وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن عبد الله بن دينار ، عن عبد الله بن عمر ، انه كان يقول: " من اعتمر في اشهر الحج في شوال، او ذي القعدة، او في ذي الحجة قبل الحج، ثم اقام بمكة حتى يدركه الحج، فهو متمتع إن حج، وعليه ما استيسر من الهدي فإن لم يجد، فصيام ثلاثة ايام في الحج وسبعة إذا رجع" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: " مَنِ اعْتَمَرَ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ فِي شَوَّالٍ، أَوْ ذِي الْقَعْدَةِ، أَوْ فِي ذِي الْحِجَّةِ قَبْلَ الْحَجِّ، ثُمَّ أَقَامَ بِمَكَّةَ حَتَّى يُدْرِكَهُ الْحَجُّ، فَهُوَ مُتَمَتِّعٌ إِنْ حَجَّ، وَعَلَيْهِ مَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَإِنْ لَمْ يَجِدْ، فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعَ"
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے: جس شخص نے عمرہ کیا حج کے مہینوں میں، شوال یا ذی قعدہ یا ذی الحجہ میں قبل حج کے، پھر ٹھہرا رہا مکہ میں یہاں تک کہ پا لیا اس نے حج کو، اس نے تمتع کیا اگر حج کرے، اور اس پر ہدی لازم ہے جیسے میسر ہو، اگر ہدی نہ میسر ہو تو تین روزے حج میں رکھے اور سات روزے جب حج سے لوٹے تو رکھے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8892، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 13160، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 62»
قال مالك في رجل من اهل مكة انقطع إلى غيرها وسكن سواها، ثم قدم معتمرا في اشهر الحج، ثم اقام بمكة حتى انشا الحج منها: إنه متمتع يجب عليه الهدي او الصيام إن لم يجد هديا، وانه لا يكون مثل اهل مكة قَالَ مَالِك فِي رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ انْقَطَعَ إِلَى غَيْرِهَا وَسَكَنَ سِوَاهَا، ثُمَّ قَدِمَ مُعْتَمِرًا فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ، ثُمَّ أَقَامَ بِمَكَّةَ حَتَّى أَنْشَأَ الْحَجَّ مِنْهَا: إِنَّهُ مُتَمَتِّعٌ يَجِبُ عَلَيْهِ الْهَدْيُ أَوِ الصِّيَامُ إِنْ لَمْ يَجِدْ هَدْيًا، وَأَنَّهُ لَا يَكُونُ مِثْلَ أَهْلِ مَكَّةَ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ایک شخص مکہ کا باشندہ تھا، اب وہ کہیں اور جا کر رہا، پھر اشہر حج میں عمرہ کرنے آیا اور عمرہ کر کے وہاں ٹھہرا رہا۔ پھر حج کیا تو وہ تمتع ہو گا، اور اس پر ہدی واجب ہے، اگر ہدی نہ مل سکے تو روزے رکھے، اور اس کا حکم مکہ والوں کا سا نہ ہو گا۔
وسئل مالك، عن رجل من غير اهل مكة دخل مكة بعمرة في اشهر الحج، وهو يريد الإقامة بمكة حتى ينشئ الحج امتمتع هو، فقال: نعم هو متمتع وليس هو مثل اهل مكة وإن اراد الإقامة وذلك انه دخل مكة وليس هو من اهلها، وإنما الهدي او الصيام على من لم يكن من اهل مكة وان هذا الرجل يريد الإقامة، ولا يدري ما يبدو له بعد ذلك وليس هو من اهل مكةوَسُئِلَ مَالِك، عَنْ رَجُلٍ مِنْ غَيْرِ أَهْلِ مَكَّةَ دَخَلَ مَكَّةَ بِعُمْرَةٍ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ، وَهُوَ يُرِيدُ الْإِقَامَةَ بِمَكَّةَ حَتَّى يُنْشِئَ الْحَجَّ أَمُتَمَتِّعٌ هُوَ، فَقَالَ: نَعَمْ هُوَ مُتَمَتِّعٌ وَلَيْسَ هُوَ مِثْلَ أَهْلِ مَكَّةَ وَإِنْ أَرَادَ الْإِقَامَةَ وَذَلِكَ أَنَّهُ دَخَلَ مَكَّةَ وَلَيْسَ هُوَ مِنْ أَهْلِهَا، وَإِنَّمَا الْهَدْيُ أَوِ الصِّيَامُ عَلَى مَنْ لَمْ يَكُنْ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ وَأَنَّ هَذَا الرَّجُلَ يُرِيدُ الْإِقَامَةَ، وَلَا يَدْرِي مَا يَبْدُو لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ وَلَيْسَ هُوَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص اور ملک والا عمرہ کا احرام باندھ کر حج کے مہینوں میں مکہ آیا، اور اس کی نیت مکہ میں رہنے کی ہے تاکہ حج بھی کرے، کیا وہ متمتع ہے؟ بولے: ہاں، وہ متمتع ہے، اہلِ مکہ کے مثل نہیں ہو سکتا، اگرچہ اس نے مکہ میں اقامت کی نیت کی، کیونکہ وہ جب مکہ میں آیا تھا تو وہ وہاں کا رہنے والا نہ تھا۔ پس اس پر ہدی یا روزے واجب ہوں گے، اور اس شخص نے جو مکہ میں رہنے کا ارادہ کیا ہے، تو اس کا حال معلوم نہیں کہ آئندہ کیا امر پیدا ہو، اس لئے وہ اہلِ مکہ میں سے نہیں ہو سکتا۔
وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، انه سمع سعيد بن المسيب ، يقول: " من اعتمر في شوال او ذي القعدة او في ذي الحجة، ثم اقام بمكة حتى يدركه الحج فهو متمتع إن حج، وما استيسر من الهدي، فمن لم يجد فصيام ثلاثة ايام في الحج، وسبعة إذا رجع"وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ ، يَقُولُ: " مَنِ اعْتَمَرَ فِي شَوَّالٍ أَوْ ذِي الْقِعْدَةِ أَوْ فِي ذِي الْحِجَّةِ، ثُمَّ أَقَامَ بِمَكَّةَ حَتَّى يُدْرِكَهُ الْحَجُّ فَهُوَ مُتَمَتِّعٌ إِنْ حَجَّ، وَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ، فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ، وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعَ"
