حدثني يحيى، عن مالك، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، انها قالت: خسفت الشمس في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم بالناس، فقام فاطال القيام، ثم ركع فاطال الركوع ثم قام فاطال القيام، وهو دون القيام الاول، ثم ركع فاطال الركوع وهو دون الركوع الاول، ثم رفع فسجد ثم فعل في الركعة الآخرة مثل ذلك ثم انصرف، وقد تجلت الشمس فخطب الناس فحمد الله واثنى عليه، ثم قال:" إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، لا يخسفان لموت احد ولا لحياته، فإذا رايتم ذلك فادعوا الله وكبروا وتصدقوا"، ثم قال:" يا امة محمد والله ما من احد اغير من الله ان يزني عبده او تزني امته، يا امة محمد والله لو تعلمون ما اعلم لضحكتم قليلا ولبكيتم كثيرا" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالنَّاسِ، فَقَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ ثُمَّ قَامَ فَأَطَالَ الْقِيَامَ، وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ فَأَطَالَ الرُّكُوعَ وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ فَسَجَدَ ثُمَّ فَعَلَ فِي الرَّكْعَةِ الْآخِرَةِ مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ انْصَرَفَ، وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ فَخَطَبَ النَّاسَ فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ:" إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلَا لِحَيَاتِهِ، فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَادْعُوا اللَّهَ وَكَبِّرُوا وَتَصَدَّقُوا"، ثُمَّ قَالَ:" يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ مَا مِنْ أَحَدٍ أَغْيَرَ مِنَ اللَّهِ أَنْ يَزْنِيَ عَبْدُهُ أَوْ تَزْنِيَ أَمَتُهُ، يَا أُمَّةَ مُحَمَّدٍ وَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِكْتُمْ قَلِيلًا وَلَبَكَيْتُمْ كَثِيرًا"
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ گہن لگا سورج کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تو نماز پڑھائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ساتھ لوگوں کے، پس کھڑے ہوئے بہت دیر تک، پھر رکوع کیا پھر بڑی دیر تک، پھر کھڑے ہوئے بڑی دیر تک لیکن اوّل سے کچھ کم، پھر رکوع کیا بڑی دیر تک لیکن اوّل رکوع سے کچھ کم، پھر سر اٹھایا رکوع سے، پھر سجدہ کیا، پھر دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کیا، جب نماز سے فارغ ہوئے تو آفتاب روشن ہوگیا تھا، پھر خطبہ پڑھا اور حمد و ثنا کی اللہ جل جلالہُ کی، پھر فرمایا: ”سورج اور چاند دونوں نشانیاں ہیں پروردگار کی نشانیوں سے، کسی کی موت یا زیست کے واسطے ان میں گہن نہیں لگتا، تو جب دیکھو تم گہن پس دعا کرو اللہ سے اور تکبیر کہو اور صدقہ دو۔“ پھر فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے: ”اے اُمّتِ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) قسم اللہ کی! اللہ جل جلالہُ سے کسی کو زیادہ غیرت نہیں ہے اس امر میں کہ اس کا بندہ یا اس کی لونڈی زناکرے۔ اے اُمّتِ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اگر تم جانتے ہوتے جو میں جانتا ہوں، البتہ ہنستے تم تھوڑا اور روتے بہت۔“
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1044، 1046، 1047، 1049، 1055، 1058، 1064، 1065، 1066، 1212، 3203، 4624، 5221، 6631، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 901، 903، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 851، 1378، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2830، 2841، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 1233، 1235، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1466، 1467، 1475، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 506، 507، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1177، 1180، 1187، 1188، 1190، 1191، والترمذي فى «جامعه» برقم: 561، 563، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1568، 1570، 1571، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1263، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3486، 6391، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24679، والحميدي فى «مسنده» برقم: 179، 180، شركة الحروف نمبر: 408، فواد عبدالباقي نمبر: 12 - كِتَابُ صَلَاةِ الْكُسُوفِ-ح: 1»
