33. باب: عمرہ کرنے والے کے لئے اپنے بالوں کے کٹوانے کا جواز، اور سر کا منڈانا واجب نہیں ہے، اور سر کے منڈوانے اور کٹوانے کے استحباب کا بیان۔
Chapter: It is permissible for the pilgrim performing Umrah to shorten his hair and he does not have to shave it. It is recommended for him to shave his hair or shorten it at Al-Marwah
ہشام بن حجیر نے طاوس سے روایت کی، کہا: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا کہ مجھے معاویہ رضی اللہ عنہ نے بتا یا کیا آپ کو معلوم ہے کہ میں نے مروہ کے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال قینچی سے کا ٹے تھے؟میں نے کہا: میں یہ تو نہیں جانتا مگر (یہ جا نتا ہوں کہ) آپ کی یہ بات آپ ہی کے خلا ف دلیل ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، مجھے معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر کے بال مروہ کے پاس، تیر کی دھار یا قینچی سے کاٹے تھے؟ تو میں نے انہیں جواب دیا، میرے نزدیک، میرے علم میں تمہارا یہ فعل، تمہارے خلاف دلیل ہے۔
حسن بن مسلم نے طاوس سے انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت معاویہ ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے انھیں خبر دی کہا: میں نے قینچی سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال تر اشے جبکہ آپ مروہ پر (سعی سے فارغ ہو ئے) تھے۔یا کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ کے بال قینچی سے ترا شے جا رہے تھے، اور آپ مروہ پرتھے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ معاویہ بن سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انہیں بتایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بال مروہ پر، تیر کے پیکان سے کاٹے تھے، یا میں نے آپ صلی الله عليہ وسلم کو دیکھا، مروہ پر آپ صلی الله عليہ وسلم کے بال تیر کے پیکان سے کاٹے جا رہے ہیں۔
عبد الاعلی بن عبد الاعلی نے حدیث بیان کی، (کہا) ہمیں داود نے ابو نضر ہ سے انھوں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے حدیث بیا ن کی، کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انتہائی بلند آواز سے حج کا تلبیہ پکا رتے ہو ئے نکلے۔جب ہم مکہ پہنچے تو آپ نے ہمیں حکم دیا کہ جن کے پاس قربانی ہے ان کے علاوہ ہم تمام اسے (حج کو) عمرے میں بدل دیں۔ جب (ترویہ) آٹھ ذوالحجہ کا دن آیا تو ہم نے احرا م باندھا منیٰ کی طرف روانہ ہو ئے اور حج کا تلبیہ پکا را۔
حضرت ابو سعید بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کے لیے بلند آواز سے تلبیہ کہتے ہوئے نکلے، جب ہم مکہ پہنچے تو آپ صلی الله عليہ وسلم نے ہمیں اس حج کے تلبیہ کو عمرہ قرار دینے کا حکم دیا، ان لوگوں کے سوا جو ہدی لائے تھے، جب ترویہ کا دن آیا اور ہم منیٰ کو چلے تو ہم نے حج کا احرام باندھا۔
وہیب بن خا لد نے داود سے انھوں نے ابو نضرہ سے انھوں نے جابر اور ابو خدری رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، ان دونوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ پہنچے اور ہم بہت بلند آواز سے حج کا تلبیہ پکا ر رہے تھے۔
حضرت جابر اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، ہم مکہ پہنچے اور ہم حج کے لیے بلند آواز سے تلبیہ کہہ رہے تھے۔
حدثني حامد بن عمر البكراوي ، حدثنا عبد الواحد ، عن عاصم ، عن ابي نضرة ، قال: كنت عند جابر بن عبد الله، فاتاه آت، فقال: " إن ابن عباس، وابن الزبير اختلفا في المتعتين "، فقال جابر : " فعلناهما مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم نهانا عنهما عمر، فلم نعد لهما ".حَدَّثَنِي حَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَكْرَاوِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، فَأَتَاهُ آتٍ، فَقَالَ: " إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَابْنَ الزُّبَيْرِ اخْتَلَفَا فِي الْمُتْعَتَيْنِ "، فَقَالَ جَابِرٌ : " فَعَلْنَاهُمَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَهَانَا عَنْهُمَا عُمَرُ، فَلَمْ نَعُدْ لَهُمَا ".
