Make PDF File
Note: Copy Text and paste to word file

صحيح مسلم
كِتَاب الْحَجِّ
حج کے احکام و مسائل
19. باب حَجَّةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کا بیان۔
حدیث نمبر: 2951
وحَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا جَعْفَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: أَتَيْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، فَسَأَلْتُهُ عَنْ حَجَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ حَاتِمِ بْنِ إِسْمَاعِيل، وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ: وَكَانَتِ الْعَرَبُ يَدْفَعُ بِهِمْ أَبُو سَيَّارَةَ عَلَى حِمَارٍ عُرْيٍ، فَلَمَّا أَجَازَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمُزْدَلِفَةِ بِالْمَشْعَرِ الْحَرَامِ، لَمْ تَشُكَّ قُرَيْشٌ أَنَّهُ سَيَقْتَصِرُ عَلَيْهِ وَيَكُونُ مَنْزِلُهُ، ثَمَّ فَأَجَازَ وَلَمْ يَعْرِضْ لَهُ حَتَّى أَتَى عَرَفَاتٍ فَنَزَلَ.
عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا: مجھے میرے والد (حفص بن غیاث) نے حدیث بیان کی، (کہا:) ہمیں جعفر بن محمد نے بیان کیا، (کہا:) مجھے میرے والد نے حدیث بیا ن کی کہ میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے متعلق سوال کیا، آگے حاتم بن اسماعیل کی طرح حدیث بیان کی، البتہ (اس) حدیث میں یہ اضافہ کیا: (اسلام سے قبل) عرب کو ابو سیارہ نامی شخص اپنے بے پالان گدھے پر لے کر چلتا تھا۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (منیٰ سے آتے ہوئے) مزدلفہ میں مشعر حرام کوعبور کیا قریش کو یقین تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسی پر رک جائیں گے (مزید آگے نہیں بڑھیں گے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قیام گاہ یہیں ہوگی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے گزر گئے اور اس کی طرف رخ نہ کیا حتیٰ کہ عرفات تشریف لے آئے اور وہاں پڑاؤ فرمایا۔
جعفر بن محمد رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے باپ نے بتایا، میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حج کے بارے میں دریافت کیا، آ گے حاتم بن اسماعیل کی مذکورہ بالا روایت کی طرح بیان کیا، اس حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ عربوں کا دستور تھا، انہیں ایک ابو سیارہ نامی آدمی گدھے کی ننگی پشت پر سوار ہو کر مزدلفہ سے واپس منیٰ لاتا تھا، تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مزدلفہ سے مشعر حرام کی طرف بڑھ گئے، تو قریش کو یقین تھا کہ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اس پر کفایت کریں گے (مشعر حرام سے وقوف کریں گے) اور یہی آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کی منزل یا پڑاؤ ہو گا، مگر آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اس سے بھی آ گے گزر گئے، اور اس کی طرف توجہ نہ کی، حتی کہ عرفات پہنچ کر اترے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2951 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2951  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کے بعد صرف ایک ہی حج 10ھ میں فرمایا ہے اور اگلے سال ربیع الاول میں اس جہان فانی کا سفر اختیار کیا اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے حج کے سفر کی تفصیلی روداد حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بیان فرمائی ہے۔
اس لیے ہم اس روایت کی ورشنی میں اختصار کے ساتھ صرف حج سے متعلقہ امور بیان کرتے ہیں۔

انسان جب حج یا عمرہ کی نیت سے اپنے میقات پر پہنچے تو احرام باندھنے کے لیے غسل کرے عورت اگر حائضہ ہو یا نفاس والی ہو اس کو بھی غسل کرنا چاہیے اور نفاس والی عورت خون سے تحفظ کے لیے لنگوٹ باندھ لے۔

احرام باندھتے وقت دو رکعت نماز ادا کرے اگرفرض نماز کے بعد احرام باندھ لے تو یہ بھی کافی ہے کیونکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز ظہر کے بعد تلبیہ کہنا شروع کردیا تھا احرام کے لیے الگ دو رکعت نماز نہیں پڑھی تھی۔

قرآن کا علم اور عمل آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ہی سے سیکھا جا سکتا ہے اس لیے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اعمال حج میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ اور عمل کو مشعل راہ بنایا۔

اپنے میقات سے تلبیہ کہنا شروع کر دیا جائے گا۔
ذوالحلیفہ سے تمام حضرات نے حج کا تلبیہ کہا تھا وادی عقیق میں پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ دونوں کا تلبیہ کہا اس لیے حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احرام کو بھی حج کے لیے ہی قرار دیا ہے۔
کیونکہ آغاز اس سے ہوا تھا۔

