الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
حج کے احکام و مسائل
The Book of Pilgrimage
حدیث نمبر: 2951
Save to word اعراب
وحدثنا عمر بن حفص بن غياث ، حدثنا ابي ، حدثنا جعفر بن محمد ، حدثني ابي ، قال: اتيت جابر بن عبد الله ، فسالته عن حجة رسول الله صلى الله عليه وسلم، وساق الحديث بنحو حديث حاتم بن إسماعيل، وزاد في الحديث: وكانت العرب يدفع بهم ابو سيارة على حمار عري، فلما اجاز رسول الله صلى الله عليه وسلم من المزدلفة بالمشعر الحرام، لم تشك قريش انه سيقتصر عليه ويكون منزله، ثم فاجاز ولم يعرض له حتى اتى عرفات فنزل.وحَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: أَتَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ حَاتِمِ بْنِ إِسْمَاعِيل، وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ: وَكَانَتِ الْعَرَبُ يَدْفَعُ بِهِمْ أَبُو سَيَّارَةَ عَلَى حِمَارٍ عُرْيٍ، فَلَمَّا أَجَازَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُزْدَلِفَةِ بِالْمَشْعَرِ الْحَرَامِ، لَمْ تَشُكَّ قُرَيْشٌ أَنَّهُ سَيَقْتَصِرُ عَلَيْهِ وَيَكُونُ مَنْزِلُهُ، ثَمَّ فَأَجَازَ وَلَمْ يَعْرِضْ لَهُ حَتَّى أَتَى عَرَفَاتٍ فَنَزَلَ.
عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا: مجھے میرے والد (حفص بن غیاث) نے حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں جعفر بن محمد نے بیان کیا، (کہا:) مجھے میرے والد نے حدیث بیا ن کی کہ میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے متعلق سوال کیا، آگے حاتم بن اسماعیل کی طرح حدیث بیان کی، البتہ (اس) حدیث میں یہ اضافہ کیا: (اسلام سے قبل) عرب کو ابو سیارہ نامی شخص اپنے بے پالان گدھے پر لے کر چلتا تھا۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (منیٰ سے آتے ہوئے) مزدلفہ میں مشعر حرام کوعبور کیا قریش کو یقین تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی پر رک جائیں گے (مزید آگے نہیں بڑھیں گے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام گاہ یہیں ہوگی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے گزر گئے اور اس کی طرف رخ نہ کیا حتیٰ کہ عرفات تشریف لے آئے اور وہاں پڑاؤ فرمایا۔
جعفر بن محمد رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے باپ نے بتایا، میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے بارے میں دریافت کیا، آ گے حاتم بن اسماعیل کی مذکورہ بالا روایت کی طرح بیان کیا، اس حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ عربوں کا دستور تھا، انہیں ایک ابو سیارہ نامی آدمی گدھے کی ننگی پشت پر سوار ہو کر مزدلفہ سے واپس منیٰ لاتا تھا، تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ سے مشعر حرام کی طرف بڑھ گئے، تو قریش کو یقین تھا کہ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اس پر کفایت کریں گے (مشعر حرام سے وقوف کریں گے) اور یہی آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی منزل یا پڑاؤ ہو گا، مگر آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اس سے بھی آ گے گزر گئے، اور اس کی طرف توجہ نہ کی، حتی کہ عرفات پہنچ کر اترے۔
20. باب مَا جَاءَ أَنَّ عَرَفَةَ كُلَّهَا مَوْقِفٌ:
20. باب: اس بارے میں کہ عرفات سارا ہی ٹھہر نے کی جگہ ہے۔
Chapter: All of Arafat is a place of standing
حدیث نمبر: 2952
Save to word اعراب
حدثنا عمر بن حفص بن غياث ، حدثنا ابي ، عن جعفر ، حدثني ابي ، عن جابر في حديثه ذلك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " نحرت هاهنا ومنى كلها منحر، فانحروا في رحالكم، ووقفت هاهنا وعرفة كلها موقف، ووقفت هاهنا وجمع كلها موقف ".حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَابِرٍ فِي حَدِيثِهِ ذَلِكَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " نَحَرْتُ هَاهُنَا وَمِنًى كُلُّهَا مَنْحَرٌ، فَانْحَرُوا فِي رِحَالِكُمْ، وَوَقَفْتُ هَاهُنَا وَعَرَفَةُ كُلُّهَا مَوْقِفٌ، وَوَقَفْتُ هَاهُنَا وَجَمْعٌ كُلُّهَا مَوْقِفٌ ".
