33. باب: عمرہ کرنے والے کے لئے اپنے بالوں کے کٹوانے کا جواز، اور سر کا منڈانا واجب نہیں ہے، اور سر کے منڈوانے اور کٹوانے کے استحباب کا بیان۔
Chapter: It is permissible for the pilgrim performing Umrah to shorten his hair and he does not have to shave it. It is recommended for him to shave his hair or shorten it at Al-Marwah
حدثني حامد بن عمر البكراوي ، حدثنا عبد الواحد ، عن عاصم ، عن ابي نضرة ، قال: كنت عند جابر بن عبد الله، فاتاه آت، فقال: " إن ابن عباس، وابن الزبير اختلفا في المتعتين "، فقال جابر : " فعلناهما مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم نهانا عنهما عمر، فلم نعد لهما ".حَدَّثَنِي حَامِدُ بْنُ عُمَرَ الْبَكْرَاوِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَاحِدِ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، قَالَ: كُنْتُ عِنْدَ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، فَأَتَاهُ آتٍ، فَقَالَ: " إِنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، وَابْنَ الزُّبَيْرِ اخْتَلَفَا فِي الْمُتْعَتَيْنِ "، فَقَالَ جَابِرٌ : " فَعَلْنَاهُمَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ نَهَانَا عَنْهُمَا عُمَرُ، فَلَمْ نَعُدْ لَهُمَا ".
ابو نضر ہ سے روایت ہے کہا: میں جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں موجود تھا کہ ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہا: ابن عباس رضی اللہ عنہ اورابن زبیر رضی اللہ عنہ نے دونوں متعوں (حج تمتع اور عورتوں سے متعہ) کے بارے میں ایک دوسرے سے اختلاف کیا ہے۔حضرت جا بر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ دونوں متعے کیے پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمیں ان دونوں سے روک دیا تو دوبار ہ ہم نے دونوں نہیں کیے۔
ابو نضرہ بیان کرتے ہیں، میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس تھا، ان کے پاس ایک آدمی آ کر کہنے لگا، حضرت ابن عباس اور حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالٰ عنہ، متعۃ الحج اور متعۃ النساء کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں، تو حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، ہم نے یہ دونوں متعے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیے ہیں، پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہمیں ان دونوں سے روک دیا تھا، پھر ہم ان کی طرف نہیں لوٹے، یعنی انہیں نہیں کیا۔
الله كان يحل لرسوله ما شاء بما شاء إن القرآن قد نزل منازله أتموا الحج والعمرة لله كما أمركم الله أبتوا نكاح هذه النساء فلن أوتى برجل نكح امرأة إلى أجل إلا رجمته بالحجارة
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3025
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: متعۃ الحج سے مراد حج تمتع اور حج قران ہے کیونکہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حج افراد کی ترغیب دیتے تھے اور متعۃ النساء کی بحث نکاح کے باب میں آئے گی۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3025
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1787
´حج افراد کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کا احرام باندھا اس میں کسی اور چیز کو شامل نہیں کیا، پھر ہم ذی الحجہ کی چار راتیں گزرنے کے بعد مکہ آئے تو ہم نے طواف کیا، سعی کی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں احرام کھولنے کا حکم دے دیا اور فرمایا: ”اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا“، پھر سراقہ بن مالک رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور بولے: اللہ کے رسول! یہ ہمارا متعہ (حج کا متعہ) اسی سال کے لیے ہے یا ہمیشہ کے لیے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(نہیں) بلکہ یہ ہمیشہ کے لیے ہے“۱؎۔ اوزاعی کہتے ہیں: میں نے عطا بن ابی رباح کو اسے بیان کرتے سنا تو میں اسے یاد نہیں کر سکا یہاں تک کہ میں ابن جریج سے ملا تو انہوں نے مجھے اسے یاد کرا دیا۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1787]
