سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ وہ ابوعمرو کے پاس تھی اور اس نے تین طلاق دیں پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گھر سے نکلنے کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ابن ام مکتوم کے گھر چلی جاؤ اور مروان نے ان کی تصدیق نہ کی مطلقہ کے گھر سے نکلنے میں اور عروہ نے کہا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بھی فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی اس بات کو قابل انکار جانا۔
عقیل نے ابن شہاب سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند روایت کی، ساتھ عروہ کا قول بھی ذکر کیا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے سامنے اس بات کو ناقابل قبول قرار دیا
امام صاحب اپنے ایک اور استاد سے مذکورہ بالا حدیث، عروہ کے قول سمیت بیان کرتے ہیں۔
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، وعبد بن حميد ، واللفظ لعبد، قالا: اخبرنا عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن الزهري ، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة : ان ابا عمرو بن حفص بن المغيرة خرج مع علي بن ابي طالب إلى اليمن، فارسل إلى امراته فاطمة بنت قيس بتطليقة كانت بقيت من طلاقها، وامر لها الحارث بن هشام، وعياش بن ابي ربيعة بنفقة، فقالا لها: والله ما لك نفقة، إلا ان تكوني حاملا، فاتت النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرت له قولهما، فقال: " لا نفقة لك "، فاستاذنته في الانتقال: فاذن لها، فقالت: اين يا رسول الله؟ فقال: " إلى ابن ام مكتوم "، وكان اعمى تضع ثيابها عنده ولا يراها، فلما مضت عدتها انكحها النبي صلى الله عليه وسلم اسامة بن زيد، فارسل إليها مروان: قبيصة بن ذؤيب يسالها عن الحديث، فحدثته به، فقال مروان: لم نسمع هذا الحديث إلا من امراة سناخذ بالعصمة التي وجدنا الناس عليها، فقالت فاطمة: حين بلغها قول مروان، فبيني وبينكم القرآن، قال الله عز وجل: لا تخرجوهن من بيوتهن سورة الطلاق آية 1 الآية، قالت: هذا لمن كانت له مراجعة، فاي امر يحدث بعد الثلاث، فكيف تقولون: لا نفقة لها، إذا لم تكن حاملا، فعلام تحبسونها.حدثنا إِسْحَاقَ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، واللفظ لعبد، قَالَا: أَخْبَرَنا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنا مَعْمَرٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ : أَنَّ أَبَا عَمْرِو بْنَ حَفْصِ بْنِ الْمُغِيرَةِ خَرَجَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ إِلَى الْيَمَنِ، فَأَرْسَلَ إِلَى امْرَأَتِهِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ بِتَطْلِيقَةٍ كَانَتْ بَقِيَتْ مِنْ طَلَاقِهَا، وَأَمَرَ لَهَا الْحَارِثَ بْنَ هِشَامٍ، وَعَيَّاشَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ بِنَفَقَةٍ، فقَالَا لَهَا: وَاللَّهِ مَا لَكِ نَفَقَةٌ، إِلَّا أَنْ تَكُونِي حَامِلًا، فَأَتَتِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرَتْ لَهُ قَوْلَهُمَا، فقَالَ: " لَا نَفَقَةَ لَكِ "، فَاسْتَأْذَنَتْهُ فِي الِانْتِقَالَ: فَأَذِنَ لَهَا، فقَالَت: أَيْنَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فقَالَ: " إِلَى ابْنِ أُمِّ مَكْتُومٍ "، وَكَانَ أَعْمَى تَضَعُ ثِيَابَهَا عَنْدَهُ وَلَا يَرَاهَا، فَلَمَّا مَضَتْ عِدَّتُهَا أَنْكَحَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُسَامَةَ بْنَ زَيْدٍ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا مَرْوَانُ: قَبِيصَةَ بْنَ ذُؤَيْبٍ يَسْأَلُهَا عَنِ الْحَدِيثِ، فَحَدَّثَتْهُ بِهِ، فقَالَ مَرْوَانُ: لَمْ نَسْمَعْ هَذَا الْحَدِيثَ إِلَّا مِنَ امْرَأَةٍ سَنَأْخُذُ بِالْعِصْمَةِ الَّتِي وَجَدْنَا النَّاسَ عَلَيْهَا، فقَالَت فَاطِمَةُ: حِينَ بَلَغَهَا قَوْلُ مَرْوَانَ، فَبَيْنِي وَبَيْنَكُمُ الْقُرْآنُ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: لا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ سورة الطلاق آية 1 الْآيَةَ، قَالَت: هَذَا لِمَنْ كَانَتْ لَهُ مُرَاجَعَةٌ، فَأَيُّ أَمْرٍ يَحْدُثُ بَعْدَ الثَّلَاثِ، فَكَيْفَ تَقُولُونَ: لَا نَفَقَةَ لَهَا، إِذَا لَمْ تَكُنْ حَامِلًا، فَعَلَامَ تَحْبِسُونَهَا.