بہتر یہ ہے کہ تلبیہ کے انہیں کلمات کو کافی سمجھا جائے،
جن کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پابندی فرمائی تھی،
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ،
امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور محدثین کا یہی موقف ہے اگرچہ ان الفاظ پر اضافہ جائز ہے کیونکہ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے سامنے کچھ الفاظ کا اضافہ کیا گیا لیکن آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے اس سے منع نہیں فرمایا۔

بیت اللہ پہنچنے کے بعد سب سے پہلے طواف کیا جائے گا جس کو طواف قدوم کہتے ہیں جس کا آغاز حجراسود کو چوم کر کیا جائے گا۔
بیت اللہ کے گرد مقام حجرکے اوپر سے سات چکر لگائے جائیں گے،
حجراسود سے لے کر حجراسود تک ایک چکر ہوگا تین چکروں میں قوت و جلالت کے اظہار کے لیے رمل کیا جائے گا۔
اور باقی چار چکر عام رفتار سے پورے کیے جائیں گے اور رمل کا تعلق صرف پہلے طواف سے ہے باقی طوافوں میں رمل نہیں ہے۔
اسی طرح دوسری روایات کی روشنی میں طواف قدوم میں اضطباع ہو گا جس کا مطلب ہے کہ محرم اپنے اوپر والی چادر اپنے دائیں ہاتھ کی بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈالے گا گویا دائیں کندھے کو ننگا رکھے گا اور بائیں کوڈھانپے گا،
اور یہ کام ساتوں چکروں میں برقرار رہے گا۔
ہر چکر کے آغاز میں حجر اسود کو بوسہ دیا جائے گا،
اگربوسہ ممکن نہ ہو تو ہاتھ لگا کر اس کو چوم لیا جائے گا۔
یہ بھی ممکن نہ ہو تو اشارہ کرنا کافی ہو گا اور رکن یمانی کو ہاتھ لگایا جائے گا اور اسے چومنے کی ضرورت نہیں ہے۔

طواف قدوم سے فارغ ہو کر مقام ابراہیم سے پیچھے دو رکعت ادا کرنا ہوں گی پہلی رکعت میں سورہ کافرون اور دوسری میں سورۃ اخلاص کی قرآءت کی جائے گی،
اس سے فراغت کے بعد صفا ومروہ جا کر صفاو مروہ کے درمیان سعی کا آغازہو گا اور صفا سے اگر بیت اللہ پر نظر ڈالی جا سکے تو بہتر ہے وگرنہ کھڑے ہو کر مسنون دعائیں کی جائیں گی،
پھر وہاں سے مروہ کی طرف چلیں گے اور نشیبی جگہ پر پہنچ کر جس کی نشان دہی سبزلائیٹوں سے کردی گئی ہے تیز چلیں گے،
یا عام انداز سے دوڑیں گے،
اور نشیب سے گزر کر عام رفتار سے چلیں گے،
عورتیں نہیں دوڑیں گی،
اگرچہ ہاجرہ علیہا السلام کی سنت ہے مروہ پہنچ کر صفا والی دعائیں کی جائیں گیں اور یہ ایک چکر ہو جائے گا،
اس طرح ساتواں چکر مروہ پر جا کر مکمل ہو جائے گا،
اس کے بعد حج تمتع کرنے والا تفصیر یا تحلیق کر کے احرام کھول دے گا اور حلال ہو جائے گا،
آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے ان صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین کو جن کے پاس قربانی نہیں تھی،
احرام کھولنے کا حکم دیا تھا اور آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے حضرت سراقہ بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ اب عمرہ ہمیشہ کے لیے حج میں داخل ہو گیا ہے اس لیے حج کے ساتھ عمرہ کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے اس کے لیے حج کے احرام کو عمرہ کے احرام سے بدلنا بھی جائز ہے۔
عورت بالوں کو آخر سے ایک پورا کے برابر کاٹ لے گی۔

حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن سے آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ کے لیے مزید قربانیاں لے کر آئے تھے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو جب احرام کھول کر حلال ہو کر رنگ دار کپڑے پہنے ہوئے اور سرمہ لگائے ہوئے دیکھا تو اپنی ناراضی کا اظہار کیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ انسان حج سے فراغت کے بعد احرام کھول سکتا ہے،
انھوں نے جواب دیا میں نے یہ کام والد محترم کے حکم پر کیا ہے تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تصدیق کے لیے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی شکایت کی جس سے ثابت ہوا خاوند کو اپنی بیوی کے افعال پر نظر رکھنی چاہیے اور خلاف شریعت امور کے ارتکاب پر اس کا خود بھی محاسبہ کرنا چاہیے اور ضرورت ہو تو اس کے باپ سے بھی شکایت کرنی چاہیے اور اپنے حج کے تلبیہ کے بارے میں عرض کیا میں نے حج کے بارے میں وہی نیت کی ہے جس نیت سے آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے احرام باندھا ہے اس سے معلوم ہوا ضرورت کے تحت بلا تعیین نوعیت حج (افراد،
تمتع،
قران)