1787. اردو حاشیہ: حج کے دنوں میں یا حج کے ساتھ ہی عمرہ بغیر کسی اشکال کے جائز ہے جبکہ ایام جاہلیت میں اسے بہت بڑا گناہ سمجھا جاتا تھا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1787
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2807
´جو شخص ہدی ساتھ نہ لے جائے وہ حج عمرہ میں تبدیل کر کے احرام کھول سکتا ہے۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے خالص حج کا احرام باندھا، اس کے ساتھ اور کسی چیز کی نیت نہ تھی۔ تو ہم ۴ ذی الحجہ کی صبح کو مکہ پہنچے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں حکم دیا ”احرام کھول ڈالو اور اسے (حج کے بجائے) عمرہ بنا لو“، تو آپ کو ہمارے متعلق یہ اطلاع پہنچی کہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ہمارے اور عرفہ کے درمیان صرف پانچ دن باقی رہ گئے ہیں اور آپ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن نسائي/كتاب مناسك الحج/حدیث: 2807]
اردو حاشہ: (1)”کسی اور چیز کی نیت نہیں تھی۔“ شروع میں ایسا ہی تھا۔ بعض روایات میں ہے کہ بعض نے عمرے کا احرام باندھا تھا، پھر مکہ مکرمہ کے قریب جا کر عمرے کے لزوم کا حکم اترا تو وہاں سب نے حج کے ساتھ عمرہ بھی داخل کر لیا، پھر قربانیوں والے محرم رہے، دوسرے عمرہ کر کے حلال ہوگئے۔ حج کا احرام الگ باندھا۔ یہ توجیہ بہتر ہے کیونکہ اس طرح تمام احادیث اپنے معنی پر رہتی ہیں۔ (2)”منی بہا رہے ہوں گے۔“ یہ بطور مبالغہ کہا کہ حج سے اس قدر قریب جماع کرنا مناسب نہیں۔ یہ تقبیح کے لیے الفاظ ذکر کر دیے ورنہ انھیں کوئی بیماری تو نہیں تھی کہ ایسے ہوتا۔ اور حج کو تو احرام باندھ کر جانا تھا۔ (3)”تم سے بڑھ کر نیک“ یعنی جس کام کا میں حکم دوں، جو کام میں کروں، اس سے پرہیز کرنا حماقت ہے۔ اگر وہ کام قبیح ہوتا تو میں حکم ہی نہ دیتا۔ (4)”جس کا بعد میں پتا چلا“ کہ عمرہ کرنا لازم ہو جائے گا۔ (5)”ہمیشہ کے لیے“ یعنی تمتع قیامت تک کے لیے جائز ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2807
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2980
´حج کا احرام فسخ کر کے اس کو عمرہ میں تبدیل کرنے کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صرف حج کا تلبیہ کہا (یعنی احرام باندھا)، اس میں عمرہ کو شریک نہیں کیا ۱؎، پھر ہم مکہ پہنچے تو ذی الحجہ کی چار راتیں گزر چکی تھیں، جب ہم نے خانہ کعبہ کا طواف کیا، اور صفا و مروہ کے درمیان سعی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو حکم دیا کہ ہم اسے عمرہ میں تبدیل کر دیں، اور اپنی بیویوں کے لیے حلال ہو جائیں، ہم نے عرض کیا: اب عرفہ میں صرف پانچ دن رہ گئے ہیں، اور کیا ہم عرفات کو اس حال میں نکلیں کہ شرمگاہوں سے منی ٹپک رہی ہو؟ یہ سن کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2980]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) اگر احرام باندھتے وقت صرف حج کی نیت کی گئی ہو تو بعد میں نیت تبدیل کرکے عمرے کی نیت کی جاسکتی ہے۔
(2) جس کام کی شریعت نے اجازت دی ہے اسے نامناسب سمجھنا کوئی نیکی نہیں۔
(3) جس کے ساتھ قربانی کا جانور ہو وہ حج تمتع نہیں کرسکتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2980
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3024
حضرت جابر اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، ہم مکہ پہنچے اور ہم حج کے لیے بلند آواز سے تلبیہ کہہ رہے تھے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3024]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: نَصْرَخُ صَرَاخاً: آواز بلند کر رہے تھے۔