حدثنا هداب بن خالد ، حدثنا همام بن يحيى ، حدثنا قتادة ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: " غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم لست عشرة مضت من رمضان، فمنا من صام، ومنا من افطر، فلم يعب الصائم على المفطر، ولا المفطر على الصائم "،حَدَّثَنَا هَدَّابُ بْنُ خَالِدٍ ، حَدَّثَنَا هَمَّامُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: " غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِسِتَّ عَشْرَةَ مَضَتْ مِنْ رَمَضَانَ، فَمِنَّا مَنْ صَامَ، وَمِنَّا مَنْ أَفْطَرَ، فَلَمْ يَعِبْ الصَّائِمُ عَلَى الْمُفْطِرِ، وَلَا الْمُفْطِرُ عَلَى الصَّائِمِ "،
ہداب بن خالد، ہمام بن یحییٰ، قتادہ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ رمضان کو کو ایک غزوہ میں گئے تو ہم میں سے کچھ لوگ روزے سے تھے اور کچھ بغیر روزے کے چنانچہ نہ تو روزہ رکھنے والوں نے نہ رکھنے والوں کی مذمت کی اور نہ ہی نہ رکھنے والوں نے رکھنے والوں پر کوئی نکیر کی۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم سولہ رمضان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک جنگی سفر پر تھے ہم میں سے بعض نے روزہ رکھا تھا اور بعض نے روزہ نہ رکھا تھا روزہ داروں نے روزہ نہ رکھنے والوں کی مذمت نہ کی اور نہ روزہ نہ رکھنے والوں نے روزہ داروں پر عیب لگایا۔
محمد بن ابی بکر مقدمی، یحییٰ بن سعید تیمی، محمد بن مثنیٰ، ابن مہدی، شعبہ، ابو عامر، ہشام، سالم بن نوح، عمر (ابن عامر) ابو بکر بن ابی شیبہ اس سند کے ساتھ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے ہمام کی حدیث کی طرح روایت کیا گیا ہے سوائے اس کے کہ تیمی اور عمر بن عامر اور ہشام کی روایت میں اٹھارہ تاریخ اور سعید کی حدیث میں بارہ تاریخ اور شعبہ کی حدیث میں سترہ یا انیس تاریخ ذکر کی گئی ہے۔
امام صاحب نے اپنے مختلف اساتذہ کی سندوں سے قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی کی سند سے مذکورہ روایت بیان کی ہے لیکن تاریخیوں میں اختلاف ہے تیمی عمر بن عامر اور ہشام کی حدیث میں 18 رمضان سعید کی حدیث میں 12رمضان اور شعبہ کی روایت میں 18 یا 19 رمضان ہے۔
نصر بن علی جہضمی، بشر (ابن مفضل) ابی مسلمہ، ابی نضرۃ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو کوئی بھی روزہ رکھنے والے کے روزہ پر تنقید نہیں کرتاتھا اور نہ ہی روزہ کے افطار کرنے والے پر کوئی تنقید کرتا تھا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کرتے تھے تو روزے دار پر اس کے روزہ کے سبب اعتراض نہیں کیا جاتا تھا اور نہ افطار کرنے والے پر روزہ نہ رکھنے کے سبب۔
حدثني عمرو الناقد ، حدثنا إسماعيل بن إبراهيم ، عن الجريري ، عن ابي نضرة ، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه، قال: " كنا نغزو مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان، فمنا الصائم ومنا المفطر، فلا يجد الصائم على المفطر، ولا المفطر على الصائم "، يرون ان من وجد قوة فصام فإن ذلك حسن، ويرون ان من وجد ضعفا فافطر، فإن ذلك حسن.حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: " كُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَمَضَانَ، فَمِنَّا الصَّائِمُ وَمِنَّا الْمُفْطِرُ، فَلَا يَجِدُ الصَّائِمُ عَلَى الْمُفْطِرِ، وَلَا الْمُفْطِرُ عَلَى الصَّائِمِ "، يَرَوْنَ أَنَّ مَنْ وَجَدَ قُوَّةً فَصَامَ فَإِنَّ ذَلِكَ حَسَنٌ، وَيَرَوْنَ أَنَّ مَنْ وَجَدَ ضَعْفًا فَأَفْطَرَ، فَإِنَّ ذَلِكَ حَسَنٌ.
