روح بن قاسم نے کہا: ہمیں سہیل بن ابی صالح نے اسی سند کے ساتھ حدیث بیان کی اورعقصاء (مرے ہوئے سینگوں والی) کے بجائےعضباء (ٹوٹے ہوئے سینگوں والی) کہا: اور اس کے زریعے سے اس کا پہلو اور اس کی پشت داغی جائے گی"کہا اور پیشانی کا ذکر نہیں کیا۔
مصنف اپنے ایک اوراستاد سے سہیل کی سند سے روایت بیان کرتے ہیں اور اس میں ”عقصاء“ بڑے سینگوں والی کی جگہ ”عضباء“ ٹوٹے سینگوں والی ہے،اور اس میں ہے۔ ”فيكوى بها جنبه وظهره“ ان سے اس کے پہلو اور پشت کو داغا جائے گا اور ”جبينه“(اس کی پیشانی) کا ذکر نہیں ہے۔
بکیرنے (ابو صالح) ذکوان سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ر وایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛"جب انسان اپنے اونٹوں میں اللہ کا حق یا زکاۃ ادا نہیں کرتا۔۔۔"آگے سہیل کی روایت کی طرح حدیث بیا ن کی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےروایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب انسان اپنے اونٹوں سے اللہ کا حق یا زکاۃ ادا نہیں کرتا۔“ آگے سہیل کے ہم معنی روایت ہے۔
حدثنا إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا عبد الرزاق . ح وحدثني محمد بن رافع واللفظ له، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني ابو الزبير ، انه سمع جابر بن عبد الله الانصاري ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " ما من صاحب إبل لا يفعل فيها حقها، إلا جاءت يوم القيامة اكثر ما كانت قط، وقعد لها بقاع قرقر تستن عليه بقوائمها واخفافها، ولا صاحب بقر لا يفعل فيها حقها، إلا جاءت يوم القيامة اكثر ما كانت، وقعد لها بقاع قرقر تنطحه بقرونها وتطؤه بقوائمها، ولا صاحب غنم لا يفعل فيها حقها، إلا جاءت يوم القيامة اكثر ما كانت، وقعد لها بقاع قرقر تنطحه بقرونها وتطؤه باظلافها، ليس فيها جماء ولا منكسر قرنها، ولا صاحب كنز لا يفعل فيه حقه، إلا جاء كنزه يوم القيامة شجاعا اقرع يتبعه فاتحا فاه، فإذا اتاه فر منه، فيناديه خذ كنزك الذي خباته فانا عنه غني، فإذا راى ان لا بد منه سلك يده في فيه، فيقضمها قضم الفحل "، قال ابو الزبير : سمعت عبيد بن عمير يقول هذا القول، ثم سالنا جابر بن عبد الله عن ذلك، فقال مثل قول عبيد بن عمير ، وقال ابو الزبير : سمعت عبيد بن عمير ، يقول: قال رجل: يا رسول الله ما حق الإبل؟، قال: " حلبها على الماء، وإعارة دلوها، وإعارة فحلها ومنيحتها، وحمل عليها في سبيل الله ".حَدَّثَنَا إسحاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ الْأَنْصَارِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ لَا يَفْعَلُ فِيهَا حَقَّهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرَ مَا كَانَتْ قَطُّ، وَقَعَدَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ تَسْتَنُّ عَلَيْهِ بِقَوَائِمِهَا وَأَخْفَافِهَا، وَلَا صَاحِبِ بَقَرٍ لَا يَفْعَلُ فِيهَا حَقَّهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرَ مَا كَانَتْ، وَقَعَدَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِقَوَائِمِهَا، وَلَا صَاحِبِ غَنَمٍ لَا يَفْعَلُ فِيهَا حَقَّهَا، إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَكْثَرَ مَا كَانَتْ، وَقَعَدَ لَهَا بِقَاعٍ قَرْقَرٍ تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا، لَيْسَ فِيهَا جَمَّاءُ وَلَا مُنْكَسِرٌ قَرْنُهَا، وَلَا صَاحِبِ كَنْزٍ لَا يَفْعَلُ فِيهِ حَقَّهُ، إِلَّا جَاءَ كَنْزُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ يَتْبَعُهُ فَاتِحًا فَاهُ، فَإِذَا أَتَاهُ فَرَّ مِنْهُ، فَيُنَادِيهِ خُذْ كَنْزَكَ الَّذِي خَبَأْتَهُ فَأَنَا عَنْهُ غَنِيٌّ، فَإِذَا رَأَى أَنْ لَا بُدَّ مِنْهُ سَلَكَ يَدَهُ فِي فِيهِ، فَيَقْضَمُهَا قَضْمَ الْفَحْلِ "، قَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ : سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ يَقُولُ هَذَا الْقَوْلَ، ثُمَّ سَأَلْنَا جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ مِثْلَ قَوْلِ عُبَيْدِ بْنِ عُمَيْرٍ ، وقَالَ أَبُو الزُّبَيْرِ : سَمِعْتُ عُبَيْدَ بْنَ عُمَيْرٍ ، يَقُولُ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا حَقُّ الْإِبِلِ؟، قَالَ: " حَلَبُهَا عَلَى الْمَاءِ، وَإِعَارَةُ دَلْوِهَا، وَإِعَارَةُ فَحْلِهَا وَمَنِيحَتُهَا، وَحَمْلٌ عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ".
ابن جریج نے کہا: مجھے ابو زبیر نے بتایا کہ انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کو کہتے ہوئے سنا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرمارہے تھے: "کوئی اونٹوں کا مالک نہیں جو ان کے معاملے میں اس طرح نہیں کرتا جس طرح ان کا حق ہے مگر وہ قیامت کے دن اپنی انتہائی زیادہ تعداد میں آئیں گے جو کبھی ان کی تھی اور وہ ان (اونٹوں) کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بیٹھے گا اور وہ اسے اپنے اگلے قدموں اور اپنے پاؤں سے روندیں گے۔اسی طرح کوئی گائے کا مالک نہیں جو ان کا حق ادا نہیں کرتا مگر وہ قیامت کے دن اس سے زیادہ سے زیادہ تعداد میں آئیں گی جو کبھی ان کی تھی۔اور وہ ان کے سامنے چٹیل میدان میں بیٹھے گا، وہ اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے پیروں سے روندیں گی اور اسی طرح بکریوں کا کوئی مالک نہیں جو ان کا حق ادا نہیں کرتا تو وہ قیامت کے دن اپنی زیادہ سے زیادہ تعداد میں آئیں گی جو کبھی ان کی تھی اور وہ ان کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بیٹھے گا اور وہ اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے سموں سے اسے روندیں گی اور ان میں نہ کوئی سینگوں کے بغیر ہوگی اور نہ ہی کوئی ٹوٹے سینگوں والی ہوگی اور کوئی (سونے چاندی کے) خزانے کا مالک نہیں جو اس کا حق ادا نہیں کرتا مگر قیامت کے دن اس کا خزانہ گنجا سانپ بن کر آئے گا اور اپنا منہ کھولے ہوئے اس کاتعاقب کرے گا، جب اس کے پاس پہنچے گا تو وہ اس سے بھاگے گا، پھر وہ (سانپ) اسے آواز دے گا: اپنا خزانہ لے لو جو تم نے (دنیامیں) چھپا کررکھا تھا۔مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔جب (خزانے والا) دیکھے گا اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں تو وہ اپنا ہاتھ اس (سانپ) کے منہ میں داخل کرے گا، وہ اسے اس طرح چبائے گا جس طرح سانڈھ چباتا ہے۔" ابو زبیر نے کہا: میں نے عبید بن عمیر کو یہ بات کہتے ہوئے سنا، پھر ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اس (حدیث) کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے اسی طرح کہا جس طرح عبید بن عمیر نے کہا۔ اور ابو زبیر نے کہا: میں نے عبید بن عمیر کو کہتے ہوئے سنا ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اونٹوں کا حق کیا ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پانی (پلانے کاموقع) پر ان کا دودھ دوہنا (اور لوگوں کو پلانا) اور اس کا ڈول ادھار دینا اور اس کا سانڈ ادھار دینا اور اونٹنی کو دودھ پینے کے لئے دینا اور اللہ کی راہ میں سواری کی خاطر دینا۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ انصاری بیان کرتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(جو بھی اونٹوں کا مالک ان کا حق ادا نہیں کرتا ہے تو وہ قیامت کے دن اپنی زیادہ تعداد میں آئیں گے جو کبھی ان کی تھی اور وہ ان (اونٹوں) کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بٹھایا جائے گا اور وہ اسے اپنے اگلے پاؤں اور کھروں سے روندیں گے۔ اور جو گائیوں کا مالک ان کا حق ادا نہیں کرے گا تو وہ قیامت کے دن اپنی زیادہ تعداد ہونے کی صورت میں آئیں گی، اور وہ ان کے سامنے چٹیل میدان میں بٹھایا جائے گا، وہ اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے پیروں سے روندیں گی اور جو بکریوں کا مالک ان کا حق ادا نہیں کرتا ہے تو وہ قیامت کے دن اپنی زیادہ سے زیادہ تعداد ہونے کی صور ت میں آئیں گی اور وہ ان کے سامنے چٹیل میدان میں بیٹھے گا اور وہ اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے کھروں سے روندیں گی اور ان میں کوئی بکری بغیر سینگوں کے ہو گی اور نہ ہی ٹوٹے ہوئے سینگوں والی اور نہ ہی کوئی خزانہ کا مالک ہے جو اس کا حق ادا نہیں کرتا مگر قیامت کے دن اس کا خزانہ گنجا سانپ بن کر آئے گا اور اپنا منہ کھولے ہوئے اس کا تعاقب کرے گا، جب اس کے پاس پہنچے گا تو وہ اس سے بھاگے گا، تو وہ (سانپ) اسے آواز دے گا: اپنے خزانہ پکڑو! جسے چھپا کر رکھا کرتے تھے۔ مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ جب صاحب خزان دیکھے گا اس سے بچنے کی کوئی صورت چارہ نہیں تو اپنا ہاتھ اس (سانپ) کے منہ میں داخل کر دے گا، وہ اسے سانڈھ (نر اونٹ) کی طرح چبائے گا“ ابو زبیر نے کہا: یہ بات میں نے عبید بن عمیر سے سنی تھی بھر ہم نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا تو انھوں نے بھی عبید بن عمیر کی طرح سنائی، ابو زبیر کہتے ہیں: میں نے عبید بن عمیرسے سنا کہ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !اونٹوں کا حق کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (پانی پر ان کا دودھ دوہنا) تاکہ ضرورت مند لے سکیں) اور اس کا ڈول عاریتہً (پانی پلانے کےلیے) دینا اور ان میں نرکو جفتی کے لیے مانگنے پر عاریتہً دینا، اور اونٹنی کو ”منيحة“ دودھ پینے، اون کاٹنے کےلیے عاریتاً دینا، اور کسی کو جہاد کے لیے سواری کےلیے دینا۔
حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا ابي ، حدثنا عبد الملك ، عن ابي الزبير ، عن جابر بن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ما من صاحب إبل ولا بقر ولا غنم لا يؤدي حقها، إلا اقعد لها يوم القيامة بقاع قرقر، تطؤه ذات الظلف بظلفها، وتنطحه ذات القرن بقرنها ليس فيها يومئذ جماء ولا مكسورة القرن، قلنا: يا رسول الله وما حقها؟، قال: إطراق فحلها، وإعارة دلوها ومنيحتها، وحلبها على الماء، وحمل عليها في سبيل الله، ولا من صاحب مال لا يؤدي زكاته، إلا تحول يوم القيامة شجاعا اقرع يتبع صاحبه حيثما ذهب، وهو يفر منه، ويقال: هذا مالك الذي كنت تبخل به، فإذا راى انه لا بد منه، ادخل يده في فيه فجعل يقضمها كما يقضم الفحل ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ وَلَا بَقَرٍ وَلَا غَنَمٍ لَا يُؤَدِّي حَقَّهَا، إِلَّا أُقْعِدَ لَهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِقَاعٍ قَرْقَرٍ، تَطَؤُهُ ذَاتُ الظِّلْفِ بِظِلْفِهَا، وَتَنْطَحُهُ ذَاتُ الْقَرْنِ بِقَرْنِهَا لَيْسَ فِيهَا يَوْمَئِذٍ جَمَّاءُ وَلَا مَكْسُورَةُ الْقَرْنِ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا حَقُّهَا؟