موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
کتاب: زکوٰۃ کے بیان میں
11. بَابُ صَدَقَةِ الْمَاشِيَةِ
11. زکوٰۃ چار پایوں کی
حدیث نمبر: 672
Save to word اعراب
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، انه قرا كتاب عمر بن الخطاب في الصدقة، قال:" فوجدت فيه بسم الله الرحمن الرحيم كتاب الصدقة: في اربع وعشرين من الإبل، فدونها الغنم في كل خمس شاة، وفيما فوق ذلك إلى خمس وثلاثين ابنة مخاض، فإن لم تكن ابنة مخاض فابن لبون ذكر، وفيما فوق ذلك إلى خمس واربعين بنت لبون، وفيما فوق ذلك إلى ستين حقة طروقة الفحل، وفيما فوق ذلك إلى خمس وسبعين جذعة، وفيما فوق ذلك إلى تسعين ابنتا لبون، وفيما فوق ذلك إلى عشرين ومائة حقتان طروقتا الفحل، فما زاد على ذلك من الإبل ففي كل اربعين بنت لبون، وفي كل خمسين حقة، وفي سائمة الغنم إذا بلغت اربعين إلى عشرين ومائة شاة، وفيما فوق ذلك إلى مائتين شاتان، وفيما فوق ذلك إلى ثلاث مائة ثلاث شياه، فما زاد على ذلك ففي كل مائة شاة ولا يخرج في الصدقة تيس ولا هرمة ولا ذات عوار، إلا ما شاء المصدق ولا يجمع بين مفترق ولا يفرق بين مجتمع خشية الصدقة، وما كان من خليطين فإنهما يتراجعان بينهما بالسوية، وفي الرقة إذا بلغت خمس اواق ربع العشر" حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ قَرَأَ كِتَابَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِي الصَّدَقَةِ، قَالَ:" فَوَجَدْتُ فِيهِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ كِتَابُ الصَّدَقَةِ: فِي أَرْبَعٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الْإِبِلِ، فَدُونَهَا الْغَنَمُ فِي كُلِّ خَمْسٍ شَاةٌ، وَفِيمَا فَوْقَ ذَلِكَ إِلَى خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ ابْنَةُ مَخَاضٍ، فَإِنْ لَمْ تَكُنِ ابْنَةُ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ، وَفِيمَا فَوْقَ ذَلِكَ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ بِنْتُ لَبُونٍ، وَفِيمَا فَوْقَ ذَلِكَ إِلَى سِتِّينَ حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْفَحْلِ، وَفِيمَا فَوْقَ ذَلِكَ إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ جَذَعَةٌ، وَفِيمَا فَوْقَ ذَلِكَ إِلَى تِسْعِينَ ابْنَتَا لَبُونٍ، وَفِيمَا فَوْقَ ذَلِكَ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْفَحْلِ، فَمَا زَادَ عَلَى ذَلِكَ مِنَ الْإِبِلِ فَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ بِنْتُ لَبُونٍ، وَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ، وَفِي سَائِمَةِ الْغَنَمِ إِذَا بَلَغَتْ أَرْبَعِينَ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ شَاةٌ، وَفِيمَا فَوْقَ ذَلِكَ إِلَى مِائَتَيْنِ شَاتَانِ، وَفِيمَا فَوْقَ ذَلِكَ إِلَى ثَلَاثِ مِائَةٍ ثَلَاثُ شِيَاهٍ، فَمَا زَادَ عَلَى ذَلِكَ فَفِي كُلِّ مِائَةٍ شَاةٌ وَلَا يُخْرَجُ فِي الصَّدَقَةِ تَيْسٌ وَلَا هَرِمَةٌ وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ، إِلَّا مَا شَاءَ الْمُصَّدِّقُ وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُفْتَرِقٍ وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ، وَفِي الرِّقَةِ إِذَا بَلَغَتْ خَمْسَ أَوَاقٍ رُبُعُ الْعُشْرِ"