حضرت جعفر ؒ نے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی، (کہا:) مجھے میرے والد نے جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کردہ اپنی اس حدیث میں یہ بھی بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں نے یہاں قربانی کی ہے۔ (لیکن) پورا منیٰ قربان گاہ ہے، اس لئے تم اپنے اپنے پڑاؤ ہی پر قربانی کرو، میں نے اسی جگہ وقوف کیا ہے (لیکن) پورا عرفہ ہے مقام وقوف ہے اور میں نے (مزدلفہ میں) یہاں وقوف کیا ہے (ٹھہرا ہوں۔) اور پورا مزدلفہ موقف ہے (اس میں کہیں بھی پڑاؤ کیا جاسکتاہے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے یہاں نحر کیا ہے، اور منیٰ کا ہر حصہ قربان گاہ ہے، اپنے پڑاؤ میں نحر کر سکتے ہو، اور میں یہاں ٹھہرا ہوں، اور عرفہ پورے کا پورا قیام گاہ ہے، اور جمع (مزدلفہ) کی ہر جگہ قیام گاہ ہے اور میں یہاں ٹھہرا ہوں۔
حدیث نمبر: 2953
Save to word اعراب
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا يحيى بن آدم ، حدثنا سفيان ، عن جعفر بن محمد ، عن ابيه ، عن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لما قدم مكة اتى الحجر فاستلمه، ثم مشى على يمينه فرمل ثلاثا ومشى اربعا ".وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا قَدِمَ مَكَّةَ أَتَى الْحَجَرَ فَاسْتَلَمَهُ، ثُمَّ مَشَى عَلَى يَمِينِهِ فَرَمَلَ ثَلَاثًا وَمَشَى أَرْبَعًا ".
سفیان (ثوری) نے جعفر بن محمد سے، انھوں نے اپنے والد سے، انھوں نے سابقہ سند کے ساتھ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لائے تو حجر اسود کے پاس آئے، اسے بوسہ دیا، پھر (طواف کے لئے) اپنی دائیں جانب روانہ ہوئے۔ (تین چکروں میں) چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے تیزی سے اور (باقی) چار میں عام رفتار سے چلے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ معظمہ تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حجر اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دیا، پھر اپنے دائیں جانب چلے، تین چکروں میں رمل کیا اور چار چکر عام چال میں لگائے۔
21. باب فِي الْوُقُوفِ وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ}:
21. باب: وقوف کے بارے میں، اور اللہ تعالیٰ کے اس قول کے بارے میں «ثم افيضوا من حيث افاض الناس» ۔
Chapter: The Standing and the Saying of Allah, The Most High: "Then depart from the place whence all the people depart"
حدیث نمبر: 2954
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى ، اخبرنا ابو معاوية ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه عن عائشة رضي الله عنها، قالت: " كان قريش ومن دان دينها يقفون بالمزدلفة، وكانوا يسمون الحمس، وكان سائر العرب يقفون بعرفة، فلما جاء الإسلام، امر الله عز وجل نبيه صلى الله عليه وسلم ان ياتي عرفات فيقف بها، ثم يفيض منها، فذلك قوله عز وجل: ثم افيضوا من حيث افاض الناس سورة البقرة آية 199 ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " كَانَ قُرَيْشٌ وَمَنْ دَانَ دِينَهَا يَقِفُونَ بِالْمُزْدَلِفَةِ، وَكَانُوا يُسَمَّوْنَ الْحُمْسَ، وَكَانَ سَائِرُ الْعَرَبِ يَقِفُونَ بِعَرَفَةَ، فَلَمَّا جَاءَ الْإِسْلَامُ، أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَأْتِيَ عَرَفَاتٍ فَيَقِفَ بِهَا، ثُمَّ يُفِيضَ مِنْهَا، فَذَلِكَ قَوْلُهُ عَزَّ وَجَلَّ: ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ سورة البقرة آية 199 ".
ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ قریش اور وہ لوگ جو قریش کے دین پر تھے، مزدلفہ میں وقوف کرتے تھے اور اپنے کو حمس کہتے تھے (ابوالہیثم نے کہا ہے کہ یہ نام قریش کا ہے اور ان کی اولاد کا اور کنانہ اور جدیلہ قیس کا اس لئے کہ وہ اپنے دین میں حمس رکھتے تھے یعنی تشدد اور سختی کرتے تھے) اور باقی عرب کے لوگ عرفہ میں وقوف کرتے تھے۔ پھر جب اسلام آیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم فرمایا کہ عرفات میں آئیں اور وہاں وقوف فرمائیں اور وہیں سے لوٹیں۔ اور یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ وہیں سے لوٹو جہاں سے سب لوگ لوٹتے ہیں۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ قریش اور ان کے طریقہ پر چلنے والے، مزدلفہ میں ٹھہر جاتے تھے اور خود کو حُمس (دین میں متصلب اور پختہ) کہتے تھے اور باقی عرب عرفہ میں وقوف کرتے تھے، جب اسلام کا دور آیا، تو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کو عرفات پہنچ کر وقوف کرنے کا حکم دیا، پھر وہاں سے واپس لوٹے، اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: پھر وہاں سے لوٹو، جہاں سے دوسرے لوگ لوٹتے ہیں۔ (سورۃ البقرۃ: آیت نمبر 199)
حدیث نمبر: 2955
Save to word اعراب
وحدثنا ابو كريب ، حدثنا ابو اسامة ، حدثنا هشام ، عن ابيه ، قال: " كانت العرب تطوف بالبيت عراة إلا الحمس والحمس قريش، وما ولدت كانوا يطوفون عراة إلا ان تعطيهم الحمس ثيابا، فيعطي الرجال الرجال والنساء النساء، وكانت الحمس لا يخرجون من المزدلفة، وكان الناس كلهم يبلغون عرفات "، قال هشام: فحدثني ابي، عن عائشة رضي الله عنها، قالت: " الحمس هم الذين انزل الله عز وجل فيهم: ثم افيضوا من حيث افاض الناس سورة البقرة آية 199، قالت: كان الناس يفيضون من عرفات وكان الحمس يفيضون من المزدلفة يقولون: لا نفيض إلا من الحرم، فلما نزلت افيضوا من حيث افاض الناس سورة البقرة آية 199 رجعوا إلى عرفات ".وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " كَانَتِ الْعَرَبُ تَطُوفُ بِالْبَيْتِ عُرَاةً إِلَّا الْحُمْسَ وَالْحُمْسُ قُرَيْشٌ، وَمَا وَلَدَتْ كَانُوا يَطُوفُونَ عُرَاةً إِلَّا أَنْ تُعْطِيَهُمُ الْحُمْسُ ثِيَابًا، فَيُعْطِي الرِّجَالُ الرِّجَالَ وَالنِّسَاءُ النِّسَاءَ، وَكَانَتِ الْحُمْسُ لَا يَخْرُجُونَ مِنَ الْمُزْدَلِفَةِ، وَكَانَ النَّاسُ كُلُّهُمْ يَبْلُغُونَ عَرَفَاتٍ "، قَالَ هِشَامٌ: فَحَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، قَالَتْ: " الْحُمْسُ هُمُ الَّذِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ فِيهِمْ: ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ سورة البقرة آية 199، قَالَتْ: كَانَ النَّاسُ يُفِيضُونَ مِنْ عَرَفَاتٍ وَكَانَ الْحُمْسُ يُفِيضُونَ مِنَ الْمُزْدَلِفَةِ يَقُولُونَ: لَا نُفِيضُ إِلَّا مِنَ الْحَرَمِ، فَلَمَّا نَزَلَتْ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ سورة البقرة آية 199 رَجَعُوا إِلَى عَرَفَاتٍ ".