، قَالَ: إِطْرَاقُ فَحْلِهَا، وَإِعَارَةُ دَلْوِهَا وَمَنِيحَتُهَا، وَحَلَبُهَا عَلَى الْمَاءِ، وَحَمْلٌ عَلَيْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، وَلَا مِنْ صَاحِبِ مَالٍ لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهُ، إِلَّا تَحَوَّلَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ شُجَاعًا أَقْرَعَ يَتْبَعُ صَاحِبَهُ حَيْثُمَا ذَهَبَ، وَهُوَ يَفِرُّ مِنْهُ، وَيُقَالُ: هَذَا مَالُكَ الَّذِي كُنْتَ تَبْخَلُ بِهِ، فَإِذَا رَأَى أَنَّهُ لَا بُدَّ مِنْهُ، أَدْخَلَ يَدَهُ فِي فِيهِ فَجَعَلَ يَقْضَمُهَا كَمَا يَقْضَمُ الْفَحْلُ ".
عبدالملک نے ابو زبیر سے، انھوں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اونٹوں، گائے اور بکریوں کا جو بھی مالک ان کا حق ادا نہیں کرتا تو اسے قیامت کے دن ان کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بٹھایا جائےگا۔سموں والا جانور اسے اپنے سموں سے روندے گا اور سینگوں والا اسے اپنے سینگوں سے مارے گا، ان میں سے اس دن نہ کوئی (گائے یا بکری) بغیر سینگ کے ہوگی اور نہ ہی کوئی ٹوٹے ہوئے سینگوں والی ہوگی۔"ہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ان کا حق کیا ہے؟آپ نے فرمایا: "ان میں سے نر کو جفتی کے لئے دینا، ان کا ڈول ادھار دینا، ان کو دودھ پینے کے لئے دینا، ان کو پانی کے گھاٹ پر دوہنا (اور لوگوں کو پلانا) اور اللہ کی راہ میں سواری کے لئے د ینا۔اور جو بھی صاحب مال اسکی زکاۃ ادا نہیں کرتا۔تو قیامت کے دن وہ مال گنجے سانپ کی شکل اختیار کرلے گا، اس کا مالک جہاں جائے گا وہ اس کے پیچھے لگا رہے گا اور وہ اس سے بھاگے گا، اسے کہا جائےگا: یہ تیرا وہی مال ہے جس میں تو بخل کیا کرتاتھا۔جب وہ د یکھے گا کہ اس سے بچنے کی کوئی صورت نہیں ہے تو وہ اپنا ہاتھ اسکے منہ میں داخل کرے گا، وہ اسے اس طرح چبائے گا جس طرح اونٹ (چارے کو) چباتا ہے۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سےروایت ہے، کہ رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: ”جو بھی اونٹوں، گائیوں اور بکریوں کا مالک ان کا حق ادا نہیں کرتا۔ اسے قیامت کے دن ان کے سامنے وسیع چٹیل میدان میں بٹھایا جائےگا۔ کھروں والا جانور اسے اپنے کھروں سے روندے گا اور سینگوں والا اسے اپنے سینگوں سے مارے گا، ان میں سے اس دن نہ کوئی بلا سینگ یا ٹوٹے ہوئے سینگوں والا نہیں ہو گا“ ہم نے پوچھا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ان کا حق کیا ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(ان میں سے نر کو جفتی کے لئے دینا، ان کا ڈول کو عاریۃً پانی پلانے کے لیے) دینا، ان کو کچھ وقت دودھ پینے کے لئے دینا، ان کو پانی کے گھاٹ پر دوہنا (اور سواری کے قابل کو)مجاہد کو سواری کے لئے د ینا۔ اور جو مالک مال بھی اس کی زکاۃ ادا نہیں کرتا۔ تو وہ مال قیامت کے دن گنجے سانپ کی شکل میں تبدیل ہو گا، اس کا مالک جہاں جائے گا وہ اس کے پیچھا کرے گا اور وہ اس سے بھاگے گا، اسے کہا جائےگا: یہ تیرا وہ مال ہے جسے روک روک رکھتا تھا تو جب وہ د یکھے گا کہ اس سے بچنے کی کوئی جگہ نہیں ہے تو اسکے منہ میں داخل کرے گا، وہ اسے نر اونٹ کی طرح چبانا شروع کر دے گا۔“
