حدثني مالك انه بلغه، ان سعيد بن المسيب سئل عن مكاتب كان بين رجلين، فاعتق احدهما نصيبه، فمات المكاتب وترك مالا كثيرا، فقال: " يؤدى إلى الذي تماسك بكتابته الذي بقي له، ثم يقتسمان ما بقي بالسوية" . حَدَّثَنِي مَالِك أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ سُئِلَ عَنْ مُكَاتَبٍ كَانَ بَيْنَ رَجُلَيْنِ، فَأَعْتَقَ أَحَدُهُمَا نَصِيبَهُ، فَمَاتَ الْمُكَاتَبُ وَتَرَكَ مَالًا كَثِيرًا، فَقَالَ: " يُؤَدَّى إِلَى الَّذِي تَمَاسَكَ بِكِتَابَتِهِ الَّذِي بَقِيَ لَهُ، ثُمَّ يَقْتَسِمَانِ مَا بَقِيَ بِالسَّوِيَّةِ" .
حضرت سعید بن مسیّب سے سوال ہوا کہ ایک مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو، ایک شخص اُن میں سے اپنا حصّہ آزاد کر دے، پھر مکاتب مر جائے اور بہت سا مال چھوڑ جائے تو؟ سعید نے کہا: جس نے آزاد نہیں کیا اس کا بدل کتابت ادا کر کے باقی جو کچھ بچے گا دونوں شخص بانٹ لیں گے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16954، 17219، 21721، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 10005، 13416، 15654، 15668، 15669، 18712، 19236، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 21928، 22204، 29613، 33410، فواد عبدالباقي نمبر: 39 - كِتَابُ الْمُكَاتَبِ-ح: 10»
قال مالك: إذا كاتب المكاتب فعتق، فإنما يرثه اولى الناس بمن كاتبه من الرجال يوم توفي المكاتب من ولد، او عصبة قَالَ مَالِك: إِذَا كَاتَبَ الْمُكَاتَبُ فَعَتَقَ، فَإِنَّمَا يَرِثُهُ أَوْلَى النَّاسِ بِمَنْ كَاتَبَهُ مِنَ الرِّجَالِ يَوْمَ تُوُفِّيَ الْمُكَاتَبُ مِنْ وَلَدٍ، أَوْ عَصَبَةٍ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب مکاتب آزاد ہو جائے تو اس کا وارث وہ شخص ہوگا جس نے مکاتب کیا، یا مکاتب کے قریب سے قریب رشتہ دار مردوں میں سے جس دن مکاتب مرا ہے، لڑکا ہو یا اور عصبہ۔
قال: وهذا ايضا في كل من اعتق، فإنما ميراثه لاقرب الناس ممن اعتقه من ولد او عصبة من الرجال يوم يموت المعتق، بعد ان يعتق ويصير موروثا بالولاء. قَالَ: وَهَذَا أَيْضًا فِي كُلِّ مَنْ أُعْتِقَ، فَإِنَّمَا مِيرَاثُهُ لِأَقْرَبِ النَّاسِ مِمَّنْ أَعْتَقَهُ مِنْ وَلَدٍ أَوْ عَصَبَةٍ مِنَ الرِّجَالِ يَوْمَ يَمُوتُ الْمُعْتَقُ، بَعْدَ أَنْ يَعْتِقَ وَيَصِيرَ مَوْرُوثًا بِالْوَلَاءِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس طرح جو شخص آزاد ہو جائے، تو اس کی میراث اس شخص کو ملے گی جو آزاد کرنے والے کا قریب سے قریب رشتہ دار ہو، لڑکا ہو یا اور کوئی عصبہ، جس دن وہ غلام مرا ہے۔
قال مالك: الإخوة في الكتابة بمنزلة الولد، إذا كوتبوا جميعا كتابة واحدة إذا لم يكن لاحد منهم ولد كاتب عليهم، او ولدوا في كتابته او كاتب عليهم، ثم هلك احدهم وترك مالا ادي عنهم جميع ما عليهم من كتابتهم وعتقوا، وكان فضل المال بعد ذلك لولده دون إخوته قَالَ مَالِك: الْإِخْوَةُ فِي الْكِتَابَةِ بِمَنْزِلَةِ الْوَلَدِ، إِذَا كُوتِبُوا جَمِيعًا كِتَابَةً وَاحِدَةً إِذَا لَمْ يَكُنْ لِأَحَدٍ مِنْهُمْ وَلَدٌ كَاتَبَ عَلَيْهِمْ، أَوْ وُلِدُوا فِي كِتَابَتِهِ أَوْ كَاتَبَ عَلَيْهِمْ، ثُمَّ هَلَكَ أَحَدُهُمْ وَتَرَكَ مَالًا أُدِّيَ عَنْهُمْ جَمِيعُ مَا عَلَيْهِمْ مِنْ كِتَابَتِهِمْ وَعَتَقُوا، وَكَانَ فَضْلُ الْمَالِ بَعْدَ ذَلِكَ لِوَلَدِهِ دُونَ إِخْوَتِهِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر چند بھائی اکٹھا مکاتب کر دیئے جائیں، اور ان کی کوئی اولاد نہ ہو جو کتابت میں پیدا ہوئی ہو، یا عقد کتابت میں داخل ہو، تو وہ بھائی آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوں گے، اگر اُن میں سے کسی کا لڑکا ہوگا جو کتابت میں پیدا ہوا ہو، یا اس پر عقد کتابت واقع ہوا ہو اور وہ مر جائے، تو پہلے اس کے مال میں سے سب کا بدل کتابت ادا کر کے جو کچھ بچ رہے گا وہ اس کی اولاد کو ملے گا، اس کے بھائیوں کو نہ ملے گا۔
قال مالك في رجل كاتب عبده بذهب او ورق. واشترط عليه في كتابته سفرا او خدمة او ضحية: إن كل شيء من ذلك سمى باسمه ثم قوي المكاتب على اداء نجومه كلها قبل محلها. قال: إذا ادى نجومه كلها وعليه هذا الشرط عتق فتمت حرمته ونظر إلى ما شرط عليه من خدمة او سفر او ما اشبه ذلك. مما يعالجه هو بنفسه. فذلك موضوع عنه ليس لسيده فيه شيء وما كان من ضحية او كسوة او شيء يؤديه. فإنما هو بمنزلة الدنانير والدراهم يقوم ذلك عليه فيدفعه مع نجومه ولا يعتق حتى يدفع ذلك مع نجومه. قَالَ مَالِكٌ فِي رَجُلٍ كَاتَبَ عَبْدَهُ بِذَهَبٍ أَوْ وَرِقٍ. وَاشْتَرَطَ عَلَيْهِ فِي كِتَابَتِهِ سَفَرًا أَوْ خِدْمَةً أَوْ ضَحِيَّةً: إِنَّ كُلَّ شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ سَمَّى بِاسْمِهِ ثُمَّ قَوِيَ الْمُكَاتَبُ عَلَى أَدَاءِ نُجُومِهِ كُلِّهَا قَبْلَ مَحِلِّهَا. قَالَ: إِذَا أَدَّى نُجُومَهُ كُلَّهَا وَعَلَيْهِ هَذَا الشَّرْطُ عَتَقَ فَتَمَّتْ حُرْمَتُهُ وَنُظِرَ إِلَى مَا شَرَطَ عَلَيْهِ مِنْ خِدْمَةٍ أَوْ سَفَرٍ أَوْ مَا أَشْبَهَ ذَلِكَ. مِمَّا يُعَالِجُهُ هُوَ بِنَفْسِهِ. فَذَلِكَ مَوْضُوعٌ عَنْهُ لَيْسَ لِسَيِّدِهِ فِيهِ شَيْءٌ وَمَا كَانَ مِنْ ضَحِيَّةٍ أَوْ كِسْوَةٍ أَوْ شَيْءٍ يُؤَدِّيهِ. فَإِنَّمَا هُوَ بِمَنْزِلَةِ الدَّنَانِيرِ وَالدَّرَاهِمِ يُقَوَّمُ ذَلِكَ عَلَيْهِ فَيَدْفَعُهُ مَعَ نُجُومِهِ وَلَا يَعْتِقُ حَتَّى يَدْفَعَ ذَلِكَ مَعَ نُجُومِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس شخص نے اپنے غلام کو مکاتب کیا سونے یا چاندی پر، اور اس کی کتابت میں کوئی شرط لگا دی سفر یا خدمت یا اضحیہ کی لیکن اس شرط کو معین کر دیا، پھر مکاتب اپنے قسطوں کے ادا کرنے پر مدت سے پہلے قادر ہو گیا اور اس نے قسطیں ادا کر دیں، مگر یہ شرط اس پر باقی ہے تو وہ آزاد ہو جائے گا، اور حرمت اس کی پوری ہو جائے گی، اب اس شرط کو دیکھیں گے، اگر وہ شرط ایسی ہے جو مکاتب کو خود ادا کرنا پڑتی ہے (جیسے سفر یا خدمت کی شرط) تو یہ مکاتب پر لازم نہ ہوگی اور نہ مولیٰ کو اس شرط کے پورا کرنے کا استحقاق ہوگا، اور جو شرط ایسی ہے جس میں کچھ دینا پڑتا ہے، جیسے اضحیہ یا کپڑے کی شرط تو یہ مانند روپوں اور اشرفیوں کے ہوگی، اس چیز کی قیمت لگا کر وہ بھی اپنی قسطوں کے ساتھ ادا کر دے گا، جب تک ادا نہ کرے گا آزاد نہ ہو گا۔
قال مالك الامر المجتمع عليه عندنا الذي لا اختلاف فيه ان المكاتب بمنزلة عبد اعتقه سيده بعد خدمة عشر سنين. فإذا هلك سيده الذي اعتقه قبل عشر سنين. فإن ما بقي عليه من خدمته لورثته وكان ولاؤه للذي عقد عتقه ولولده من الرجال او العصبة. قَالَ مَالِكٌ الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ أَنَّ الْمُكَاتَبَ بِمَنْزِلَةِ عَبْدٍ أَعْتَقَهُ سَيِّدُهُ بَعْدَ خِدْمَةِ عَشْرِ سِنِينَ. فَإِذَا هَلَكَ سَيِّدُهُ الَّذِي أَعْتَقَهُ قَبْلَ عَشْرِ سِنِينَ. فَإِنَّ مَا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنْ خِدْمَتِهِ لِوَرَثَتِهِ وَكَانَ وَلَاؤُهُ لِلَّذِي عَقَدَ عِتْقَهُ وَلِوَلَدِهِ مِنَ الرِّجَالِ أَوِ الْعَصَبَةِ.