۔ عمرو ناقد، اسماعیل بن ابراہیم، جریری، ابی نضرۃ، حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان میں ایک غزوہ میں تھے تو ہم میں سے کوئی روزہ دار ہوتا اور کوئی افطار ہوتا تو نہ تو روزہ دار افطار کرنے والے پر تنقید کرتا وہ یہ سمجھتے تھے کہ اگر کوئی طاقت رکھتا ہے تو روزہ رکھ لے تو یہ اس کے لئے اچھا ہے اور وہ یہ بھی سمجھتے اگر کوئی ضعف پاتا ہے۔ تو وہ افطار کرلے تو یہ اس کے لئے اچھا ہے۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رمضان میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جہاد پر نکلتے تو ہم میں روزے دار بھی ہوتے اور روزہ نہ رکھنے والے بھی، نہ صائم مفطر پر ناراض ہوتا اور نہ مفطر صائم پر، ان کا نظریہ تھا جو طاقت اور ہمت پا کر روزہ رکھ لے تو یہ بہتر ہے اور جو کمزوری محسوس کرکے روزہ نہ رکھے تو یہ اس کے لیے بہتر ہے۔
سعید بن عمر، سہل بن عثمان، سوید بن سعید، حسین بن حریث، سعید، مروان بن معاویہ، عاصم، ابا نضرۃ، حضرت ابو سعید خدری، جابر بن عبداللہ اور حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا تو روزہ رکھنے والا روزہ رکھتا اور افطار کرنے والا روزہ افطار کرلیتا تھا اور ان میں سے کوئی کسی کو ملامت نہیں کرتا تھا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے روایت ہے کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا تو روزہ کی ہمت پانے والا روزہ رکھتا تھا اور ہمت طاقت سے محروم روزہ چھوڑ دیتا تھا تو کوئی دوسرے کو برا نہیں کہتا تھا۔
حدثنا يحيى بن يحيى ، اخبرنا ابو خيثمة ، عن حميد ، قال: سئل انس رضي الله عن صوم رمضان في السفر، فقال: " سافرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، في رمضان فلم يعب الصائم على المفطر، ولا المفطر على الصائم ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ ، عَنْ حُمَيْدٍ ، قَالَ: سُئِلَ أَنَسٌ رَضِيَ اللَّهُ عَنْ صَوْمِ رَمَضَانَ فِي السَّفَرِ، فَقَالَ: " سَافَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِي رَمَضَانَ فَلَمْ يَعِبْ الصَّائِمُ عَلَى الْمُفْطِرِ، وَلَا الْمُفْطِرُ عَلَى الصَّائِمِ ".
یحییٰ بن یحییٰ، ابو خثیمۃ، حضرت حمید سے روایت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے سفر میں رمضان کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا ہے تو کوئی روزہ رکھنے والا روزہ چھوڑنے والے کی ملامت نہیں کرتا تھا اور نہ ہی روزہ چھوڑنے والا روزہ رکھنے والے کی ملامت کرتا تھا۔
حمید رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سفر میں رمضان کے روزے کے بارے میں سوال کیا گیا؟ تو انھوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر کیا تو روزے دار نے بے روزہ پر اعتراض نہ کیا اور نہ بے روزے نے روزے دار پر۔
ابو بکر بن ابی شیبہ، ابو خالد احمر، حضرت حمید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔فرمایا کہ میں نکلا اور میں نے روزہ رکھ لیا تو لوگوں نے مجھ سے کہا کہ تم دوبارہ روزہ رکھو میں نے کہا حضرت انس رضی اللہ عنہ نے مجھے خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین سفر کرتے تھے تو کوئی بھی روزہ رکھنے والا روزہ چھوڑنے والے کی ملامت نہیں کرتا تھا اور نہ ہی روزہ چھوڑنے والا روزہ رکھنے والے کی ملامت کرتاتھا پھر میں نے ابن ابی ملیکہ سے ملاقات کی تو انہوں نے بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے حوالے سے اس طرح کی خبر دی۔
حمید رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ میں نے سفر میں روزہ رکھا تو ساتھیوں نے مجھے کہا: دوبارہ روزہ رکھو تو میں نے انہیں بتایا کہ مجھے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خبر دی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سفر کرتے تھے تو رزوے دار روزہ نہ رکھنے والے پر تنقید نہ کرتا اور نہ ہی بے روزہ رکھنے والے پر پھر میں ابن ابی ملیکہ سے ملا اس نے مجھے یہی خبر حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سنائی۔
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، اخبرنا ابو معاوية ، عن عاصم ، عن مورق ، عن انس رضي الله عنه، قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم في السفر، فمنا الصائم ومنا المفطر، قال: فنزلنا منزلا في يوم حار اكثرنا ظلا صاحب الكساء، ومنا من يتقي الشمس بيده، قال: فسقط الصوام وقام المفطرون، فضربوا الابنية وسقوا الركاب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ذهب المفطرون اليوم بالاجر ".حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ مُوَرِّقٍ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي السَّفَرِ، فَمِنَّا الصَّائِمُ وَمِنَّا الْمُفْطِرُ، قَالَ: فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا فِي يَوْمٍ حَارٍّ أَكْثَرُنَا ظِلًّا صَاحِبُ الْكِسَاءِ، وَمِنَّا مَنْ يَتَّقِي الشَّمْسَ بِيَدِهِ، قَالَ: فَسَقَطَ الصُّوَّامُ وَقَامَ الْمُفْطِرُونَ، فَضَرَبُوا الْأَبْنِيَةِ وَسَقَوْا الرِّكَابَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " ذَهَبَ الْمُفْطِرُونَ الْيَوْمَ بِالْأَجْرِ ".
