56. باب: قربانی کے دن کنکریاں مارنے، پھر قربانی کرنے، پھر سر منڈانے، اور دائیں جانب سے سر منڈانے کی ابتداء کرنا سنت ہے۔
Chapter: The Sunnah on the day of sacrifice is to stone the Jamrah, then offer the sacrifice, then shave the head, and shaving should be started on the right side of the head
حدثنا يحيى بن يحيى ، اخبرنا حفص بن غياث ، عن هشام ، عن محمد بن سيرين ، عن انس بن مالك ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اتى منى، فاتى الجمرة فرماها، ثم اتى منزله بمنى ونحر، ثم قال للحلاق: " خذ واشار إلى جانبه الايمن، ثم الايسر، ثم جعل يعطيه الناس "،حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا حَفْصُ بْنُ غِيَاثٍ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَتَى مِنًى، فَأَتَى الْجَمْرَةَ فَرَمَاهَا، ثُمَّ أَتَى مَنْزِلَهُ بِمِنًى وَنَحَرَ، ثُمَّ قَالَ لِلْحَلَّاقِ: " خُذْ وَأَشَارَ إِلَى جَانِبِهِ الْأَيْمَنِ، ثُمَّ الْأَيْسَرِ، ثُمَّ جَعَلَ يُعْطِيهِ النَّاسَ "،
ہمیں یحییٰ بن یحییٰ نے حدیث بیان کی (کہا) ہمیں حفص بن غیاث نے ہشام سے خبر دی انھوں نے محمد بن سیرین سے اور انھوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ تشر یف لا ئے پھر جمرہ عقبہ کے پاس آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر منیٰ میں اپنے پڑاؤ پر آئے اور قربانی کی، پھر بال مونڈنے والے سے فرمایا: " پکڑو۔"اور آپ نے اپنے (سر کی) دائیں طرف اشاراہ کیا پھر بائیں طرف پھر آپ (اپنے موئے مبارک) لوگوں کو دینے لگے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ پہنچنے پر جمرہ عقبہ کے پاس آئے اور اس کو کنکر مارے، پھر منیٰ میں اپنی قیام گاہ پر آئے، اور قربانی کی، پھر حجام سے فرمایا: ”مونڈو۔“ اور اپنی دائیں طرف اشارہ کیا، پھر بائیں طرف آ گے کی، پھر اپنے بال لوگوں کو عنایت کرنے لگے۔
ابو بکر بن ابی شیبہ ابن نمیر اور ابو کریب سب نے کہا ہمیں حفص بن غیاث نے ہشام سے اسی سند کے ساتھ (یہی) حدیث بیان کی لیکن ابو بکر نے اپنی روایت میں یہ الفاظ کہے آپ نے حجام سے کہا: ”یہ لو“ اور اپنے ہا تھ سے اس طرح اپنی دائیں جانب اشارہ کیا (کہ پہلے دائیں طرف سے شروع کرو) اور اپنے بال مبارک اپنے قریب کھڑے ہوئے لوگوں میں تقسم فرما دیے، پھر حجام کو اپنی بائیں جانب کی طرف اشارہ کیا (کہ اب بائیں جانب سے حجامت بناؤ) حجام نے آپ کا سر مونڈ دیا تو آپ نے (اپنے وہ موئے مبارک) ام سلیم رضی اللہ عنہا کو عطا فرما دیے۔ اور ابو کریب کی روایت میں ہے کہا: (حجام نے) دائیں جانب سے شروع کیا تو آپ نے ایک ایک دو دو بال کر کے لوگوں میں تقسیم فرما دیے، پھر آپ نے اپنی بائیں جانب (حجامت بنانے کا) اشارہ فرمایا۔ حجام نے اس طرف بھی وہی کیا (بال مونڈ دیے) پھر آپ نے فرمایا: " کہا یہا ابو طلحہ ہیں؟ پھر آپ نے اپنے موئے مبا رک ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کے حوالے فر ما دیے۔
امام صاحب یہی روایت اپنے تین اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، ابوبکر کی روایت میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجام سے فرمایا: ”لو“ اور اس طرح اپنے ہاتھ سے دائیں طرف اشارہ کیا، اور اس طرف کے بال اپنے قریب موجود لوگوں میں تقسیم کر دئیے، پھر حجام کو بائیں طرف اشارہ کیا، اس نے اس طرف کو مونڈا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بال ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطا فرمائے، ابو کریب کی روایت میں ہے، اس نے دائیں طرف سے شروع کیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان بالوں کو ایک ایک، دو، دو کر کے لوگوں میں بانٹ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں طرف اشارہ کیا، اس نے اس کو بھی اسی طرح مونڈ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”ادھر ابو طلحہ ہے؟“ اور یہ بال ابو طلحہ کو دے دئیے۔