ابو اسامہ نے کہا، ہمیں ہشام نے اپنے والد سے بیان کیا، کہا: حمس (کہلانے والے قبائل) کے علاوہ عرب (کےتمام قبائل) عریاں ہوکر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے۔حمس (سے مراد) قریش اور ان (کی باہر بیاہی ہوئی خواتین) کے ہاں جنم لینے والے ہیں۔عام لوگ برہنہ ہی طواف کرتے تھے، سوائے ان کے جنھیں اہل حمس کپڑے دے دیتے (دستور یہ تھا کہ) مرد مردوں کو (طواف کے لئے) لباس دیتے اورعورتین عورتوں کو۔ (اسی طرح) حمس (دوران حج) مزدلفہ سے آگے نہیں بڑھتے تھے اور باقی سب لوگو عرفات تک پہنچتے تھے۔ ہشام نے کہا: مجھے میرے والد (عروہ) نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث بیا ن کی، انھوں نےفرمایا: یہ حمس ہی تھے جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: "پھر تم وہیں سے (طواف کے لئے) چلو جہاں سے (دوسرے) لوگ چلیں۔"انھوں نےفرمایا: لوگ (حج میں) عرفات سے لوٹتے تھے اور اہل حمس مزدلفہ سےچلتے تھے اور کہتے تھے: ہم حرم کے سوا کہیں اور سے نہیں چلیں گے جب آیت"پھر تم وہیں سے چلو جہاں سے دوسرے لوگ چلیں"نازل ہوئی تو یہ عرفات کی طرف لوٹ آئے۔
ہشام اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ عرب حُمس قریش کو چھوڑ کر، بیت اللہ کا ننگے طواف کرتے تھے، اور حُمس سے مراد قریش اور ان کی اولاد ہے، عرب ان کے سوا جن کو قریش کپڑے عنایت کر دیتے، برہنہ طواف کرتے تھے، مرد، مردوں کو کپڑے دیتے اور عورتیں عورتوں کو دیتیں، اور حُمس مزدلفہ سے باہر نہیں نکلتے تھے، اور باقی سب لوگ عرفات پہنچتے تھے، ہشام کہتے ہیں، مجھے میرے باپ نے حضرت عائشہ رضی الله تعالی عنها سے نقل کیا کہ حُمس ہی کی بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا: پھر وہاں سے واپس لوٹو، جہاں سے لوگ واپس لوٹتے ہیں۔ وہ بیان فرماتی ہیں کہ سب لوگ عرفات سے واپس لوٹتے اور حُمس مزدلفہ سے واپس آ جاتے تھے، وہ کہتے تھے، ہم حرم ہی سے واپس لوٹ آئیں گے، تو جب یہ آیت نازل ہوئی، وہاں سے واپس لوٹو، جہاں سے لوگ واپس لوٹتے ہیں۔ تو وہ عرفات تک پہنچ کر لوٹنے لگے۔
حدیث نمبر: 2956
Save to word اعراب
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وعمرو الناقد جميعا، عن ابن عيينة ، قال عمرو: حدثنا سفيان بن عيينة، عن عمرو ، سمع محمد بن جبير بن مطعم يحدث، عن ابيه جبير بن مطعم ، قال: " اضللت بعيرا لي فذهبت اطلبه يوم عرفة، فرايت رسول الله صلى الله عليه وسلم واقفا مع الناس بعرفة، فقلت: والله إن هذا لمن الحمس، فما شانه هاهنا وكانت قريش تعد من الحمس ".وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ جَمِيعًا، عَنِ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ عَمْرٌو: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ عَمْرٍو ، سَمِعَ مُحَمَّدَ بْنَ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِيهِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ ، قَالَ: " أَضْلَلْتُ بَعِيرًا لِي فَذَهَبْتُ أَطْلُبُهُ يَوْمَ عَرَفَةَ، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاقِفًا مَعَ النَّاسِ بِعَرَفَةَ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ إِنَّ هَذَا لَمِنَ الْحُمْسِ، فَمَا شَأْنُهُ هَاهُنَا وَكَانَتْ قُرَيْشٌ تُعَدُّ مِنَ الْحُمْسِ ".
حمد بن جبیر بن معطم نے اپنے والد حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے اپنا ایک اونٹ کھو دیا، میں عرفہ کے دن اسے تلاش کرنے کے لیے نکلا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے ساتھ عرفات میں کھڑے دیکھا، میں نے کہا: اللہ کی قسم!یہ (محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) تو اہل حمس میں سے ہیں، آپ کا یہاں (عرفات میں) کیا کام؟ (کیونکہ) قریش حمس میں شمار ہوتے تھے (اورآپ قریشی ہی تھے۔)
حضرت جبیر بن معطم رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میرا اونٹ گم ہو گیا اور میں اس کی تلاش میں عرفہ کے دن نکلا، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے ساتھ عرفات میں ٹھہرے ہوئے دیکھا، میں نے دل میں کہا، اللہ کی قسم! یہ تو حمس سے ہیں، تو وہ اس جگہ کیوں آ گئے؟ قریش حمس میں شمار ہوتے تھے۔
22. بَابُ جَوَازِ تَعْلِيقِ الْإِحْرَامِ وَهُوَ أَنْ يُحْرِمَ بِإِحْرَامٍٍ كَإِحْرَامِ فُلَانٍ فَيَصِير مُحْرِمًا بِإِحْرَامٍ مِثْلَ إِحْرَامِ فُلَانٍ
22. باب: اپنے احرام کو دوسرے محرم کے احرام کے ساتھ معلق کر نے کا جواز۔