ابو بکر بن ابی شیبۃ، ابو معاویہ، عاصم، مورق، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے تو ہم میں کچھ روزہ دار تھے اور کچھ روزہ چھوڑے ہوئے تھے راوی نے کہا کہ ہم ایک جگہ سخت گرمی کے موسم میں اترے اور ہم میں سب سے زیادہ سایہ حاصل کرنےو الا وہ آدمی تھا کہ جس کے پاس چادر تھی ہم میں سے کچھ اپنے ہاتھوں سے دھو پ سے بچ رہے تھے راوی نے کہا کہ روزہ رکھنے والے تو گر گئے اور روزہ چھوڑنے والے قائم رہے انہوں نے خیمے لگائے اور اونٹوں کو پانی پلایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آج کے دن روزہ چھوڑنے والے اجر حاصل کرگئے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک سفرمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے تو ہم میں سے بعض روزے سے تھے اور بعض روزے سے نہیں تھے تو ایک سخت گرمی کے دن ہم ایک منزل پر اترے اور ہم میں سے سب سے زیادہ سایہ حاصل کرنے والا شخص وہ تھا جس کے پاس کمبل تھا اور ہم میں سے بعض وہ تھے جو سورج سے اپنے ہاتھ سے بچ رہے تھے، روزے رکھنے والے تو گرپڑے اور روزہ نہ رکھنے والے اٹھے۔ انھوں نے سب کے لیے خیمے لگائے اور سب کی سواریوں کو پانی پلایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج تو اجر روزہ نہ رکھنے والے لے گئے۔“
وحدثنا ابو كريب ، حدثنا حفص ، عن عاصم الاحول ، عن مورق ، عن انس رضي الله عنه، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في سفر، فصام بعض وافطر بعض، فتحزم المفطرون وعملوا، وضعف الصوام عن بعض العمل، قال: فقال في ذلك: " ذهب المفطرون اليوم بالاجر ".وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا حَفْصٌ ، عَنْ عَاصِمٍ الْأَحْوَلِ ، عَنْ مُوَرِّقٍ ، عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَصَامَ بَعْضٌ وَأَفْطَرَ بَعْضٌ، فَتَحَزَّمَ الْمُفْطِرُونَ وَعَمِلُوا، وَضَعُفَ الصُّوَّامُ عَنْ بَعْضِ الْعَمَلِ، قَالَ: فَقَالَ فِي ذَلِكَ: " ذَهَبَ الْمُفْطِرُونَ الْيَوْمَ بِالْأَجْرِ ".