ہمیں عبد الاعلیٰ نے حدیث بیان کی (کہا) ہمیں ہشام (بن حسان) نے محمد (بن سیرین) سے حدیث بیان کی انھوں نے انس بن ما لک رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماریں پھر قربانی کے اونٹوں کی طرف تشریف لے گئے اور انھیں نحر کیا اور حجام (آپ کے لیے) بیٹھا ہوا تھا آپ نے (اسے) اپنے ہاتھ کے ساتھ اپنے سر سے (بال اتارنے کا) اشارہ کیا تو اس نے آپ (کے سر) کی دائیں طرف کے بال اتار دیے۔آپ نے وہ بال ان لوگوں میں بانٹ دیے جو آپ کے قریب موجود تھے۔پھر فرمایا: ”دوسری طرف کے بال (بھی) اتار دو۔“ اس کے بعد آپ نے فرمایا: ”ابو طلحہ کہاں ہیں؟“ اور آپ نے وہ (موئے مبارک) انھیں دے دیے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ پر کنکریاں ماریں، پھر اونٹوں کی طرف پلٹ کر انہیں نحر کیا، اور حجام بیٹھا ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ سے سر کی طرف اشارہ کیا، اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دائیں طرف کے بال مونڈے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریب بیٹھے ہوئے لوگوں میں تقسیم کر دئیے، پھر فرمایا: ”دوسری طرف مونڈوائی“، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا، ”ابو طلحہ کہاں ہے؟“ اور اس طرف کے بال اسے دے دئیے۔
ہم سے سفیان نے حدیث بیان کی (کہا) میں نے ہشام بن حسان سے سنا وہ ابن سیرین سے خبر دے رہے تھے انھوں نے حضرت انس بن ما لک رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ کو کنکریاں ماریں اپنی قربانی (کے اونٹوں) کو نحر کیا اور پھر سر منڈوانے لگے تو آپ نے اپنے سر کی دائیں جا نب مونڈنے والے کی طرف کی تو اس نے اس طرف کے بال اتار دیے آپ نے طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بلا یا اور وہ (بال) ان کے حوالے کر دیے۔پھر آپ نے (سر کی) بائیں جا نب اس کی طرف کی اور فرمایا۔ (اس کے) بالاتاردو۔اس نے وہ بال اتاردیے تو آپ نے وہ بھی ابو طلحہ کو دے دیے اور فرمایا ان (بائیں طرف والے بالوں) کولوگوں میں تقسیم کر دو
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرہ عقبہ پر کنکریاں ماریں، اور اپنی قربانیاں نحر کیں تو سر منڈوایا، سر مونڈنے والے کے سامنے اپنی دائیں طرف کی، اس نے اسے مونڈ دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طلحہ کو طلب کیا، اور وہ بال اسے دے دئیے، پھر حجام کے سامنے بائیں طرف کر کے فرمایا: ”مونڈ۔“ اس نے اسے بھی مونڈ دیا، وہ بال بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طلحہ کو دئیے، اور فرمایا: ”لوگوں میں تقسیم کر دو۔“
57. باب: کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کرنے کا جواز، اور قربانی کرنے اور شیطان کو کنکریاں مارنے سے پہلے سر منڈا لینے کا جواز، اور طواف کو ان سب سے پہلے کرنے کا جواز۔
Chapter: It is permissible to offer the sacrifice before stoning the Jamrah, or to shave before offering the sacrifice or stoning the Jamrah, or to perform Tawaf before any of them
حدثنا يحيى بن يحيى ، قال: قرات على مالك ، عن ابن شهاب ، عن عيسى بن طلحة بن عبيد الله ، عن عبد الله بن عمرو بن العاص ، قال: وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع بمنى للناس يسالونه فجاء رجل، فقال: يا رسول الله، لم اشعر فحلقت قبل ان انحر فقال: " اذبح ولا حرج "، ثم جاءه رجل آخر، فقال: يا رسول الله، لم اشعر فنحرت قبل ان ارمي، فقال: " ارم ولا حرج "، قال: فما سئل رسول الله صلى الله عليه وسلم، عن شيء قدم ولا اخر، إلا قال: " افعل ولا حرج ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، قَالَ: قَرَأْتُ عَلَى مَالِكٍ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عِيسَى بْنِ طَلْحَةَ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِمِنًى لِلنَّاسِ يَسْأَلُونَهُ فَجَاءَ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَشْعُرْ فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ فَقَالَ: " اذْبَحْ وَلَا حَرَجَ "، ثُمَّ جَاءَهُ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَمْ أَشْعُرْ فَنَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، فَقَالَ: " ارْمِ وَلَا حَرَجَ "، قَالَ: فَمَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنْ شَيْءٍ قُدِّمَ وَلَا أُخِّرَ، إِلَّا قَالَ: " افْعَلْ وَلَا حَرَجَ ".