_x000D_ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مکاتب مثل اس غلام کے ہے جس کو مولیٰ آزاد کر دے دس برس تک خدمت کرنے کے بعد، اگر مولیٰ مر جائے اور دس برس نہ گزرے ہوں تو ورثاء کی خدمت میں دس برس پورے کرے گا، اور ولاء اس کی اسی کو ملے گی جس نے اس کی آزادی ثابت کی، یا اس کی اولاد کو مردوں میں سے یا عصبہ کو۔
قال مالك في الرجل يشترط على مكاتبه انك لا تسافر ولا تنكح ولا تخرج من ارضي إلا بإذني: فإن فعلت شيئا من ذلك بغير إذني فمحو كتابتك بيدي. قال مالك: ليس محو كتابته بيده إن فعل المكاتب شيئا من ذلك. وليرفع سيده ذلك إلى السلطان وليس للمكاتب ان ينكح ولا يسافر ولا يخرج من ارض سيده. إلا بإذنه اشترط ذلك او لم يشترطه. وذلك ان الرجل يكاتب عبده بمائة دينار وله الف دينار او اكثر من ذلك فينطلق فينكح المراة فيصدقها الصداق الذي يجحف بماله ويكون فيه عجزه فيرجع إلى سيده عبدا لا مال له. او يسافر فتحل نجومه وهو غائب فليس ذلك له ولا على ذلك كاتبه. وذلك بيد سيده إن شاء اذن له في ذلك وإن شاء منعه. قَالَ مَالِكٌ فِي الرَّجُلِ يَشْتَرِطُ عَلَى مُكَاتَبِهِ أَنَّكَ لَا تُسَافِرُ وَلَا تَنْكِحُ وَلَا تَخْرُجُ مِنْ أَرْضِي إِلَّا بِإِذْنِي: فَإِنْ فَعَلْتَ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ بِغَيْرِ إِذْنِي فَمَحْوُ كِتَابَتِكَ بِيَدِي. قَالَ مَالِكٌ: لَيْسَ مَحْوُ كِتَابَتِهِ بِيَدِهِ إِنْ فَعَلَ الْمُكَاتَبُ شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ. وَلْيَرْفَعْ سَيِّدُهُ ذَلِكَ إِلَى السُّلْطَانِ وَلَيْسَ لِلْمُكَاتَبِ أَنْ يَنْكِحَ وَلَا يُسَافِرَ وَلَا يَخْرُجَ مِنْ أَرْضِ سَيِّدِهِ. إِلَّا بِإِذْنِهِ اشْتَرَطَ ذَلِكَ أَوْ لَمْ يَشْتَرِطْهُ. وَذَلِكَ أَنَّ الرَّجُلَ يُكَاتِبُ عَبْدَهُ بِمِائَةِ دِينَارٍ وَلَهُ أَلْفُ دِينَارٍ أَوْ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ فَيَنْطَلِقُ فَيَنْكِحُ الْمَرْأَةَ فَيُصْدِقُهَا الصَّدَاقَ الَّذِي يُجْحِفُ بِمَالِهِ وَيَكُونُ فِيهِ عَجْزُهُ فَيَرْجِعُ إِلَى سَيِّدِهِ عَبْدًا لَا مَالَ لَهُ. أَوْ يُسَافِرُ فَتَحِلُّ نُجُومُهُ وَهُوَ غَائِبٌ فَلَيْسَ ذَلِكَ لَهُ وَلَا عَلَى ذَلِكَ كَاتَبَهُ. وَذَلِكَ بِيَدِ سَيِّدِهِ إِنْ شَاءَ أَذِنَ لَهُ فِي ذَلِكَ وَإِنْ شَاءَ مَنَعَهُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے مکاتب سے شرط لگائے کہ سفر نہ کرنا یا نکاح نہ کرنا یا میرے ملک میں سے باہر نہ جانا بغیر میرے پوچھے ہوئے، اگر تو ایسا کرے گا تو تیری کتابت باطل کر دینا میرے اختیار میں ہوگا۔ اس صورت میں کتابت کا باطل کرنا اس کے اختیار میں نہ ہوگا، اگرچہ مکاتب ان کاموں میں سے کوئی کام کرے، اگر مکاتب کی کتابت کو مولیٰ باطل کرے تو مکاتب کو چاہیے کہ حاکم کے سامنے فریاد کرے، وہ حکم کر دے کہ کتابت باطل نہیں ہو سکتی، مگر اتنی بات ہے کہ مکاتب کو نکاح کرنا یا سفر کرنا یا ملک سے باہر جانا بغیر مولیٰ کے پوچھے ہوئے درست نہیں ہے، خواہ اس کی شرط ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو، اس کی وجہ یہ ہے کہ آدمی اپنے غلام کو سو دینار کے بدلے میں مکاتب کرتا ہے اور غلام کے پاس ہزار دینار موجود ہوتے ہیں تو وہ نکاح کر کے اُن دیناروں کو مہر کے بدلے میں تباہ ہو کر، پھر عاجز ہو کر مولیٰ کے پاس آتا ہے، نہ اس کے پاس مال ہوتا ہے نہ اور کچھ، اس میں سراسر مولیٰ کا نقصان ہے، یا مکاتب سفر کرتا ہے اور قسطوں کے دن آ جاتے ہیں لیکن وہ حاضر نہیں ہوتا، تو اس میں مولیٰ کا حرج ہوتا ہے، اسی نظر سے مکاتب کو درست نہیں کہ بغیر مولیٰ کے پوچھے ہوئے نکاح کرے یا سفر کرے، بلکہ ان امورات کا اختیار کرنا مولیٰ کو ہے، چاہے اجازت دے چاہے منع کرے۔
قال مالك: إن المكاتب إذا اعتق عبده إن ذلك غير جائز له. إلا بإذن سيده فإن اجاز ذلك سيده له ثم عتق المكاتب كان ولاؤه للمكاتب. وإن مات المكاتب قبل ان يعتق كان ولاء المعتق لسيد المكاتب وإن مات المعتق قبل ان يعتق المكاتب ورثه سيد المكاتب قَالَ مَالِكٌ: إِنَّ الْمُكَاتَبَ إِذَا أَعْتَقَ عَبْدَهُ إِنَّ ذَلِكَ غَيْرُ جَائِزٍ لَهُ. إِلَّا بِإِذْنِ سَيِّدِهِ فَإِنْ أَجَازَ ذَلِكَ سَيِّدُهُ لَهُ ثُمَّ عَتَقَ الْمُكَاتَبُ كَانَ وَلَاؤُهُ لِلْمُكَاتَبِ. وَإِنْ مَاتَ الْمُكَاتَبُ قَبْلَ أَنْ يُعْتَقَ كَانَ وَلَاءُ الْمُعْتَقِ لِسَيِّدِ الْمُكَاتَبِ وَإِنْ مَاتَ الْمُعْتَقُ قَبْلَ أَنْ يُعْتَقَ الْمُكَاتَبُ وَرِثَهُ سَيِّدُ الْمُكَاتَبِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مکاتب نے بھی اپنے غلام کو مکاتب کیا، پھر مکاتب کا مکاتب، مکاتب سے پہلے آزاد ہو گیا، تو اس کی ولاء مکاتب کے مولیٰ کو ملے گی جب تک مکاتب آزاد نہ ہو، جب مکاتب آزاد ہو جائے گا اس کے مکاتب کی ولاء اس کی طرف لوٹ آئے گی۔ اگر مکاتب بدل کتابت ادا کرنے سے پہلے مر گیا یا عاجز ہو گیا تو اس کی آزاد اولاد اپنے باپ کے مکاتب کی ولاء نہ پائیں گے، کیونکہ ان کے باپ کو ولاء کا استحقاق نہیں ہوا تھا، اس واسطے کہ وہ آزاد نہیں ہوا تھا۔
قال مالك: وكذلك ايضا لو كاتب المكاتب عبدا فعتق المكاتب الآخر قبل سيده الذي كاتبه فإن ولاءه لسيد المكاتب ما لم يعتق المكاتب الاول الذي كاتبه. فإن عتق الذي كاتبه رجع إليه ولاء مكاتبه الذي كان عتق قبله. وإن مات المكاتب الاول قبل ان يؤدي او عجز عن كتابته وله ولد احرار لم يرثوا ولاء مكاتب ابيهم لانه لم يثبت لابيهم الولاء. ولا يكون له الولاء حتى يعتق. قَالَ مَالِكٌ: وَكَذَلِكَ أَيْضًا لَوْ كَاتَبَ الْمُكَاتَبُ عَبْدًا فَعَتَقَ الْمُكَاتَبُ الْآخَرُ قَبْلَ سَيِّدِهِ الَّذِي كَاتَبَهُ فَإِنَّ وَلَاءَهُ لِسَيِّدِ الْمُكَاتَبِ مَا لَمْ يَعْتِقِ الْمُكَاتَبُ الْأَوَّلُ الَّذِي كَاتَبَهُ. فَإِنْ عَتَقَ الَّذِي كَاتَبَهُ رَجَعَ إِلَيْهِ وَلَاءُ مُكَاتَبِهِ الَّذِي كَانَ عَتَقَ قَبْلَهُ. وَإِنْ مَاتَ الْمُكَاتَبُ الْأَوَّلُ قَبْلَ أَنْ يُؤَدِّيَ أَوْ عَجَزَ عَنْ كِتَابَتِهِ وَلَهُ وَلَدٌ أَحْرَارٌ لَمْ يَرِثُوا وَلَاءَ مُكَاتَبِ أَبِيهِمْ لِأَنَّهُ لَمْ يَثْبُتْ لِأَبِيهِمُ الْوَلَاءُ. وَلَا يَكُونُ لَهُ الْوَلَاءُ حَتَّى يَعْتِقَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو مکاتب دو آدمیوں میں مشترک ہو، پھر ایک شخص اپنا حق معاف کر دے اور دوسرا نہ کرے، پھر مکاتب مر جائے اور مال چھوڑ جائے، تو جس شخص نے معاف نہیں کیا وہ اپنا حق وصول کر کے جس قدر مال بچے گا وہ دونوں تقسیم کر لیں گے جیسے وہ غلامی کی حالت میں مرتا، کیونکہ جس شخص نے اپنا حق چھوڑ دیا اس نے آزاد نہیں کیا، بلکہ اپنا حق معاف کر دیا۔
قال مالك في المكاتب يكون بين الرجلين فيترك احدهما للمكاتب الذي له عليه ويشح الآخر ثم يموت المكاتب ويترك مالا. قال مالك: يقضي الذي لم يترك له شيئا ما بقي له عليه. ثم يقتسمان المال كهيئته لو مات عبدا لان الذي صنع ليس بعتاقة. وإنما ترك ما كان له عليه. قَالَ مَالِكٌ فِي الْمُكَاتَبِ يَكُونُ بَيْنَ الرَّجُلَيْنِ فَيَتْرُكُ أَحَدُهُمَا لِلْمُكَاتَبِ الَّذِي لَهُ عَلَيْهِ وَيَشِحُّ الْآخَرُ ثُمَّ يَمُوتُ الْمُكَاتَبُ وَيَتْرُكُ مَالًا. قَالَ مَالِكٌ: يَقْضِي الَّذِي لَمْ يَتْرُكْ لَهُ شَيْئًا مَا بَقِيَ لَهُ عَلَيْهِ. ثُمَّ يَقْتَسِمَانِ الْمَالَ كَهَيْئَتِهِ لَوْ مَاتَ عَبْدًا لِأَنَّ الَّذِي صَنَعَ لَيْسَ بِعَتَاقَةٍ. وَإِنَّمَا تَرَكَ مَا كَانَ لَهُ عَلَيْهِ.
