قال مالك: الامر الذي سمعت من اهل العلم، ان المريض إذا اصابه المرض الذي يشق عليه الصيام معه، ويتعبه، ويبلغ ذلك منه، فإن له ان يفطر. وكذلك المريض الذي اشتد عليه القيام في الصلاة، وبلغ منه، وما اللٰه اعلم بعذر ذلك من العبد، ومن ذلك ما لا تبلغ صفته، فإذا بلغ ذلك، صلى وهو جالس. ودين اللٰه يسر. وقد ارخص اللٰه للمسافر، في الفطر في السفر. وهو اقوى على الصيام من المريض. قال اللٰه تعالى في كتابه ﴿فمن كان منكم مريضا او على سفر فعدة من ايام اخر﴾ [البقرة: 184] فارخص اللٰه للمسافر، في الفطر في السفر. وهو اقوى على الصوم من المريض. فهذا احب ما سمعت إلي وهو الامر المجتمع عليه.قَالَ مَالِكٍ: الْأَمْرُ الَّذِي سَمِعْتُ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ، أَنَّ الْمَرِيضَ إِذَا أَصَابَهُ الْمَرَضُ الَّذِي يَشُقُّ عَلَيْهِ الصِّيَامُ مَعَهُ، وَيُتْعِبُهُ، وَيَبْلُغُ ذَلِكَ مِنْهُ، فَإِنَّ لَهُ أَنْ يُفْطِرَ. وَكَذَلِكَ الْمَرِيضُ الَّذِي اشْتَدَّ عَلَيْهِ الْقِيَامُ فِي الصَّلَاةِ، وَبَلَغَ مِنْهُ، وَمَا اللّٰهُ أَعْلَمُ بِعُذْرِ ذَلِكَ مِنَ الْعَبْدِ، وَمِنْ ذَلِكَ مَا لَا تَبْلُغُ صِفَتُهُ، فَإِذَا بَلَغَ ذَلِكَ، صَلَّى وَهُوَ جَالِسٌ. وَدِينُ اللّٰهِ يُسْرٌ. وَقَدْ أَرْخَصَ اللّٰهُ لِلْمُسَافِرِ، فِي الْفِطْرِ فِي السَّفَرِ. وَهُوَ أَقْوَى عَلَى الصِّيَامِ مِنَ الْمَرِيضِ. قَالَ اللّٰهُ تَعَالَى فِي كِتَابِهِ ﴿فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَرِيضًا أَوْ عَلَى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِنْ أَيَّامٍ أُخَرَ﴾ [البقرة: 184] فَأَرْخَصَ اللّٰهُ لِلْمُسَافِرِ، فِي الْفِطْرِ فِي السَّفَرِ. وَهُوَ أَقْوَى عَلَى الصَّوْمِ مِنَ الْمَرِيضِ. فَهَذَا أَحَبُّ مَا سَمِعْتُ إِلَيَّ وَهُوَ الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے جو سنا اہلِ علم سے وہ یہ ہے کہ مریض کو جب ایسا مرض لاحق ہو جس کی وجہ سے روزہ رکھنا اس پر شاق ہو جائے، اور روزہ اس کو تکلیف پہنچائے اور وہ مرض اس درجہ پہنچ جائے، تو افطار کرنا درست ہے، اسی طرح جب مریض کو کھڑا ہونا دشوار ہو نماز میں اور یہ مرض اس درجہ کو پہنچ جائے کہ عذر گنا جائے اللہ جل جلالہُ کے نزدیک، اور اللہ تعالیٰ اس کو زیادہ جانتا ہے بندے سے، اور اسی مرض میں سے بعض ایسا ہے جو اس درجہ کا نہیں ہے، بہرحال جب مرض اس درجے کو پہنچے تو وہ بیٹھ کر نماز پڑھے، کیونکہ دین اللہ تعالیٰ کا آسان ہے، اور اللہ جل جلالہُ نے مسافر کو رخصت دی روزہ نہ رکھنے کی حالانکہ وہ زیادہ قادر ہے روزہ پر مریض سے۔ فرمایا اللہ جل جلالہُ نے اپنی کتابِ مقدس میں: ”جو شخص تم میں سے مریض ہو یا مسافر ہو تو وہ اتنے روز شمار کر کے دوسرے دنوں میں روزہ رکھ لے۔“ پس رخصت دی اللہ جل جلالہُ نے مسافر کو افطار کی، حالانکہ وہ زیادہ قادر ہے روزے پر مریض سے۔ اور یہ بہت پسند ہے مجھ کو اُن اقوال میں جن کو سنا میں نے اس باب میں، اور ہمارے نزدیک یہ امر اتفاقی اور مجمع علیہ ہے۔