معمر نے ہمیں زہری سے خبر دی، انہوں نے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ سے روایت کی کہ ابو عمرو بن حفص بن مغیرہ رضی اللہ عنہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ یمن کی جانب گئے اور اپنی بیوی فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کو اس کی (تین) طلاقوں میں سے جو طلاق باقی تھی بھیج دی، اور انہوں نے ان کے بارے میں (اپنے عزیزوں) حارث بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ سے کہا کہ وہ انہیں خرچ دیں، تو ان دونوں نے ان (فاطمہ) سے کہا: اللہ کی قسم! تمہارے لیے کوئی خرچ نہیں الا یہ کہ تم حاملہ ہوتی۔ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور آپ کو ان دونوں کی بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارے لیے خرچ نہیں (بنتا۔) " انہوں نے آپ سے نقل مکانی کی اجازت چاہی تو آپ نے انہیں اجازت دے دی۔ انہوں نے پوچھا: اللہ کے رسول! کہاں؟ فرمایا: "ابن ام مکتوم کے ہاں۔" وہ نابینا تھے، وہ ان کے سامنے اپنے (اوڑھنے کے) کپڑے اتارتیں تو وہ انہیں دیکھ نہیں سکتے تھے۔ جب ان کی عدت پوری ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا نکاح اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے کر دیا۔ اس کے بعد مروان نے اس حدیث کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے قبیصہ بن ذؤیب کو ان کے پاس بھیجا تو انہوں نے اسے یہ حدیث بیان کی، اس پر مروان نے کہا: ہم نے یہ حدیث صرف ایک عورت سے سنی ہے، ہم تو اسی مقبول طریقے کو تھامے رکھیں گے جس پر ہم نے تمام لوگوں کو پایا ہے۔ جب فاطمہ رضی اللہ عنہا کو مروان کی یہ بات پہنچی تو انہوں نے کہا: میرے اور تمہارے درمیان قرآن فیصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: "تم انہیں ان کے گھروں سے مت نکالو۔" آیت مکمل کی۔ انہوں نے کہا: یہ آیت تو (جس طرح اس کے الفاظ (لَعَلَّ ٱللَّـہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَٰلِکَ أَمْرًا)(الطلاق 1: 65) سے ظاہر ہے) اس (شوہر) کے لیے ہوئی جسے رجوع کا حق حاصل ہے، اور تیسری طلاق کے بعد از سر نو کون سی بات پیدا ہو سکتی ہے؟ اور تم یہ بات کیسے کہتے ہو کہ اگر وہ حاملہ نہیں ہے تو اس کے لیے خرچ نہیں ہے؟ پھر تم اسے روکتے کس بنا پر ہو
عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بیان کرتے ہیں کہ عمرو بن حفص بن مغیرہ، حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ یمن روانہ ہوا، اور اپنی بیوی فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا کو آخری طلاق جو باقی رہ گئی تھی بھیج دی اور حارث بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ کو اسے نفقہ دینے کا کہہ دیا، تو ان دونوں نے اسے کہا، اللہ کی قسم! تجھے صرف حاملہ ہونے کی صورت میں نفقہ ملے گا، تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور ان کی بات آپصلی اللہ علیہ وسلم کو بتائی۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تجھے خرچ نہیں ملتا۔“ تو اس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم سے منتقل ہونے کی اجازت طلب کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اجازت دے دی۔ اس نے عرض کیا، کہاں؟ اے اللہ کے رسول! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابن ام مکتوم کے ہاں۔“ وہ نابینا تھے، وہ وہاں پردہ کے کپڑے اتار سکتی تھیں اور وہ اسے دیکھ نہیں سکتے تھے، جب اس کی عدت پوری ہو گئی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا نکاح اسامہ بن زید رضی اللہ تعالی عنہ سے کر دیا۔ مروان نے اس کے (فاطمہ کے) پاس قبیصہ بن ذویب کو بھیجا کہ وہ اس سے اس واقعہ کے بارے میں دریافت کرے، اس نے اسے یہ واقعہ سنا دیا، مروان کہنے لگا۔ ہم نے یہ حدیث صرف ایک عورت سے سنی ہے۔ اور ہم اس موقف کو اپنائیں گے جس پر ہم نے لوگوں کو پایا ہے، تو جب فاطمہ تک مروان کی بات پہنچی، اس نے کہا میرے اور تمہارے درمیان قرآنِ مجید فیصل ہے، اللہ کا فرمان ہے: ”ان کو ان کے گھروں سے نہ نکالو۔“
