سئل مالك، عن اهل مكة، كيف صلاتهم بعرفة، اركعتان ام اربع؟ وكيف بامير الحاج، إن كان من اهل مكة؟ ايصلي الظهر، والعصر بعرفة اربع ركعات او ركعتين؟ وكيف صلاة اهل مكة في إقامتهم؟ فقال مالك: يصلي اهل مكة، بعرفة، ومنى ما اقاموا بهما ركعتين ركعتين يقصرون الصلاة، حتى يرجعوا إلى مكة، قال: وامير الحاج ايضا، إذا كان من اهل مكة، قصر الصلاة بعرفة وايام منى۔ سُئِلَ مَالِك، عَنْ أَهْلِ مَكَّةَ، كَيْفَ صَلَاتُهُمْ بِعَرَفَةَ، أَرَكْعَتَانِ أَمْ أَرْبَعٌ؟ وَكَيْفَ بِأَمِيرِ الْحَاجِّ، إِنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ؟ أَيُصَلِّي الظُّهْرَ، وَالْعَصْرَ بِعَرَفَةَ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ أَوْ رَكْعَتَيْنِ؟ وَكَيْفَ صَلَاةُ أَهْلِ مَكَّةَ فِي إِقَامَتِهِمْ؟ فَقَالَ مَالِك: يُصَلِّي أَهْلُ مَكَّةَ، بِعَرَفَةَ، وَمِنًى مَا أَقَامُوا بِهِمَا رَكْعَتَيْنِ رَكْعَتَيْنِ يَقْصُرُونَ الصَّلَاةَ، حَتَّى يَرْجِعُوا إِلَى مَكَّةَ، قَالَ: وَأَمِيرُ الْحَاجِّ أَيْضًا، إِذَا كَانَ مِنْ أَهْلِ مَكَّةَ، قَصَرَ الصَّلَاةَ بِعَرَفَةَ وَأَيَّامَ مِنًى۔
امام مالک رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ اہلِ مکہ عرفات میں چار رکعتیں پڑھیں یا دو رکعتیں؟ اور امیر الحاج بھی اگر مکہ کا رہنے والا ہو تو وہ ظہر اور عصر کی عرفات میں چار رکعتیں پڑھے یا دو رکعتیں؟ اور اہلِ مکہ جب تک منیٰ میں رہیں تو قصر کریں یا نہیں؟ تو جواب دیا کہ اہلِ مکہ منیٰ اور عرفات میں جب تک رہیں دو دو رکعتیں پڑھیں اور قصر کرتے رہیں مکہ میں پہنچنے تک، اور امیر الحج اگر مکہ کا رہنے والا ہو تو وہ بھی قصر کرے عرفہ اور منیٰ میں۔
قال مالك: وإن كان احد ساكنا بمنى مقيما بها، فإن ذلك يتم الصلاة بمنى، وإن كان احد ساكنا بعرفة مقيما بها، فإن ذلك يتم الصلاة بها ايضاقَالَ مَالِك: وَإِنْ كَانَ أَحَدٌ سَاكِنًا بِمِنًى مُقِيمًا بِهَا، فَإِنَّ ذَلِكَ يُتِمُّ الصَّلَاةَ بِمِنًى، وَإِنْ كَانَ أَحَدٌ سَاكِنًا بِعَرَفَةَ مُقِيمًا بِهَا، فَإِنَّ ذَلِكَ يُتِمُّ الصَّلَاةَ بِهَا أَيْضًا
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر کوئی منیٰ کا رہنے والا ہو تو وہ قصر نہ کرے، بلکہ چار پوری پڑھے جب تک منیٰ میں رہے، اسی طرح اگر کوئی عرفات کا رہنے والا ہو تو وہ بھی وہاں قصر نہ کرے۔
قال مالك: من قدم مكة لهلال ذي الحجة. فاهل بالحج فإنه يتم الصلاة. حتى يخرج من مكة لمنى، فيقصر. وذلك انه قد اجمع على مقام، اكثر من اربع ليال.قَالَ مَالِكٌ: مَنْ قَدِمَ مَكَّةَ لِهِلَالِ ذِي الْحِجَّةِ. فَأَهَلَّ بِالْحَجِّ فَإِنَّهُ يُتِمُّ الصَّلَاةَ. حَتَّى يَخْرُجَ مِنْ مَكَّةَ لِمِنًى، فَيَقْصُرَ. وَذَلِكَ أَنَّهُ قَدْ أَجْمَعَ عَلَى مُقَامٍ، أَكْثَرَ مِنْ أَرْبَعِ لَيَالٍ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھتے ہی مکہ میں آگیا اور حج کا احرام باندھا، تو وہ جب تک مکہ میں رہے چار رکعتیں پوری پڑھے۔ اس واسطے کہ اس نے چار راتوں سے زیادہ رہنے کی نیت کر لی۔
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، انه بلغه:" ان عمر بن الخطاب ، خرج الغد من يوم النحر حين ارتفع النهار شيئا، فكبر فكبر الناس بتكبيره، ثم خرج الثانية من يومه ذلك بعد ارتفاع النهار، فكبر فكبر الناس بتكبيره، ثم خرج الثالثة حين زاغت الشمس، فكبر فكبر الناس بتكبيره حتى يتصل التكبير ويبلغ البيت، فيعلم ان عمر قد خرج يرمي" حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّهُ بَلَغَهُ:" أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، خَرَجَ الْغَدَ مِنْ يَوْمِ النَّحْرِ حِينَ ارْتَفَعَ النَّهَارُ شَيْئًا، فَكَبَّرَ فَكَبَّرَ النَّاسُ بِتَكْبِيرِهِ، ثُمَّ خَرَجَ الثَّانِيَةَ مِنْ يَوْمِهِ ذَلِكَ بَعْدَ ارْتِفَاعِ النَّهَارِ، فَكَبَّرَ فَكَبَّرَ النَّاسُ بِتَكْبِيرِهِ، ثُمَّ خَرَجَ الثَّالِثَةَ حِينَ زَاغَتِ الشَّمْسُ، فَكَبَّرَ فَكَبَّرَ النَّاسُ بِتَكْبِيرِهِ حَتَّى يَتَّصِلَ التَّكْبِيرُ وَيَبْلُغَ الْبَيْتَ، فَيُعْلَمَ أَنَّ عُمَرَ قَدْ خَرَجَ يَرْمِي"