ابو کریب، حفص، عاصم، مورق، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر میں تھے کچھ نے روزہ رکھا اور کچھ نے روزہ چھوڑدیا روزہ نہ رکھنے والے تو خدمت کے کام پر لگ گئے اور روزہ رکھنے والے خدمت کے کام میں کمزور پڑگئے راوی نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمایا کہ روزہ افطار کرنے والے اجر پاگئے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفرمیں تھے تو بعض نے روزہ رکھا اور بعض نےنہ رکھا تو بے روزہ خدمت کمر بستہ ہو گئےیا انھوں نے کمر بند باندھ لیے اور کام کرنے لگے اور روزے دار کام نہ کر سکے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”آج تو اجر بےروز لے گئے۔“
حدثني محمد بن حاتم ، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، عن معاوية بن صالح ، عن ربيعة ، قال: حدثني قزعة ، قال: اتيت ابا سعيد الخدري رضي الله عنه وهو مكثور عليه، فلما تفرق الناس عنه، قلت: إني لا اسالك عما يسالك هؤلاء عنه، سالته عن الصوم في السفر، فقال: سافرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى مكة ونحن صيام، قال: فنزلنا منزلا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنكم قد دنوتم من عدوكم، والفطر اقوى لكم "، فكانت رخصة فمنا من صام ومنا من افطر، ثم نزلنا منزلا آخر، فقال: " إنكم مصبحو عدوكم والفطر اقوى لكم، فافطروا "، وكانت عزمة فافطرنا، ثم قال: لقد رايتنا نصوم مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بعد ذلك في السفر.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنْ رَبِيعَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنِي قَزَعَةُ ، قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ وَهُوَ مَكْثُورٌ عَلَيْهِ، فَلَمَّا تَفَرَّقَ النَّاسُ عَنْهُ، قُلْتُ: إِنِّي لَا أَسْأَلُكَ عَمَّا يَسْأَلُكَ هَؤُلَاءِ عَنْهُ، سَأَلْتُهُ عَنِ الصَّوْمِ فِي السَّفَرِ، فَقَالَ: سَافَرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى مَكَّةَ وَنَحْنُ صِيَامٌ، قَالَ: فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّكُمْ قَدْ دَنَوْتُمْ مِنْ عَدُوِّكُمْ، وَالْفِطْرُ أَقْوَى لَكُمْ "، فَكَانَتْ رُخْصَةً فَمِنَّا مَنْ صَامَ وَمِنَّا مَنْ أَفْطَرَ، ثُمَّ نَزَلْنَا مَنْزِلًا آخَرَ، فَقَالَ: " إِنَّكُمْ مُصَبِّحُو عَدُوِّكُمْ وَالْفِطْرُ أَقْوَى لَكُمْ، فَأَفْطِرُوا "، وَكَانَتْ عَزْمَةً فَأَفْطَرْنَا، ثُمَّ قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُنَا نَصُومُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ذَلِكَ فِي السَّفَرِ.
محمد بن حاتم، عبدالرحمان بن مہدی، معاویہ بن صالح، حضرت ربیعہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے قزعہ نے بیان کیا انہوں نے کہا کہ میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اس حال میں کہ ان کے پاس لوگوں کا جمگھٹا لگا ہوا تھا تو لوگ ان سے علیحدہ ہوگئے تو میں نے ان سے عرض کیا کہ میں آپ سے وہ نہیں پوچھوں گاجس کے بارے میں یہ پوچھ رہے ہیں (راوی کہتے ہیں) کہ میں نے سفر کے روزہ کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ مکرمہ تک سفر کیا ہے اور ہم روزہ کی حالت میں تھے انہوں نے فرمایا کہ ہم ایک جگہ اترےتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دشمن کے قریب ہوگئے ہو اور اب افطار کرنا (روزہ نہ رکھنا) تمھارے لئے قوت وطاقت کا باعث ہوگا تو روزہ کی رخصت تھی پھر ہم میں سے کچھ نے روزہ رکھا اور کچھ نے روزہ نہ رکھا پھر جب ہم دوسری منزل تک پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم صبح کے وقت اپنے دشمن کے پاس گئے روزہ نہ رکھنے سے تمہارے اندر طاقت زیادہ ہوگی اس لئے روزہ نہ رکھو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ حکم ضروری تھا اس لئے ہم نے روزہ نہیں رکھا۔پھر ہم نے دیکھا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں روزہ رکھتے رہے۔
قزعہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا جبکہ ان کے پاس بہت سے لوگ جمع ہو چکے تھے جب لوگ ان کے پاس سے بکھرگئے تو میں نے کہا جو یہ لوگ پوچھ رہے تھے میں اس کے بارے میں آپ سے نہیں پوچھوں گا، میں نے ان سے سفر میں روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا؟ تو انھوں نے بتایا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کے سفر کے لیےنکلے جبکہ ہم روزہ دار تھے تو ہم ایک منزل پر اترے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے دشمن کے قریب پہنچ چکے ہو اور روزہ نہ رکھنا یہ تمھارے لیے زیادہ طاقت بخش ہے۔“ یہ روزہ نہ رکھنے کی رخصت تھی تو ہم میں سے بعض نے روزہ رکھا اور بعض نے نہ رکھاپھر ہم ایک دوسری منزل پر اترے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم صبح دشمن تک پہنچ جاؤگے اور روزہ نہ رکھنا یہ تمھارے لیے زیادہ طاقت کا باعث ہو گا لہٰذا روزہ نہ رکھو،“ اور یہ حکم قطعی تھا اس لیے ہم نے روزہ نہ رکھا پھر انھوں نے بتایا میں نے اس کے بعد سفر میں ساتھیوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روزہ رکھتے دیکھا۔