امام مالک رحمہ اللہ نے پڑھا سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی کتاب کو صدقہ اور زکوٰۃ کے باب میں، اس میں لکھا تھا: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم، یہ کتاب ہے صدقہ کی چوبیس اونٹنیوں تک ہر پانچ میں ایک بکری لازم ہے، جب چوبیس سے زیادہ ہوں پینتیس تک ایک برس کی اونٹنی ہے، اگر ایک برس کی اونٹنی نہ ہو تو دو برس کا ایک اونٹ ہے، اس سے زیادہ میں پینتالیس اونٹ تک دو برس کی اونٹنی ہے، اس سے زیادہ میں ساٹھ اونٹ تک تین برس کی اونٹنی ہے جو قابل ہو جفتی کے، اس سے زیادہ میں پچھتر اونٹ تک چار برس کی اونٹنی ہے، اس سے زیادہ میں نوے اونٹ تک دو اونٹنیاں ہیں دو دو برس کی، اس سے زیادہ میں ایک سو بیس اونٹ تک تین تین برس کی دو اونٹنیاں ہیں جو قابل ہوں جفتی کے، اس سے زیادہ میں ہر چالیس اونٹ میں دو برس کی اونٹنی ہے، اور ہر پچاس اونٹ میں تین برس کی اونٹنی ہے، بکریاں جو جنگل میں چرتی ہوں جب چالیس تک پہنچ جائیں ایک بکری زکوٰۃ کی لازم ہوگی، اس سے زیادہ میں تین سو بکریوں تک تین بکریاں، بعد اس کے ہر سینکڑے میں ایک بکری دینا ہوگی اور زکوٰۃ میں بکرا نہ لیا جائے گا، اسی طرح بوڑھے اور عیب دار، مگر جب زکوٰۃ لینے والے کی رائے میں مناسب ہو، اور جدا جدا اموال ایک نہ کیے جائیں گے، اسی طرح ایک مال جدا جدا نہ کیا جائے گا زکوٰۃ کے خوف سے، اور جو آدمی شریک ہوں تو وہ آپس میں رجوع کرلیں برابر کا حصہ لگا کر، اور چاندی میں جب پانچ اوقیہ ہو تو چالیسواں حصہ لازم آئے گا۔

تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7250، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2235، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 6798، شركة الحروف نمبر: 548، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 23»
12. بَابُ مَا جَاءَ فِي صَدَقَةِ الْبَقَرِ
12. گائے بیل کی زکوٰہ کا بیان
حدیث نمبر: 673
Save to word اعراب
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن حميد بن قيس المكي ، عن طاوس اليماني ، ان معاذ بن جبل الانصاري اخذ من ثلاثين بقرة تبيعا ومن اربعين بقرة مسنة، واتي بما دون ذلك فابى ان ياخذ منه شيئا، وقال: " لم اسمع من رسول الله صلى الله عليه وسلم فيه شيئا حتى القاه فاساله"، فتوفي رسول الله صلى الله عليه وسلم قبل ان يقدم معاذ بن جبل حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ قَيْسٍ الْمَكِّيِّ ، عَنْ طَاوُسٍ الْيَمَانِيِّ ، أَنَّ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ الْأَنْصَارِيَّ أَخَذَ مِنْ ثَلَاثِينَ بَقَرَةً تَبِيعًا وَمِنْ أَرْبَعِينَ بَقَرَةً مُسِنَّةً، وَأُتِيَ بِمَا دُونَ ذَلِكَ فَأَبَى أَنْ يَأْخُذَ مِنْهُ شَيْئًا، وَقَالَ: " لَمْ أَسْمَعْ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيهِ شَيْئًا حَتَّى أَلْقَاهُ فَأَسْأَلَهُ"، فَتُوُفِّيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَبْلَ أَنْ يَقْدُمَ مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ
حضرت طاؤس یمانی سے روایت ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے تیس گائیوں میں سے ایک گائے ایک برس کی لی، اور چالیس گائیوں میں دو برس کی ایک گائے لی، اور اس سے کم میں کچھ نہ لیا اور کہا کہ: نہیں سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس باب میں کچھ، تو پوچھوں گا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ پس وفات پائی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے آنے سے پہلے۔

تخریج الحدیث: «مرفوع ضعيف، وأخرجه ابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2268، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4886، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1453، 1462، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 2451، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1576، والترمذي فى «جامعه» برقم: 623، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1663، 1664، 1665، 1709، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1803، 1818، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7381، 7382، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 232/3، شركة الحروف نمبر: 549، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 24»
حدیث نمبر: 673B1
Save to word اعراب
قال يحيى: قال مالك: احسن ما سمعت فيمن كانت له غنم على راعيين مفترقين، او على رعاء مفترقين في بلدان شتى ان ذلك يجمع كله على صاحبه، فيؤدي منه صدقته، ومثل ذلك الرجل يكون له الذهب او الورق متفرقة في ايدي ناس شتى، إنه ينبغي له ان يجمعها فيخرج منها ما وجب عليه في ذلك من زكاتها قَالَ يَحْيَى: قَالَ مَالِك: أَحْسَنُ مَا سَمِعْتُ فِيمَنْ كَانَتْ لَهُ غَنَمٌ عَلَى رَاعِيَيْنِ مُفْتَرِقَيْنِ، أَوْ عَلَى رِعَاءٍ مُفْتَرِقِينَ فِي بُلْدَانٍ شَتَّى أَنَّ ذَلِكَ يُجْمَعُ كُلُّهُ عَلَى صَاحِبِهِ، فَيُؤَدِّي مِنْهُ صَدَقَتَهُ، وَمِثْلُ ذَلِكَ الرَّجُلُ يَكُونُ لَهُ الذَّهَبُ أَوِ الْوَرِقُ مُتَفَرِّقَةً فِي أَيْدِي نَاسٍ شَتَّى، إِنَّهُ يَنْبَغِي لَهُ أَنْ يَجْمَعَهَا فَيُخْرِجَ مِنْهَا مَا وَجَبَ عَلَيْهِ فِي ذَلِكَ مِنْ زَكَاتِهَا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جس شخص کی بکریاں دو چرواہوں کے پاس یا زیادہ کے پاس مختلف شہروں میں ہوں تو وہ سب کو جوڑ کر اکٹھی زکوٰۃ دے، اسی طرح اگر کسی شخص کا سونا چاندی مختلف لوگوں کے پاس ہو تو وہ سب کو جوڑ کر اکٹھی زکوٰۃ دے۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر:، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 24»
