14. باب: رمضان کے دنوں میں روزہ دار پر ہم بستری کی سخت حرمت اور اس کے کفارہ کے وجوب کا بیان، اور یہ کفارہ مالدار اور تنگ دست دونوں پر واجب ہے، اور تنگ دست کے ذمے اس وقت واجب ہو گا جب وہ اس کی طاقت رکھتا ہو۔
Chapter: The strict prohibition of intercourse during the day in Ramadan for one who is fasting; And the obligation of offering major expiation and the definition thereof; And that it is obligatory for both the one who can afford it and the one who cannot afford it, and it remains an obligation for the one who cannot afford it until he has the means
حدثنا يحيى بن يحيى ، وابو بكر بن ابي شيبة ، وزهير بن حرب ، وابن نمير كلهم، عن ابن عيينة ، قال يحيى: اخبرنا سفيان بن عيينة، عن الزهري ، عن حميد بن عبد الرحمن ، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: هلكت يا رسول الله، قال: " وما اهلكك؟ "، قال: وقعت على امراتي في رمضان، قال: " هل تجد ما تعتق رقبة؟ "، قال: لا، قال: " فهل تستطيع ان تصوم شهرين متتابعين؟ "، قال: لا، قال: " فهل تجد ما تطعم ستين مسكينا؟ "، قال: لا، قال: ثم جلس، " فاتي النبي صلى الله عليه وسلم بعرق فيه تمر "، فقال: " تصدق بهذا "، قال: افقر منا فما بين لابتيها اهل بيت احوج إليه منا، " فضحك النبي صلى الله عليه وسلم، حتى بدت انيابه "، ثم قال: " اذهب فاطعمه اهلك "،حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ كُلُّهُمْ، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: هَلَكْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " وَمَا أَهْلَكَكَ؟ "، قَالَ: وَقَعْتُ عَلَى امْرَأَتِي فِي رَمَضَانَ، قَالَ: " هَلْ تَجِدُ مَا تُعْتِقُ رَقَبَةً؟ "، قَالَ: لَا، قَالَ: " فَهَلْ تَسْتَطِيعُ أَنْ تَصُومَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ؟ "، قَالَ: لَا، قَالَ: " فَهَلْ تَجِدُ مَا تُطْعِمُ سِتِّينَ مِسْكِينًا؟ "، قَالَ: لَا، قَالَ: ثُمَّ جَلَسَ، " فَأُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَرَقٍ فِيهِ تَمْرٌ "، فَقَالَ: " تَصَدَّقْ بِهَذَا "، قَالَ: أَفْقَرَ مِنَّا فَمَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا أَهْلُ بَيْتٍ أَحْوَجُ إِلَيْهِ مِنَّا، " فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى بَدَتْ أَنْيَابُهُ "، ثُمَّ قَالَ: " اذْهَبْ فَأَطْعِمْهُ أَهْلَكَ "،
یحییٰ بن یحییٰ، ابو بکر بن ابی شیبہ، زہیر بن حرب، ابن نمیر، ابن عینیہ، سفیان بن عینیہ، حمید بن عبداالرحمٰن، حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں ہلاک ہوگیا آپ نے فرمایا تو کیسے ہلا ک ہوگیا؟اس نے عرض کیا کہ میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے ہمبستری کرلی ہے آپ نے فرمایا کیا تو ایک غلام آزاد کرسکتا ہے؟اس نے عرض کیا نہیں، آپ نے فرمایا کیا تو مسلسل دو مہینے کے روزے رکھ سکتاہے؟اس نے عرض کیا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیاتو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتا ہے؟اس نے عرض کیا کہ نہیں، راوی کہتے ہیں کہ پھر وہ آدمی بیٹھ گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک ٹوکرا لایا گیاجس میں کھجوریں تھیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان کو محتاجوں میں صدقہ کردو اس نے عرض کیا کیا ہم سے بھی زیادہ محتاج ہے؟مدینہ کے دونوں اطراف کے درمیان والے گھروں میں کوئی ایسا گھر نہیں جو ہم سے زیادہ محتاج ہو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی داڑھیں مبارک ظاہر ہوگئیں پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی سے فرمایا جا اور اسے اپنے گھر والوں کو کھلا۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں تباہ و برباد ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تجھے کس چیز نے تباہ برباد کر ڈالا؟ اس نے کہا: رمضان میں اپنی بیوی سے تعلقات قائم کر بیٹھا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو ایک گردن آزاد کرنے کی طاقت رکھتا ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھ سکتا ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تیرے پاس ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کی گنجائش ہے؟ اس نے کہا: نہیں۔ پھر وہ بیٹھ گیا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھجوروں کی ایک ٹوکری لائی گئی۔ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ صدقہ کر دو۔ اس نے عرض کیا: کیا کوئی ہم سے بھی زیادہ محتاج ہے؟ مدینہ کے دونوں سنگلاخ زمینوں کے درمیان کوئی گھرانہ ہم سے زیادہ اس کا محتاج نہیں ہے اس پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیے حتی کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی کچلیاں ظاہر ہو گئیں۔ پھر فرمایا: ”جاؤ اور اسے اپنے اہل کو کھلاؤ۔“
اسحاق بن ابراہیم، جریر، منصور، حضرت محمد بن مسلم زہری رضی اللہ عنہ سے اس سند کے ساتھ اس طرح روایت نقل کی گئی ہے اور راوی نے کہا کہ اس میں اس ٹوکرے کا ذکر نہیں ہے۔جس میں کھجوریں تھیں۔یعنی زنبیل اور وہ یہ بھی ذکر نہیں کرتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھیں ظاہرہوگئیں۔
