صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
کتاب صحيح مسلم تفصیلات

صحيح مسلم
روزوں کے احکام و مسائل
The Book of Fasting
14. باب تَغْلِيظِ تَحْرِيمِ الْجِمَاعِ فِي نَهَارِ رَمَضَانَ عَلَى الصَّائِمِ وَوُجُوبِ الْكَفَّارَةِ الْكُبْرَى فِيهِ وَبَيَانِهَا وَأَنَّهَا تَجِبُ عَلَى الْمُوسِرِ وَالْمُعْسِرِ وَتَثْبُتُ فِي ذِمَّةِ الْمُعْسِرِ حَتَّى يَسْتَطِيعَ:
14. باب: رمضان کے دنوں میں روزہ دار پر ہم بستری کی سخت حرمت اور اس کے کفارہ کے وجوب کا بیان، اور یہ کفارہ مالدار اور تنگ دست دونوں پر واجب ہے، اور تنگ دست کے ذمے اس وقت واجب ہو گا جب وہ اس کی طاقت رکھتا ہو۔
Chapter: The strict prohibition of intercourse during the day in Ramadan for one who is fasting; And the obligation of offering major expiation and the definition thereof; And that it is obligatory for both the one who can afford it and the one who cannot afford it, and it remains an obligation for the one who cannot afford it until he has the means
حدیث نمبر: 2603
Save to word اعراب
حدثني ابو الطاهر ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني عمرو بن الحارث ، ان عبد الرحمن بن القاسم ، حدثه، ان محمد بن جعفر بن الزبير حدثه، ان عباد بن عبد الله بن الزبير حدثه، انه سمع عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، تقول: اتى رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد في رمضان، فقال: يا رسول الله احترقت احترقت، فساله رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما شانه؟، فقال: اصبت اهلي، قال: تصدق، فقال والله يا نبي الله مالي شيء وما اقدر عليه، قال: اجلس، فجلس فبينا هو على ذلك، اقبل رجل يسوق حمارا عليه طعام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: اين المحترق آنفا؟، فقام الرجل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تصدق بهذا، فقال: يا رسول الله اغيرنا، فوالله إنا لجياع ما لنا شيء، قال: فكلوه ".حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ الْقَاسِمِ ، حَدَّثَهُ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّ عَبَّادَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، تَقُولُ: أَتَى رَجُلٌ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ فِي رَمَضَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ احْتَرَقْتُ احْتَرَقْتُ، فَسَأَلَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا شَأْنُهُ؟، فَقَالَ: أَصَبْتُ أَهْلِي، قَالَ: تَصَدَّقْ، فَقَالَ وَاللَّهِ يَا نَبِيَّ اللَّهِ مَالِي شَيْءٌ وَمَا أَقْدِرُ عَلَيْهِ، قَالَ: اجْلِسْ، فَجَلَسَ فَبَيْنَا هُوَ عَلَى ذَلِكَ، أَقْبَلَ رَجُلٌ يَسُوقُ حِمَارًا عَلَيْهِ طَعَامٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيْنَ الْمُحْتَرِقُ آنِفًا؟، فَقَامَ الرَّجُلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَصَدَّقْ بِهَذَا، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغَيْرَنَا، فَوَاللَّهِ إِنَّا لَجِيَاعٌ مَا لَنَا شَيْءٌ، قَالَ: فَكُلُوهُ ".
ابو طاہر، ابن وہب، عمرو بن لیث، عبدالرحمان بن قاسم، محمد بن جعفر بن زبیر، عبادبن عبداللہ بن زبیر، سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ فرماتی ہیں۔ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رمضان میں مسجد میں آیا اور اس سے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میں تو جل گیا میں تو جل گیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ کیا ہوا؟تو اس نے عرض کیا کہ میں نے اپنی بیوی سے ہم بستری کرلی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صدقہ کرتو اس نے عرض کیا اللہ کی قسم!اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تو کچھ بھی نہیں اور میں اس پر قدرت بھی نہیں ر کھتا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیٹھ جا تو وہ بیٹھ گیا اسی دوران ایک آدمی اپناگدھا ہانکتے ہوئے لایا جس پر کھانا رکھا ہواتھا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جلنے والا آدمی کہاں ہے؟وہ آدمی کھڑا ہواتو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااس کو صدقہ کر تو اس آدمی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہمارے علاوہ بھی (کوئی صدقہ کا مستحق ہے) اللہ کی قسم ہم بھوکے ہیں ہمارے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم ہی اسے کھالو۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ایک آدمی رمضان میں مسجد میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا اے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں جل گیا، میں جل گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا: تیرا کیا معاملہ ہے۔ تو اس نے کہا: میں نے بیوی سے تعلق قائم کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ کر، تو اس نے کہا: اے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ کی قسم! میرے پاس کوئی چیز نہیں ہے اور نہ مجھ میں اس کی قدرت ہے۔ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیٹھ جا۔ تو وہ بیٹھ گیا، اسی اثنا میں ایک آدمی گدھا ہانگتا ہوا آیا، جس پر کھانا لدا ہوا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جلنے والا کہاں ہے جو ابھی آیا تھا۔ اس پر وہ آدمی کھڑا ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: اس کو صدقہ کر دو، تو اس نے کہا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا کسی اور پر؟ اللہ کی قسم! ہم بھوکے ہیں ہمارے پاس کوئی چیز نہیں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے کھا لو۔
ترقیم فوادعبدالباقی: 1112