حدیث نمبر: 673B2
Save to word اعراب
وقال يحيى: قال مالك في الرجل يكون له الضان والمعز: انها تجمع عليه في الصدقة فإن كان فيها ما تجب فيه الصدقة صدقت، وقال: إنما هي غنم كلها وفي كتاب عمر بن الخطاب وفي سائمة الغنم إذا بلغت اربعين شاة شاةوَقَالَ يَحْيَى: قَالَ مَالِك فِي الرَّجُلِ يَكُونُ لَهُ الضَّأْنُ وَالْمَعْزُ: أَنَّهَا تُجْمَعُ عَلَيْهِ فِي الصَّدَقَةِ فَإِنْ كَانَ فِيهَا مَا تَجِبُ فِيهِ الصَّدَقَةُ صُدِّقَتْ، وَقَالَ: إِنَّمَا هِيَ غَنَمٌ كُلُّهَا وَفِي كِتَابِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ وَفِي سَائِمَةِ الْغَنَمِ إِذَا بَلَغَتْ أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: ایک شخص کے پاس بھیڑ اور بکریاں دونوں ہیں، تو سب کو ایک ساتھ گن لیں گے، اگر نصاب کے موافق ہو تو زکوٰۃ ہوگی، کیونکہ بھیڑ بھی بکریوں کے شمار میں ہے، اور سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی کتاب میں موجود ہے: چرنے والی بکریوں میں ہر چالیس میں ایک بکری ہے۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر:، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 24»
حدیث نمبر: 673B3
Save to word اعراب
قال مالك: فإن كانت الضان هي اكثر من المعز ولم يجب على ربها إلا شاة واحدة، اخذ المصدق تلك الشاة التي وجبت على رب المال من الضان، وإن كانت المعز اكثر من الضان اخذ منها، فإن استوى الضان والمعز اخذ الشاة من ايتهما شاءقَالَ مَالِك: فَإِنْ كَانَتِ الضَّأْنُ هِيَ أَكْثَرَ مِنَ الْمَعْزِ وَلَمْ يَجِبْ عَلَى رَبِّهَا إِلَّا شَاةٌ وَاحِدَةٌ، أَخَذَ الْمُصَدِّقُ تِلْكَ الشَّاةَ الَّتِي وَجَبَتْ عَلَى رَبِّ الْمَالِ مِنَ الضَّأْنِ، وَإِنْ كَانَتِ الْمَعْزُ أَكْثَرَ مِنَ الضَّأْنِ أُخِذَ مِنْهَا، فَإِنِ اسْتَوَى الضَّأْنُ وَالْمَعْزُ أَخَذَ الشَّاةَ مِنْ أَيَّتِهِمَا شَاءَ
تو اگر بھیڑیں زیادہ ہوں اور بکریاں کم ہوں، اور اس کے مالک پر ایک رأس زکوٰۃ کی واجب ہو تو بھیڑ لی جائے، اور جو بکریاں زیادہ ہوں اور بھیڑ کم ہوں تو بکری لی جائے گی۔ اگر بھیڑ اور بکریاں برابر ہوں تو زکوٰۃ لینے والے کو اختیار ہے جس میں سے چاہے ایک رأس لے لے۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر:، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 24»
حدیث نمبر: 673B4
Save to word اعراب