Chapter: It is permissible to base one's intention for Ihram on the intention of another
حدیث نمبر: 2957
Save to word اعراب
حدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، قال ابن المثنى: حدثنا محمد بن جعفر ، اخبرنا شعبة ، عن قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب ، عن ابي موسى ، قال: قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو منيخ بالبطحاء، فقال لي: " احججت؟ "، فقلت: نعم، فقال: " بم اهللت؟ "، قال: قلت: لبيك بإهلال كإهلال النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " فقد احسنت، طف بالبيت، وبالصفا والمروة، واحل "، قال: فطفت بالبيت وبالصفا والمروة ثم اتيت امراة من بني قيس ففلت راسي، ثم اهللت بالحج، قال: فكنت افتي به الناس حتى كان في خلافة عمر رضي الله عنه، فقال له رجل: يا ابا موسى او يا عبد الله بن قيس رويدك بعض فتياك، فإنك لا تدري ما احدث امير المؤمنين في النسك بعدك، فقال: يا ايها الناس من كنا افتيناه فتيا فليتئد فإن امير المؤمنين قادم عليكم فبه فائتموا، قال: فقدم عمر رضي الله عنه، فذكرت ذلك له، فقال: إن ناخذ بكتاب الله فإن كتاب الله يامر بالتمام، وإن ناخذ بسنة رسول الله صلى الله عليه وسلم فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم لم يحل حتى بلغ الهدي محله،حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُنِيخٌ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ لِي: " أَحَجَجْتَ؟ "، فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ: " بِمَ أَهْلَلْتَ؟ "، قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ بِإِهْلَالٍ كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " فَقَدْ أَحْسَنْتَ، طُفْ بِالْبَيْتِ، وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، وَأَحِلَّ "، قَالَ: فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ بَنِي قَيْسٍ فَفَلَتْ رَأْسِي، ثُمَّ أَهْلَلْتُ بِالْحَجِّ، قَالَ: فَكُنْتُ أُفْتِي بِهِ النَّاسَ حَتَّى كَانَ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا أَبَا مُوسَى أَوْ يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ رُوَيْدَكَ بَعْضَ فُتْيَاكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي النُّسُكِ بَعْدَكَ، فَقَالَ: يَا أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ فُتْيَا فَلْيَتَّئِدْ فَإِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ فَبِهِ فَائْتَمُّوا، قَالَ: فَقَدِمَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنَّ كِتَابَ اللَّهِ يَأْمُرُ بِالتَّمَامِ، وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى بَلَغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ،
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی کنکریلی زمین میں اونٹ بٹھائے ہوئے تھے (یعنی وہاں منزل کی ہوئی تھی) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ تم نے کس نیت سے احرام باندھا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ جس نیت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم قربانی ساتھ لائے ہو؟ میں نے کہا نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کر کے احرام کھول ڈالو۔ پس میں نے بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کی، پھر میں اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا (یہ ان کی محرم تھی) تو اس نے میرے سر میں کنگھی کی اور میرا سر دھو دیا۔ پھر میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت میں لوگوں کو یہی فتویٰ دینے لگا۔ (یعنی جو بغیر قربانی کے حج پر آئے تو وہ عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دے، پھر یوم الترویہ 8۔ ذوالحج کو دوبارہ حج کا احرام باندھے لیکن) ایک مرتبہ میں حج کے مقام پر کھڑا تھا کہ اچانک ایک شخص آیا، اس نے کہا کہ (تو تو احرام کھولنے کا فتویٰ دیتا ہے) آپ جانتے ہیں کہ امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قربانی کے متعلق نیا کام شروع کر دیا۔ (یعنی عمر رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا کہ عمرہ کر کے احرام کو کھولنا نہیں چاہئے) تو میں نے کہا اے لوگو! ہم نے جس کو اس مسئلے کا فتویٰ دیا ہے اس کو رک جانا چاہئے۔ کیونکہ امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آنے والے ہیں لہٰذا ان کی پیروی کرو۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے تو میں نے کہا، امیرالمؤمنین آپ نے قربانی کے متعلق یہ کیا نیا مسئلہ بتایا ہے؟ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر آپ اللہ کی کتاب قرآن پر عمل کریں تو قرآن کہتا ہے: ((وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَ‌ۃَ لِلَّـہِ ۚ)) یعنی حج اور عمرہ کو اللہ کے لئے پورا کرو (یعنی احرام نہ کھولو) اور اگر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کریں تو ان کا اپنا طریقہ یہ تھا کہ انہوں نے احرام اس وقت تک نہ کھولا جب تک قربانی نہ کر لی۔ (آپ عمرہ اورحج کے درمیان حلال نہیں ہوئے)