وحدثني، عن مالك، عن زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن عبد الله بن عباس ، انه قال: خسفت الشمس فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس معه فقام قياما طويلا نحوا من سورة البقرة، قال: ثم ركع ركوعا طويلا، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم سجد ثم قام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم سجد ثم انصرف، وقد تجلت الشمس، فقال:" إن الشمس والقمر آيتان من آيات الله، لا يخسفان لموت احد، ولا لحياته فإذا رايتم ذلك فاذكروا الله"، قالوا: يا رسول الله، رايناك تناولت شيئا في مقامك هذا، ثم رايناك تكعكعت، فقال: " إني رايت الجنة فتناولت منها عنقودا، ولو اخذته لاكلتم منه ما بقيت الدنيا، ورايت النار فلم ار كاليوم منظرا قط ورايت اكثر اهلها النساء"، قالوا: لم يا رسول الله؟ قال:" لكفرهن"، قيل: ايكفرن بالله، قال:" ويكفرن العشير ويكفرن الإحسان لو احسنت إلى إحداهن الدهر كله ثم رات منك شيئا، قالت: ما رايت منك خيرا قط" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، أَنَّهُ قَالَ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مَعَهُ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا نَحْوًا مِنْ سُورَةِ الْبَقَرَةِ، قَالَ: ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ انْصَرَفَ، وَقَدْ تَجَلَّتِ الشَّمْسُ، فَقَالَ:" إِنَّ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ آيَتَانِ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ، لَا يَخْسِفَانِ لِمَوْتِ أَحَدٍ، وَلَا لِحَيَاتِهِ فَإِذَا رَأَيْتُمْ ذَلِكَ فَاذْكُرُوا اللَّهَ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، رَأَيْنَاكَ تَنَاوَلْتَ شَيْئًا فِي مَقَامِكَ هَذَا، ثُمَّ رَأَيْنَاكَ تَكَعْكَعْتَ، فَقَالَ: " إِنِّي رَأَيْتُ الْجَنَّةَ فَتَنَاوَلْتُ مِنْهَا عُنْقُودًا، وَلَوْ أَخَذْتُهُ لَأَكَلْتُمْ مِنْهُ مَا بَقِيَتِ الدُّنْيَا، وَرَأَيْتُ النَّارَ فَلَمْ أَرَ كَالْيَوْمِ مَنْظَرًا قَطُّ وَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِهَا النِّسَاءَ"، قَالُوا: لِمَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" لِكُفْرِهِنَّ"، قِيلَ: أَيَكْفُرْنَ بِاللَّهِ، قَالَ:" وَيَكْفُرْنَ الْعَشِيرَ وَيَكْفُرْنَ الْإِحْسَانَ لَوْ أَحْسَنْتَ إِلَى إِحْدَاهُنَّ الدَّهْرَ كُلَّهُ ثُمَّ رَأَتْ مِنْكَ شَيْئًا، قَالَتْ: مَا رَأَيْتُ مِنْكَ خَيْرًا قَطُّ"
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ گہن لگا سورج میں تو نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور لوگوں نے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے، پھر کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت دیر تک جیسے سورۂ بقرہ پڑھنے میں دیر ہوتی ہے، پھر رکوع کیا ایک لمبا رکوع، پھر سر اُٹھایا، پھر کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی دیر تک لیکن پہلے قیام سے کچھ کم، پھر رکوع کیا ایک رکوع لمبا، لیکن اوّل رکوع سے کچھ کم، پھر سجدہ کیا، پھر کھڑے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی دیر تک لیکن اوّل قیام سے کچھ کم، پھر رکوع کیا لمبا رکوع لیکن اوّل رکوع سے کم، پھر سر اُٹھایا، پھر کھڑے ہوئے بڑی دیر تک لیکن اوّل قیام سے کچھ کم، پھر رکوع کیا ایک لمبا رکوع لیکن اوّل رکوع سے کچھ کم، پھر سجدہ کیا تو فارغ ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز سے اور آفتاب روشن ہوگیا تھا، پس فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے: ”سورج اور چاند دو نشانیاں ہیں اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے۔ نہیں گہن لگتا اُن میں کسی کی زندگی اور موت سے، جب تم ایسا دیکھو تو ذکر کرو اللہ کا۔