سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے مدینہ کی طرف اشارہ کیا اورفرمایا: " بلاشبہ یہ حرم ہے، امن والاہے۔"
حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے مدینہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ”یہ حرم ہے، امن کی جگہ ہے۔“
عبدہ نے ہمیں ہشام سے حدیث بیان کی، انھوں نے اپنے والدسے اورانھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب ہم مدینہ میں (ہجرت کر کے) آئے تو وہاں وبائی بخار پھیلا ہوا تھا۔ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ بیمار ہو گئے پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کی بیماری دیکھی تو دعا کی کہ اے اللہ! ہمارے مدینہ کو ہمارے لئے دوست کر دے جیسے تو نے مکہ کو دوست کیا تھا یا اس سے بھی زیادہ اور اس کو صحت کی جگہ بنا دے اور ہمیں اس کے ”صاع“ اور ”مد“ میں برکت دے اور اس کے بخار کو جحفہ کی طرف پھیر دے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، ہم مدینہ پہنچے، تو وہ وبائی علاقہ تھا، (جس میں پردیسی کثرت سے بیمار ہو رہے تھے) حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیمار ہو گئے، اور حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی بیمار پڑ گئے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کی بیماری کو دیکھا تو دعا فرمائی: ”اے اللہ! ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت ڈال دے، جیسے مکہ کی محبت رکھی ہے، بلکہ اس سے بڑھ کر اور اس کو صحت بخش شہر بنا دے، اور ہمارے لیے اس کے صاع اور مد میں برکت ڈال دے، اور اس کے بخار کو جحفہ کی طرف منتقل کر دے۔“
نافع نے ہمیں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: "جس نے اس (مدینہ) کی تنگ دستی پر صبر کیا، میں قیامت کے دن اس کے لئے سفارشی ہوں گایا گواہ۔"
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ”جو بندہ بھی مدینہ کی تنگی و ترشی پر صبر کرے گا، میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا، یا اس کے حق میں گواہی دوں گا۔“
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن قطن بن وهب بن عويمر بن الاجدع ، عن يحنس مولى الزبير، اخبره: انه كان جالسا عند عبد الله بن عمر في الفتنة، فاتته مولاة له تسلم عليه، فقالت: إني اردت الخروج يا ابا عبد الرحمن، اشتد علينا الزمان، فقال لها عبد الله : اقعدي لكاع، فإني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لا يصبر على لاوائها وشدتها احد، إلا كنت له شهيدا او شفيعا يوم القيامة ".حدثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنْ قَطَنِ بْنِ وَهْبِ بْنِ عُوَيْمِرِ بْنِ الْأَجْدَعِ ، عَنْ يُحَنَّسَ مَوْلَى الزُّبَيْرِ، أَخْبَرَهُ: أَنَّهُ كَانَ جَالِسًا عَنْدَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فِي الْفِتْنَةِ، فَأَتَتْهُ مَوْلَاةٌ لَهُ تُسَلِّمُ عَلَيْهِ، فقَالَت: إِنِّي أَرَدْتُ الْخُرُوجَ يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، اشْتَدَّ عَلَيْنَا الزَّمَانُ، فقَالَ لَهَا عَبْدُ اللَّهِ : اقْعُدِي لَكَاعِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَا يَصْبِرُ عَلَى لَأْوَائِهَا وَشِدَّتِهَا أَحَدٌ، إِلَّا كُنْتُ لَهُ شَهِيدًا أَوْ شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
امام مالک نے قطن بن وہب بن عویمر بن اجدع سےروایت کی، انھوں نے حضرت زبیر کے آزاد کردہ غلام یحس سے روایت کی، انھوں نے انھیں (قطن کو) خبردی کہ وہ فتنہ (واقعہ حرہ) کے دوران میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، ان کے پاس ان کی ایک آزاد کردہ لونڈی سلام کرنے پر حاضر ہوئی اور عرض کی: ابو عبدالرحمان! ہمارےلیے گزرا اوقات مشکل ہوگئی ہے لہذا میں مدینہ سے نقل مکانی کرنا چاہتی ہوں۔اس پر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: (یہیں مدینہ میں) بیٹھی رہو، نادان عورت! بلاشبہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: " کوئی بھی اس تنگدستی اور سختی پر صبر نہیں کرتا مگر قیامت کےدن میں اس کے لئے گواہ ہوں گا یاسفارشی۔"
حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مولیٰ یحنس بیان کرتے ہیں کہ میں فتنہ (واقعہ حرہ) کے عرصہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بیٹھا ہوا تھا، تو ان کے پاس ان کی آزاد کردہ لونڈی سلام عرض کرنے کے لیے آئی، اور کہا، اے ابو عبدالرحمٰن! میں نے یہاں سے نکلنے کا ارادہ کر لیا ہے، ہمارے حالات بڑے تنگ ہیں، تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے فرمایا، اے بے وقوف اور نادان عورت بیٹھ رہو، کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ”جو بندہ مدینہ کی تنگیوں اور سختیوں پر صبر کرے گا، قیامت کے دن میں اس کی سفارش کروں گا، یا اس کے حق میں گواہی دوں گا۔“
ضحاک نے ہمیں قطن خزاعی سے خبر دی، انھوں نے مصعب کے مولیٰ یحس سے، انھوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "جس نے اس (شہر) کی تنگدستی اورسختی پر صبر کیا، میں قیامت کے دن اس کا گواہ ہوں گایا سفارشی۔"ان کی مراد مدینہ سے تھی۔
حضرت مصعب (بن زبیر) کے مولٰی یحنس، عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، ”جو مدینہ کی تنگیوں اور تکالیف پر صبر کرے گا، میں قیامت کے دن اس کے حق میں گواہی دوں گا، یا اس کی سفارش کروں گا۔“
علاء بن عبدالرحمان (بن یعقوب) نے اپنے والدسے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: " میری امت میں سے کوئی شخص مدینہ کی تنگدستی اور مشقت پر صبر نہیں کرتا مگر قیامت کےدن، میں اس کا سفارشی یاگواہ ہوں گا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرا جو امتی مدینہ کی تکلیفوں اور سختیوں پر صبر کر کے وہاں رہے گا، میں قیامت کے دن اس کی سفارش کروں گا، یا اس کے حق میں شہادت دوں گا۔“
صالح بن ابو صالح نے اپنے والد سے، انھوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " کوئی بھی مدینہ کی مشقتوں پرصبر نہیں۔کرتا"۔۔۔ (آگے) اسی کے مانند ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی بندہ مدینہ کی تکلیفوں پر صبر کرے گا،“ آ گے مذکورہ بالا روایت ہے۔
نعیم بن عبداللہ نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نےکہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "مدینہ میں داخل ہونے کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں، اس میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوسکے گا۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ کے ابواب یعنی داخلہ کی جگہوں پر فرشتے ہیں اس میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہو گا۔“