امام مالک نے ابن شہاب سے انھوں نے عیسیٰ بن طلحہ بن عبید اللہ سے انھوں نے عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی انھوں نے کہا حجتہ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں لوگوں کے لیے ٹھہرے رہے وہ آپ سے مسائل پوچھ رہے تھے ایک آدمی آیا اور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول!!میں سمجھ نہ سکا (کہ پہلے کیا ہے) اور میں نے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈوالیا ہے؟ آپ نے فرمایا ؛ (اب) قربانی کر لو کوئی حرج نہیں۔پھر ایک اور آدمی آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول!! مجھے پتہ نہ چلا اور میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی؟ آپ نے فرمایا: " (اب) رمی کر لو کوئی حرج نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی چیز کے متعلق جس میں تقدیم یا تا خیر کی گئی نہیں پو چھا گیا مگر آپ نے (یہی) فرمایا: " (اب) کر لو کوئی حرج نہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں منیٰ میں لوگوں کے لیے ٹھہرے تاکہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر سکیں، ایک آدمی نے آ کر پوچھا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے لا علمی میں قربانی کرنے سے پہلے سر مونڈ لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”قربانی کر، کوئی حرج نہیں ہے۔“ پھر دوسرے نے آ کر پوچھا، اے اللہ کے رسول مجھے پتہ نہیں تھا، میں نے کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کر لی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کنکریاں مار، کوئی حرج نہیں ہے۔“ راوی کا بیان ہے، جس چیز کے بھی مقدم یا مؤخر (آگے پیچھے) کرنے کے بارے میں سوال کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کرو، کوئی حرج نہیں ہے۔“
وحدثني حرملة بن يحيى ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، حدثني عيسى بن طلحة التيمي ، انه سمع عبد الله بن عمرو بن العاص ، يقول: وقف رسول الله صلى الله عليه وسلم على راحلته، فطفق ناس يسالونه، فيقول القائل منهم: يا رسول الله، إني لم اكن اشعر ان الرمي قبل النحر، فنحرت قبل الرمي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فارم ولا حرج "، قال: وطفق آخر يقول: إني لم اشعر ان النحر قبل الحلق، فحلقت قبل ان انحر، فيقول: " انحر ولا حرج "، قال: فما سمعته يسال يومئذ عن امر مما ينسى المرء ويجهل من تقديم بعض الامور قبل بعض واشباهها، إلا قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " افعلوا ذلك ولا حرج "،وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ طَلْحَةَ التَّيْمِيُّ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، يَقُولُ: وَقَفَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَاحِلَتِهِ، فَطَفِقَ نَاسٌ يَسْأَلُونَهُ، فَيَقُولُ الْقَائِلُ مِنْهُمْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي لَمْ أَكُنْ أَشْعُرُ أَنَّ الرَّمْيَ قَبْلَ النَّحْرِ، فَنَحَرْتُ قَبْلَ الرَّمْيِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَارْمِ وَلَا حَرَجَ "، قَالَ: وَطَفِقَ آخَرُ يَقُولُ: إِنِّي لَمْ أَشْعُرْ أَنَّ النَّحْرَ قَبْلَ الْحَلْقِ، فَحَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ، فَيَقُولُ: " انْحَرْ وَلَا حَرَجَ "، قَالَ: فَمَا سَمِعْتُهُ يُسْأَلُ يَوْمَئِذٍ عَنْ أَمْرٍ مِمَّا يَنْسَى الْمَرْءُ وَيَجْهَلُ مِنْ تَقْدِيمِ بَعْضِ الأُمُورِ قَبْلَ بَعْضٍ وَأَشْبَاهِهَا، إِلَّا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " افْعَلُوا ذَلِكَ وَلَا حَرَجَ "،