قال مالك ومما يبين ذلك: ان الرجل إذا مات وترك مكاتبا وترك بنين رجالا ونساء. ثم اعتق احد البنين نصيبه من المكاتب إن ذلك لا يثبت له من الولاء شيئا ولو كانت عتاقة لثبت الولاء لمن اعتق منهم من رجالهم ونسائهم. قَالَ مَالِكٌ وَمِمَّا يُبَيِّنُ ذَلِكَ: أَنَّ الرَّجُلَ إِذَا مَاتَ وَتَرَكَ مُكَاتَبًا وَتَرَكَ بَنِينَ رِجَالًا وَنِسَاءً. ثُمَّ أَعْتَقَ أَحَدُ الْبَنِينَ نَصِيبَهُ مِنَ الْمُكَاتَبِ إِنَّ ذَلِكَ لَا يُثْبِتُ لَهُ مِنَ الْوَلَاءِ شَيْئًا وَلَوْ كَانَتْ عَتَاقَةً لَثَبَتَ الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ مِنْهُمْ مِنْ رِجَالِهِمْ وَنِسَائِهِمْ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی دلیل یہ ہے: ایک شخص مر گیا اور ایک مکاتب چھوڑ گیا اور بیٹے اور بیٹیاں بھی چھوڑ گیا، پھر ایک بیٹی نے اپنا حصّہ آزاد کر دیا تو ولاء اس کے واسطے ثابت نہ ہوگی، اگر یہ آزادی ہوتی تو ولاء اس کے لیے ضروری ثابت ہوتی۔
قال مالك: ومما يبين ذلك ايضا انهم إذا اعتق احدهم نصيبه ثم عجز المكاتب لم يقوم على الذي اعتق نصيبه ما بقي من المكاتب ولو كانت عتاقة قوم عليه حتى يعتق في ماله كما قال رسول اللٰه صلى الله عليه وسلم: ”من اعتق شركا له في عبد قوم عليه قيمة العدل. فإن لم يكن له مال عتق منه ما عتق.“ قَالَ مَالِكٌ: وَمِمَّا يُبَيِّنُ ذَلِكَ أَيْضًا أَنَّهُمْ إِذَا أَعْتَقَ أَحَدُهُمْ نَصِيبَهُ ثُمَّ عَجَزَ الْمُكَاتَبُ لَمْ يُقَوَّمْ عَلَى الَّذِي أَعْتَقَ نَصِيبَهُ مَا بَقِيَ مِنَ الْمُكَاتَبِ وَلَوْ كَانَتْ عَتَاقَةً قُوِّمَ عَلَيْهِ حَتَّى يَعْتِقَ فِي مَالِهِ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي عَبْدٍ قُوِّمَ عَلَيْهِ قِيمَةَ الْعَدْلِ. فَإِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ مَالٌ عَتَقَ مِنْهُ مَا عَتَقَ.“
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ یہ بھی اس کی دلیل ہے کہ اگر ایک شخص نے اپنا حصّہ آزاد کر دیا پھر مکاتب آزاد ہو گیا، تو جس شخص نے آزاد کیا ہے اس کو باقی حصّوں کی قیمت نہ دینا ہوگی، اگر یہ آزادی ہوتی تو اس کو اوروں کے حصّے کی قیمت بموجب حدیث سے دینا پڑتی۔
قال مالك: ومما يبين ذلك ايضا ان من سنة المسلمين التي لا اختلاف فيها. ان من اعتق شركا له في مكاتب لم يعتق عليه في ماله ولو عتق عليه. كان الولاء له دون شركائه. قَالَ مَالِكٌ: وَمِمَّا يُبَيِّنُ ذَلِكَ أَيْضًا أَنَّ مِنْ سُنَّةِ الْمُسْلِمِينَ الَّتِي لَا اخْتِلَافَ فِيهَا. أَنَّ مَنْ أَعْتَقَ شِرْكًا لَهُ فِي مُكَاتَبٍ لَمْ يُعْتَقْ عَلَيْهِ فِي مَالِهِ وَلَوْ عَتَقَ عَلَيْهِ. كَانَ الْوَلَاءُ لَهُ دُونَ شُرَكَائِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کا طریقہ جس میں کچھ اختلاف نہیں یہ ہے کہ جو شخص ایک حصّہ مکاتب میں سے آزاد کر دے تو وہ اس کے مال سے آزاد نہ ہوگا، کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو ولاء اس کو ملتی، اس کے شریکوں کو نہ ملتی۔
قال مالك: ومما يبين ذلك ايضا ان من سنة المسلمين ان الولاء لمن عقد الكتابة. وانه ليس لمن ورث سيد المكاتب من النساء من ولاء المكاتب. وإن اعتقن نصيبهن شيء إنما ولاؤه لولد سيد المكاتب الذكور او عصبته من الرجال.قَالَ مَالِكٌ: وَمِمَّا يُبَيِّنُ ذَلِكَ أَيْضًا أَنَّ مِنْ سُنَّةِ الْمُسْلِمِينَ أَنَّ الْوَلَاءَ لِمَنْ عَقَدَ الْكِتَابَةَ. وَأَنَّهُ لَيْسَ لِمَنْ وَرِثَ سَيِّدَ الْمُكَاتَبِ مِنَ النِّسَاءِ مِنْ وَلَاءِ الْمُكَاتَبِ. وَإِنْ أَعْتَقْنَ نَصِيبَهُنَّ شَيْءٌ إِنَّمَا وَلَاؤُهُ لِوَلَدِ سَيِّدِ الْمُكَاتَبِ الذُّكُورِ أَوْ عَصَبَتِهِ مِنَ الرِّجَالِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کی دلیل یہ بھی ہے کہ مسلمانوں کا طریقہ یہ بھی ہے کہ جو شخص عقد کتابت کرے ولاء اسی کو ملے گی، اور مکاتب کے مولیٰ کے وارثوں میں سے عورتوں کو ولاء نہ ملے گی، اگرچہ وہ اپنا حصّہ کچھ آزاد کردیں، بلکہ ولاء مکاتب کے مولیٰ کے لڑکوں کو یا اور عصبوں کو ملے گی۔
قال مالك: إذا كان القوم جميعا في كتابة واحدة. لم يعتق سيدهم احدا منهم دون مؤامرة اصحابه الذين معه في الكتابة ورضا منهم. وإن كانوا صغارا فليس مؤامرتهم بشيء. ولا يجوز ذلك عليهم..قَالَ مَالِكٌ: إِذَا كَانَ الْقَوْمُ جَمِيعًا فِي كِتَابَةٍ وَاحِدَةٍ. لَمْ يُعْتِقْ سَيِّدُهُمْ أَحَدًا مِنْهُمْ دُونَ مُؤَامَرَةِ أَصْحَابِهِ الَّذِينَ مَعَهُ فِي الْكِتَابَةِ وَرِضًا مِنْهُمْ. وَإِنْ كَانُوا صِغَارًا فَلَيْسَ مُؤَامَرَتُهُمْ بِشَيْءٍ. وَلَا يَجُوزُ ذَلِكَ عَلَيْهِمْ..
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر چند غلام ایک ہی عقد میں مکاتب کیے جائیں، تو مولیٰ ان میں سے ایک غلام کو آزاد نہیں کر سکتا جب تک باقی مکاتب راضی نہ ہوں، اگر وہ کم سن ہوں تو ان کی رضامندی کا اعتبار نہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ چند غلاموں میں ایک غلام نہایت ہوشیار اور محنتی ہوتا ہے، اس کے سبب سے توقع یہ ہوتی ہے کہ محنت مزدوری کر کے اوروں کو بھی آزاد کرا دے، مولیٰ کیا کرتا کہ اسی شخص کو آزاد کر دیتا ہے تاکہ باقی غلام محنت سے عاجز ہو کر غلام ہو جائیں، تو یہ جائز نہیں ہے۔ کیونکہ اس میں باقی غلاموں کا ضرر ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلام میں ضرر نہیں ہے۔“
قال: وذلك ان الرجل ربما كان يسعى على جميع القوم ويؤدي عنهم كتابتهم لتتم به عتاقتهم فيعمد السيد إلى الذي يؤدي عنهم. وبه نجاتهم من الرق، فيعتقه. فيكون ذلك عجزا لمن بقي منهم وإنما اراد بذلك الفضل والزيادة لنفسه فلا يجوز ذلك على من بقي منهم وقد قال رسول اللٰه صلى الله عليه وسلم: ”لا ضرر ولا ضرار وهذا اشد الضرر.“ قَالَ: وَذَلِكَ أَنَّ الرَّجُلَ رُبَّمَا كَانَ يَسْعَى عَلَى جَمِيعِ الْقَوْمِ وَيُؤَدِّي عَنْهُمْ كِتَابَتَهُمْ لِتَتِمَّ بِهِ عَتَاقَتُهُمْ فَيَعْمِدُ السَّيِّدُ إِلَى الَّذِي يُؤَدِّي عَنْهُمْ. وَبِهِ نَجَاتُهُمْ مِنَ الرِّقِّ، فَيُعْتِقُهُ. فَيَكُونُ ذَلِكَ عَجْزًا لِمَنْ بَقِيَ مِنْهُمْ وَإِنَّمَا أَرَادَ بِذَلِكَ الْفَضْلَ وَالزِّيَادَةَ لِنَفْسِهِ فَلَا يَجُوزُ ذَلِكَ عَلَى مَنْ بَقِيَ مِنْهُمْ وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: ”لَا ضَرَرَ وَلَا ضِرَارَ وَهَذَا أَشَدُّ الضَّرَرِ.“
قال مالك في العبيد يكاتبون جميعا: إن لسيدهم ان يعتق منهم الكبير الفاني والصغير الذي لا يؤدي واحد منهما شيئا وليس عند واحد منهما عون ولا قوة في كتابتهم فذلك جائز له. قَالَ مَالِكٌ فِي الْعَبِيدِ يُكَاتَبُونَ جَمِيعًا: إِنَّ لِسَيِّدِهِمْ أَنْ يُعْتِقَ مِنْهُمُ الْكَبِيرَ الْفَانِيَ وَالصَّغِيرَ الَّذِي لَا يُؤَدِّي وَاحِدٌ مِنْهُمَا شَيْئًا وَلَيْسَ عِنْدَ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَوْنٌ وَلَا قُوَّةٌ فِي كِتَابَتِهِمْ فَذَلِكَ جَائِزٌ لَهُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر چند غلام مکاتب کیے جائیں، اور ان میں کوئی غلام ایسا ہو کہ نہایت بوڑھا ہو یا نہایت کم سن ہو، جس کے سبب سے اور غلاموں کو بدل کتابت کی ادا کرنے میں مدد نہ ملتی ہو، تو مولیٰ کو اس کا آزاد کرنا درست ہے۔
