضًا شَدِيدًا، فَأَرَادَ أَنْ يَدْفَعَ نُجُومَهُ كُلَّهَا إِلَى سَيِّدِهِ لِأَنْ يَرِثَهُ وَرَثَةٌ لَهُ أَحْرَارٌ، وَلَيْسَ مَعَهُ فِي كِتَابَتِهِ وَلَدٌ لَهُ، قَالَ مَالِك: ذَلِكَ جَائِزٌ لَهُ، لِأَنَّهُ تَتِمُّ بِذَلِكَ حُرْمَتُهُ وَتَجُوزُ شَهَادَتُهُ وَيَجُوزُ اعْتِرَافُهُ بِمَا عَلَيْهِ مِنْ دُيُونِ النَّاسِ وَتَجُوزُ وَصِيَّتُهُ، وَلَيْسَ لِسَيِّدِهِ أَنْ يَأْبَى ذَلِكَ عَلَيْهِ، بِأَنْ يَقُولَ: فَرَّ مِنِّي بِمَالِهِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو مکاتب سخت بیمار ہو جائے، اور وہ یہ چاہے کہ سب قسطیں اپنے مولیٰ کو ادا کر کے آزاد ہو جائے تاکہ اس کے وارث میراث پائیں، جو پہلے سے آزاد ہیں اس کی کتابت میں داخل نہیں ہیں، تو مکاتب کو یہ امر درست ہے، کیونکہ اس سے اس کی حرمت پوری ہوتی ہے، اور اس کی گواہی درست ہوتی ہے، اور جن آدمیوں کے قرضہ کا اقرار کرے وہ اقرار جائز ہوتا ہے، اور اس کی وصیت درست ہوتی ہے، اور اس کے مولیٰ کو انکار نہیں پہنچتا اس خیال سے کہ اپنا مال بچانا چاہتا ہے۔
حدثني مالك انه بلغه، ان سعيد بن المسيب سئل عن مكاتب كان بين رجلين، فاعتق احدهما نصيبه، فمات المكاتب وترك مالا كثيرا، فقال: " يؤدى إلى الذي تماسك بكتابته الذي بقي له، ثم يقتسمان ما بقي بالسوية" . حَدَّثَنِي مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ سُئِلَ عَنْ مُكَاتَبٍ كَانَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ، فَأَعْتَقَ أَحَدُهُمَا نَصِيبَهُ، فَمَاتَ الْمُكَاتَبُ وَتَرَكَ مَالًا كَثِيرًا، فَقَالَ: " يُؤَدَّى إِلَى الَّذِي تَمَاسَكَ بِكِتَابَتِهِ الَّذِي بَقِيَ لَهُ، ثُمَّ يَقْتَسِمَانِ مَا بَقِيَ بِالسَّوِيَّةِ" .
حضرت سعید بن مسیّب سے سوال ہوا کہ ایک مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو، ایک شخص اُن میں سے اپنا حصّہ آزاد کر دے، پھر مکاتب مر جائے اور بہت سا مال چھوڑ جائے تو؟ سعید نے کہا: جس نے آزاد نہیں کیا اس کا بدل کتابت ادا کر کے باقی جو کچھ بچے گا دونوں شخص بانٹ لیں گے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16954، 17219، 21721، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 10005، 13416، 15654، 15668، 15669، 18712، 19236، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 21928، 22204، 29613، 33410، فواد عبدالباقي نمبر: 39 - كِتَابُ الْمُكَاتَبِ-ح: 10»
قال مالك: إذا كاتب المكاتب فعتق، فإنما يرثه اولى الناس بمن كاتبه من الرجال يوم توفي المكاتب من ولد، او عصبة قَالَ مَالِك: إِذَا كَاتَبَ الْمُكَاتَبُ فَعَتَقَ، فَإِنَّمَا يَرِثُهُ أَوْلَى النَّاسِ بِمَنْ كَاتَبَهُ مِنَ الرِّجَالِ يَوْمَ تُوُفِّيَ الْمُكَاتَبُ مِنْ وَلَدٍ، أَوْ عَصَبَةٍ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب مکاتب آزاد ہو جائے تو اس کا وارث وہ شخص ہوگا جس نے مکاتب کیا، یا مکاتب کے قریب سے قریب رشتہ دار مردوں میں سے جس دن مکاتب مرا ہے، لڑکا ہو یا اور عصبہ۔
قال: وهذا ايضا في كل من اعتق، فإنما ميراثه لاقرب الناس ممن اعتقه من ولد او عصبة من الرجال يوم يموت المعتق، بعد ان يعتق ويصير موروثا بالولاء. قَالَ: وَهَذَا أَيْضًا فِي كُلِّ مَنْ أُعْتِقَ، فَإِنَّمَا مِيرَاثُهُ لِأَقْرَبِ النَّاسِ مِمَّنْ أَعْتَقَهُ مِنْ وَلَدٍ أَوْ عَصَبَةٍ مِنَ الرِّجَالِ يَوْمَ يَمُوتُ الْمُعْتَقُ، بَعْدَ أَنْ يَعْتِقَ وَيَصِيرَ مَوْرُوثًا بِالْوَلَاءِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس طرح جو شخص آزاد ہو جائے، تو اس کی میراث اس شخص کو ملے گی جو آزاد کرنے والے کا قریب سے قریب رشتہ دار ہو، لڑکا ہو یا اور کوئی عصبہ، جس دن وہ غلام مرا ہے۔