حضرت یحییٰ بن سعید کو پہنچا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ گیارھویں تاریخ کو نکلے جب کچھ دن چڑھا، تو تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی ان کے ساتھ تکبیر کہی، پھر دوسرے دن نکلے جب کچھ دن نکلا اور تکبیر کہی اور لوگوں نے بھی ان کے ساتھ تکبیر کہی تاکہ ایک تکبیر دوسری تکبیر سے ملتے جلتے آواز بیت اللہ کو پہنچے اور لوگ جانیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ رمی کرنے کو نکلے۔
. قال مالك: الامر عندنا، ان التكبير في ايام التشريق دبر الصلوات، واول ذلك تكبير الإمام والناس معه دبر صلاة الظهر من يوم النحر، وآخر ذلك تكبير الإمام والناس معه دبر صلاة الصبح من آخر ايام التشريق، ثم يقطع التكبير . قَالَ مَالِك: الْأَمْرُ عِنْدَنَا، أَنَّ التَّكْبِيرَ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ دُبُرَ الصَّلَوَاتِ، وَأَوَّلُ ذَلِكَ تَكْبِيرُ الْإِمَامِ وَالنَّاسُ مَعَهُ دُبُرَ صَلَاةِ الظُّهْرِ مِنْ يَوْمِ النَّحْرِ، وَآخِرُ ذَلِكَ تَكْبِيرُ الْإِمَامِ وَالنَّاسُ مَعَهُ دُبُرَ صَلَاةِ الصُّبْحِ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ، ثُمَّ يَقْطَعُ التَّكْبِيرَ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک حکم یہ ہے کہ ایامِ تشریق میں ہر نماز کے بعد تکبیر کہی جائے، اور شروع کی جائے تکبیر یوم النحر میں ظہر کی نماز کے بعد سے، اور ختم ہو تیرھویں تاریخ کی فجر پر، اور امام تکبیر کہے اور لوگ اس کے ساتھ تکبیر کہیں جب نماز سے فارغ ہوں، اور یہ تکبیر مرد اور عورت سب پر واجب ہے خواہ جماعت سے نماز پڑھیں یا اکیلے پڑھیں، منیٰ میں ہوں یا اور ملکوں میں، اور حجاج بعید کو چاہیے کہ منیٰ میں امام الحاج اور حجاج قریب امام کی پیروی کریں رمی جمار و تکبیرات میں، کیونکہ اس تقدیر پر جب وہ پڑھیں گے اور احرام تمام ہو جائے گا تو سب حجاج «حل» میں برابر رہیں گے۔ یعنی مناسک حج سے فارغ ہونے میں یہ سب برابر رہیں گے، مگر جو لوگ حاجی نہیں ہیں وہ لوگ حجاج کی پیروی نہ کریں مگر تکبیرات تشریق میں۔
. قال مالك: والتكبير في ايام التشريق على الرجال والنساء من كان في جماعة، او وحده. بمنى او بالآفاق كلها واجب، وإنما ياتم الناس في ذلك بإمام الحاج وبالناس بمنى، لانهم إذا رجعوا، وانقضى الإحرام، ائتموا بهم حتى يكونوا مثلهم في الحل، فاما من لم يكن حاجا، فإنه لا ياتم بهم إلا في تكبير ايام التشريق. قال مالك: الايام المعدودات ايام التشريق. قَالَ مَالِك: وَالتَّكْبِيرُ فِي أَيَّامِ التَّشْرِيقِ عَلَى الرِّجَالِ وَالنِّسَاءِ مَنْ كَانَ فِي جَمَاعَةٍ، أَوْ وَحْدَهُ. بِمِنًى أَوْ بِالْآفَاقِ كُلُّهَا وَاجِبٌ، وَإِنَّمَا يَأْتَمُّ النَّاسُ فِي ذَلِكَ بِإِمَامِ الْحَاجِّ وَبِالنَّاسِ بِمِنًى، لِأَنَّهُمْ إِذَا رَجَعُوا، وَانْقَضَى الْإِحْرَامُ، ائْتَمُّوا بِهِمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَهُمْ فِي الْحِلِّ، فَأَمَّا مَنْ لَمْ يَكُنْ حَاجًّا، فَإِنَّهُ لَا يَأْتَمُّ بِهِمْ إِلَّا فِي تَكْبِيرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ. قَالَ مَالِك: الْأَيَّامُ الْمَعْدُودَاتُ أَيَّامُ التَّشْرِيقِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کلام اللہ میں ایامِ تشریق مراد ہیں۔
حدثني يحيى، عن مالك، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر " ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اناخ بالبطحاء التي بذي الحليفة، فصلى بها" . قال نافع: وكان عبد الله بن عمر يفعل ذلك.حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَاخَ بِالْبَطْحَاءِ الَّتِي بِذِي الْحُلَيْفَةِ، فَصَلَّى بِهَا" . قَالَ نَافِعٌ: وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ يَفْعَلُ ذَلِكَ.