امام صاحب ایک دوسرے استاد سے زہری کی سند سے ابن عیینہ کی طرح روایت بیان کرتے ہیں۔ ایک عرق جس میں کھجوریں تھیں اور عرق زنبیل (ٹوکری) کو کہتے ہیں۔ اور اس میں یہ نہیں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح ہنس پڑے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کی کچلیاں نمایاں ہو گئیں۔
یحییٰ بن یحییٰ، محمد بن رمح، لیث، قتیبہ، ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمٰن، بن عوف، حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رمضان میں اپنی بیوی سے ہم بستری کرلی اور پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس مسئلہ کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیاتو ایک غلام آزاد کرسکتا ہے؟اس نے عرض کیا نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو دو مہینے کے روزے رکھ سکتا ہے۔اس نے عرض کیا نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی رمضان میں اپنی بیوی کے پاس چلا گیا، پھر اس کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فتوی پوچھا: تو آپ نے فرمایا: ”کیا تیرے پاس غلام ہےِ۔“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلاؤ۔“
وحدثنا محمد بن رافع ، حدثنا إسحاق بن عيسى ، اخبرنا مالك ، عن الزهري بهذا الإسناد " ان رجلا افطر في رمضان فامره رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يكفر بعتق رقبة "، ثم ذكر بمثل حديث ابن عيينة.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ عِيسَى ، أَخْبَرَنَا مَالِكٌ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ " أَنَّ رَجُلًا أَفْطَرَ فِي رَمَضَانَ فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُكَفِّرَ بِعِتْقِ رَقَبَةٍ "، ثُمَّ ذَكَرَ بِمِثْلِ حَدِيثِ ابْنِ عُيَيْنَةَ.
محمد بن رافع، اسحا ق بن عیسیٰ، مالک، حضرت زہری سے اس سندکے ساتھ روایت ہے کہ ایک آدمی نے رمضان میں روزہ افطار کرلیا تو ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم فرمایاکہ ایک غلام آزاد کرکے کفارہ ادا کرے پھر ابن عینیہ کی حدیث کی طرح حدیث ذکر فرمائی۔
امام صاحب اپنے استاد محمد بن رافع سے یہی روایت زہری ہی کی سند سے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رمضان میں روزہ چھوڑ دیا تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے گردن آزاد کرنے کا حکم دیا پھر ابن عیینہ کی طرح حدیث بیان کی۔
محمد بن رافع، عبدالرزاق، ابن جریج، ابن شہاب، حمید بن عبدالرحمان، حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو حکم فرمایا جس آدمی نے رمضان میں روزہ توڑ لیا تھا اسے چاہیے کہ وہ ایک غلام آزاد کرے یا دو مہینے کے روزے رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو جس نے رمضان میں روزہ کھول دیا تھا حکم دیا کہ ”وہ گردن آزاد کرے یا مسلسل دو ماہ کے روزے رکھے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔“
محمد بن رمح، ابن مہاجر، لیث، یحییٰ بن سعید، عبدالرحمان بن قاسم، محمد بن جعفر، ابن زبیر، عباد بن عبداللہ بن زبیر، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور اس نے عرض کیا میں تو جل گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں؟اس نے عرض کی کہ میں نے رمضان کے دنوں میں اپنی بیوی سے ہم بستری کرلی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ کر، صدقہ کر، اس آدمی نے عرض کیا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم فرمایا کہ وہ بیٹھ جائے تو آپ کی خدمت میں دو ٹوکرے آئے جس میں کھانا تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کو حکم فرمایا کہ اس کو صدقہ کرو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہا میں جل گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیوں؟“ اس نے کہا: میں رمضان میں دن کے وقت اپنی بیوی کے پاس چلا گیا۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ کر صدقہ کر۔“ اس نے کہا: میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے۔ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیٹھنے کا حکم دیا، آپ کے پاس کھانے کی دو ٹوکریاں آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ان کو صدقہ کرنے کا حکم دیا۔
محمد بن مثنیٰ، عبدالوہاب ثقفی، یحییٰ بن سعید، عبدالرحمان بن قاسم، محمد بن جعفر بن زبیر، عبداللہ بن زبیر، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آیا اور پھر حدیث ذکر فرمائی اور اس میں صدقہ کا ذکر نہیں ہے اور نہ ہی دن کا ذکر ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور مذکورہ بالاحدیث بیان کی: لیکن اس حدیث کے آغاز میں ”صدقہ کر، صدقہ کر“ اور ”دن کے وقت“ کا ذکر نہیں ہے۔