قال مالك في الرجل يكاتب عبده. ثم يموت المكاتب ويترك ام ولده. وقد بقيت عليه من كتابته بقية ويترك وفاء بما عليه: إن ام ولده امة مملوكة حين لم يعتق المكاتب حتى مات. ولم يترك ولدا فيعتقون باداء ما بقي فتعتق ام ولد ابيهم بعتقهم. قَالَ مَالِكٌ فِي الرَّجُلِ يُكَاتِبُ عَبْدَهُ. ثُمَّ يَمُوتُ الْمُكَاتَبُ وَيَتْرُكُ أُمَّ وَلَدِهِ. وَقَدْ بَقِيَتْ عَلَيْهِ مِنْ كِتَابَتِهِ بَقِيَّةٌ وَيَتْرُكُ وَفَاءً بِمَا عَلَيْهِ: إِنَّ أُمَّ وَلَدِهِ أَمَةٌ مَمْلُوكَةٌ حِينَ لَمْ يُعْتَقِ الْمُكَاتَبُ حَتَّى مَاتَ. وَلَمْ يَتْرُكْ وَلَدًا فَيُعْتَقُونَ بِأَدَاءِ مَا بَقِيَ فَتُعْتَقُ أُمُّ وَلَدِ أَبِيهِمْ بِعِتْقِهِمْ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے غلام کو مکاتب کرے، پھر مکاتب مر جائے اور اُم ولدچھوڑ جائے، اور اس قدر مال چھوڑ جائے کہ اس کو بدل کتابت کو مکتفی ہو، تو وہ اُم ولد مکاتب کے مولیٰ کی لونڈی ہو جائے گی، کیونکہ وہ مکاتب مرتے وقت آزاد نہیں ہوا، نہ اولاد چھوڑ گیا جس کے ضمن میں اُم ولد بھی آزاد ہو جائے۔
قال مالك: في المكاتب يعتق عبدا له او يتصدق ببعض ماله ولم يعلم بذلك سيده حتى عتق المكاتب. قال مالك: ينفذ ذلك عليه وليس للمكاتب ان يرجع فيه فإن علم سيد المكاتب قبل ان يعتق المكاتب فرد ذلك ولم يجزه فإنه إن عتق المكاتب وذلك في يده لم يكن عليه ان يعتق ذلك العبد ولا ان يخرج تلك الصدقة إلا ان يفعل ذلك طائعا من عند نفسه. قَالَ مَالِكٌ: فِي الْمُكَاتَبِ يُعْتِقُ عَبْدًا لَهُ أَوْ يَتَصَدَّقُ بِبَعْضِ مَالِهِ وَلَمْ يَعْلَمْ بِذَلِكَ سَيِّدُهُ حَتَّى عَتَقَ الْمُكَاتَبُ. قَالَ مَالِكٌ: يَنْفُذُ ذَلِكَ عَلَيْهِ وَلَيْسَ لِلْمُكَاتَبِ أَنْ يَرْجِعَ فِيهِ فَإِنْ عَلِمَ سَيِّدُ الْمُكَاتَبِ قَبْلَ أَنْ يَعْتِقَ الْمُكَاتَبُ فَرَدَّ ذَلِكَ وَلَمْ يُجِزْهُ فَإِنَّهُ إِنْ عَتَقَ الْمُكَاتَبُ وَذَلِكَ فِي يَدِهِ لَمْ يَكُنْ عَلَيْهِ أَنْ يُعْتِقَ ذَلِكَ الْعَبْدَ وَلَا أَنْ يُخْرِجَ تِلْكَ الصَّدَقَةَ إِلَّا أَنْ يَفْعَلَ ذَلِكَ طَائِعًا مِنْ عِنْدِ نَفْسِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مکاتب اپنے غلام کو آزاد کر دے، یا اپنے مال میں سے کچھ صدقہ دے دے، اور مولیٰ کو اس کی خبر نہ ہو، یہاں تک کہ مکاتب آزاد ہو جائے، تو اب مکاتب کو بعد آزادی کے اس صدقہ یا عتاق کا باطل کرنا نہیں پہنچتا، البتہ اگر مولیٰ کو قبل آزادی کے اس کی خبر ہو گئی اور اس نے اجازت نہ دی، تو وہ صدقہ یا عتاق لغو ہو جائے گا، اب پھر مکاتب کو لازم نہیں کہ بعد آزادی کے اس غلام کو پھر آزاد کرے یا صدقہ نکالے، البتہ خوشی سے کر سکتا ہے۔
قال مالك إن احسن ما سمعت في المكاتب يعتقه سيده عند الموت: ان المكاتب يقام على هيئته تلك التي لو بيع كان ذلك الثمن الذي يبلغ فإن كانت القيمة اقل مما بقي عليه من الكتابة وضع ذلك في ثلث الميت. ولم ينظر إلى عدد الدراهم التي بقيت عليه. وذلك انه لو قتل لم يغرم قاتله إلا قيمته يوم قتله ولو جرح لم يغرم جارحه إلا دية جرحه يوم جرحه. ولا ينظر في شيء من ذلك إلى ما كوتب عليه من الدنانير والدراهم. لانه عبد ما بقي عليه من كتابته شيء وإن كان الذي بقي عليه من كتابته اقل من قيمته لم يحسب في ثلث الميت إلا ما بقي عليه من كتابته. وذلك انه إنما ترك الميت له ما بقي عليه من كتابته فصارت وصية اوصى بها. قَالَ مَالِكٌ إِنَّ أَحْسَنَ مَا سَمِعْتُ فِي الْمُكَاتَبِ يُعْتِقُهُ سَيِّدُهُ عِنْدَ الْمَوْتِ: أَنَّ الْمُكَاتَبَ يُقَامُ عَلَى هَيْئَتِهِ تِلْكَ الَّتِي لَوْ بِيعَ كَانَ ذَلِكَ الثَّمَنَ الَّذِي يَبْلُغُ فَإِنْ كَانَتِ الْقِيمَةُ أَقَلَّ مِمَّا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنَ الْكِتَابَةِ وُضِعَ ذَلِكَ فِي ثُلُثِ الْمَيِّتِ. وَلَمْ يُنْظَرْ إِلَى عَدَدِ الدَّرَاهِمِ الَّتِي بَقِيَتْ عَلَيْهِ. وَذَلِكَ أَنَّهُ لَوْ قُتِلَ لَمْ يَغْرَمْ قَاتِلُهُ إِلَّا قِيمَتَهُ يَوْمَ قَتْلِهِ وَلَوْ جُرِحَ لَمْ يَغْرَمْ جَارِحُهُ إِلَّا دِيَةَ جَرْحِهِ يَوْمَ جَرَحَهُ. وَلَا يُنْظَرُ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ إِلَى مَا كُوتِبَ عَلَيْهِ مِنَ الدَّنَانِيرِ وَالدَّرَاهِمِ. لِأَنَّهُ عَبْدٌ مَا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنْ كِتَابَتِهِ شَيْءٌ وَإِنْ كَانَ الَّذِي بَقِيَ عَلَيْهِ مِنْ كِتَابَتِهِ أَقَلَّ مِنْ قِيمَتِهِ لَمْ يُحْسَبْ فِي ثُلُثِ الْمَيِّتِ إِلَّا مَا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنْ كِتَابَتِهِ. وَذَلِكَ أَنَّهُ إِنَّمَا تَرَكَ الْمَيِّتُ لَهُ مَا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنْ كِتَابَتِهِ فَصَارَتْ وَصِيَّةً أَوْصَى بِهَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس مکاتب پر مولیٰ کے ہزار درہم آتے ہوں، پھر مولیٰ مرتے وقت ہزار درہم معاف کر دے، تو مکاتب کی قیمت لگائی جائے گی، اگر اس کی قیمت ہزار درہم ہوں گے تو گویا دسواں حصّہ کتابت کا معاف ہوا، اور قیمت کی رو سے دو سو درہم ہوئے تو گویا دسواں حصّہ قیمت کا اس نے معاف کر دیا، اس کی مثال ایسی ہے کہ اگر مولیٰ سب بدل کتابت کو معاف کر دیتا تو تہائی مال میں صرف مکاتب کی قیمت کا حساب ہوتا، یعنی ہزار درہم کا، اگر آدھا معاف کرتا تو تہائی مال میں آدھے کا حساب ہوتا، اگر اس سے کم زیادہ ہو وہ بھی اسی حساب سے۔
قال مالك: وتفسير ذلك انه لو كانت قيمة المكاتب الف درهم ولم يبق من كتابته إلا مائة درهم. فاوصى سيده له بالمائة درهم التي بقيت عليه. حسبت له في ثلث سيده فصار حرا بها. قَالَ مَالِكٌ: وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ أَنَّهُ لَوْ كَانَتْ قِيمَةُ الْمُكَاتَبِ أَلْفَ دِرْهَمٍ وَلَمْ يَبْقَ مِنْ كِتَابَتِهِ إِلَّا مِائَةُ دِرْهَمٍ. فَأَوْصَى سَيِّدُهُ لَهُ بِالْمِائَةِ دِرْهَمٍ الَّتِي بَقِيَتْ عَلَيْهِ. حُسِبَتْ لَهُ فِي ثُلُثِ سَيِّدِهِ فَصَارَ حُرًّا بِهَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص مرتے وقت اپنے مکاتب کو ہزار درہم میں سے معاف کر دے، مگر یہ نہ کہے کہ کون سی قسط میں یہ معافی ہوگی، اول میں یا آخر میں، تو ہر قسط میں سے دسواں حصّہ معاف کیا جائے گا۔
قال مالك في رجل كاتب عبده عند موته: إنه يقوم عبدا. فإن كان في ثلثه سعة لثمن العبد جاز له ذلك. قَالَ مَالِكٌ فِي رَجُلٍ كَاتَبَ عَبْدَهُ عِنْدَ مَوْتِهِ: إِنَّهُ يُقَوَّمُ عَبْدًا. فَإِنْ كَانَ فِي ثُلُثِهِ سَعَةٌ لِثَمَنِ الْعَبْدِ جَازَ لَهُ ذَلِكَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جب آدمی اپنے مکاتب کو ہزار درہم اول کتابت یا آخر کتابت میں معاف کر دے، اور بدل کتابت تین ہزار درہم ہوں تو مکاتب کی قیمت لگا دیں گے، پھر اس قیمت کو تقسیم کریں گے ہر ایک ہزار پر، جو کہ ہزار کی مدت اس کی کم ہے اس کی قیمت کم ہوگی بہ نسبت اس ہزار کے جو اس کے بعد ہے، اسی طرح جو ہزار سب کے اخیر میں ہوگا اس کی قیمت سب سے کم ہوگی، کیونکہ جس قدر میعاد بڑھتی جائے گی اسی قدر قیمت گھٹتی جائے گی، پھر جس ہزار پر معافی ہوئی ہے اس کی جو قیمت آن کر پڑے گی وہ تہائی مال میں سے وضع کی جائے گی، اگر اس سے کم زیادہ ہو وہ بھی اسی حساب سے ہے۔