حدثني يحيى، عن مالك، انه بلغه، عن سعيد بن المسيب، انه سئل عن رجل نذر صيام شهر هل له ان يتطوع، فقال سعيد: " ليبدا بالنذر قبل ان يتطوع" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ بَلَغَهُ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ رَجُلٍ نَذَرَ صِيَامَ شَهْرٍ هَلْ لَهُ أَنْ يَتَطَوَّعَ، فَقَالَ سَعِيدٌ: " لِيَبْدَأْ بِالنَّذْرِ قَبْلَ أَنْ يَتَطَوَّعَ"
سعید بن مسیّب سے سوال ہوا کہ ایک شخص نے نذر کی ایک مہینہ روزہ رکھنے کی۔ اب اس کو نفل روزہ رکھنا درست ہے؟ جواب دیا کہ: پہلے نذر کے روزے رکھ لے پھر نفل رکھے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف شیخ سلیم ہلالی نے کہا کہ اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے اور شیخ احمد سلیمان نے بھی اسے ضعیف کہا ہے۔، شركة الحروف نمبر: 623، فواد عبدالباقي نمبر: 18 - كِتَابُ الصِّيَامِ-ح: 40»
قال مالك: وبلغني، عن سليمان بن يسار مثل ذلك قَالَ مَالِك: وَبَلَغَنِي، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ يَسَارٍ مِثْلُ ذَلِكَ
تخریج الحدیث: «مقطوع ضعيف شیخ سلیم ہلالی نے کہا کہ اس کی سند انقطاع کی وجہ سے ضعیف ہے۔، شركة الحروف نمبر: 623، فواد عبدالباقي نمبر: 18 - كِتَابُ الصِّيَامِ-ح: 42»
قال مالك: من مات وعليه نذر من رقبة يعتقها او صيام او صدقة او بدنة، فاوصى بان يوفى ذلك عنه من ماله، فإن الصدقة والبدنة في ثلثه، وهو يبدى على ما سواه من الوصايا، إلا ما كان مثله وذلك انه ليس الواجب عليه من النذور، وغيرها كهيئة ما يتطوع به مما ليس بواجب، وإنما يجعل ذلك في ثلثه خاصة دون راس ماله، لانه لو جاز له ذلك في راس ماله لاخر المتوفى مثل ذلك من الامور الواجبة عليه، حتى إذا حضرته الوفاة وصار المال لورثته، سمى مثل هذه الاشياء التي لم يكن يتقاضاها منه متقاض، فلو كان ذلك جائزا له اخر هذه الاشياء، حتى إذا كان عند موته سماها وعسى ان يحيط بجميع ماله فليس ذلك لهقَالَ مَالِك: مَنْ مَاتَ وَعَلَيْهِ نَذْرٌ مِنْ رَقَبَةٍ يُعْتِقُهَا أَوْ صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ بَدَنَةٍ، فَأَوْصَى بِأَنْ يُوَفَّى ذَلِكَ عَنْهُ مِنْ مَالِهِ، فَإِنَّ الصَّدَقَةَ وَالْبَدَنَةَ فِي ثُلُثِهِ، وَهُوَ يُبَدَّى عَلَى مَا سِوَاهُ مِنَ الْوَصَايَا، إِلَّا مَا كَانَ مِثْلَهُ وَذَلِكَ أَنَّهُ لَيْسَ الْوَاجِبُ عَلَيْهِ مِنَ النُّذُورِ، وَغَيْرِهَا كَهَيْئَةِ مَا يَتَطَوَّعُ بِهِ مِمَّا لَيْسَ بِوَاجِبٍ، وَإِنَّمَا يُجْعَلُ ذَلِكَ فِي ثُلُثِهِ خَاصَّةً دُونَ رَأْسِ مَالِهِ، لِأَنَّهُ لَوْ جَازَ لَهُ ذَلِكَ فِي رَأْسِ مَالِهِ لَأَخَّرَ الْمُتَوَفَّى مِثْلَ ذَلِكَ مِنَ الْأُمُورِ الْوَاجِبَةِ عَلَيْهِ، حَتَّى إِذَا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ وَصَارَ الْمَالُ لِوَرَثَتِهِ، سَمَّى مِثْلَ هَذِهِ الْأَشْيَاءِ الَّتِي لَمْ يَكُنْ يَتَقَاضَاهَا مِنْهُ مُتَقَاضٍ، فَلَوْ كَانَ ذَلِكَ جَائِزًا لَهُ أَخَّرَ هَذِهِ الْأَشْيَاءَ، حَتَّى إِذَا كَانَ عِنْدَ مَوْتِهِ سَمَّاهَا وَعَسَى أَنْ يُحِيطَ بِجَمِيعِ مَالِهِ فَلَيْسَ ذَلِكَ لَهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص مر جائے اور اس پر نذر ہو ایک بردہ (غلام) آزاد کرنے کی، یا روزہ رکھنے کی، یا صدقہ دینے کی، یا قربانی کرنے کی۔ پھر وہ وصیت کر جائے کہ میرے مال میں سے یہ نذر ادا کرنا، تو ثلث مال سے ادا کی جائے، اور اس کا ادا کرنا اور وصیتوں پر مقدم سمجھا جائے، مگر جو وصیت مثل اس کے واجب ہو، کیونکہ اور وصیتیں جو نفل ہیں مثل اس وصیت کے نہیں ہو سکتیں جیسے نذر وغیرہ ہے اس لیے یہ واجب ہے، اور یہ وصیت تہائی مال میں اس واسطے خاص ہوئی کہ اگر کل مال میں نافذ ہو تو ہر شخص ایسے امورات جو اس پر واجب ہیں دیر کر کے اپنی موت پر رکھے گا، جب موت قریب ہوگی اور مال اس کے وارثوں کا حق ہوگا تو اس وقت وہ ان چیزوں کو بیان کرے گا، خاص کر ایسی چیزوں کو جن کا تقاضا کرنے والا کوئی نہ تھا، اور شاید کہ یہ چیزیں اس کے تمام مال کو گھیر لیں، اور ورثاء محروم رہ جائیں، اس واسطے کل مال میں اس کو اختیار نہیں ہے۔
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، انه بلغه، ان عبد الله بن عمر كان يسال: هل يصوم احد عن احد او يصلي احد عن احد؟ فيقول: " لا يصوم احد عن احد، ولا يصلي احد عن احد" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، أَنَّهُ بَلَغَهُ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يُسْأَلُ: هَلْ يَصُومُ أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ أَوْ يُصَلِّي أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ؟ فَيَقُولُ: " لَا يَصُومُ أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ، وَلَا يُصَلِّي أَحَدٌ عَنْ أَحَدٍ"
امام مالک رحمہ اللہ کو پہنچا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا جاتا کہ کیا کوئی روزہ رکھے کسی کی طرف سے یا نماز پڑھے کسی کی طرف سے؟ بولے: نہ کوئی روزہ رکھے کسی کی طرف سے اور نہ کوئی نماز پڑھے کسی کی طرف سے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 16346، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 15117، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8215، والنسائي فى «الكبريٰ» برقم: 2918، شركة الحروف نمبر: 623، فواد عبدالباقي نمبر: 18 - كِتَابُ الصِّيَامِ-ح: 43»
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن زيد بن اسلم ، عن اخيه خالد بن اسلم ، ان عمر بن الخطاب افطر ذات يوم في رمضان في يوم ذي غيم، وراى انه قد امسى وغابت الشمس فجاءه رجل، فقال: يا امير المؤمنين طلعت الشمس، فقال عمر : " الخطب يسير وقد اجتهدنا" قال مالك: يريد بقوله الخطب يسير، القضاء فيما نرى والله اعلم وخفة مئونته ويسارته يقول: نصوم يوما مكانهحَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ أَخِيهِ خَالِدِ بْنِ أَسْلَمَ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ أَفْطَرَ ذَاتَ يَوْمٍ فِي رَمَضَانَ فِي يَوْمٍ ذِي غَيْمٍ، وَرَأَى أَنَّهُ قَدْ أَمْسَى وَغَابَتِ الشَّمْسُ فَجَاءَهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ طَلَعَتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ عُمَرُ : " الْخَطْبُ يَسِيرٌ وَقَدِ اجْتَهَدْنَا" قَالَ مَالِك: يُرِيدُ بِقَوْلِهِ الْخَطْبُ يَسِيرٌ، الْقَضَاءَ فِيمَا نُرَى وَاللَّهُ أَعْلَمُ وَخِفَّةَ مَئُونَتِهِ وَيَسَارَتِهِ يَقُولُ: نَصُومُ يَوْمًا مَكَانَهُ