عبدالواحد بن زیاد نے کہا: ہمیں محمد بن ابی اسماعیل نے حدیث سنائی، انھوں نے کہا: ہمیں عبدالرحمان ہلال بن عبسی نے حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: کچھ بدوی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: کچھ زکاۃ وصول کرنے والے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم پر ظلم کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اپنے زکاۃ وصول کرنے والوں کو راضی کیاکرو۔" حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے کہا: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے تو میرے پاس سے جو کوئی زکاۃ وصول کرنے والا گیا، راضی گیا۔
حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے کہ کچھ بدوی لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے: کچھ زکاۃ وصول کرنے والے لوگ ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم پر ظلم کرتے ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے زکاۃ وصول کرنے والوں کو راضی کیا کرو۔“ حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: جب سے میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے تو میرے پاس سے کوئی زکاۃ وصول کرنے والا ناراض نہیں گیا۔
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن المعرور بن سويد ، عن ابي ذر ، قال: انتهيت إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو جالس في ظل الكعبة، فلما رآني، قال: " هم الاخسرون ورب الكعبة "، قال: فجئت حتى جلست فلم اتقار ان قمت، فقلت: يا رسول الله فداك ابي وامي، من هم؟، قال: " هم الاكثرون اموالا، إلا من قال هكذا وهكذا وهكذا من بين يديه ومن خلفه وعن يمينه وعن شماله، وقليل ما هم ما من صاحب إبل ولا بقر ولا غنم، لا يؤدي زكاتها إلا جاءت يوم القيامة، اعظم ما كانت واسمنه، تنطحه بقرونها وتطؤه باظلافها، كلما نفدت اخراها، عادت عليه اولاها، حتى يقضى بين الناس "،حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ الْمَعْرُورِ بْنِ سُوَيْدٍ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، فَلَمَّا رَآنِي، قَالَ: " هُمُ الْأَخْسَرُونَ وَرَبِّ الْكَعْبَةِ "، قَالَ: فَجِئْتُ حَتَّى جَلَسْتُ فَلَمْ أَتَقَارَّ أَنْ قُمْتُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ فِدَاكَ أَبِي وَأُمِّي، مَنْ هُمْ؟، قَالَ: " هُمُ الْأَكْثَرُونَ أَمْوَالًا، إِلَّا مَنْ قَالَ هَكَذَا وَهَكَذَا وَهَكَذَا مِنْ بَيْنَ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ، وَقَلِيلٌ مَا هُمْ مَا مِنْ صَاحِبِ إِبِلٍ وَلَا بَقَرٍ وَلَا غَنَمٍ، لَا يُؤَدِّي زَكَاتَهَا إِلَّا جَاءَتْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، أَعْظَمَ مَا كَانَتْ وَأَسْمَنَهُ، تَنْطَحُهُ بِقُرُونِهَا وَتَطَؤُهُ بِأَظْلَافِهَا، كُلَّمَا نَفِدَتْ أُخْرَاهَا، عَادَتْ عَلَيْهِ أُولَاهَا، حَتَّى يُقْضَى بَيْنَ النَّاسِ "،
وکیع نے کہا: اعمش نے ہمیں معرور بن سوید کے حوالے سے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبےکےسائے میں تشریف فرما تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھا تو فرمایا: "رب کعب کی قسم! وہی لوگ سب سے زیادہ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔"کہا: میں آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا (ہی تھا) اور اطمینان سے بیٹھا ہی نہ تھا کہ کھڑا ہوگیا اور میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان وہ کون لوگ ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " وہ زیادہ مالدار لوگ ہیں، سوائے اس کے جس نے، اپنے آگے، اپنے پیچھے، اپنے دائیں، اپنے بائیں، ایسے، ایسے اور ایسے کہا (لے لو، لے لو) اور ایسے لوگ بہت کم ہیں۔جو بھی اونٹوں، گایوں یابکریوں کا مالک ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا تو وہ قیامت کے دن اس طرح بڑی اور موٹی ہوکر آئیں گی جتنی زیادہ سےزیادہ تھیں، اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی اور اپنے کھروں سے روندیں گی جب بھی ان میں سے آخری گزر کر جائے گی، پہلی اس (کے سر) پر واپس آجائے گی حتیٰ کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کردیا جائے گا۔"