قال مالك وتفسير ذلك: ان تكون قيمة العبد الف دينار. فيكاتبه سيده على مائتي دينار عند موته فيكون ثلث مال سيده الف دينار. فذلك جائز له. وإنما هي وصية اوصى له بها في ثلثه فإن كان السيد قد اوصى لقوم بوصايا. وليس في الثلث فضل عن قيمة المكاتب، بدئ بالمكاتب. لان الكتابة عتاقة. والعتاقة تبدا على الوصايا، ثم تجعل تلك الوصايا في كتابة المكاتب يتبعونه بها ويخير ورثة الموصي. فإن احبوا ان يعطوا اهل الوصايا وصاياهم كاملة وتكون كتابة المكاتب لهم. فذلك لهم وإن ابوا واسلموا المكاتب وما عليه إلى اهل الوصايا. فذلك لهم لان الثلث صار في المكاتب ولان كل وصية اوصى بها احد فقال: الورثة الذي اوصى به صاحبنا اكثر من ثلثه. وقد اخذ ما ليس له. قال: فإن ورثته يخيرون. فيقال لهم قد اوصى صاحبكم بما قد علمتم. فإن احببتم ان تنفذوا ذلك لاهله على ما اوصى به الميت وإلا فاسلموا إلى اهل الوصايا ثلث مال الميت كله. قال فإن اسلم الورثة المكاتب إلى اهل الوصايا. كان لاهل الوصايا ما عليه من الكتابة فإن ادى المكاتب ما عليه من الكتابة اخذوا ذلك في وصاياهم على قدر حصصهم وإن عجز المكاتب كان عبدا لاهل الوصايا لا يرجع إلى اهل الميراث لانهم تركوه حين خيروا. ولان اهل الوصايا حين اسلم إليهم ضمنوه فلو مات لم يكن لهم على الورثة شيء وإن مات المكاتب قبل ان يؤدي كتابته وترك مالا هو اكثر مما عليه. فماله لاهل الوصايا. وإن ادى المكاتب ما عليه عتق ورجع ولاؤه إلى عصبة الذي عقد كتابته. قَالَ مَالِكٌ وَتَفْسِيرُ ذَلِكَ: أَنْ تَكُونَ قِيمَةُ الْعَبْدِ أَلْفَ دِينَارٍ. فَيُكَاتِبُهُ سَيِّدُهُ عَلَى مِائَتَيْ دِينَارٍ عِنْدَ مَوْتِهِ فَيَكُونُ ثُلُثُ مَالِ سَيِّدِهِ أَلْفَ دِينَارٍ. فَذَلِكَ جَائِزٌ لَهُ. وَإِنَّمَا هِيَ وَصِيَّةٌ أَوْصَى لَهُ بِهَا فِي ثُلُثِهِ فَإِنْ كَانَ السَّيِّدُ قَدْ أَوْصَى لِقَوْمٍ بِوَصَايَا. وَلَيْسَ فِي الثُّلُثِ فَضْلٌ عَنْ قِيمَةِ الْمُكَاتَبِ، بُدِئَ بِالْمُكَاتَبِ. لِأَنَّ الْكِتَابَةَ عَتَاقَةٌ. وَالْعَتَاقَةُ تُبَدَّأُ عَلَى الْوَصَايَا، ثُمَّ تُجْعَلُ تِلْكَ الْوَصَايَا فِي كِتَابَةِ الْمُكَاتَبِ يَتْبَعُونَهُ بِهَا وَيُخَيَّرُ وَرَثَةُ الْمُوصِي. فَإِنْ أَحَبُّوا أَنْ يُعْطُوا أَهْلَ الْوَصَايَا وَصَايَاهُمْ كَامِلَةً وَتَكُونُ كِتَابَةُ الْمُكَاتَبِ لَهُمْ. فَذَلِكَ لَهُمْ وَإِنْ أَبَوْا وَأَسْلَمُوا الْمُكَاتَبَ وَمَا عَلَيْهِ إِلَى أَهْلِ الْوَصَايَا. فَذَلِكَ لَهُمْ لِأَنَّ الثُّلُثَ صَارَ فِي الْمُكَاتَبِ وَلِأَنَّ كُلَّ وَصِيَّةٍ أَوْصَى بِهَا أَحَدٌ فَقَالَ: الْوَرَثَةُ الَّذِي أَوْصَى بِهِ صَاحِبُنَا أَكْثَرُ مِنْ ثُلُثِهِ. وَقَدْ أَخَذَ مَا لَيْسَ لَهُ. قَالَ: فَإِنَّ وَرَثَتَهُ يُخَيَّرُونَ. فَيُقَالُ لَهُمْ قَدْ أَوْصَى صَاحِبُكُمْ بِمَا قَدْ عَلِمْتُمْ. فَإِنْ أَحْبَبْتُمْ أَنْ تُنَفِّذُوا ذَلِكَ لِأَهْلِهِ عَلَى مَا أَوْصَى بِهِ الْمَيِّتُ وَإِلَّا فَأَسْلِمُوا إِلَى أَهْلِ الْوَصَايَا ثُلُثَ مَالِ الْمَيِّتِ كُلِّهِ. قَالَ فَإِنْ أَسْلَمَ الْوَرَثَةُ الْمُكَاتَبَ إِلَى أَهْلِ الْوَصَايَا. كَانَ لِأَهْلِ الْوَصَايَا مَا عَلَيْهِ مِنَ الْكِتَابَةِ فَإِنْ أَدَّى الْمُكَاتَبُ مَا عَلَيْهِ مِنَ الْكِتَابَةِ أَخَذُوا ذَلِكَ فِي وَصَايَاهُمْ عَلَى قَدْرِ حِصَصِهِمْ وَإِنْ عَجَزَ الْمُكَاتَبُ كَانَ عَبْدًا لِأَهْلِ الْوَصَايَا لَا يَرْجِعُ إِلَى أَهْلِ الْمِيرَاثِ لِأَنَّهُمْ تَرَكُوهُ حِينَ خُيِّرُوا. وَلِأَنَّ أَهْلَ الْوَصَايَا حِينَ أُسْلِمَ إِلَيْهِمْ ضَمِنُوهُ فَلَوْ مَاتَ لَمْ يَكُنْ لَهُمْ عَلَى الْوَرَثَةِ شَيْءٌ وَإِنْ مَاتَ الْمُكَاتَبُ قَبْلَ أَنْ يُؤَدِّيَ كِتَابَتَهُ وَتَرَكَ مَالًا هُوَ أَكْثَرُ مِمَّا عَلَيْهِ. فَمَالُهُ لِأَهْلِ الْوَصَايَا. وَإِنْ أَدَّى الْمُكَاتَبُ مَا عَلَيْهِ عَتَقَ وَرَجَعَ وَلَاؤُهُ إِلَى عَصَبَةِ الَّذِي عَقَدَ كِتَابَتَهُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا جس شخص نے مرتے وقت چوتھائی مکاتب کی کسی کے لیے وصیت کی، اور چوتھائی کا آزاد کر دیا، پھر وہ شخص مرگیا، بعد اس کے مکاتب مرگیا اور بدل کتابت سے زیادہ مال چھوڑ گیا، تو پہلے مولیٰ کے وارثوں کو اور موصی لہُ کو جس قدر بدل کتابت باقی تھا دلا دیں گے، پھر جس قدر مال بچ جائے گا تہائی اس میں سے موصی لہُ کو ملے گا اور دو تہائی وارثوں کو۔
قال مالك: في المكاتب يكون لسيده عليه عشرة آلاف درهم فيضع عنه عند موته الف درهم. قال مالك: يقوم المكاتب فينظر كم قيمته. فإن كانت قيمته الف درهم فالذي وضع عنه عشر الكتابة. وذلك في القيمة مائة درهم. وهو عشر القيمة فيوضع عنه عشر الكتابة فيصير ذلك إلى عشر القيمة نقدا. وإنما ذلك كهيئته لو وضع عنه جميع ما عليه ولو فعل ذلك لم يحسب في ثلث مال الميت إلا قيمة المكاتب الف درهم. وإن كان الذي وضع عنه نصف الكتابة حسب في ثلث مال الميت نصف القيمة. وإن كان اقل من ذلك او اكثر فهو على هذا الحساب. قَالَ مَالِكٌ: فِي الْمُكَاتَبِ يَكُونُ لِسَيِّدِهِ عَلَيْهِ عَشَرَةُ آلَافِ دِرْهَمٍ فَيَضَعُ عَنْهُ عِنْدَ مَوْتِهِ أَلْفَ دِرْهَمٍ. قَالَ مَالِكٌ: يُقَوَّمُ الْمُكَاتَبُ فَيُنْظَرُ كَمْ قِيمَتُهُ. فَإِنْ كَانَتْ قِيمَتُهُ أَلْفَ دِرْهَمٍ فَالَّذِي وُضِعَ عَنْهُ عُشْرُ الْكِتَابَةِ. وَذَلِكَ فِي الْقِيمَةِ مِائَةُ دِرْهَمٍ. وَهُوَ عُشْرُ الْقِيمَةِ فَيُوضَعُ عَنْهُ عُشْرُ الْكِتَابَةِ فَيَصِيرُ ذَلِكَ إِلَى عُشْرِ الْقِيمَةِ نَقْدًا. وَإِنَّمَا ذَلِكَ كَهَيْئَتِهِ لَوْ وُضِعَ عَنْهُ جَمِيعُ مَا عَلَيْهِ وَلَوْ فَعَلَ ذَلِكَ لَمْ يُحْسَبْ فِي ثُلُثِ مَالِ الْمَيِّتِ إِلَّا قِيمَةُ الْمُكَاتَبِ أَلْفُ دِرْهَمٍ. وَإِنْ كَانَ الَّذِي وُضِعَ عَنْهُ نِصْفُ الْكِتَابَةِ حُسِبَ فِي ثُلُثِ مَالِ الْمَيِّتِ نِصْفُ الْقِيمَةِ. وَإِنْ كَانَ أَقَلَّ مِنْ ذَلِكَ أَوْ أَكْثَرَ فَهُوَ عَلَى هَذَا الْحِسَابِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس مکاتب کو مولیٰ مرتے وقت آزاد کر دے، اور تہائی میں سے وہ آزاد نہ ہو سکے تو جس قدر گنجائش ہوگی اسی قدر آزاد ہوگا، اور بدل کتابت میں سے اتنا وضع ہو جائے گا۔ مثلاً مکاتب پر پانچ ہزار درہم تھے اور اس کی قیمت دو ہزار درہم تھی، اور میّت کا تہائی مال ہزار درہم ہے، تو آدھا مکاتب آزاد ہو جائے گا اور آدھا بدل کتابت یعنی اڑھائی ہزار روپیہ ساقط ہو جائیں گے۔
قال مالك: إذا وضع الرجل عن مكاتبه عند موته الف درهم من عشرة آلاف درهم ولم يسم انها من اول كتابته او من آخرها. وضع عنه من كل نجم عشره. قَالَ مَالِكٌ: إِذَا وَضَعَ الرَّجُلُ عَنْ مُكَاتَبِهِ عِنْدَ مَوْتِهِ أَلْفَ دِرْهَمٍ مِنْ عَشَرَةِ آلَافِ دِرْهَمٍ وَلَمْ يُسَمِّ أَنَّهَا مِنْ أَوَّلِ كِتَابَتِهِ أَوْ مِنْ آخِرِهَا. وُضِعَ عَنْهُ مِنْ كُلِّ نَجْمٍ عُشْرُهُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص نے وصیت کی کہ فلانا غلام میرا آزاد ہے اور فلانے کو مکاتب کرنا، پھر تہائی مال میں دونوں کی گنجائش نہ ہو تو آزادی مقدم ہوگی کتابت پر۔
قال مالك: وإذا وضع الرجل عن مكاتبه عند الموت الف درهم من اول كتابته او من آخرها. وكان اصل الكتابة على ثلاثة آلاف درهم قوم المكاتب قيمة النقد ثم قسمت تلك القيمة فجعل لتلك الالف التي من اول الكتابة حصتها من تلك القيمة بقدر قربها من الاجل وفضلها. ثم الالف التي تلي الالف الاولى بقدر فضلها ايضا. ثم الالف التي تليها بقدر فضلها ايضا حتى يؤتى على آخرها تفضل كل الف بقدر موضعها في تعجيل الاجل وتاخيره ؛ لان ما استاخر من ذلك كان اقل في القيمة ثم يوضع في ثلث الميت قدر ما اصاب تلك الالف من القيمة على تفاضل ذلك إن قل او كثر. فهو على هذا الحساب. قَالَ مَالِكٌ: وَإِذَا وَضَعَ الرَّجُلُ عَنْ مُكَاتَبِهِ عِنْدَ الْمَوْتِ أَلْفَ دِرْهَمٍ مِنْ أَوَّلِ كِتَابَتِهِ أَوْ مِنْ آخِرِهَا. وَكَانَ أَصْلُ الْكِتَابَةِ عَلَى ثَلَاثَةِ آلَافِ دِرْهَمٍ قُوِّمَ الْمُكَاتَبُ قِيمَةَ النَّقْدِ ثُمَّ قُسِمَتْ تِلْكَ الْقِيمَةُ فَجُعِلَ لِتِلْكَ الْأَلْفِ الَّتِي مِنْ أَوَّلِ الْكِتَابَةِ حِصَّتُهَا مِنْ تِلْكَ الْقِيمَةِ بِقَدْرِ قُرْبِهَا مِنَ الْأَجَلِ وَفَضْلِهَا. ثُمَّ الْأَلْفُ الَّتِي تَلِي الْأَلْفَ الْأُولَى بِقَدْرِ فَضْلِهَا أَيْضًا. ثُمَّ الْأَلْفُ الَّتِي تَلِيهَا بِقَدْرِ فَضْلِهَا أَيْضًا حَتَّى يُؤْتَى عَلَى آخِرِهَا تَفْضُلُ كُلُّ أَلْفٍ بِقَدْرِ مَوْضِعِهَا فِي تَعْجِيلِ الْأَجَلِ وَتَأْخِيرِهِ ؛ لِأَنَّ مَا اسْتَأْخَرَ مِنْ ذَلِكَ كَانَ أَقَلَّ فِي الْقِيمَةِ ثُمَّ يُوضَعُ فِي ثُلُثِ الْمَيِّتِ قَدْرُ مَا أَصَابَ تِلْكَ الْأَلْفَ مِنَ الْقِيمَةِ عَلَى تَفَاضُلِ ذَلِكَ إِنْ قَلَّ أَوْ كَثُرَ. فَهُوَ عَلَى هَذَا الْحِسَابِ.