“ صحابہ نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا نماز میں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آگے بڑھے کسی چیز کو لینے کے لئے پھر پیچھے ہٹ آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ، تو فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے: ”دیکھا میں نے جنت کو پس لینا چاہا میں نے اس میں سے ایک گچھا (خوشہ)، اگر میرے ہاتھ لگ جاتا تو تم اس میں سے کھایا کرتے جب تک دنیا باقی رہتی، اور میں نے دیکھا جہنم کو ایسی ہولناک اور مہیب صورت میں کہ کبھی میں نے ایسی صورت نہ دیکھی ہے نہ دیکھی تھی، اور میں نے دیکھا کہ جہنم میں عورتیں زیادہ ہیں۔“ صحابہ نے کہا: کیوں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ؟ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے: ”عورتوں کی ناشکری نے اُن کو جہنم میں ڈالا۔“ کہا صحابہ نے: کیا کفر کرتی ہیں ساتھ اللہ کے؟ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے: ”اور کفر کرتی ہیں یعنی ناشکری کرتی ہیں خاوند کی، اور بھول جاتی ہیں احسان کو، اگر کسی عورت کے ساتھ ساری عمر احسان کرو پھر کوئی رنج اس کو پہنچے تو کہنے لگتی ہیں خاوند سے: مجھے کبھی تجھ سے بھلائی نہیں پہنچی۔“
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 29، 431، 748، 1052، 3202، 5197، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 907، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 1377، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2832، 2853، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1470، 1494، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 1891، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1189، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1569، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 6392، وأحمد فى «مسنده» برقم: 2755، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 4925، شركة الحروف نمبر: 409، فواد عبدالباقي نمبر: 12 - كِتَابُ صَلَاةِ الْكُسُوفِ-ح: 2»
وحدثني، عن مالك، عن يحيى بن سعيد ، عن عمرة بنت عبد الرحمن ، عن عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، ان يهودية جاءت تسالها، فقالت: اعاذك الله من عذاب القبر، فسالت عائشة رسول الله صلى الله عليه وسلم ايعذب الناس في قبورهم؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم عائذا بالله من ذلك، ثم ركب رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات غداة مركبا، فخسفت الشمس فرجع ضحى فمر بين ظهراني الحجر، ثم قام يصلي وقام الناس وراءه، فقام قياما طويلا، ثم ركع ركوعا طويلا، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم رفع فسجد، ثم قام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم رفع فقام قياما طويلا وهو دون القيام الاول، ثم ركع ركوعا طويلا وهو دون الركوع الاول، ثم رفع ثم سجد ثم انصرف، فقال ما شاء الله ان يقول ثم " امرهم ان يتعوذوا من عذاب القبر" وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّ يَهُودِيَّةً جَاءَتْ تَسْأَلُهَا، فَقَالَتْ: أَعَاذَكِ اللَّهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، فَسَأَلَتْ عَائِشَةُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُعَذَّبُ النَّاسُ فِي قُبُورِهِمْ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَائِذًا بِاللَّهِ مِنْ ذَلِكَ، ثُمَّ رَكِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ غَدَاةٍ مَرْكَبًا، فَخَسَفَتِ الشَّمْسُ فَرَجَعَ ضُحًى فَمَرَّ بَيْنَ ظَهْرَانَيِ الْحُجَرِ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي وَقَامَ النَّاسُ وَرَاءَهُ، فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ فَسَجَدَ، ثُمَّ قَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ فَقَامَ قِيَامًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الْقِيَامِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ رُكُوعًا طَوِيلًا وَهُوَ دُونَ الرُّكُوعِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَفَعَ ثُمَّ سَجَدَ ثُمَّ انْصَرَفَ، فَقَالَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ يَقُولَ ثُمَّ " أَمَرَهُمْ أَنْ يَتَعَوَّذُوا مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ"