یو نس نے ابن شہاب سے باقی ماند ہ اسی سند کے ساتھ خبر دی کہ عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کہہ رہے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (منیٰ میں) اپنی سواری پر ٹھہر گئے اور لوگوں نے آپ سے سوالات شروع کر دیے ان میں سے ایک کہنے والا کہہ رہا تھا۔اے اللہ کے رسول!!مجھے معلوم نہ تھا کہ رمی (کا عمل) قربانی سے پہلے ہے میں نے رمی سے پہلے قربا نی کر لی؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " تو (اب) رمی کر لو کوئی حرج نہیں۔کوئی اور شخص کہتا: اے اللہ کے رسول! مجھے معلوم نہ تھا کہ قربانی سر منڈوانے سے پہلے ہے میں نے قر بانی کر نے سے پہلے سر منڈوا لیا ہے؟تو آپ فرماتے (اب) قر بانی کر لو کوئی حرج نہیں۔ (عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے) کہا میں نے آپ سے نہیں سنا کہ اس دن آپ سے ان اعمال کے بارے میں جن میں آدمی بھول سکتا ہے یا لا علم رہ سکتا ہے ان میں سے بعض امور کی تقدیم (وتاخیر) یا ان سے ملتی جلتی باتوں کے بارے میں نہیں پو چھا گیا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہی) فرمایا: " (اب) کر لو کوئی حرج نہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (منٰی میں) اپنی سواری پر وقوف کیا، (ٹھہرے) تو لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے لگے، ان میں سے کسی نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! مجھے علم نہیں تھا کہ رمی (کنکریاں) نحر (قربانی) سے پہلے ہیں، اس لیے میں نے رمی سے پہلے نحر کیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رمی کر لو اور کوئی حرج نہیں ہے۔“ دوسرا کہنے لگا، مجھے معلوم نہیں تھا، کہ نحر، حلق (سر مونڈنا) سے پہلے ہے تو میں نے نحر سے پہلے حلق کر لیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نحر کرو، اور کوئی حرج نہیں ہے۔“ اس دن، جس ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا گیا، جس کو بھول اور ناواقفیت کی بنا پر آ گے پیچھے کیا گیا ہے، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہی فرماتے سنا ”یہ کام کر لو اور کوئی حرج نہیں ہے۔“
وحدثنا علي بن خشرم ، اخبرنا عيسى ، عن ابن جريج ، قال: سمعت ابن شهاب ، يقول: حدثني عيسى بن طلحة ، حدثني عبد الله بن عمرو بن العاص : ان النبي صلى الله عليه وسلم بينا هو يخطب يوم النحر، فقام إليه رجل فقال: ما كنت احسب يا رسول الله، ان كذا وكذا قبل كذا وكذا، ثم جاء آخر، فقال: يا رسول الله، كنت احسب ان كذا قبل كذا وكذا لهؤلاء الثلاث، قال: " افعل ولا حرج "،وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ شِهَابٍ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي عِيسَى بْنُ طَلْحَةَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ : أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَا هُوَ يَخْطُبُ يَوْمَ النَّحْرِ، فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ فَقَالَ: مَا كُنْتُ أَحْسِبُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنَّ كَذَا وَكَذَا قَبْلَ كَذَا وَكَذَا، ثُمَّ جَاءَ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كُنْتُ أَحْسِبُ أَنَّ كَذَا قَبْلَ كَذَا وَكَذَا لِهَؤُلَاءِ الثَّلَاثِ، قَالَ: " افْعَلْ وَلَا حَرَجَ "،