قال مالك: في رجل اوصى لرجل بربع مكاتب او اعتق ربعه. فهلك الرجل ثم هلك المكاتب وترك مالا كثيرا اكثر مما بقي عليه. قال مالك: يعطى ورثة السيد والذي اوصى له بربع المكاتب ما بقي لهم على المكاتب ثم يقتسمون ما فضل فيكون للموصى له بربع المكاتب ثلث ما فضل بعد اداء الكتابة ولورثة سيده الثلثان. وذلك ان المكاتب عبد ما بقي عليه من كتابته شيء فإنما يورث بالرق. قَالَ مَالِكٌ: فِي رَجُلٍ أَوْصَى لِرَجُلٍ بِرُبُعِ مُكَاتَبٍ أَوْ أَعْتَقَ رُبُعَهُ. فَهَلَكَ الرَّجُلُ ثُمَّ هَلَكَ الْمُكَاتَبُ وَتَرَكَ مَالًا كَثِيرًا أَكْثَرَ مِمَّا بَقِيَ عَلَيْهِ. قَالَ مَالِكٌ: يُعْطَى وَرَثَةُ السَّيِّدِ وَالَّذِي أَوْصَى لَهُ بِرُبُعِ الْمُكَاتَبِ مَا بَقِيَ لَهُمْ عَلَى الْمُكَاتَبِ ثُمَّ يَقْتَسِمُونَ مَا فَضَلَ فَيَكُونُ لِلْمُوصَى لَهُ بِرُبُعِ الْمُكَاتَبِ ثُلُثُ مَا فَضَلَ بَعْدَ أَدَاءِ الْكِتَابَةِ وَلِوَرَثَةِ سَيِّدِهِ الثُّلُثَانِ. وَذَلِكَ أَنَّ الْمُكَاتَبَ عَبْدٌ مَا بَقِيَ عَلَيْهِ مِنْ كِتَابَتِهِ شَيْءٌ فَإِنَّمَا يُورَثُ بِالرِّقِّ.
قال مالك في مكاتب اعتقه سيده عند الموت قال: إن لم يحمله ثلث الميت عتق منه قدر ما حمل الثلث ويوضع عنه من الكتابة قدر ذلك. إن كان على المكاتب خمسة آلاف درهم وكانت قيمته الفي درهم نقدا. ويكون ثلث الميت الف درهم. عتق نصفه ويوضع عنه شطر الكتابة. قَالَ مَالِكٌ فِي مُكَاتَبٍ أَعْتَقَهُ سَيِّدُهُ عِنْدَ الْمَوْتِ قَالَ: إِنْ لَمْ يَحْمِلْهُ ثُلُثُ الْمَيِّتِ عَتَقَ مِنْهُ قَدْرُ مَا حَمَلَ الثُّلُثُ وَيُوضَعُ عَنْهُ مِنَ الْكِتَابَةِ قَدْرُ ذَلِكَ. إِنْ كَانَ عَلَى الْمُكَاتَبِ خَمْسَةُ آلَافِ دِرْهَمٍ وَكَانَتْ قِيمَتُهُ أَلْفَيْ دِرْهَمٍ نَقْدًا. وَيَكُونُ ثُلُثُ الْمَيِّتِ أَلْفَ دِرْهَمٍ. عَتَقَ نِصْفُهُ وَيُوضَعُ عَنْهُ شَطْرُ الْكِتَابَةِ.
قال مالك: الامر عندنا فيمن دبر جارية له. فولدت اولادا بعد تدبيره إياها. ثم ماتت الجارية قبل الذي دبرها: إن ولدها بمنزلتها. قد ثبت لهم من الشرط مثل الذي ثبت لها. ولا يضرهم هلاك امهم. فإذا مات الذي كان دبرها فقد عتقوا، إن وسعهم الثلث. قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ عِنْدَنَا فِيمَنْ دَبَّرَ جَارِيَةً لَهُ. فَوَلَدَتْ أَوْلَادًا بَعْدَ تَدْبِيرِهِ إِيَّاهَا. ثُمَّ مَاتَتِ الْجَارِيَةُ قَبْلَ الَّذِي دَبَّرَهَا: إِنَّ وَلَدَهَا بِمَنْزِلَتِهَا. قَدْ ثَبَتَ لَهُمْ مِنَ الشَّرْطِ مِثْلُ الَّذِي ثَبَتَ لَهَا. وَلَا يَضُرُّهُمْ هَلَاكُ أُمِّهِمْ. فَإِذَا مَاتَ الَّذِي كَانَ دَبَّرَهَا فَقَدْ عَتَقُوا، إِنْ وَسِعَهُمُ الثُّلُثُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص اپنی لونڈی کو مدبر کرے، بعد اس کے اس کی اولاد پیدا ہو، پھر وہ لونڈی مولیٰ کے سامنے مر جائے، تو اس کی اولاد اپنی ماں کی طرح مدبر رہے گی، جب مولیٰ مر جائے گا اور تہائی مال میں گنجائش ہو تو آزاد ہو جائے گی۔
قال مالك: كل ذات رحم فولدها بمنزلتها. إن كانت حرة فولدت بعد عتقها. فولدها احرار. وإن كانت مدبرة او مكاتبة او معتقة إلى سنين. او مخدمة او بعضها حرا او مرهونة او ام ولد فولد كل واحدة منهن على مثال حال امه. يعتقون بعتقها ويرقون برقها. قَالَ مَالِكٌ: كُلُّ ذَاتِ رَحِمٍ فَوَلَدُهَا بِمَنْزِلَتِهَا. إِنْ كَانَتْ حُرَّةً فَوَلَدَتْ بَعْدَ عِتْقِهَا. فَوَلَدُهَا أَحْرَارٌ. وَإِنْ كَانَتْ مُدَبَّرَةً أَوْ مُكَاتَبَةً أَوْ مُعْتَقَةً إِلَى سِنِينَ. أَوْ مُخْدَمَةً أَوْ بَعْضَهَا حُرًّا أَوْ مَرْهُونَةً أَوْ أُمَّ وَلَدٍ فَوَلَدُ كُلِّ وَاحِدَةٍ مِنْهُنَّ عَلَى مِثَالِ حَالِ أُمِّهِ. يَعْتِقُونَ بِعِتْقِهَا وَيَرِقُّونَ بِرِقِّهَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہر عورت کی اولاد اپنی ماں کی مثل ہوگی، اگر وہ مدبرہ ہے یا مکاتبہ ہے یا معتقہ الی اجل ہے یا مخدمہ ہے یا معتقۃ البعض ہے یا گرد ہے یا اُم ولد ہے۔ ہر ایک کی اولاد اپنی ماں کی مثل ہوگی، وہ آ زاد تو یہ آزاد، اور وہ لونڈی ہو جائے گی تو یہ بھی ملوک ہو جائے گی۔
قال مالك في مدبرة دبرت وهي حامل ولم يعلم سيدها بحملها: إن ولدها بمنزلتها. وإنما ذلك بمنزلة رجل اعتق جارية له وهي حامل. ولم يعلم بحملها. قال مالك: فالسنة فيها ان ولدها يتبعها ويعتق بعتقها. قَالَ مَالِكٌ فِي مُدَبَّرَةٍ دُبِّرَتْ وَهِيَ حَامِلٌ وَلَمْ يَعْلَمْ سَيِّدُهَا بِحَمْلِهَا: إِنَّ وَلَدَهَا بِمَنْزِلَتِهَا. وَإِنَّمَا ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ رَجُلٍ أَعْتَقَ جَارِيَةً لَهُ وَهِيَ حَامِلٌ. وَلَمْ يَعْلَمْ بِحَمْلِهَا. قَالَ مَالِكٌ: فَالسُّنَّةُ فِيهَا أَنَّ وَلَدَهَا يَتْبَعُهَا وَيَعْتِقُ بِعِتْقِهَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر لونڈی حالتِ حمل میں مدبر ہوئی تو اس کا بچہ بھی مدبر ہو جائے گا، اس کی نظیر یہ ہے کہ اگر ایک شخص نے اپنی حاملہ لونڈی کو آزاد کر دیا اور اس کو معلوم نہ تھا کہ یہ حاملہ ہے، تو اس کا بچہ بھی آزاد ہو جائے گا۔
قال مالك: وكذلك لو ان رجلا ابتاع جارية وهي حامل. فالوليدة وما في بطنها لمن ابتاعها. اشترط ذلك المبتاع او لم يشترطه. قَالَ مَالِكٌ: وَكَذَلِكَ لَوْ أَنَّ رَجُلًا ابْتَاعَ جَارِيَةً وَهِيَ حَامِلٌ. فَالْوَلِيدَةُ وَمَا فِي بَطْنِهَا لِمَنِ ابْتَاعَهَا. اشْتَرَطَ ذَلِكَ الْمُبْتَاعُ أَوْ لَمْ يَشْتَرِطْهُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسی طرح اگر ایک شخص حاملہ لونڈی کو بیچے تو وہ لونڈی اور اس کے پیٹ کا بچہ کا مشتر ی کا ہوگا، خواہ مشتری نے اس کی شرط لگائی ہو یا نہ لگائی ہو۔
قال مالك: ولا يحل للبائع ان يستثني ما في بطنها. لان ذلك غرر. يضع من ثمنها. ولا يدري ايصل ذلك إليه ام لا. وإنما ذلك بمنزلة ما لو باع جنينا في بطن امه. وذلك لا يحل له، لانه غرر. قَالَ مَالِكٌ: وَلَا يَحِلُّ لِلْبَائِعِ أَنْ يَسْتَثْنِيَ مَا فِي بَطْنِهَا. لِأَنَّ ذَلِكَ غَرَرٌ. يَضَعُ مِنْ ثَمَنِهَا. وَلَا يَدْرِي أَيَصِلُ ذَلِكَ إِلَيْهِ أَمْ لَا. وَإِنَّمَا ذَلِكَ بِمَنْزِلَةِ مَا لَوْ بَاعَ جَنِينًا فِي بَطْنِ أُمِّهِ. وَذَلِكَ لَا يَحِلُّ لَهُ، لِأَنَّهُ غَرَرٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسی طرح بائع کو درست نہیں کہ لونڈی کو بیچے اور اس کا حمل بیچے، کیونکہ اس میں دھوکا ہے، شاید بچہ پیدا ہوتا ہے یا نہیں ہوتا، اس کی مثال ایسی ہے کوئی شخص پیٹ کے بچے کو بیچے اس کی بیع درست نہیں۔