زہیر بن حرب نے مجھے حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں ہشیم نے حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں سیار، حصین، مغیرہ، اشعث، مجالد، اسماعیل بن ابی خالد اور داود سب نے شعبی سے خبر دی۔۔ البتہ داود نے کہا: ہمیں حدیث بیان کی۔۔ انہوں نے کہا: میں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے متعلق دریافت کیا جو ان کے بارے میں تھا۔ انہوں نے کہا: ان کے شوہر نے انہیں تین طلاقیں دے دیں، کہا: تو میں رہائش اور خرچ کے لیے اس کے ساتھ اپنا جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئی۔ کہا: تو آپ نے مجھے رہائش اور خرچ (کا حق) نہ دیا، اور مجھے حکم دیا کہ میں اپنی عدت ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کے گھر گزاروں
امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف جو فیصلہ دیا اس کے بارے میں دریافت کیا تو اس نے بتایا کہ میرے خاوند نے مجھے فیصلہ کن طلاق دے دی۔ تو میں نفقہ اور سکنیٰ کے بارے میں اس کے خلاف مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے گئی۔ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے نہ سکنیٰ دلوایا اور نہ ہی نفقہ اور مجھے عدت ابن ام مکتوم رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر گزارنے کا حکم دیا۔
یحییٰ بن یحییٰ نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ہشیم نے حصین، داود، مغیرہ، اسماعیل اور اشعث سے، انہوں نے شعبی سے خبر دی کہ انہوں نے کہا: میں فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس گیا۔۔۔ (آگے) ہشیم سے زہیر کی روایت کردہ حدیث کے مانند ہے
امام شعبی سے روایت ہے کہ میں حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا کی خدمت میں حاضر ہوا، آگے مذکورہ بالا روایت ہے۔
قرہ نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں سیار ابوالحکم نے حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں شعبی نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہم فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کے پاس گئے، انہوں نے ابن طاب کی تازہ کھجوروں سے ہماری ضیافت کی، اور ہمیں عمدہ جَو کے ستو پلائے، اس کے بعد میں نے ان سے ایسی عورت کے بارے میں پوچھا جسے تین طلاقیں دی گئی ہوں کہ وہ عدت کہاں گزارے گی؟ انہوں نے جواب دیا: مجھے میرے شوہر نے تین طلاقیں دیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دی کہ میں اپنے گھرانے میں عدت گزاروں۔ (ابن مکتوم ان کے عزیز تھے
امام شعبی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاں گئے، تو انہوں نے ابن طاب نامی کھجوروں سے ہماری ضیافت کی اور بہترین جو کے ستوؤں سے ہماری تواضع کی تو میں نے ان سے پوچھا، جسے تین طلاقیں مل چکی ہوں وہ عدت کہاں گزارے؟ انہوں نے جواب دیا، میرے خاوند نے مجھے تیسری طلاق دے دی، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے خاندان میں عدت گزارنے کی اجازت دے دی۔
سلمہ بن کہیل نے شعبی سے اور انہوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے ایسی عورت کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی جسے تین طلاقیں دے دی گئی ہوں، آپ نے فرمایا: "اس کے لیے نہ رہائش ہے اور نہ خرچ
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا مطلقہ ثلاثہ کے بارے میں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے لیے نہ سکنیٰ ہے اور نہ نفقہ ہے۔“
یحییٰ بن آدم نے ہمیں خبر دی، (کہا:) عمار بن رُزیق نے ہمیں ابواسحاق سے حدیث بیان کی، انہوں نے شعبی سے اور انہوں نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت کی، انہوں نے کہا: میرے شوہر نے مجھے تین طلاقیں دیں تو میں نے (وہاں سے) نقل مکانی کا ارادہ کیا۔ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، تو آپ نے فرمایا: "تم اپنے چچا زاد عمرو بن ام مکتوم کے گھر منتقل ہو جاؤ، اور ان کے ہاں عدت گزارو
حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میرے خاوند نے مجھے تینوں طلاقیں دے دیں تو میں نے اس کے ہاں سے منتقل ہونا چاہا، اس لیے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے چچا زاد عبداللہ بن ام مکتوم کے ہاں منتقل ہو جا اور اس کے ہاں عدت گزار۔“
وحدثناه محمد بن عمرو بن جبلة ، حدثنا ابو احمد ، حدثنا عمار بن رزيق ، عن ابي إسحاق ، قال: كنت مع الاسود بن يزيد جالسا في المسجد الاعظم ومعنا الشعبي، فحدث الشعبي بحديث فاطمة بنت قيس ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لم يجعل لها سكنى، ولا نفقة "، ثم اخذ الاسود كفا من حصى فحصبه به، فقال: ويلك تحدث بمثل، هذا قال عمر: لا نترك كتاب الله وسنة نبينا صلى الله عليه وسلم، لقول امراة لا ندري لعلها حفظت او نسيت لها السكنى، والنفقة، قال الله عز وجل: لا تخرجوهن من بيوتهن ولا يخرجن إلا ان ياتين بفاحشة مبينة سورة الطلاق آية 1،وَحدثناه مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَبَلَةَ ، حدثنا أَبُو أَحْمَدَ ، حدثنا عَمَّارُ بْنُ رُزَيْقٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ جَالِسًا فِي الْمَسْجِدِ الْأَعْظَمِ وَمَعَنَا الشَّعْبِيُّ، فَحَدَّثَ الشَّعْبِيُّ بِحَدِيثِ فَاطِمَةَ بِنْتِ قَيْسٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمْ يَجْعَلْ لَهَا سُكْنَى، وَلَا نَفَقَةً "، ثُمَّ أَخَذَ الْأَسْوَدُ كَفًّا مِنْ حَصًى فَحَصَبَهُ بِهِ، فقَالَ: وَيْلَكَ تُحَدِّثُ بِمِثْلِ، هَذَا قَالَ عُمَرُ: لَا نَتْرُكُ كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ نَبِيِّنَا صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لِقَوْلِ امْرَأَةٍ لَا نَدْرِي لَعَلَّهَا حَفِظَتْ أَوْ نَسِيَتْ لَهَا السُّكْنَى، وَالنَّفَقَةُ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: لا تُخْرِجُوهُنَّ مِنْ بُيُوتِهِنَّ وَلا يَخْرُجْنَ إِلا أَنْ يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُبَيِّنَةٍ سورة الطلاق آية 1،
ابواحمد نے ہمیں خبر دی، (کہا:) عمار بن رزیق نے ہمیں ابواسحاق سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: میں اسود بن یزید (نخعی) کے ساتھ (کوفہ کی) بڑی مسجد میں بیٹھا ہوا تھا، شعبی بھی ہمارے ساتھ تھے، تو شعبی نے فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کی حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں رہائش اور خرچ (کا حق) نہیں دیا۔ پھر اسود نے مٹھی بھر کنکریاں لیں اور انہیں دے ماریں اور کہا: تم پر افسوس! تم اس طرح کی حدیث بیان کر رہے ہو؟ عمر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا: ہم ایک عورت کے قول کی وجہ سے اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو نہیں چھوڑ سکتے، ہم نہیں جانتے کہ اس نے (اس مسئلے کو) یاد رکھا ہے یا بھول گئی، اس کے لیے رہائش اور خرچ ہے۔ (اور یہ آیت تلاوت کی) اللہ عزوجل نے فرمایا: "تم انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو، اور نہ وہ خود نکلیں، مگر یہ کہ وہ کوئی کھلی بے حیائی کریں
ابو اسحاق بیان کرتے ہیں کہ میں (کوفہ کی) بڑی مسجد میں اسود بن یزید کے پاس بیٹھا ہوا تھا اور شعبی رحمۃ اللہ علیہ بھی ہمارے ساتھ تھے، تو شعبی نے حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ تعالی عنہا کی حدیث سنائی، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو رہائش اور نفقہ نہ دلوایا، تو اسود نے کنکریوں کی مٹھی لے کر اس پر ماری، اور کہا، تم پر افسوس! تو ایسی حدیث بیان کرتا ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے (یہ حدیث سن کر) کہا تھا۔ ہم اللہ کی کتاب اور اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ایک عورت کے کہنے پر نہیں چھوڑیں گے، ہمیں معلوم نہیں ہے، شاید اس نے حدیث یاد رکھی ہے یا بھول گئی ہے۔ اس کے لیے رہائش اور نفقہ ہے، اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ”انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں الا یہ کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں۔“