حدثني ابو الطاهر ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني عمرو بن الحارث ، ان عبد الرحمن بن القاسم ، حدثه، ان محمد بن جعفر بن الزبير حدثه، ان عباد بن عبد الله بن الزبير حدثه، انه سمع عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، تقول: اتى رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد في رمضان، فقال: يا رسول الله احترقت احترقت، فساله رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما شانه؟، فقال: اصبت اهلي، قال: تصدق، فقال والله يا نبي الله مالي شيء وما اقدر عليه، قال: اجلس، فجلس فبينا هو على ذلك، اقبل رجل يسوق حمارا عليه طعام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اين المحترق آنفا؟، فقام الرجل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تصدق بهذا، فقال: يا رسول الله اغيرنا، فوالله إنا لجياع ما لنا شيء، قال: فكلوه ".حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَهُ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبَّادَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ: أَتَى رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ فِي رَمَضَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ احْتَرَقْتُ احْتَرَقْتُ، فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا شَأْنُهُ؟، فَقَالَ: أَصَبْتُ أَهْلِي، قَالَ: تَصَدَّقْ، فَقَالَ وَاللَّهِ يَا نَبِيَّ اللَّهِ مَالِي شَيْءٌ وَمَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ، قَالَ: اجْلِسْ، فَجَلَسَ فَبَيْنَا هُوَ عَلَى ذَلِكَ، أَقْبَلَ رَجُلٌ يَسُوقُ حِمَارًا عَلَيْهِ طَعَامٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيْنَ الْمُحْتَرِقُ آنِفًا؟، فَقَامَ الرَّجُلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَصَدَّقْ بِهَذَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغَيْرَنَا، فَوَاللَّهِ إِنَّا لَجِيَاعٌ مَا لَنَا شَيْءٌ، قَالَ: فَكُلُوهُ ".
ابو طاہر، ابن وہب، عمرو بن لیث، عبدالرحمان بن قاسم، محمد بن جعفر بن زبیر، عبادبن عبداللہ بن زبیر، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ فرماتی ہیں۔ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رمضان میں مسجد میں آیا اور اس سے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں تو جل گیا میں تو جل گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا ہوا؟تو اس نے عرض کیا کہ میں نے اپنی بیوی سے ہم بستری کرلی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ کرتو اس نے عرض کیا اللہ کی قسم!اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تو کچھ بھی نہیں اور میں اس پر قدرت بھی نہیں ر کھتا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیٹھ جا تو وہ بیٹھ گیا اسی دوران ایک آدمی اپناگدھا ہانکتے ہوئے لایا جس پر کھانا رکھا ہواتھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جلنے والا آدمی کہاں ہے؟وہ آدمی کھڑا ہواتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کو صدقہ کر تو اس آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہمارے علاوہ بھی (کوئی صدقہ کا مستحق ہے) اللہ کی قسم ہم بھوکے ہیں ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ہی اسے کھالو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک آدمی رمضان میں مسجد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں جل گیا، میں جل گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: ”تیرا کیا معاملہ ہے۔“ تو اس نے کہا: میں نے بیوی سے تعلق قائم کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صدقہ کر،“ تو اس نے کہا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم! میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے اور نہ مجھ میں اس کی قدرت ہے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیٹھ جا۔“ تو وہ بیٹھ گیا، اسی اثنا میں ایک آدمی گدھا ہانگتا ہوا آیا، جس پر کھانا لدا ہوا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جلنے والا کہاں ہے جو ابھی آیا تھا۔“ اس پر وہ آدمی کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ”اس کو صدقہ کر دو،“ تو اس نے کہا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا کسی اور پر؟ اللہ کی قسم! ہم بھوکے ہیں ہمارے پاس کوئی چیز نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کھا لو۔“
15. باب: رمضان المبارک کے مہینے میں مسافر کے لئے جبکہ اس کا سفر دو منزل یا اس سے زیادہ ہو تو روزہ رکھنے اور نہ رکھنے کے جواز کا بیان، اور بہتر یہ ہے کہ جو باب: روزہ کی طاقت رکھتا ہے وہ روزہ رکھے، اور جس کے لیے مشقت ہو تو وہ نہ رکھے۔
Chapter: It is permissible to fast or not to fast during Ramadan for one who is travelling for no sinful purpose, if his journey is two stages or further. But it is better for the one who is able to fast without suffering any harm to do so, and the one for whom it is difficult may break the fast
یحییٰ بن یحییٰ، محمد بن رمح، لیث، قتیبہ، بن سعید، ابن شہاب، عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ والے سال رمضان میں نکلے تو آپ نے روزہ رکھا جب آپ کدید کے مقام پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ افطار کرلیا۔راوی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر نئے سے نئے حکم کی پیروی کیاکرتے تھے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فتح مکہ کے سال رمضان میں نکلے اور روزہ رکھا اور جب کدید نامی جگہ پر پہنچے تو روزہ رکھنا چھوڑ دیا اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری عمل کی پیروی کرتے تھے یہ سب سے زیادہ نیا پھر اس سے زیادہ نیا۔