اُم المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت آئی ان کے پاس مانگنے کو، تو کہا اس نے: اللہ بچائے تجھ کو قبر کے عذاب سے۔ پس پوچھا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے: کیا لوگوں کو عذاب ہوگا قبروں میں؟ فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے: ”میں پناہ مانگتا ہوں اللہ کے اس عذاب سے۔“ پھر سوار ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک دن سواری پر، سو گہن لگا آفتاب کو، اور لوٹے آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجروں کے پیچھے سے، پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے، پھر قیام کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بڑی دیر تک، پھر رکوع کیا بڑی دیر تک، پھر سر اٹھایا اور قیام کیا بڑی دیر تک لیکن پہلے قیام سے کچھ کم، پھر رکوع کیا بڑی دیر تک لیکن پہلے رکوع سے کچھ کم، پھر سر اٹھا کر سجدہ کیا، پھر قیام کیا بڑی دیر تک لیکن اوّل رکعت کے قیام سے کچھ کم، پھر رکوع کیا لمبا رکوع لیکن پہلے رکوع سے کچھ کم، پھر سر اٹھایا اور قیام کیا بڑی دیر تک لیکن پہلے قیام سے کچھ کم، پھر رکوع کیا بڑی دیر تک لیکن پہلے رکوع سے کچھ کم، پھر سر اٹھا کر سجدہ کیا، پھر نماز سے فارغ ہو کر جو کچھ اللہ تعالیٰ نے چاہا باتیں کیں، پھر حکم کیا اُن کو کہ پناہ مانگے اللہ سے قبر کے عذاب سے۔
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 1044، 1046، 1047، 1049، 1055، 1058، 1064، 1065، 1066، 1212، 3203، 4624، 5221، 6631، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 901، 903، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 851، 1378، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2830، 2841، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 1476، 1467، 1471، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 506، 507، وأبو داود فى «سننه» برقم: 1177، 1180، 1187، 1188، 1190، 1191، والترمذي فى «جامعه» برقم: 561، 563، والدارمي فى «مسنده» برقم: 1568، 1570، 1571، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 1263، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3486، وأحمد فى «مسنده» برقم: 24679، والحميدي فى «مسنده» برقم: 179، 180، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 4922، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 8388، شركة الحروف نمبر: 410، فواد عبدالباقي نمبر: 12 - كِتَابُ صَلَاةِ الْكُسُوفِ-ح: 3»
حدثني يحيى، عن مالك، عن هشام بن عروة ، عن فاطمة بنت المنذر ، عن اسماء بنت ابي بكر الصديق ، انها قالت: اتيت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم حين خسفت الشمس، فإذا الناس قيام يصلون وإذا هي قائمة تصلي، فقلت: ما للناس فاشارت بيدها نحو السماء، وقالت: سبحان الله، فقلت: آية، فاشارت براسها ان نعم، قالت: فقمت حتى تجلاني الغشي وجعلت اصب فوق راسي الماء، فحمد الله رسول الله صلى الله عليه وسلم واثنى عليه، ثم قال: " ما من شيء كنت لم اره إلا قد رايته في مقامي هذا، حتى الجنة والنار ولقد اوحي إلي انكم تفتنون في القبور مثل او قريبا من فتنة الدجال لا ادري ايتهما، قالت اسماء: يؤتى احدكم فيقال له: ما علمك بهذا الرجل؟ فاما المؤمن او الموقن لا ادري اي ذلك، قالت اسماء: فيقول: هو محمد رسول الله جاءنا بالبينات والهدى، فاجبنا وآمنا واتبعنا، فيقال له: نم صالحا قد علمنا إن كنت لمؤمنا واما المنافق او المرتاب لا ادري ايتهما، قالت اسماء: فيقول: لا ادري سمعت الناس يقولون شيئا فقلته" حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ الْمُنْذِرِ ، عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ ، أَنَّهَا قَالَتْ: أَتَيْتُ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ خَسَفَتِ الشَّمْسُ، فَإِذَا النَّاسُ قِيَامٌ يُصَلُّونَ وَإِذَا هِيَ قَائِمَةٌ تُصَلِّي، فَقُلْتُ: مَا لِلنَّاسِ فَأَشَارَتْ بِيَدِهَا نَحْوَ السَّمَاءِ، وَقَالَتْ: سُبْحَانَ اللَّهِ، فَقُلْتُ: آيَةٌ، فَأَشَارَتْ بِرَأْسِهَا أَنْ نَعَمْ، قَالَتْ: فَقُمْتُ حَتَّى تَجَلَّانِي الْغَشْيُ وَجَعَلْتُ أَصُبُّ فَوْقَ رَأْسِي الْمَاءَ، فَحَمِدَ اللَّهَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " مَا مِنْ شَيْءٍ كُنْتُ لَمْ أَرَهُ إِلَّا قَدْ رَأَيْتُهُ فِي مَقَامِي هَذَا، حَتَّى الْجَنَّةُ وَالنَّارُ وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ مِثْلَ أَوْ قَرِيبًا مِنْ فِتْنَةِ الدَّجَّالِ لَا أَدْرِي أَيَّتَهُمَا، قَالَتْ أَسْمَاءُ: يُؤْتَى أَحَدُكُمْ فَيُقَالُ لَهُ: مَا عِلْمُكَ بِهَذَا الرَّجُلِ؟ فَأَمَّا الْمُؤْمِنُ أَوِ الْمُوقِنُ لَا أَدْرِي أَيَّ ذَلِكَ، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَيَقُولُ: هُوَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ جَاءَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَالْهُدَى، فَأَجَبْنَا وَآمَنَّا وَاتَّبَعْنَا، فَيُقَالُ لَهُ: نَمْ صَالِحًا قَدْ عَلِمْنَا إِنْ كُنْتَ لَمُؤْمِنًا وَأَمَّا الْمُنَافِقُ أَوِ الْمُرْتَابُ لَا أَدْرِي أَيَّتَهُمَا، قَالَتْ أَسْمَاءُ: فَيَقُولُ: لَا أَدْرِي سَمِعْتُ النَّاسَ يَقُولُونَ شَيْئًا فَقُلْتُهُ"
سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں آئی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس جس وقت گہن لگا آفتاب کو، تو دیکھا میں نے لوگوں کو نماز پڑھتے ہوئے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی کھڑی ہوئی نماز پڑھ رہی تھیں، تو میں نے کہا: کیا ہوا لوگوں کو؟ تو اشارہ کیا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے ہاتھ سے آسمان کی طرف، اور سبحان اللہ کہا۔ میں نے کہا: کوئی نشانی ہے؟ انہوں نے اشارہ سے کہا: ہاں، کہا سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے: تو میں کھڑی ہوئی یہاں تک کہ مجھ کو غشی آنے لگی اور میں اپنے سر پر پانی ڈالنے لگی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تعریف کی اللہ کی اور ثناء کی اس کی، پھر فرمایا: ”جو چیز میں نے نہ دیکھی تھی وہ آج میں نے دیکھ لی اس جگہ، یہاں تک کہ جنت اور دوزخ کو بھی دیکھا اور مجھے وحی سے معلوم ہوا کہ قبر میں تم فتنہ میں پڑ جاؤ گے، مثل فتنہ دجال کے یا اس کے قریب۔“ معلوم نہیں سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کیا کہا، ”آئیں گے اس کے پاس فرشتے تو پوچھیں گے اس سے: تو کیا سمجھتا ہے اس شخص کو (یعنی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو) تو جو ایمان رکھتا ہے یا یقین رکھتا ہے“، معلوم نہیں کیا کہا سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے، ”وہ کہے گا: یہ شخص محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، اللہ جل جلالہُ کے بھیجے ہوئے ہمارے پاس، کھلی کھلی نشانیاں اور ہدایت یعنی کلام اللہ لے کر، پس قبول کیا ہم نے اور ایمان لائے ہم اور پیروی کی ہم نے اُن کی، تب فرشتے اس سے کہیں گے: سو رہ اچھی طرح، ہم تو پہلے ہی جانتے تھے کہ تو مومن ہے، اور منافق یا جس کو شک ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت میں“، معلوم نہیں کیا کہا سیدہ اسماء رضی اللہ عنہما نے، ”وہ کہے گا: میں نہیں جانتا، لوگوں سے میں نے جو سنا وہ کہا۔“
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 86، 184، 1053، 1235، 7287، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 905، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3114، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 3472، 6450، وأحمد فى «مسنده» برقم: 27567، وابن أبى شيبة فى «مصنفه» برقم: 12163، 38665، والطبراني فى "الكبير"، 213، 312، 313، شركة الحروف نمبر: 411، فواد عبدالباقي نمبر: 12 - كِتَابُ صَلَاةِ الْكُسُوفِ-ح: 4»