قال مالك: والامة المسلمة والحرة النصرانية واليهودية تلاعن الحر المسلم إذا تزوج إحداهن، فاصابها، وذلك ان الله تبارك وتعالى يقول في كتابه:«والذين يرمون ازواجهم» (سورة النور آية 6)، فهن من الازواج، وعلى هذا الامر عندنا.قَالَ مَالِكٌ: وَالْأَمَةُ الْمُسْلِمَةُ وَالْحُرَّةُ النَّصْرَانِيَّةُ وَالْيَهُودِيَّةُ تُلَاعِنُ الْحُرَّ الْمُسْلِمَ إِذَا تَزَوَّجَ إِحْدَاهُنَّ، فَأَصَابَهَا، وَذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالَى يَقُولُ فِي كِتَابِهِ:«وَالَّذِينَ يَرْمُونَ أَزْوَاجَهُمْ» (سورة النور آية 6)، فَهُنَّ مِنَ الْأَزْوَاجِ، وَعَلَى هَذَا الْأَمْرُ عِنْدَنَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ غلام بھی لعان اور قذف دونوں میں آزاد شخص کی طرح ہے، مگر جو شخص لونڈی کو زنا کی تہمت لگائے تو اس پر حدِ قذف لازم نہ ہوگی۔
قال مالك: والعبد إذا تزوج المراة الحرة المسلمة، او الامة المسلمة، او الحرة النصرانية او اليهودية، لاعنها. قَالَ مَالِكٌ: وَالْعَبْدُ إِذَا تَزَوَّجَ الْمَرْأَةَ الْحُرَّةَ الْمُسْلِمَةَ، أَوِ الْأَمَةَ الْمُسْلِمَةَ، أَوِ الْحُرَّةَ النَّصْرَانِيَّةَ أَوِ الْيَهُودِيَّةَ، لَاعَنَهَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جب کسی مسلمان لونڈی یا آزاد عورت یا یہودی یا نصرانی عورت سے مسلمان آزاد مرد نکاح کرے اور اس کو زنا کی تہمت لگائے تو لعان واجب ہوگا۔
قال مالك في الرجل يلاعن امراته، فينزع ويكذب نفسه بعد يمين او يمينين، ما لم يلتعن في الخامسة: إنه إذا نزع قبل ان يلتعن، جلد الحد، ولم يفرق بينهما. قَالَ مَالِكٌ فِي الرَّجُلِ يُلَاعِنُ امْرَأَتَهُ، فَيَنْزِعُ وَيُكَذِّبُ نَفْسَهُ بَعْدَ يَمِينٍ أَوْ يَمِينَيْنِ، مَا لَمْ يَلْتَعِنْ فِي الْخَامِسَةِ: إِنَّهُ إِذَا نَزَعَ قَبْلَ أَنْ يَلْتَعِنَ، جُلِدَ الْحَدَّ، وَلَمْ يُفَرَّقْ بَيْنَهُمَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص اپنی عورت سے لعان کرے، پھر ایک یا دو گواہیوں کے بعد اپنے آپ کو جھٹلائے تو حدِ قذف لگائی جائے گی اور تفریق نہ ہوگی۔
قال مالك في الرجل يطلق امراته، فإذا مضت الثلاثة الاشهر، قالت المراة: انا حامل، قال: إن انكر زوجها حملها، لاعنها. قَالَ مَالِكٌ فِي الرَّجُلِ يُطَلِّقُ امْرَأَتَهُ، فَإِذَا مَضَتِ الثَّلَاثَةُ الْأَشْهُرِ، قَالَتِ الْمَرْأَةُ: أَنَا حَامِلٌ، قَالَ: إِنْ أَنْكَرَ زَوْجُهَا حَمْلَهَا، لَاعَنَهَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص اپنی عورت کو طلاق دے، پھر تین مہینے کے بعد عورت کہے: میں حاملہ ہوں، اور خاوند اس کے حمل کا انکار کرے تو لعان واجب ہوگا۔
قال مالك في الامة المملوكة يلاعنها زوجها ثم يشتريها: إنه لا يطؤها، وإن ملكها، وذلك ان السنة مضت ان المتلاعنين لا يتراجعان ابدا. قَالَ مَالِكٌ فِي الْأَمَةِ الْمَمْلُوكَةِ يُلَاعِنُهَا زَوْجُهَا ثُمَّ يَشْتَرِيهَا: إِنَّهُ لَا يَطَؤُهَا، وَإِنْ مَلَكَهَا، وَذَلِكَ أَنَّ السُّنَّةَ مَضَتْ أَنَّ الْمُتَلَاعِنَيْنِ لَا يَتَرَاجَعَانِ أَبَدًا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس لونڈی سے اس کا خاوند لعان کرے، پھر اس کو خریدے تو اس سے وطی نہ کرے، کیونکہ سنت جاری ہے کہ متلاعنین کبھی جمع نہیں ہوتے۔
قال مالك: إذا لاعن الرجل امراته قبل ان يدخل بها، فليس لها إلا نصف الصداققَالَ مَالِكٌ: إِذَا لَاعَنَ الرَّجُلُ امْرَأَتَهُ قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، فَلَيْسَ لَهَا إِلَّا نِصْفُ الصَّدَاقِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر خاوند لعان کرے اپنی عورت سے قبل صحبت کے تو عورت کو آدھا مہر ملے گا۔
حدثني يحيى، عن مالك، انه بلغه، ان عروة بن الزبير، كان يقول في ولد الملاعنة، وولد الزنا:" إنه إذا مات ورثته امه حقها في كتاب الله تعالى، وإخوته لامه حقوقهم، ويرث البقية موالي امه إن كانت مولاة، وإن كانت عربية ورثت حقها، وورث إخوته لامه حقوقهم، وكان ما بقي للمسلمين . حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِكٍ، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، كَانَ يَقُولُ فِي وَلَدِ الْمُلَاعَنَةِ، وَوَلَدِ الزِّنَا:" إِنَّهُ إِذَا مَاتَ وَرِثَتْهُ أُمُّهُ حَقَّهَا فِي كِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى، وَإِخْوَتُهُ لِأُمِّهِ حُقُوقَهُمْ، وَيَرِثُ الْبَقِيَّةَ مَوَالِي أُمِّهِ إِنْ كَانَتْ مَوْلَاةً، وَإِنْ كَانَتْ عَرَبِيَّةً وَرِثَتْ حَقَّهَا، وَوَرِثَ إِخْوَتُهُ لِأُمِّهِ حُقُوقَهُمْ، وَكَانَ مَا بَقِيَ لِلْمُسْلِمِينَ .