قال مالك في مكاتب او مدبر ابتاع احدهما جارية. فوطئها. فحملت منه وولدت. قال: ولد كل واحد منهما من جاريته بمنزلته. يعتقون بعتقه. ويرقون برقه. قال مالك: فإذا اعتق هو. فإنما ام ولده مال من ماله. يسلم إليه إذا اعتق. قَالَ مَالِكٌ فِي مُكَاتَبٍ أَوْ مُدَبَّرٍ ابْتَاعَ أَحَدُهُمَا جَارِيَةً. فَوَطِئَهَا. فَحَمَلَتْ مِنْهُ وَوَلَدَتْ. قَالَ: وَلَدُ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِنْ جَارِيَتِهِ بِمَنْزِلَتِهِ. يَعْتِقُونَ بِعِتْقِهِ. وَيَرِقُّونَ بِرِقِّهِ. قَالَ مَالِكٌ: فَإِذَا أُعْتِقَ هُوَ. فَإِنَّمَا أُمُّ وَلَدِهِ مَالٌ مِنْ مَالِهِ. يُسَلَّمُ إِلَيْهِ إِذَا أُعْتِقَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مکاتب یا مدبر ایک لونڈی خرید کر کے اس سے وطی کریں اور وہ حاملہ ہو کر بچہ جنے تو ہر ایک کا بچہ اپنے باپ کے تابع ہوگا، اس کی آزادی کے ساتھ اس کی بھی آزادی ہوگی، اور اس کی غلامی کے ساتھ اس کی بھی غلامی ہوگی، اگر وہ مکاتب یا مدبر آزاد ہوگیا تو اُم ولد اس کی مثل اور اس کی ماں کی، اس کے سپرد کی جائے گی۔
قال مالك في مدبر قال لسيده: عجل لي العتق. واعطيك خمسين منها منجمة علي. فقال سيده: نعم. انت حر. وعليك خمسون دينارا. تؤدي إلي كل عام عشرة دنانير. فرضي بذلك العبد. ثم هلك السيد بعد ذلك بيوم او يومين او ثلاثة. قال مالك: يثبت له العتق. وصارت الخمسون دينارا دينا عليه. وجازت شهادته. وثبتت حرمته. وميراثه وحدوده. ولا يضع عنه موت سيده. شيئا من ذلك الدين. قَالَ مَالِكٌ فِي مُدَبَّرٍ قَالَ لِسَيِّدِهِ: عَجِّلْ لِي الْعِتْقَ. وَأُعْطِيكَ خَمْسِينَ مِنْهَا مُنَجَّمَةً عَلَيَّ. فَقَالَ سَيِّدُهُ: نَعَمْ. أَنْتَ حُرٌّ. وَعَلَيْكَ خَمْسُونَ دِينَارًا. تُؤَدِّي إِلَيَّ كُلَّ عَامٍ عَشَرَةَ دَنَانِيرَ. فَرَضِيَ بِذَلِكَ الْعَبْدُ. ثُمَّ هَلَكَ السَّيِّدُ بَعْدَ ذَلِكَ بِيَوْمٍ أَوْ يَوْمَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةٍ. قَالَ مَالِكٌ: يَثْبُتُ لَهُ الْعِتْقُ. وَصَارَتِ الْخَمْسُونَ دِينَارًا دَيْنًا عَلَيْهِ. وَجَازَتْ شَهَادَتُهُ. وَثَبَتَتْ حُرْمَتُهُ. وَمِيرَاثُهُ وَحُدُودُهُ. وَلَا يَضَعُ عَنْهُ مَوْتُ سَيِّدِهِ. شَيْئًا مِنْ ذَلِكَ الدَّيْنِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر مدبر اپنے مولیٰ سے کہے: تو مجھے ابھی آزاد کر دے میں تجھے پچاس دینار قسط وار دیتا ہوں۔ مولیٰ کہے: اچھا تو آزاد ہے تو مجھے پچاس دینار پانچ برس میں دے دینا، ہر سال دس دینار کے حساب سے۔ مدبر اس پر راضی ہو جائے، بعد اس کے دو تین دن میں مولیٰ مر جائے تو وہ آزاد ہو جائے گا، اور پچاس دینار اس پر قرض رہیں گے، اور اس کی گواہی جائز ہو جائے گی، اور اس کی حرمت اور میراث اور حدود پورے ہو جائیں گے، اور مولیٰ کے مر جانے سے ان پچاس دینار میں کچھ کمی نہ ہو گی۔
قال مالك في رجل دبر عبدا له. فمات السيد. وله مال حاضر ومال غائب. فلم يكن في ماله الحاضر ما يخرج فيه المدبر. قال: يوقف المدبر بماله. ويجمع خراجه حتى يتبين من المال الغائب. فإن كان فيما ترك سيده، مما يحمله الثلث، عتق بماله. وبما جمع من خراجه فإن لم يكن فيما ترك سيده ما يحمله، عتق منه قدر الثلث، وترك ماله في يديه.قَالَ مَالِكٌ فِي رَجُلٍ دَبَّرَ عَبْدًا لَهُ. فَمَاتَ السَّيِّدُ. وَلَهُ مَالٌ حَاضِرٌ وَمَالٌ غَائِبٌ. فَلَمْ يَكُنْ فِي مَالِهِ الْحَاضِرِ مَا يَخْرُجُ فِيهِ الْمُدَبَّرُ. قَالَ: يُوقَفُ الْمُدَبَّرُ بِمَالِهِ. وَيُجْمَعُ خَرَاجُهُ حَتَّى يَتَبَيَّنَ مِنَ الْمَالِ الْغَائِبِ. فَإِنْ كَانَ فِيمَا تَرَكَ سَيِّدُهُ، مِمَّا يَحْمِلُهُ الثُّلُثُ، عَتَقَ بِمَالِهِ. وَبِمَا جُمِعَ مِنْ خَرَاجِهِ فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيمَا تَرَكَ سَيِّدُهُ مَا يَحْمِلُهُ، عَتَقَ مِنْهُ قَدْرُ الثُّلُثِ، وَتُرِكَ مَالُهُ فِي يَدَيْهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے غلام کو مدبر کرے، پھر مر جائے، اور اس کا مال کچھ موجود ہو کچھ غائب ہو، جس قدر موجود ہو اس کے تہائی میں سے مدبر آزاد نہ ہو سکے، تو مدبر کو روک رکھیں گے، اور اس کی کمائی کو بھی جمع کرتے جائیں گے، یہاں تک کہ جو مال غائب ہے وہ بھی نکل آئے، پھر اگر مولیٰ کے کل مال کے تہائی میں سے مدبر آزاد ہو سکے گا تو آزاد ہو جائے، اور مدبر کا مال اور کمائی اسی کو ملے گی، اور جو تہائی میں سے کل آزاد نہ ہو سکے گا تو تہائی ہی کی مقدار آزاد ہو جائے گا، اس کا مال اسی کے پاس رہے گا۔
قال مالك الامر المجتمع عليه عندنا: ان كل عتاقة اعتقها رجل. في وصية اوصى بها في صحة او مرض: انه يردها متى شاء. ويغيرها متى شاء، ما لم يكن تدبيرا. فإذا دبر، فلا سبيل له إلى رد ما دبر. قَالَ مَالِكٌ الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا: أَنَّ كُلَّ عَتَاقَةٍ أَعْتَقَهَا رَجُلٌ. فِي وَصِيَّةٍ أَوْصَى بِهَا فِي صِحَّةٍ أَوْ مَرَضٍ: أَنَّهُ يَرُدُّهَا مَتَى شَاءَ. وَيُغَيِّرُهَا مَتَى شَاءَ، مَا لَمْ يَكُنْ تَدْبِيرًا. فَإِذَا دَبَّرَ، فَلَا سَبِيلَ لَهُ إِلَى رَدِّ مَا دَبَّرَ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ آزادی کی جتنی وصیتیں ہیں صحت میں ہوں یا مرض میں، ان میں رجوع اور تغیر کر سکتا ہے، مگر تدبیر میں جب کسی کو مدبر کر دیا اب اس کے فسخ کا اختیار نہ ہوگا۔
قال مالك: وكل ولد ولدته امة، اوصى بعتقها ولم تدبر. فإن ولدها لا يعتقون معها إذا عتقت. وذلك ان سيدها يغير وصيته إن شاء. ويردها متى شاء. ولم يثبت لها عتاقة. وإنما هي بمنزلة رجل قال لجاريته: إن بقيت عندي فلانة حتى اموت، فهي حرة. قَالَ مَالِكٌ: وَكُلُّ وَلَدٍ وَلَدَتْهُ أَمَةٌ، أَوْصَى بِعِتْقِهَا وَلَمْ تُدَبَّرْ. فَإِنَّ وَلَدَهَا لَا يَعْتِقُونَ مَعَهَا إِذَا عَتَقَتْ. وَذَلِكَ أَنَّ سَيِّدَهَا يُغَيِّرُ وَصِيَّتَهُ إِنْ شَاءَ. وَيَرُدُّهَا مَتَى شَاءَ. وَلَمْ يَثْبُتْ لَهَا عَتَاقَةٌ. وَإِنَّمَا هِيَ بِمَنْزِلَةِ رَجُلٍ قَالَ لِجَارِيَتِهِ: إِنْ بَقِيَتْ عِنْدِي فُلَانَةُ حَتَّى أَمُوتَ، فَهِيَ حُرَّةٌ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس لونڈی کے آزاد کرنے کی وصیت کی اور اس کو مدبر نہ کیا، تو اس کی اولاد اپنی ماں کے ساتھ آزاد نہ ہوگی، اس لیے کہ مولیٰ کو اس وصیت کے بدل ڈالنے کا اختیار تھا نہ ان کی ماں کے لیے آزادی ثابت ہوئی تھی، بلکہ یہ ایسا ہے کوئی کہے: اگر فلانی لونڈی میرے مرنے تک رہے تو وہ آزاد ہے، پھر وہ اس کے مرنے تک رہی تو آزاد ہو جائے گی، مگر مولیٰ کو اختیار ہے کہ موت سے پیشتر اس کو یا اس کی اولاد کو بیچے، تو آزادی کی وصیت اور تدبیر کی وصیت میں سنتِ قدیمہ کی رو سے بہت فرق ہے، اگر وصیت مثل تدبیر کے ہوتی تو کوئی شخص اپنی وصیت میں تغیر و تبدل کا اختیار نہ رکھتا۔
قال مالك: فإن ادركت ذلك، كان لها ذلك. وإن شاء، قبل ذلك، باعها وولدها لانه لم يدخل ولدها في شيء مما جعل لها.قَالَ مَالِكٌ: فَإِنْ أَدْرَكَتْ ذَلِكَ، كَانَ لَهَا ذَلِكَ. وَإِنْ شَاءَ، قَبْلَ ذَلِكَ، بَاعَهَا وَوَلَدَهَا لِأَنَّهُ لَمْ يُدْخِلْ وَلَدَهَا فِي شَيْءٍ مِمَّا جَعَلَ لَهَا.