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اونٹ بٹھایا بطحاء میں جو ذوالحلیفہ میں ہے، اور نماز پڑھی وہاں۔ کہا نافع نے: اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 484، 485، 487، 489، 491، 1532، 1535، 1553، 1573، 1574، 1767 م2، 1769، 1799، 2336، 7345، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1188، 1259، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3908، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2662، وأبو داود فى «سننه» برقم: 2044، والترمذي فى «جامعه» برقم: 854، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1968، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2941، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9083، 9292، وأحمد فى «مسنده» برقم: 4746، 4912، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 206»
قال مالك: لا ينبغي لاحد ان يجاوز المعرس، إذا قفل حتى يصلي فيه، وإن مر به في غير وقت صلاة، فليقم حتى تحل الصلاة، ثم صلى ما بدا له، لانه بلغني ان رسول الله صلى الله عليه وسلم عرس به، وان عبد الله بن عمر اناخ به قَالَ مَالِك: لَا يَنْبَغِي لِأَحَدٍ أَنْ يُجَاوِزَ الْمُعَرَّسَ، إِذَا قَفَلَ حَتَّى يُصَلِّيَ فِيهِ، وَإِنْ مَرَّ بِهِ فِي غَيْرِ وَقْتِ صَلَاةٍ، فَلْيُقِمْ حَتَّى تَحِلَّ الصَّلَاةُ، ثُمَّ صَلَّى مَا بَدَا لَهُ، لِأَنَّهُ بَلَغَنِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَرَّسَ بِهِ، وَأَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَنَاخَ بِهِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ جو شخص حج کر کے مدینہ کو لوٹ کر جائے تو وہ معرس میں ٹھہرے اور نماز پڑھے، اور جو نماز کا وقت نہ ہو تو ٹھہر جائے جب تک نماز کا وقت آئے، پھر جتنی رکعتیں چاہے پڑھے، کیونکہ مجھے پہنچا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں رات کو ٹھہرے اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بھی وہاں اونٹ بٹھایا۔
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر ،" كان يصلي الظهر، والعصر، والمغرب، والعشاء بالمحصب، ثم يدخل مكة من الليل، فيطوف بالبيت" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ،" كَانَ يُصَلِّي الظُّهْرَ، وَالْعَصْرَ، وَالْمَغْرِبَ، وَالْعِشَاءَ بِالْمُحَصَّبِ، ثُمَّ يَدْخُلُ مَكَّةَ مِنَ اللَّيْلِ، فَيَطُوفُ بِالْبَيْتِ"
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ظہر اور عصر اور مغرب محصّب میں پڑھتے پھر مکہ جاتے رات کو اور طواف کرتے خانۂ کعبہ کا۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1766، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1310، و أبو داود: 2012، 2013، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5750، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 207»
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن نافع ، انه قال: زعموا ان عمر بن الخطاب ،" كان يبعث رجالا، يدخلون الناس من وراء العقبة" حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّهُ قَالَ: زَعَمُوا أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ،" كَانَ يَبْعَثُ رِجَالًا، يُدْخِلُونَ النَّاسَ مِنْ وَرَاءِ الْعَقَبَةِ"
نافع سے روایت ہے کہ لوگوں نے کہا کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ چند آدمیوں کو مقرر کرتے اس بات پر کہ لوگوں کو پھیر دیں منیٰ کی طرف جمرۂ عقبہ کے پیچھے سے۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 9794، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 14603، فواد عبدالباقي نمبر: 20 - كِتَابُ الْحَجِّ-ح: 208»