قال يحيى: قال مالك: وكذلك الإبل العراب والبخت يجمعان على ربهما في الصدقة، وقال: إنما هي إبل كلها فإن كانت العراب هي اكثر من البخت، ولم يجب على ربها إلا بعير واحد فلياخذ من العراب صدقتها، فإن كانت البخت اكثر فلياخذ منها فإن استوت فلياخذ من ايتهما شاء قَالَ يَحْيَى: قَالَ مَالِك: وَكَذَلِكَ الْإِبِلُ الْعِرَابُ وَالْبُخْتُ يُجْمَعَانِ عَلَى رَبِّهِمَا فِي الصَّدَقَةِ، وَقَالَ: إِنَّمَا هِيَ إِبِلٌ كُلُّهَا فَإِنْ كَانَتِ الْعِرَابُ هِيَ أَكْثَرَ مِنَ الْبُخْتِ، وَلَمْ يَجِبْ عَلَى رَبِّهَا إِلَّا بَعِيرٌ وَاحِدٌ فَلْيَأْخُذْ مِنَ الْعِرَابِ صَدَقَتَهَا، فَإِنْ كَانَتِ الْبُخْتُ أَكْثَرَ فَلْيَأْخُذْ مِنْهَا فَإِنِ اسْتَوَتْ فَلْيَأْخُذْ مِنْ أَيَّتِهِمَا شَاءَ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اسی طرح عربی اور بختی اونٹ دونوں کی ملا کر زکوٰۃ لیں گے، کیونکہ دونوں قسم کے اونٹ اونٹ میں داخل ہیں، اگر عربی زیادہ ہوں اور اس کے مالک پر ایک مہار واجب ہے تو عربی لیں گے، اور جو بختی زیادہ ہوں تو بختی لیں گے۔ اگر دونوں برابر ہوں تو اختیار ہے جس سے چاہے لیں۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر:، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 24»
حدیث نمبر: 673B5
Save to word اعراب
قال مالك: وكذلك البقر والجواميس تجمع في الصدقة على ربها، وقال: إنما هي بقر كلها فإن كانت البقر هي اكثر من الجواميس ولا تجب على ربها إلا بقرة واحدة فلياخذ من البقر صدقتهما، وإن كانت الجواميس اكثر فلياخذ منها فإن استوت فلياخذ من ايتهما شاء، فإذا وجبت في ذلك الصدقة صدق الصنفان جميعا قَالَ مَالِك: وَكَذَلِكَ الْبَقَرُ وَالْجَوَامِيسُ تُجْمَعُ فِي الصَّدَقَةِ عَلَى رَبِّهَا، وَقَالَ: إِنَّمَا هِيَ بَقَرٌ كُلُّهَا فَإِنْ كَانَتِ الْبَقَرُ هِيَ أَكْثَرَ مِنَ الْجَوَامِيسِ وَلَا تَجِبُ عَلَى رَبِّهَا إِلَّا بَقَرَةٌ وَاحِدَةٌ فَلْيَأْخُذْ مِنَ الْبَقَرِ صَدَقَتَهُمَا، وَإِنْ كَانَتِ الْجَوَامِيسُ أَكْثَرَ فَلْيَأْخُذْ مِنْهَا فَإِنِ اسْتَوَتْ فَلْيَأْخُذْ مِنْ أَيَّتِهِمَا شَاءَ، فَإِذَا وَجَبَتْ فِي ذَلِكَ الصَّدَقَةُ صُدِّقَ الصِّنْفَانِ جَمِيعًا
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: اسی طرح گائے بھینس دونوں ایک جنس ہیں، دونوں کو ملا کر اکٹھی زکوٰۃ لینا چاہیے، لیکن اگر گائے زیادہ ہوں بھینس کم ہوں اور مالک پر ایک رأس واجب ہو تو گائے لینا چاہیے، اور جو بھینس زیادہ ہوں تو بھینس لینا چاہیے، جو دونوں برابر ہوں تو اختیار ہے جس میں سے چاہے لے، اور جو گائے بھی بقدرِ نصاب ہوں اور بھینس بھی بقدرِ نصاب تو دونوں میں سے زکوٰۃ لینا چاہیے۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر:، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 24»
حدیث نمبر: 673B6
Save to word اعراب