عیسیٰ نے ہمیں ابن جریج سے خبر دی کہا میں نے ابن شہاب سے سنا کہہ رہے تھے عیسیٰ بن طلحہ نے مجھے حدیث بیان کی، کہا مجھے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن راص رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ اس دورا ن میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم قر بانی کے دن خطبہ دے رہے تھے کوئی آدمی آپ کی طرف (رخ کر کے) کھڑا ہوا اور کہا: اے اللہ کے رسول!!میں نہیں سمجھتا تھا کہ فلا ں کا فلاں سے پہلے ہے پھر کوئی اور آدمی آیا اور کہا: اے اللہ کے رسول!!میرا خیال تھا کہ فلا ں کا م فلا ں فلاں سے پہلے ہو گا (انھوں نے) ان تین کا موں (سر منڈوانے رمی اور قر بانی کے بارے میں پو چھا تو) آپ نے یہی فرمایا: " (اب) کر لو کوئی حرج نہیں۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قربانی کے دن (دس ذوالحجہ) کو خطبہ دے رہے تھے کہ اسی اثنا میں ایک آدمی کھڑا ہو کر کہنے لگا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نہیں سمجھتا تھا کہ فلاں فلاں کام فلاں فلاں کام سے پہلے ہے، پھر دوسرا آ کر کہنے لگا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا خیال تھا کہ دونوں کام فلاں فلاں سے پہلے ہیں، ان تین کاموں کے بارے میں کہا، (یعنی رمی، نحر، حلق) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا، ”کر لو، کوئی حرج نہیں ہے۔“
وحدثناه عبد بن حميد ، حدثنا محمد بن بكر . ح وحدثني سعيد بن يحيى الاموي ، حدثني ابي ، جميعا عن ابن جريج ، بهذا الإسناد، اما رواية ابن بكر، فكرواية عيسى، إلا قوله: لهؤلاء الثلاث، فإنه لم يذكر ذلك، واما يحيى الاموي، ففي روايته: حلقت قبل ان انحر، نحرت قبل ان ارمي، واشباه ذلك.وحَدَّثَنَاه عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكْرٍ . ح وحَدَّثَنِي سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى الأُمَوِيُّ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، جَمِيعًا عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ، أَمَّا رِوَايَةُ ابْنِ بَكْرٍ، فَكَرِوَايَةِ عِيسَى، إِلَّا قَوْلَهُ: لِهَؤُلَاءِ الثَّلَاثِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ ذَلِكَ، وَأَمَّا يَحْيَى الأُمَوِيُّ، فَفِي رِوَايَتِهِ: حَلَقْتُ قَبْلَ أَنْ أَنْحَرَ، نَحَرْتُ قَبْلَ أَنْ أَرْمِيَ، وَأَشْبَاهُ ذَلِكَ.
محمد بن بکر اور سعید بن یحییٰ اموی نے اپنے والد (یحییٰ اموی) کے واسطے سے ابن جریج سے اسی سند کے ساتھ (یہی) حدیث بیان کی، ابن بکر کی روایت عیسیٰ کی گزشتہ روایت کی طرح ہے سوائے ان کے اس قول کے "ان تین چیزوں کے بارے میں "اور ہے یحییٰ اموی تو ان کی روایت میں ہے میں نے قر بانی کرنے سے پہلے سر منڈوالیا میں نے رمی کرنے سے پہلے قربانی کر لی اور اسی سے ملتی جلتی باتیں
امام صاحب مذکورہ بالا روایت اپنے دو اساتذہ، عبد بن حمید اور سعید بن یحییٰ اموی سے کرتے ہیں، عبد بن حمید کے استاد ابن ابی بکر کی روایت تو (ان تین چیزوں کے بارے میں کے سوا)(کیونکہ اس نے ان کا ذکر نہیں کیا)، عیسیٰ کی مذکورہ بالا روایت کی طرح ہے، اور یحییٰ اموی کی روایت میں ہے، میں نے نحر سے پہلے حلق کیا، رمی سے پہلے نحر کیا، اور اس جیسا کام۔