قال مالك: الإخوة في الكتابة بمنزلة الولد، إذا كوتبوا جميعا كتابة واحدة إذا لم يكن لاحد منهم ولد كاتب عليهم، او ولدوا في كتابته او كاتب عليهم، ثم هلك احدهم وترك مالا ادي عنهم جميع ما عليهم من كتابتهم وعتقوا، وكان فضل المال بعد ذلك لولده دون إخوته قَالَ مَالِك: الْإِخْوَةُ فِي الْكِتَابَةِ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ، إِذَا كُوتِبُوا جَمِيعًا كِتَابَةً وَاحِدَةً إِذَا لَمْ يَكُنْ لِأَحَدٍ مِنْهُمْ وَلَدٌ كَاتَبَ عَلَيْهِمْ، أَوْ وُلِدُوا فِي كِتَابَتِهِ أَوْ كَاتَبَ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ هَلَكَ أَحَدُهُمْ وَتَرَكَ مَالًا أُدِّيَ عَنْهُمْ جَمِيعُ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ كِتَابَتِهِمْ وَعَتَقُوا، وَكَانَ فَضْلُ الْمَالِ بَعْدَ ذَلِكَ لِوَلَدِهِ دُونَ إِخْوَتِهِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر چند بھائی اکٹھا مکاتب کر دیئے جائیں، اور ان کی کوئی اولاد نہ ہو جو کتابت میں پیدا ہوئی ہو، یا عقد کتابت میں داخل ہو، تو وہ بھائی آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے، اگر اُن میں سے کسی کا لڑکا ہوگا جو کتابت میں پیدا ہوا ہو، یا اس پر عقد کتابت واقع ہوا ہو اور وہ مر جائے، تو پہلے اس کے مال میں سے سب کا بدل کتابت ادا کر کے جو کچھ بچ رہے گا وہ اس کی اولاد کو ملے گا، اس کے بھائیوں کو نہ ملے گا۔
قال مالك في رجل كاتب عبده بذهب او ورق. واشترط عليه في كتابته سفرا او خدمة او ضحية: إن كل شيء من ذلك سمى باسمه ثم قوي المكاتب على اداء نجومه كلها قبل محلها. قال: إذا ادى نجومه كلها وعليه هذا الشرط عتق فتمت حرمته ونظر إلى ما شرط عليه من خدمة او سفر او ما اشبه ذلك. مما يعالجه هو بنفسه. فذلك موضوع عنه ليس لسيده فيه شيء وما كان من ضحية او كسوة او شيء يؤديه. فإنما هو بمنزلة الدنانير والدراهم يقوم ذلك عليه فيدفعه مع نجومه ولا يعتق حتى يدفع ذلك مع نجومه. قَالَ مَالِكٌ فِي رَجُلٍ كَاتَبَ عَبْدَهُ بِذَهَبٍ أَوْ وَرِقٍ. وَاشْتَرَطَ عَلَيْهِ فِي كِتَابَتِهِ سَفَرًا أَوْ خِدْمَةً أَوْ ضَحِيَّةً: إِنَّ كُلَّ شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ سَمَّى بِاسْمِهِ ثُمَّ قَوِيَ الْمُكَاتَبُ عَلَى أَدَاءِ نُجُومِهِ كُلِّهَا قَبْلَ مَحِلِّهَا. قَالَ: إِذَا أَدَّى نُجُومَهُ كُلَّهَا وَعَلَيْهِ هَذَا الشَّرْطُ عَتَقَ فَتَمَّتْ حُرْمَتُهُ وَنُظِرَ إِلَى مَا شَرَطَ عَلَيْهِ مِنْ خِدْمَةٍ أَوْ سَفَرٍ أَوْ مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ. مِمَّا يُعَالِجُهُ هُوَ بِنَفْسِهِ. فَذَلِكَ مَوْضُوعٌ عَنْهُ لَيْسَ لِسَيِّدِهِ فِيهِ شَيْءٌ وَمَا كَانَ مِنْ ضَحِيَّةٍ أَوْ كِسْوَةٍ أَوْ شَيْءٍ يُؤَدِّيهِ. فَإِنَّمَا هُوَ بِمَنْزِلَةِ الدَّنَانِيرِ وَالدَّرَاهِمِ يُقَوَّمُ ذَلِكَ عَلَيْهِ فَيَدْفَعُهُ مَعَ نُجُومِهِ وَلَا يَعْتِقُ حَتَّى يَدْفَعَ ذَلِكَ مَعَ نُجُومِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے غلام کو مکاتب کیا سونے یا چاندی پر، اور اس کی کتابت میں کوئی شرط لگا دی سفر یا خدمت یا اضحیہ کی لیکن اس شرط کو معین کر دیا، پھر مکاتب اپنے قسطوں کے ادا کرنے پر مدت سے پہلے قادر ہو گیا اور اس نے قسطیں ادا کر دیں، مگر یہ شرط اس پر باقی ہے تو وہ آزاد ہو جائے گا، اور حرمت اس کی پوری ہو جائے گی، اب اس شرط کو دیکھیں گے، اگر وہ شرط ایسی ہے جو مکاتب کو خود ادا کرنا پڑتی ہے (جیسے سفر یا خدمت کی شرط) تو یہ مکاتب پر لازم نہ ہوگی اور نہ مولیٰ کو اس شرط کے پورا کرنے کا استحقاق ہوگا، اور جو شرط ایسی ہے جس میں کچھ دینا پڑتا ہے، جیسے اضحیہ یا کپڑے کی شرط تو یہ مانند روپوں اور اشرفیوں کے ہوگی، اس چیز کی قیمت لگا کر وہ بھی اپنی قسطوں کے ساتھ ادا کر دے گا، جب تک ادا نہ کرے گا آزاد نہ ہو گا۔