قال يحيى: قال مالك: من افاد ماشية من إبل او بقر او غنم فلا صدقة عليه فيها حتى يحول عليها الحول من يوم افادها، إلا ان يكون له قبلها نصاب ماشية، والنصاب ما تجب فيه الصدقة إما خمس ذود من الإبل، وإما ثلاثون بقرة، وإما اربعون شاة، فإذا كان للرجل خمس ذود من الإبل او ثلاثون بقرة او اربعون شاة، ثم افاد إليها إبلا او بقرا او غنما باشتراء او هبة او ميراث، فإنه يصدقها مع ماشيته حين يصدقها، وإن لم يحل على الفائدة الحول وإن كان ما افاد من الماشية إلى ماشيته، قد صدقت قبل ان يشتريها بيوم واحد او قبل ان يرثها بيوم واحد، فإنه يصدقها مع ماشيته حين يصدق ماشيته قَالَ يَحْيَى: قَالَ مَالِك: مَنْ أَفَادَ مَاشِيَةً مِنْ إِبِلٍ أَوْ بَقَرٍ أَوْ غَنَمٍ فَلَا صَدَقَةَ عَلَيْهِ فِيهَا حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ مِنْ يَوْمَ أَفَادَهَا، إِلَّا أَنْ يَكُونَ لَهُ قَبْلَهَا نِصَابُ مَاشِيَةٍ، وَالنِّصَابُ مَا تَجِبُ فِيهِ الصَّدَقَةُ إِمَّا خَمْسُ ذَوْدٍ مِنَ الْإِبِلِ، وَإِمَّا ثَلَاثُونَ بَقَرَةً، وَإِمَّا أَرْبَعُونَ شَاةً، فَإِذَا كَانَ لِلرَّجُلِ خَمْسُ ذَوْدٍ مِنَ الْإِبِلِ أَوْ ثَلَاثُونَ بَقَرَةً أَوْ أَرْبَعُونَ شَاةً، ثُمَّ أَفَادَ إِلَيْهَا إِبِلًا أَوْ بَقَرًا أَوْ غَنَمًا بِاشْتِرَاءٍ أَوْ هِبَةٍ أَوْ مِيرَاثٍ، فَإِنَّهُ يُصَدِّقُهَا مَعَ مَاشِيَتِهِ حِينَ يُصَدِّقُهَا، وَإِنْ لَمْ يَحُلْ عَلَى الْفَائِدَةِ الْحَوْلُ وَإِنْ كَانَ مَا أَفَادَ مِنَ الْمَاشِيَةِ إِلَى مَاشِيَتِهِ، قَدْ صُدِّقَتْ قَبْلَ أَنْ يَشْتَرِيَهَا بِيَوْمٍ وَاحِدٍ أَوْ قَبْلَ أَنْ يَرِثَهَا بِيَوْمٍ وَاحِدٍ، فَإِنَّهُ يُصَدِّقُهَا مَعَ مَاشِيَتِهِ حِينَ يُصَدِّقُ مَاشِيَتَهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جس شخص نے جانور حاصل کیے، اونٹ یا گائے یا بکری، تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہے جب تک ایک سال نہ گزر جائے اس روز سے جس روز سے وہ جانور اس کے پاس آئے ہوں۔ مگر جب پہلے سے اس کے پاس جانور بقدرِ نصاب موجود ہوں، مثلاً پانچ اونٹ یا تیس گائیں یا چالیس بکریاں، تو اگر کسی شخص کے پاس پانچ اونٹ یا تیس گائیں یا چالیس بکریاں تھیں اب اس نے اور اونٹ اور بکریاں حاصل کیں خرید یا ہبہ یا میراث سے تو وہ ان کی زکوٰۃ اپنے پہلے جانوروں کے ساتھ دے اگرچہ ان پچھلے جانوروں پر ایک سال نہ گزرے، البتہ اگر پہلے جانوروں کی زکوٰۃ دے چکنے کے بعد یہ جانور خریدے یا ترکہ میں آئے تو اب زکوٰۃ ان کی نہ دے، بلکہ سالِ آئندہ جب اگلے جانوروں کی زکوٰۃ دے گا اُن کے ساتھ ان کی بھی زکوٰۃ دے۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر:، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 24»
حدیث نمبر: 673B7
Save to word اعراب