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ عروہ بن زبیر کہتے تھے کہ ملاعنہ کا بچہ اور ولد زنا جب مر جائے تو ماں اس کی اپنے حصّے کے موافق وارث ہو گی، اور جو اس کے مادری بھائی ہیں وہ بھی وارث ہوں گے، اور جو کچھ بچے گا وہ اس کی ماں کے مولیٰ کو ملے گا، اگر ماں اس کی لونڈی ہو آزاد کی ہوئی، اور جو آزاد ہو عربی تو ماں اور بھائیوں کے حصے دینے کے بعد جو کچھ بچے گا وہ بیت المال میں داخل ہوگا۔
قال مالك: وبلغني عن سليمان بن يسار مثل ذلك، وعلى ذلك ادركت اهل العلم ببلدناقَالَ مَالِكٌ: وَبَلَغَنِي عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ مِثْلُ ذَلِكَ، وَعَلَى ذَلِكَ أَدْرَكْتُ أَهْلَ الْعِلْمِ بِبَلَدِنَا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ سلیمان بن یسار سے بھی مجھے ایسا ہی پہنچا، اور اس پر میں نے اہلِ علم کو پایا۔
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف، انفرد به المصنف من هذا الطريق، فواد عبدالباقي نمبر: 30 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 35ق»
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان ، عن محمد بن إياس بن البكير ، انه قال: طلق رجل امراته ثلاثا قبل ان يدخل بها، ثم بدا له ان ينكحها، فجاء يستفتي، فذهبت معه اسال له، فسال عبد الله بن عباس ، وابا هريرة عن ذلك، فقالا: " لا نرى ان تنكحها حتى تنكح زوجا غيرك"، قال: فإنما طلاقي إياها واحدة، قال ابن عباس:" إنك ارسلت من يدك ما كان لك من فضل" حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ ثَوْبَانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِيَاسِ بْنِ الْبُكَيْرِ ، أَنَّهُ قَالَ: طَلَّقَ رَجُلٌ امْرَأَتَهُ ثَلَاثًا قَبْلَ أَنْ يَدْخُلَ بِهَا، ثُمَّ بَدَا لَهُ أَنْ يَنْكِحَهَا، فَجَاءَ يَسْتَفْتِي، فَذَهَبْتُ مَعَهُ أَسْأَلُ لَهُ، فَسَأَلَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ ، وَأَبَا هُرَيْرَةَ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَا: " لَا نَرَى أَنْ تَنْكِحَهَا حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَكَ"، قَالَ: فَإِنَّمَا طَلَاقِي إِيَّاهَا وَاحِدَةٌ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" إِنَّكَ أَرْسَلْتَ مِنْ يَدِكَ مَا كَانَ لَكَ مِنْ فَضْلٍ"
حضرت محمد بن ایاس بن بکیر نے کہا: ایک شخص نے اپنی بی بی کو تین طلاق دیں وطی سے پہلے، پھر اس سے نکاح کرنا چاہا، پھر مسئلہ پوچھنے گیا، میں بھی اس کے ساتھ گیا۔ اس نے سیدنا عبداللہ بن عباس اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا۔ دونوں نے کہا کہ تجھ کو اس عورت سے نکاح کرنا درست نہیں جب تک وہ عورت دوسرے شخص سے نکاح نہ کرے، وہ شخص بولا: میری ایک طلاق سے وہ عورت بائن ہوگئی۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: تو نے اپنے ہاتھ سے خود اختیار کھو دیا۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 2198، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 14965، 14967، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 11071، 11072، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 18154، 18159، 18446، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 4477، 4478، 4479، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 37»
عطاء بن یسار سے روایت ہے کہ ایک شخص سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس آیا، پوچھنے لگا: جو شخص اپنی عورت کو تین طلاق دے جماع سے پہلے اس کا کیا حکم ہے؟ عطا نے کہا کہ باکرہ پر ایک طلاق پڑتی ہے، سیدنا عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے کہا: تو قصّہ خوان ہے، ایک طلاق سے بائن ہو جاتی ہے اور تین طلاق سے حرام ہو جاتی ہے، یہاں تک کہ دوسرے شخص سے نکاح کرے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 2198، وسعيد بن منصور فى «سننه» برقم: 1075، 1095، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 15008، 15119، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 4467، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 11074، 11078، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 18153، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 4479، 4486، 4487، فواد عبدالباقي نمبر: 29 - كِتَابُ الطَّلَاقِ-ح: 38»