ابو نضر ہ سے روایت ہے کہا: میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موجود تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہ اورابن زبیر رضی اللہ عنہ نے دونوں متعوں (حج تمتع اور عورتوں سے متعہ) کے بارے میں ایک دوسرے سے اختلاف کیا ہے۔حضرت جا بر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ دونوں متعے کیے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں ان دونوں سے روک دیا تو دوبار ہ ہم نے دونوں نہیں کیے۔
ابو نضرہ بیان کرتے ہیں، میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھا، ان کے پاس ایک آدمی آ کر کہنے لگا، حضرت ابن عباس اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالٰ عنہ، متعۃ الحج اور متعۃ النساء کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں، تو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، ہم نے یہ دونوں متعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیے ہیں، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں ان دونوں سے روک دیا تھا، پھر ہم ان کی طرف نہیں لوٹے، یعنی انہیں نہیں کیا۔
حدثني محمد بن حاتم ، حدثنا ابن مهدي ، حدثني سليم بن حيان ، عن مروان الاصفر ، عن انس رضي الله عنه، ان عليا قدم من اليمن، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: " بم اهللت؟ "، فقال: اهللت بإهلال النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لولا ان معي الهدي لاحللت "،حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنِي سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ ، عَنْ مَرْوَانَ الْأَصْفَرِ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ عَلِيًّا قَدِمَ مِنَ الْيَمَنِ، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " بِمَ أَهْلَلْتَ؟ "، فَقَالَ: أَهْلَلْتُ بِإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَوْلَا أَنَّ مَعِي الْهَدْيَ لَأَحْلَلْتُ "،
(عبد الرحمٰن) بن مہدی نے ہمیں حدیث سنا ئی (کہا) مجھے سلیم بن حیا ن نے مروان اصغر سے حدیث سنا ئی، انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ (حجۃ الوداع کے موقع پر) یمن سے مکہ پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: "تم نے کیا تلبیہ پکا را؟انھوں نے جواب دیا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے تلبیے کے مطا بق تلبیہ پکا را۔آپ نے فرمایا: " اگر میرے پاس قربانی نہ ہو تی تو میں ضرور احلال (احرا م سے فراغت) اختیا ر کر لیتا۔"
حضرت انس رضی تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن سے حاضر ہوئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: ”تم نے احرام کس مقصد سے باندھا؟“ انہوں نے جواب دیا، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جیسا احرام باندھا، آپ صلی الله عليہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتی تو میں حلال ہو جاتا۔“
عبد الصمد اور بہزدونوں نے کہا: ہمیں سلیم بن حیان نے اسی سند کے ساتھ اسی کی طرح حدیث بیان کی، البتہ بہز کی روایت میں "حلال ہو جا تا " (احرا م کھو ل دیتا) کے الفا ظ ہیں۔
مصنف صاحب یہی روایت دو اساتذہ سے بیان کرتے ہیں، جس میں بہز اَحْلَلْتُ
ہشیم نے یحییٰ بن ابی اسھاق عبد العزیز بن صہیب اور حمید سے خبر دی کہ ان سب نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا انھوں نے فرمایا: میں نے اللہ کےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو (حج و عمرہ) دونوں کا تلبیہ پکا رتے ہو ئے سنایہ کہتے ہو ئے لبیک عمرۃ وحجا لبیک عمرۃ وحجا اے اللہ! میں حج و عمرہ کے لیے حا ضر ہوں، میں حج وعمرہ کے لیے حا ضر ہوں-
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دونوں کا اکٹھا تلبیہ کہتے ہوئے سنا، (لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَحَجًّا لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَّحَجًّا)
اسماعیل بن ابرا ہیم نے یحییٰ بن ابی اسھاق اور حمید طویل سے خبردی یحییٰ نے کہا: میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا وہ فر ما رہے تھے لبیک عمرۃ وحجا اے اللہ!میں حج و عمرہ کی نیت سے تیرے در پر حاجر ہوں۔حمید نے کہا: حضرت انس رضی اللہ عنہ نے نیان کیا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہو ئے سنا: لبیک عمرۃ وحجاے اللہ!میں حج و عمرہ (کی نیت) کے ساتھ حا ضر ہوں۔
امام صاحب یہی روایت ایک دوسرے استاد سے بیان کرتے ہیں، جس میں ایک راوی (لَبَّيْكَ عُمْرَةً وَّ حَجًّا)
سفیان بن عیینہ نے ہمیں حدیث بیان کی، (کہا) مجھے زہری نے حنظلہ اسلمی کے واسطے سے حدیث بیان کی کہا: میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث بیان کر رہے تھے (کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: "اس ذات اقدس کی قسم جس کے ہا تھ میں میری جا ن ہے۔!ابن مریمؑ (زمین پر دوبارہ آنے کے بعد) فج روھاء (کے مقام) سے حج کا یا عمرے کا یا دونوں کا نام لیتے ہو ئے تلبیہ پکا ریں گے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی الله تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، حضرت ابن مریم علیہ السلام (فَجِ الرَّوْحَاء)