حضرت یحییٰ بن سعید سے روایت ہے انہوں نے سنا سعید بن مسیّب سے، کہتے تھے: جس نے عمرہ کیا شوال یا ذی قعدہ میں یا ذی الحجہ میں، پھر مکہ میں ٹھہرا رہا یہاں تک کہ حج پایا، تو وہ متمتع ہے، اگر حج کرے، اس پر ہدی لازم ہوگی اگر میسر ہے، ورنہ تین روزے حج میں اور سات جب لوٹے رکھنے ہوں گے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه ابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 13159، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 63»
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جس شخص نے عمرہ کیا شوال یا ذیقعدہ میں یا ذی الحجہ میں، پھر لوٹ آیا اپنے ملک کو، پھر حج کیا اسی سال جاکر، تو اس پر ہدی لازم نہ ہوگی، کیونکہ وہ متمتع نہیں ہے، بلکہ ہدی اس پر لازم ہے جو حج کے مہینوں میں عمرہ کر کے مکہ میں ٹھہرا رہے حج تک، پھر حج کرے۔
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: جو شخص اور ملک میں سے آن کر مکہ میں رہنے لگا، اس نے پھر حج کے مہینوں میں عمرہ کیا، بعد اس کے حج کیا اور وہ متمتع نہ ہو گا، نہ اس پر ہدی ہے نہ روزے ہیں۔ بلکہ وہ اہلِ مکہ کی مانند ہے جبکہ وہاں کا رہنا اس نے اختیار کیا۔
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ ایک شخص مکہ کا باشندہ جہاد کے واسطے یا اور کسی کام کو سفرمیں گیا، پھر لوٹ کر مکہ میں آیا، اور اس کی نیت وہیں رہنے کی ہے، خواہ اس کے گھر والے وہاں ہوں یا نہ ہوں، اور وہ عمرہ کا احرام باندھ کر حج کے مہینوں میں گیا ہے۔ پھر اس نے بعد عمرہ کے وہیں حج بھی کیا برابر ہے کہ اس نے عمرہ کا احرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے میقات سے باندھا ہو یا اور کسی میقات سے تو وہ متمتع ہے یا نہیں ہے؟ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اس پر متمتع کی طرح ہدی اور روزے واجب نہیں، کیونکہ اللہ جل جلالہُ فرماتا ہے اپنی کتاب میں: ﴿ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ﴾ [البقرة: 196]
حدثني يحيى، عن مالك، عن سمي مولى ابي بكر بن عبد الرحمن، عن ابي صالح السمان ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " العمرة إلى العمرة كفارة لما بينهما، والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " الْعُمْرَةُ إِلَى الْعُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا، وَالْحَجُّ الْمَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الْجَنَّةُ"
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک عمرہ سے لے کر دوسرے عمرہ تک کفارہ ہے ان گناہوں کا جو ان دونوں کے بیچ میں ہوں، اور حج مبرور کا کوئی بدلہ نہیں ہے سوائے جنت کے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1773، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1349، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2513، 3072، 3073، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3695، 3696، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2630، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 3588، 3589، 3595، والترمذي فى «جامعه» برقم: 933، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1836، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2888، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8815، 10491، 10492، وأحمد فى «مسنده» برقم: 7471، 10079، والحميدي فى «مسنده» برقم: 1032، والطيالسي فى «مسنده» برقم: 2545، 2547، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 65»
وحدثني، عن مالك، عن سمي مولى ابي بكر بن عبد الرحمن، انه سمع ابا بكر بن عبد الرحمن ، يقول: جاءت امراة إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: إني قد كنت تجهزت للحج فاعترض لي، فقال لها رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اعتمري في رمضان فإن عمرة فيه كحجة" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ سُمَيٍّ مَوْلَى أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا بَكْرِ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، يَقُولُ: جَاءَتِ امْرَأَةٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنِّي قَدْ كُنْتُ تَجَهَّزْتُ لِلْحَجِّ فَاعْتَرَضَ لِي، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اعْتَمِرِي فِي رَمَضَانَ فَإِنَّ عُمْرَةً فِيهِ كَحِجَّةٍ"
حضرت ابوبکر بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے، کہتے تھے: ایک عورت آئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اور کہا: میں نے تیاری کی تھی حج کی، پھر کوئی عارضہ مجھ کو ہوگیا تو حج ادا نہ کر سکی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمضان میں عمرہ کر لے کیوں کہ ایک عمرہ رمضان میں ایک حج کے برابر ہے۔“
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه أبو داود فى «سننه» برقم: 1988، 1989، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2376، 3075، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1780، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 4212، 4213، والترمذي فى «جامعه» برقم: 939، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1902، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8834، 12727، وأحمد فى «مسنده» برقم: 18119، 18121، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 66»