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس وقت پہنچا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بطحاء میں پڑاؤ کیے ہوئے تھے، آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا: کیا حج کا احرام باندھا ہے؟ میں نے عرض کیا، جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے کیسے تلبیہ کہا ہے؟ میں نے کہا، حاضر ہوں (لبیک) اس اہلال (احرام) کی نیت سے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا احرام ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو نے اچھا کیا ہے، بیت اللہ اور صفا اور مروہ کا طواف کرو اور احرام ختم کر کے حلال ہو جاؤ۔ میں نے بیت اللہ، اور صفا و مروہ کا طواف کیا، پھر (اپنے قبیلہ) بنو قیس کی ایک عورت کے پاس آیا، اس نے میرے سر کی جوئیں نکالیں، پھر میں نے حج کا احرام باندھا، اور میں لوگوں کو اس کا فتویٰ دیا کرتا تھا، حتی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا دور آ گیا، تو مجھے ایک آدمی نے کہا، اے ابو موسیٰ! یا اے عبداللہ بن قیس! اپنے بعض فتوؤں سے رک جاؤ، کیونکہ تمہیں معلوم نہیں ہے، تیرے بعد امیر المؤمنین نے حج کے بارے میں کیا نیا فرمان جاری کیا ہے، تو حضرت ابو موسیٰ نے کہا، اے لوگو! جسے ہم نے فتویٰ دیا ہے، وہ ذرا توقف کرے، کیونکہ امیر المؤمنین آ رہے ہیں، انہیں کی اقتدا کرنا (پیروی کرنا)، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لائے، تو میں نے ان سے اس واقعہ کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے فرمایا، اگر ہم کتاب اللہ پر عمل پیرا ہوں، تو وہ ہمیں (حج اور عمرہ الگ الگ) پورا کرنے کا حکم دیتی ہے، اور اگر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک حلال نہیں ہوئے، جب تک ہدی اپنے محل پر نہیں پہنچ گئی، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نحر سے پہلے حلال نہیں ہوئے۔
حدیث نمبر: 2958
Save to word اعراب
وحدثناه عبيد الله بن معاذ ، حدثنا ابي ، حدثنا شعبة في هذا الإسناد نحوه.وحَدَّثَنَاه عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ.
معاذ بن معاذ نے کہا: ہمیں شعبہ نے اسی سندسے اسی کے مانند حدیث بیان کی۔
یہی روایت امام صاحب ایک دوسرے استاد سے بیان کرتے ہیں۔
حدیث نمبر: 2959
Save to word اعراب
وحدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا عبد الرحمن يعني ابن مهدي ، حدثنا سفيان ، عن قيس ، عن طارق بن شهاب ، عن ابي موسى رضي الله عنه، قال: قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو منيخ بالبطحاء، فقال: " بم اهللت؟ "، قال: قلت: اهللت بإهلال النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " هل سقت من هدي؟ "، قلت: لا، قال: " فطف بالبيت وبالصفا والمروة، ثم حل "، فطفت بالبيت وبالصفا والمروة، ثم اتيت امراة من قومي فمشطتني وغسلت راسي، فكنت افتي الناس بذلك في إمارة ابي بكر وإمارة عمر، فإني لقائم بالموسم إذ جاءني رجل، فقال: إنك لا تدري ما احدث امير المؤمنين في شان النسك، فقلت: ايها الناس من كنا افتيناه بشيء فليتئد فهذا امير المؤمنين قادم عليكم فبه، فائتموا فلما قدم، قلت: يا امير المؤمنين ما هذا الذي احدثت في شان النسك؟، قال: إن ناخذ بكتاب الله فإن الله عز وجل قال: واتموا الحج والعمرة لله سورة البقرة آية 196 وإن ناخذ بسنة نبينا عليه الصلاة والسلام فإن النبي صلى الله عليه وسلم لم يحل حتى نحر الهدي،وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ قَيْسٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُنِيخٌ بِالْبَطْحَاءِ، فَقَالَ: " بِمَ أَهْلَلْتَ؟ "، قَالَ: قُلْتُ: أَهْلَلْتُ بِإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " هَلْ سُقْتَ مِنْ هَدْيٍ؟ "، قُلْتُ: لَا، قَالَ: " فَطُفْ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ حِلَّ "، فَطُفْتُ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَتَيْتُ امْرَأَةً مِنْ قَوْمِي فَمَشَطَتْنِي وَغَسَلَتْ رَأْسِي، فَكُنْتُ أُفْتِي النَّاسَ بِذَلِكَ فِي إِمَارَةِ أَبِي بَكْرٍ وَإِمَارَةِ عُمَرَ، فَإِنِّي لَقَائِمٌ بِالْمَوْسِمِ إِذْ جَاءَنِي رَجُلٌ، فَقَالَ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ، فَقُلْتُ: أَيُّهَا النَّاسُ مَنْ كُنَّا أَفْتَيْنَاهُ بِشَيْءٍ فَلْيَتَّئِدْ فَهَذَا أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ قَادِمٌ عَلَيْكُمْ فَبِهِ، فَائْتَمُّوا فَلَمَّا قَدِمَ، قُلْتُ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ مَا هَذَا الَّذِي أَحْدَثْتَ فِي شَأْنِ النُّسُكِ؟، قَالَ: إِنْ نَأْخُذْ بِكِتَابِ اللَّهِ فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَالَ: وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّهِ سورة البقرة آية 196 وَإِنْ نَأْخُذْ بِسُنَّةِ نَبِيِّنَا عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَام فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَحِلَّ حَتَّى نَحَرَ الْهَدْيَ،
سفیان ثوری نے قیس (بن مسلم) سے، انھوں نے طارق بن شہاب سے، انھوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مکہ سے باہروادی) بطحاء میں سواریاں بٹھائے ہوئے (پڑاؤڈالے ہوئے) تھےتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا کہ "تم نے کون سا تلبیہ پکارا ہے؟ (حج کا، عمرے کا، یا دونوں کا؟) "میں نے عرض کی: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم والا تلبیہ پکارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم قربانی ساتھ لائے ہو؟ میں نے کہا نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کر کے احرام کھول ڈالو۔ پس میں نے بیت اللہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کی، پھر میں اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا (یہ ان کی محرم تھی) تو اس نے میرے سر میں کنگھی کی اور میرا سر دھو دیا۔ پھر میں ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خلافت میں لوگوں کو یہی فتویٰ دینے لگا۔ (یعنی جو بغیر قربانی کے حج پر آئے تو وہ عمرہ کرنے کے بعد احرام کھول دے، پھر یوم الترویہ 8۔ ذوالحج کو دوبارہ حج کا احرام باندھے لیکن) ایک مرتبہ میں حج کے مقام پر کھڑا تھا کہ اچانک ایک شخص آیا، اس نے کہا کہ (تو تو احرام کھولنے کا فتویٰ دیتا ہے) آپ جانتے ہیں کہ امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے قربانی کے متعلق نیا کام شروع کر دیا۔ (یعنی عمر رضی اللہ عنہ کا کہنا تھا کہ عمرہ کر کے احرام کو کھولنا نہیں چاہئے) تو میں نے کہا اے لوگو! ہم نے جس کو اس مسئلے کا فتویٰ دیا ہے اس کو رک جانا چاہئے۔ کیونکہ امیرالمؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آنے والے ہیں لہٰذا ان کی پیروی کرو۔ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ آئے تو میں نے کہا، امیرالمؤمنین آپ نے قربانی کے متعلق یہ کیا نیا مسئلہ بتایا ہے؟ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر آپ اللہ کی کتاب قرآن پر عمل کریں تو قرآن کہتا ہے: ((وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَ‌ۃَ لِلَّـہِ ۚ)) یعنی حج اور عمرہ کو اللہ کے لئے پورا کرو (یعنی احرام نہ کھولو) اور اگر آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کریں تو ان کا اپنا طریقہ یہ تھا کہ انہوں نے احرام اس وقت تک نہ کھولا جب تک قربانی نہ کر لی۔
حضرت ابو موسیٰ رضي الله تعاليٰ عنه بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ آپ بطحائے مکہ میں قیام کیے ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: تو نے کس طرح احرام باندھا ہے؟ میں نے جواب دیا، میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کی طرح احرام باندھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا ہدی ساتھ لائے ہو؟ میں نے کہا، نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو بیت اللہ، صفا اور مروہ کا طواف کرو، پھر حلال ہو جاؤ میں نے بیت اللہ، اور صفا اور مروہ کا طواف کیا، پھر اپنی قوم کی ایک عورت کے پاس آیا، اس نے میرے بالوں میں کنگھی کی اور میرا سر دھویا، میں لوگوں کو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے دور خلافت میں اس کے مطابق فتویٰ دیتا تھا، (کہ حج تمتع کرو) میں حج کے ایام میں کھڑا ہوا تھا کہ اچانک ایک آدمی میرے پاس آیا اور کہنے لگا، تمہیں معلوم نہیں ہے، امیر المومنین نے حج کے بارے میں کیا نیا حکم جاری فرمایا ہے، تو میں نے کہا، اے لوگو! جسے ہم نے کوئی فتویٰ دیا ہے، وہ ذرا توقف کرے (اس پر عمل سے رک جائے) یہ امیر المؤمنین آپ کے پاس پہنچ رہے ہیں، انہیں کی پیروی کرنا، جب وہ پہنچ گئے، میں نے کہا، اے امیر المؤمنین! یہ حج کے بارے میں آپ نے کیا نیا فرمان جاری کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا، اگر ہم کتاب اللہ پر عمل پیرا ہوں، تو اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (حج اور عمرہ دونوں کو (الگ الگ) اللہ کے لیے پورا کرو۔) اور اگر ہم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو اختیار کریں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہدی کے نحر کرنے تک حلال نہیں ہوئے۔
حدیث نمبر: 2960
Save to word اعراب
وحدثني إسحاق بن منصور ، وعبد بن حميد ، قالا: اخبرنا جعفر بن عون ، اخبرنا ابو عميس ، عن قيس بن مسلم ، عن طارق بن شهاب ، عن ابي موسى رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثني إلى اليمن، قال: فوافقته في العام الذي حج فيه، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يا ابا موسى كيف قلت حين احرمت؟ "، قال: قلت: لبيك إهلالا كإهلال النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " هل سقت هديا؟ "، فقلت: لا، قال: " فانطلق فطف بالبيت وبين الصفا والمروة، ثم احل "، ثم ساق الحديث بمثل حديث شعبة وسفيان.وحَدَّثَنِي إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا جَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، أَخْبَرَنَا أَبُو عُمَيْسٍ ، عَنْ قَيْسِ بْنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ طَارِقِ بْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَنِي إِلَى الْيَمَنِ، قَالَ: فَوَافَقْتُهُ فِي الْعَامِ الَّذِي حَجَّ فِيهِ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَا أَبَا مُوسَى كَيْفَ قُلْتَ حِينَ أَحْرَمْتَ؟ "، قَالَ: قُلْتُ: لَبَّيْكَ إِهْلَالًا كَإِهْلَالِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " هَلْ سُقْتَ هَدْيًا؟ "، فَقُلْتُ: لَا، قَالَ: " فَانْطَلِقْ فَطُفْ بِالْبَيْتِ وَبَيْنَ الصَّفَا وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ أَحِلَّ "، ثُمَّ سَاقَ الْحَدِيثَ بِمِثْلِ حَدِيثِ شُعْبَةَ وَسُفْيَانَ.
ابو عمیس نے ہمیں قیس بن مسلم سے خبر دی، انھوں نے طارق بن شہاب سے، انھوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجاتھا، پھر میری آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سال ملاقات ہوئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج ادا فرمایا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت کیا: "ابو موسیٰ!"تم نے کون سا تلبیہ پکارا ہے؟ (حج کا، عمرے کا، یا دونوں کا؟) "میں نے عرض کی: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم والا تلبیہ پکارا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تم قربانی ساتھ لائے ہو؟ میں نے کہا نہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیت اللہ اور صفا مروہ کا طواف کر کے احرام کھول ڈالو۔ آگے (ابو عمیس نے) شعبہ اور سفیان ہی کی طرح حدیث بیان کی۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے یمن بھیجا تھا، اور میری واپسی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس سال ہوئی، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج فرمایا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا: اے ابو موسیٰ! جب تم نے احرام باندھا تھا تو کیا کہا تھا؟ میں نے عرض کیا، میں نے کہا تھا، (لَبَّيْكَ اِهْلاَلاً كَاِهْلاَلِ النَّبِيِّ صلي الله عليه وسلم) میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام جیسا احرام باندھ کر حاضر ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا کوئی ہدی ساتھ لائے ہو؟ میں نے کہا، نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ، بیت اللہ کا طواف کرو اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرو، پھر حلال ہو جاؤ۔ آگے شعبہ اور سفیان کی طرح روایت ہے۔

Previous    13    14    15    16    17    18    19    20    21    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.