قال يحيى: قال مالك: وإنما مثل ذلك مثل الورق يزكيها الرجل ثم يشتري بها من رجل آخر عرضا، وقد وجبت عليه في عرضه ذلك إذا باعه الصدقة فيخرج الرجل الآخر صدقتها هذا اليوم، ويكون الآخر قد صدقها من الغد قَالَ يَحْيَى: قَالَ مَالِك: وَإِنَّمَا مَثَلُ ذَلِكَ مَثَلُ الْوَرِقِ يُزَكِّيهَا الرَّجُلُ ثُمَّ يَشْتَرِي بِهَا مِنْ رَجُلٍ آخَرَ عَرْضًا، وَقَدْ وَجَبَتْ عَلَيْهِ فِي عَرْضِهِ ذَلِكَ إِذَا بَاعَهُ الصَّدَقَةُ فَيُخْرِجُ الرَّجُلُ الْآخَرُ صَدَقَتَهَا هَذَا الْيَوْمَ، وَيَكُونُ الْآخَرُ قَدْ صَدَّقَهَا مِنَ الْغَدِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اس کی مثال چاندی کی سی ہے، ایک شخص نے اس کی زکوٰۃ دے کر اس کے بدلے میں کچھ سامان خریدا، کیا اب جس نے سامان بیچا اس پر بھی زکوٰۃ واجب تھی، اس نے پھر اس چاندی کی زکوٰۃ دی تو مشتری نے آج زکوٰۃ دی اور بائع نے کل زکوٰۃ دی۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر:، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 24»
حدیث نمبر: 673B8
Save to word اعراب
قال مالك: في رجل كانت له غنم لا تجب فيها الصدقة، فاشترى إليها غنما كثيرة تجب في دونها الصدقة او ورثها، انه لا تجب عليه في الغنم كلها الصدقة حتى يحول عليها الحول من يوم افادها باشتراء او ميراث، وذلك ان كل ما كان عند الرجل من ماشية لا تجب فيها الصدقة من إبل او بقر او غنم، فليس يعد ذلك نصاب مال حتى يكون في كل صنف منها ما تجب فيه الصدقة، فذلك النصاب الذي يصدق معه ما افاد إليه صاحبه من قليل او كثير من الماشية قَالَ مَالِك: فِي رَجُلٍ كَانَتْ لَهُ غَنَمٌ لَا تَجِبُ فِيهَا الصَّدَقَةُ، فَاشْتَرَى إِلَيْهَا غَنَمًا كَثِيرَةً تَجِبُ فِي دُونِهَا الصَّدَقَةُ أَوْ وَرِثَهَا، أَنَّهُ لَا تَجِبُ عَلَيْهِ فِي الْغَنَمِ كُلِّهَا الصَّدَقَةُ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ مِنْ يَوْمَ أَفَادَهَا بِاشْتِرَاءٍ أَوْ مِيرَاثٍ، وَذَلِكَ أَنَّ كُلَّ مَا كَانَ عِنْدَ الرَّجُلِ مِنْ مَاشِيَةٍ لَا تَجِبُ فِيهَا الصَّدَقَةُ مِنْ إِبِلٍ أَوْ بَقَرٍ أَوْ غَنَمٍ، فَلَيْسَ يُعَدُّ ذَلِكَ نِصَابَ مَالٍ حَتَّى يَكُونَ فِي كُلِّ صِنْفٍ مِنْهَا مَا تَجِبُ فِيهِ الصَّدَقَةُ، فَذَلِكَ النِّصَابُ الَّذِي يُصَدِّقُ مَعَهُ مَا أَفَادَ إِلَيْهِ صَاحِبُهُ مِنْ قَلِيلٍ أَوْ كَثِيرٍ مِنَ الْمَاشِيَةِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اگر کسی شخص کے پاس نصاب سے کم بکریاں تھیں، پھر اس نے اور بکریاں خریدیں یا میراث میں پائیں جو نصاب سے زیادہ ہوگئیں، تو اس پر زکوٰۃ واجب نہ ہوگی، جب تک ایک سال نہ گزر جائے خرید یا ترکہ پانے کی تاریخ سے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کسی شخص کے پاس اس قدر جانور ہوں، اونٹ یا گائے یا بکریاں، جس میں زکوٰۃ نہیں ہے تو یہ نصاب شمار نہ کیا جائے گا جب تک ہر قسم کے جانور نصاب کے مقدار نہ ہوں، اگر نصاب کے مقدار ہوں گے تو اس کے ساتھ جتنے جانور اس قسم کے ملیں گے اُن کی زکوٰۃ اس نصاب کے ساتھ دینا پڑے گی، خواہ یہ جانور قلیل ہوں یا کثیر۔

تخریج الحدیث: «شركة الحروف نمبر:، فواد عبدالباقي نمبر: 17 - كِتَابُ الزَّكَاةِ-ح: 24»

Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.