قال: والوصية في العتاقة مخالفة للتدبير، فرق بين ذلك ما مضى من السنة. قال: ولو كانت الوصية بمنزلة التدبير. كان كل موص لا يقدر على تغيير وصيته. وما ذكر فيها من العتاقة. وكان قد حبس عليه من ماله ما لا يستطيع ان ينتفع به. قَالَ: وَالْوَصِيَّةُ فِي الْعَتَاقَةِ مُخَالِفَةٌ لِلتَّدْبِيرِ، فَرَقَ بَيْنَ ذَلِكَ مَا مَضَى مِنَ السُّنَّةِ. قَالَ: وَلَوْ كَانَتِ الْوَصِيَّةُ بِمَنْزِلَةِ التَّدْبِيرِ. كَانَ كُلُّ مُوصٍ لَا يَقْدِرُ عَلَى تَغْيِيرِ وَصِيَّتِهِ. وَمَا ذُكِرَ فِيهَا مِنَ الْعَتَاقَةِ. وَكَانَ قَدْ حَبَسَ عَلَيْهِ مِنْ مَالِهِ مَا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَنْتَفِعَ بِهِ.
قال مالك في رجل دبر رقيقا له جميعا. في صحته وليس له مال غيرهم: إن كان دبر بعضهم قبل بعض بدئ بالاول فالاول، حتى يبلغ الثلث. وإن كان دبرهم جميعا في مرضه. فقال: فلان حر. وفلان حر. وفلان حر. في كلام واحد. إن حدث بي في مرضي هذا حدث موت، او دبرهم جميعا في كلمة واحدة، تحاصوا في الثلث. ولم يبدا احد منهم قبل صاحبه. وإنما هي وصية. وإنما لهم الثلث. يقسم بينهم بالحصص. ثم يعتق منهم الثلث بالغا ما بلغ. قال: ولا يبدا احد منهم إذا كان ذلك كله في مرضه. قَالَ مَالِكٌ فِي رَجُلٍ دَبَّرَ رَقِيقًا لَهُ جَمِيعًا. فِي صِحَّتِهِ وَلَيْسَ لَهُ مَالٌ غَيْرُهُمْ: إِنْ كَانَ دَبَّرَ بَعْضَهُمْ قَبْلَ بَعْضٍ بُدِئَ بِالْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ، حَتَّى يَبْلُغَ الثُّلُثَ. وَإِنْ كَانَ دَبَّرَهُمْ جَمِيعًا فِي مَرَضِهِ. فَقَالَ: فُلَانٌ حُرٌّ. وَفُلَانٌ حُرٌّ. وَفُلَانٌ حُرٌّ. فِي كَلَامٍ وَاحِدٍ. إِنْ حَدَثَ بِي فِي مَرَضِي هَذَا حَدَثُ مَوْتٍ، أَوْ دَبَّرَهُمْ جَمِيعًا فِي كَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ، تَحَاصَّوْا فِي الثُّلُثِ. وَلَمْ يُبَدَّأْ أَحَدٌ مِنْهُمْ قَبْلَ صَاحِبِهِ. وَإِنَّمَا هِيَ وَصِيَّةٌ. وَإِنَّمَا لَهُمُ الثُّلُثُ. يُقْسَمُ بَيْنَهُمْ بِالْحِصَصِ. ثُمَّ يَعْتِقُ مِنْهُمُ الثُّلُثُ بَالِغًا مَا بَلَغَ. قَالَ: وَلَا يُبَدَّأُ أَحَدٌ مِنْهُمْ إِذَا كَانَ ذَلِكَ كُلُّهُ فِي مَرَضِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے چند غلاموں کو صحت کی حالت میں مدبر کرے اور سوا ان کے کچھ مال نہ رکھتا ہو، اگر اس نے اس طرح مدبر کیا کہ پہلے ایک کو پھر دوسرے کو، تو جس کو پہلے مدبر کیا وہ تہائی مال میں سے آزاد ہو جائے گا، پھر دوسرا پھر تیسرا، اسی طرح جب تک تہائی مال میں گنجائش ہو، اگر سب کو ایک ساتھ مدبر کیا ہے ایک ہی کلام میں، تو ہر ایک کا تہائی آزاد ہو جائے گا جب سب کو بیماری میں مدبر کیا۔
قال مالك في رجل دبر غلاما له. فهلك السيد ولا مال له إلا العبد المدبر. وللعبد مال قال: يعتق ثلث المدبر. ويوقف ماله بيديه. قَالَ مَالِكٌ فِي رَجُلٍ دَبَّرَ غُلَامًا لَهُ. فَهَلَكَ السَّيِّدُ وَلَا مَالَ لَهُ إِلَّا الْعَبْدُ الْمُدَبَّرُ. وَلِلْعَبْدِ مَالٌ قَالَ: يُعْتَقُ ثُلُثُ الْمُدَبَّرِ. وَيُوقَفُ مَالُهُ بِيَدَيْهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایاکہ جس شخص نے اپنے غلام کو مدبر کیا اور سوا اس کے کچھ مال نہ تھا، پھر مولیٰ مر گیا اور مدبر کے پاس مال ہے، تو ثلث مدبر آزاد ہو جائے گا اور مال اس کا اسی کے پاس رہے گا۔
قال مالك في مدبر كاتبه سيده فمات السيد ولم يترك مالا غيره. قال مالك: يعتق منه ثلثه. ويوضع عنه ثلث كتابته. ويكون عليه ثلثاها. قَالَ مَالِكٌ فِي مُدَبَّرٍ كَاتَبَهُ سَيِّدُهُ فَمَاتَ السَّيِّدُ وَلَمْ يَتْرُكْ مَالًا غَيْرَهُ. قَالَ مَالِكٌ: يُعْتَقُ مِنْهُ ثُلُثُهُ. وَيُوضَعُ عَنْهُ ثُلُثُ كِتَابَتِهِ. وَيَكُونُ عَلَيْهِ ثُلُثَاهَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس مدبر کو مولیٰ مکاتب کر دے، پھر مولیٰ مر جائے، اور سوا اس کے کچھ مال نہ چھوڑے، تو اس کا ایک تہائی آزاد ہو جائے گا، اور بدل کتابت میں سے بھی ایک تہائی گھٹ جائے گا، اور دو تہائی مدبر کو ادا کرنا ہوں گے۔
قال مالك في رجل اعتق نصف عبد له وهو مريض. فبت عتق نصفه. او بت عتقه كله. وقد كان دبر عبدا له آخر قبل ذلك. قال: يبدا بالمدبر قبل الذي اعتقه وهو مريض. وذلك انه ليس للرجل ان يرد ما دبر. ولا ان يتعقبه بامر يرده به. فإذا عتق المدبر فليكن ما بقي من الثلث في الذي اعتق شطره. حتى يستتم عتقه كله، في ثلث مال الميت. فإن لم يبلغ ذلك فضل الثلث، عتق منه ما بلغ فضل الثلث، بعد عتق المدبر الاول. قَالَ مَالِكٌ فِي رَجُلٍ أَعْتَقَ نِصْفَ عَبْدٍ لَهُ وَهُوَ مَرِيضٌ. فَبَتَّ عِتْقَ نِصْفِهِ. أَوْ بَتَّ عِتْقَهُ كُلَّهُ. وَقَدْ كَانَ دَبَّرَ عَبْدًا لَهُ آخَرَ قَبْلَ ذَلِكَ. قَالَ: يُبَدَّأُ بِالْمُدَبَّرِ قَبْلَ الَّذِي أَعْتَقَهُ وَهُوَ مَرِيضٌ. وَذَلِكَ أَنَّهُ لَيْسَ لِلرَّجُلِ أَنْ يَرُدَّ مَا دَبَّرَ. وَلَا أَنْ يَتَعَقَّبَهُ بِأَمْرٍ يَرُدُّهُ بِهِ. فَإِذَا عَتَقَ الْمُدَبَّرُ فَلْيَكُنْ مَا بَقِيَ مِنَ الثُّلُثِ فِي الَّذِي أَعْتَقَ شَطْرَهُ. حَتَّى يَسْتَتِمَّ عِتْقُهُ كُلُّهُ، فِي ثُلُثِ مَالِ الْمَيِّتِ. فَإِنْ لَمْ يَبْلُغْ ذَلِكَ فَضْلَ الثُّلُثِ، عَتَقَ مِنْهُ مَا بَلَغَ فَضْلَ الثُّلُثِ، بَعْدَ عِتْقِ الْمُدَبَّرِ الْأَوَّلِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک شخص نے اپنی مرضِ موت میں اپنے غلام کا آدھا یا تمام آزاد کیا، اور پہلے اپنے غلام کو مدبر کر چکا تھا، تو تہائی مال میں سے پہلے مدبر آزاد ہوگا، پھر غلام اگر باقی میں سے آزاد ہو سکے تو آزاد ہوگا۔ ورنہ جس قدر مال بچا ہے اسی قدر آزاد ہوگا۔