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

   صحيح البخاري1935عائشة بنت عبد اللهأين المحترق قال أنا قال تصدق بهذا
   صحيح مسلم2603عائشة بنت عبد اللهأصبت أهلي قال تصدق فقال والله يا نبي الله مالي شيء وما أقدر عليه قال اجلس فجلس فبينا هو على ذلك أقبل رجل يسوق حمارا عليه طعام فقال رسول الله أين المحترق آنفا فقام الرجل فقال رسول الله تصدق بهذا فقال يا رس
   سنن أبي داود2394عائشة بنت عبد اللهأصبت أهلي قال تصدق قال والله ما لي شيء ولا أقدر عليه قال اجلس فجلس فبينما هو على ذلك أقبل رجل يسوق حمارا عليه طعام فقال رسول الله أين المحترق آنفا فقام الرجل فقال رسول الله تصدق بهذا فقال يا رسول الله أعلى غيرنا فوالل

صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2603 کے فوائد و مسائل
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2603  
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:

ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے جو رمضان کے دنوں میں تعلقات زن وشوہر قائم کرے اس پر کفارہ واجب ہے اگر یہ کام عمداً جان بوجھ کر کیا تو یہ آئمہ اربعہ کا اتفاقی مسئلہ میں اگر یہ کام نسیاناً بھول کر کیا تو احناف اور شوافع کے نزدیک قضاء اور کفارہ نہیں ہے۔
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک روزہ ٹوٹ جائے گا اور کفارہ پڑے گا۔
شوافع اور حنابلہ کے نزدیک قضاء اور کفارہ صرف تعلقات سے روزہ توڑنے پر ہے کھانے پینے کی صورت میں صرف روزہ کی قضائی ہے کفارہ نہیں ہے اور احناف و مالکیہ کے نزدیک جماع اکل اور شرب تینوں صورتوں میں قضاء اور کفارہ ہے مالکیہ کے مشہور قول کے مطابق کفارہ میں صرف ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو گا گردن کی آزادی یا دو ماہ کے روزے نہیں رکھ سکتا۔
دوسرے قول کی روسے کھانے پینے کی صورت میں تینوں میں اختیار ہے اور جماع کی صورت میں صرف طعام ہے تیسرے قول کے مطابق ہر حالت میں اختیار ہے۔
جمہور آئمہ کے نزدیک اگر کوئی آدمی رمضان کے روزہ میں اس غلطی کا ارتکاب کر لے تو اگر وہ غلام آزد کرنے کی قدرت رکھتا ہو تو صحیح و سالم اور تندرست مسلمان غلام آزاد کرے۔
احناف کے نزدیک کافرغلام بھی آزاد کیا جا سکتا ہے اگر اس کی قدرت نہ ہو تو متواتر دو ماہ کے روزے رکھے،
اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے۔
جمہور کے نزدیک کھانا ہر مسکین کے لیے ایک مدی یعنی پندرہ (15)
صاع،
احناف کے نزدیک گندم کا نصف صاع یعنی تیس صاع اور باقی اجناس سے ساٹھ (60)
صاع جمہور کے نزدیک کفارہ مرد اور عورت دونوں پر ہے اور شوافع ااوزاعی کے نزدیک صرف مرد پر جمہور کے نزدیک فقر و فاقہ کی صورت میں کفارہ ساقط نہیں ہو گا استطاعت و مقدرت کے لیے ڈھیل اور رخصت مل جائے گی۔
لیکن عیسیٰ بن دینار مالکی اور شوافع کے ایک قول کے مطابق کفارہ ساقط ہو جائے گا اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تفصیلی روایت کا ظاہری تقاضا یہی ہے اور امام احمد رحمۃ اللہ علیہ کا مشہور قول یہی ہے اور امام زہری رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک کفارہ کا سقوط اس آدمی کے ساتھ خاص ہے۔

کفارہ اگر طعام ہو تو اس کی ادائیگی دوسرا آدمی کر سکتا ہے یعنی فقروفاقہ کی صورت میں صدقہ سے اس کا تعاون کیا جا سکتا ہے۔