حضرت خالد بن اسلم سے روایت ہے کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک روزہ افطار کیا رمضان میں، اور اس دن ابر تھا، ان کو یہ معلوم ہوا کہ شام ہوگئی اور آفتاب ڈوب گیا۔ پس ایک شخص آیا اور بولا: یا امیر المؤمنین! آفتاب نکل آیا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس کا تدارک سہل ہے، ہم نے اپنے ظن پر عمل کیا تھا۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: تدارک سہل ہے یعنی اس کے عوض ایک روزہ کی قضا رکھ لیں گے، تو محنت بہت کم ہے اور تدارک آسان ہے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8012، 8110، 8111، 8112، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2473، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7392، 7393، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 9138، 9139، 9140، 9149، والشافعي فى «الاُم» برقم: 96/2، شركة الحروف نمبر: 624، فواد عبدالباقي نمبر: 18 - كِتَابُ الصِّيَامِ-ح: 44»
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن نافع ، ان عبد الله بن عمر ، كان يقول: " يصوم قضاء رمضان متتابعا من افطره من مرض او في سفر" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، كَانَ يَقُولُ: " يَصُومُ قَضَاءَ رَمَضَانَ مُتَتَابِعًا مَنْ أَفْطَرَهُ مِنْ مَرَضٍ أَوْ فِي سَفَرٍ"
نافع سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے: جس شخص کے رمضان کے روزے قضا ہوں بیماری سے یا سفر سے تو ان کی قضا لگاتار رکھے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7658، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8344، 8345، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 9226، 9227، بغوي فى «شرح السنة» برقم: 1772، شركة الحروف نمبر: 625، فواد عبدالباقي نمبر: 18 - كِتَابُ الصِّيَامِ-ح: 45»
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن ابن شهاب ،" ان عبد الله بن عباس ، وابا هريرة اختلفا في قضاء رمضان، فقال احدهما: " يفرق بينه"، وقال الآخر:" لا يفرق بينه"، لا ادري ايهما قال: يفرق بينه" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ،" أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ ، وَأَبَا هُرَيْرَةَ اخْتَلَفَا فِي قَضَاءِ رَمَضَانَ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: " يُفَرِّقُ بَيْنَهُ"، وَقَالَ الْآخَرُ:" لَا يُفَرِّقُ بَيْنَهُ"، لَا أَدْرِي أَيَّهُمَا قَالَ: يُفَرِّقُ بَيْنَهُ"
ابن شہاب سے روایت ہے کہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اختلاف کیا رمضان کی قضا میں، ایک نے کہا کہ رمضان کے روزوں کی قضا پے درپے رکھنا ضروری نہیں، دوسرے نے کہا: پے درپے رکھنا ضروری ہے۔ لیکن مجھے معلوم نہیں کہ کس نے ان دونوں میں سے پے درپے رکھنے کو کہا اور کس نے یہ کہا کہ پے درپے رکھنا ضروری نہیں۔