احرام باندھا جا سکتا ہے اور مکہ مکرمہ پہنچ کر تعیین کر لی جائےگی۔

ترویہ کے دن یعنی آٹھ ذوالحجہ متمتع نئے سرے سے احرام باندھ کر منیٰ کی طرف روانہ ہوں گے،
لیکن جن لوگوں نے حج مفرد اورحج قران کا احرام باندھا تھا یعنی مفرد اور قارن چونکہ وہ طواف قدوم کے بعد احرام نہیں کھول سکتے اس لیے وہ اپنے اسی احرام کے ساتھ منیٰ کا رخ کریں گے،
ظہر،
عصر،
مغرب،
عشاء اور فجر پانچ نمازیں منیٰ میں ادا کرنا ہوں گی اور 9 ذوالحجہ کو سورج نکلنے کے بعد عرفات کی طرف جانا ہو گا۔
10۔
عرفات میں داخل ہونے سے پہلے وادی نمرہ میں اتریں گے بہتر یہی ہے اور سورج کے ڈھلنے کے بعد امام وادی عرنہ میں خطبہ دے گا اور اس میں لوگوں کی اجتماعی ضرورت کے مطابق موقع اور محل کی مناسبت سے مسائل کی تلقین کرے گا جیسا کہ آپ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نے جان و مال کی حفاظت،
جاہلیت کی رسوم کی پامالی،
اور عورتوں کے حقوق کے بارے میں تلقین فرمائی،
خاوندوں کے حقوق بیان کیے اور کتاب اللہ کے بارے میں تاکید فرمائی خطبہ سے فراغت کے بعد امام ایک اذان اور دو اقامتوں کے ساتھ ظہر اور عصر کی نمازیں جمع کرے گا اور ان دونوں نمازوں کے درمیان کوئی نماز نہیں ہے۔
11۔
نمازوں سے فراغت کے بعدعرفات میں شام تک بیت اللہ کی طرف رخ کر کے وقوف (ٹھہرنا)
کرنا ہو گا اور بہتر یہ ہے کہ وقوف جبل رحمت جو میدان عرفات کے درمیان میں ہے کے دامن میں کیا جائے اور جب سورج پوری طرح غروب ہو جائے تو پھرعرفات سے نماز مغرب پڑھے بغیر مزدلفہ کی طرف واپسی ہوگی اور مغرب اور عشاء کی نماز کو مزدلفہ میں جمع کر کے پڑھا جائے گا اور رات یہیں گزاری جائے گی۔
12۔
جب دس (10)
ذوالحجہ کی فجر اچھی طرح طلوع ہو جائے گی تو صبح کی نماز باجماعت ادا کی جائے گی اور نماز فجر سے فراغت کے بعد مشعر حرام کے پاس آ کر انسان دعا تہلیل و تکبیر اور توحید کے کلمات کی ادائیگی میں مشغول ہو جائے گی اور سورج نکلنے سے پہلے منیٰ کی طرف روانگی ہو گی۔
13۔
منی پہنچ کر جمرہ کبری جسے جمرہ عقبہ بھی کہا جاتا ہے پرسات چھوٹی چھوٹی کنکریاں مارنی ہوں گی اورہر کنکری مارتے وقت اللہ اکبر کہا جائے گا رمی جمار سے فراغت کے بعد قربان گاہ میں آ کر قربانی کی جائے گی اس کے بعد تحلیق یا تقصیر کرنا ہوگی۔
14۔
منی کے اعمال سے فراغت کے بعد مکہ مکرمہ واپس آئیں گے اور طواف افاضہ کریں گے طواف افاضہ کے بعد احرام کی تمام پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں احرام تو منی کے افعال سے فراغت کے بعد کھول دیا جاتا ہے نہا دھو کر اور خوشبو لگا کر کپڑے بدل لیے جاتے ہیں لیکن طواف افاضہ کے بعد زن و شوہر تعلقات پر پابندی بھی ختم ہو جاتی ہے۔
جو طواف افاضہ سے قبل تک برقرار رہتی ہے۔
15۔
طواف افاضہ سے فراغت کے بعد واپس منی جانا ہوتا ہے یہ خیال رہے طواف افاضہ میں متمتع کے لیے صفا اورمروہ کی سعی بھی ضروری ہے اور مفرد اور قارن اگر طواف قدوم کے ساتھ سعی کر چکے ہیں تو ان کے لیے سعی ضروری نہیں ہے اگرانھوں نے پہلے سعی نہیں کی تو پھر انہیں بھی سعی کرنا ہو گی۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2951