اگر کفارہ دوسرا آدمی ادا کرے تو جس کی طرف سے کفارہ ادا کیا جا رہا ہے وہ اگر محتاج اور ضرورت مند ہے تو وہ بھی اور اس کے گھر والے بھی کھا سکتے ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2603   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2394  
´رمضان میں بیوی سے جماع کے کفارہ کا بیان۔`
عباد بن عبداللہ بن زبیر کا بیان ہے کہ انہوں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کو کہتے سنا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص رمضان میں مسجد کے اندر آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میں تو بھسم ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا بات ہے؟ کہنے لگا: میں نے اپنی بیوی سے صحبت کر لی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدقہ کر دو، وہ کہنے لگا: اللہ کی قسم! میرے پاس صدقہ کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے، اور نہ میرے اندر استطاعت ہے، فرمایا: بیٹھ جاؤ، وہ بیٹھ گیا، اتنے میں ایک شخص غلے سے لدا ہوا گدھا ہانک کر لایا، آپ صل۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الصيام /حدیث: 2394]
فوائد ومسائل:
یہ دین و تقویٰ اور خشیت کا اثر تھا کہ یہ صحابی اس گناہ کو اپنے لیے جل جانے یا ہلاک ہونے سے تعبیر کر رہا تھا۔

   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2394   

  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1935  
1935. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ وہ جل گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تجھے کیا ہوا ہے؟ اس نے عرض کیا کہ میں رمضان میں (دن کے وقت) بیوی سے صحبت کرلی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے پاس کھجوروں کا ایک تھیلا آیا جسے عرق کہاجاتا تھا، آپ نے فرمایا؛ جلنے والا کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میں ادھر ہوں۔ آپ نے فرمایا: اسے صدقہ کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1935]
حدیث حاشیہ:
آگے یہی واقعہ تفصیل سے آرہا ہے جس میں آپ نے اس شخص کو بطور کفارہ پے در پے دو ماہ کے روزوں کا حکم فرمایا تھا یا پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ جرم ایک سنگین جرم ہے، جس کا کفارہ یہی ہے جو آنحضرت ﷺ نے بتلا دیا اور سعید بن مسیب وغیرہ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ سزا مذکورہ کے علاوہ یہ روزہ بھی اسے مزید لازماً رکھنا ہوگا۔
امام اوزاعی نے کہا کہ اگر دو ماہ کے روزے رکھے تو قضا لازم نہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1935   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1935  
1935. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ وہ جل گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تجھے کیا ہوا ہے؟ اس نے عرض کیا کہ میں رمضان میں (دن کے وقت) بیوی سے صحبت کرلی ہے۔ نبی کریم ﷺ کے پاس کھجوروں کا ایک تھیلا آیا جسے عرق کہاجاتا تھا، آپ نے فرمایا؛ جلنے والا کہاں ہے؟ اس نے کہا کہ میں ادھر ہوں۔ آپ نے فرمایا: اسے صدقہ کرو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1935]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس شخص نے رمضان المبارک میں دن کے وقت قصداً صحبت کی تھی کیونکہ بھول کر ایسا کرنے والا بالاتفاق گناہ گار نہیں۔
(2)
جلنے کا مطلب یہ ہے کہ اس گناہ کی بنا پر وہ قیامت کے دن آگ میں جلے گا۔
اس روایت سے امام مالک نے استدلال کیا ہے کہ رمضان میں جماع سے روزہ توڑنے والے کے ذمے صرف ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا ہے، دو ماہ کے روزے یا غلام کو آزاد کرنا نہیں، لیکن اس حدیث سے استدلال صحیح نہیں کیونکہ اس حدیث میں اختصار ہے۔
تفصیلی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے فرمایا:
گردن آزاد کرو۔
اس نے کہا:
میں اس کی طاقت نہیں رکھتا۔
آپ نے فرمایا:
ساٹھ مساکین کو کھانا کھلاؤ۔
اس نے عرض کی:
میرے پاس کچھ نہیں۔
اگرچہ اس روایت میں روزے رکھنے کا ذکر نہیں، تاہم دیگر روایات میں اس کی صراحت ہے۔
(فتح الباري: 208/4)
واضح رہے کہ کفارے کی ترتیب یہ ہے:
ایک گردن آزاد کی جائے۔
اگر اس کی طاقت نہ ہو تو دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے جائیں۔
اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلانا جائے۔
یہ کفارہ اس شخص کے ذمے ہے جو روزے کی حالت میں دانستہ اپنی بیوی سے مباشرت کرے۔
دانستہ کھانے پینے سے روزہ توڑنے پر یہ کفارہ نہیں کیونکہ حدیث مباشرت کے متعلق ہے، کھانے پینے کو مباشرت پر قیاس کرنا صحیح نہیں، اس لیے کہ عبادات میں قیاس نہیں چلتا۔
اگرچہ ایک روایت میں ہے کہ ایک آدمی نے روزہ توڑ دیا تو آپ نے یہ کفارہ بتایا لیکن یہ روایت مجمل ہے جسے دیگر روایات نے واضح کر دیا ہے کہ اس نے مباشرت کر کے روزہ توڑا تھا۔
(فتح الباري: 211/4)
البتہ بھول کر مباشرت کرنے پر کوئی کفارہ یا قضا نہیں ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ اگر کوئی بھول کر رمضان میں روزہ کھول لے تو اس پر قضا اور کفارہ نہیں ہے۔
(المستدرك للحاكم: 430/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1935   


https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.