تخریج الحدیث: «موقوف ضعيف، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7664، 7665، 7672، 7673، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8335، 8336، 8337، والدارقطني فى «سننه» برقم: 2314، 2320، 2321، 2323، 2324، 2325، 2331، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 9207، 9213، 9224، 9236، شركة الحروف نمبر: 626، فواد عبدالباقي نمبر: 18 - كِتَابُ الصِّيَامِ-ح: 46»
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، انه كان يقول: " من استقاء وهو صائم فعليه القضاء، ومن ذرعه القيء فليس عليه القضاء" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: " مَنِ اسْتَقَاءَ وَهُوَ صَائِمٌ فَعَلَيْهِ الْقَضَاءُ، وَمَنْ ذَرَعَهُ الْقَيْءُ فَلَيْسَ عَلَيْهِ الْقَضَاءُ"
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے تھے: جو شخص قصداً قے کرے روزے میں تو اس پر قضا واجب ہے، اور جس کو خود بخود قے آجائے تو اس پر قضا نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7551، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 8121، 8122، والبيهقي فى «سننه الصغير» برقم: 1322، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 9279، والطحاوي فى «شرح معاني الآثار» برقم: 3411، 3412، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 2475، شركة الحروف نمبر: 627، فواد عبدالباقي نمبر: 18 - كِتَابُ الصِّيَامِ-ح: 47»
وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، انه سمع سعيد بن المسيب يسال عن قضاء رمضان، فقال سعيد: " احب إلي ان لا يفرق قضاء رمضان وان يواتر" . قال يحيى: سمعت مالكا، يقول فيمن فرق قضاء رمضان: فليس عليه إعادة وذلك مجزئ عنه واحب ذلك إلي ان يتابعه وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ سَعِيدَ بْنَ الْمُسَيَّبِ يُسْأَلُ عَنْ قَضَاءِ رَمَضَانَ، فَقَالَ سَعِيدٌ: " أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ لَا يُفَرَّقَ قَضَاءُ رَمَضَانَ وَأَنْ يُوَاتَرَ" . قَالَ يَحْيَى: سَمِعْتُ مَالِكًا، يَقُولُ فِيمَنْ فَرَّقَ قَضَاءَ رَمَضَانَ: فَلَيْسَ عَلَيْهِ إِعَادَةٌ وَذَلِكَ مُجْزِئٌ عَنْهُ وَأَحَبُّ ذَلِكَ إِلَيَّ أَنْ يُتَابِعَهُ
یحیٰی بن سعید نے سعید بن مسیّب سے سنا، وہ پوچھے گئے رمضان کی قضا سے، تو کہا سعید نے: میرے نزدیک یہ بات اچھی ہے کہ رمضان کی قضا پے درپے رکھے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا: جو شخص جدا جدا رمضان کی قضا رکھے تو اس پر اعادہ لازم نہیں ہے، بلکہ وہ قضا کافی ہو جائے گی، مگر بہتر میرے نزدیک یہ ہے کہ پے در پے رکھے۔
تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه عبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 7661، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 9232، شركة الحروف نمبر: 628، فواد عبدالباقي نمبر: 18 - كِتَابُ الصِّيَامِ-ح: 48»