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا جبکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے سایہ میں تشریف فرما تھے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ کر فرمایا: ”رب کعبہ کی قسم! وہی لوگ سب سے زیادہ ناکام اور نقصان اٹھانے والے ہیں“ میں آ کر آپ کے پاس بیٹھا ہی تھا اور میں نے قرارو ثبات حاصل نہیں کیا تھا کہ میں اٹھ کھڑا ہوا اور میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپصلی اللہ علیہ وسلم پر قربان! وہ کون لوگ ہیں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ زیادہ مال دار لوگ ہیں مگر جس نے ادھر،اُدھر، یہاں، وہاں، آگے، پیچھے، دائیں، بائیں (ہر ضرورت کے موقعہ پر) خرچ کیا۔ اور ایسے لوگ بہت کم ہیں جو بھی اونٹوں یا گائیوں یا بکریوں کا مالک ان کی زکاۃ ادا نہیں کرتا تو وہ قیامت کے دن زیادہ سے زیادہ تعداد ہونے کی حالت میں اور فربہ ہو کر آئیں گے۔ اسے اپنے سینگوں سے ماریں گے اور اپنے کھروں سے اسے پامال کریں گے جب بھی ان میں سے آخری گزرے گا ان میں سے پہلا واپس آ چکا ہو گا۔ حتی کہ لوگوں کے درمیان فیصلہ کر دیا جائے گا۔“
وحدثناه ابو كريب محمد بن العلاء ، حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن المعرور ، عن ابي ذر ، قال: انتهيت إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو جالس في ظل الكعبة، فذكر نحو حديث وكيع، غير انه قال: " والذي نفسي بيده ما على الارض رجل يموت، فيدع إبلا او بقرا او غنما لم يؤد زكاتها ".وحَدَّثَنَاه أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ الْمَعْرُورِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ جَالِسٌ فِي ظِلِّ الْكَعْبَةِ، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ وَكِيعٍ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: " وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا عَلَى الْأَرْضِ رَجُلٌ يَمُوتُ، فَيَدَعُ إِبِلًا أَوْ بَقَرًا أَوْ غَنَمًا لَمْ يُؤَدِّ زَكَاتَهَا ".
ابو معاویہ نے اعمش سے، انھوں نے معرور سےاور انھوں نے حضرت ابوزر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا، آپ کعبہ کے سائے میں تشریف فرما تھے۔۔۔آگے وکیع کی روایت کی طرح ہے، البتہ (اس میں ہے کہ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!زمین پر جو بھی آدمی فوت ہوتا ہے اور ایسے اونٹ، گائےیا بکریاں پیچھے چھوڑ جاتا ہے جن کی اس نے زکاۃ ادا نہیں کی۔"
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا جبکہ آپصلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے سایہ میں تشریف فرما تھے۔ آگے وکیع کی مذکورہ بالا روایت کے ہم معنی روایت ہے ہاں اتنا فرق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! زمین پر جو بھی آدمی فوت ہوتا ہے اور اونٹ یا گائے یا بکریاں پیچھے چھوڑتا ہے جن کی اس نے زکاۃ ادا نہیں کی۔“
ربیع بن مسلم نے محمد بن زیادسے اور انھوں نے حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میرے لئے یہ بات خوشی کاباعث نہیں کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسرا دن مجھ پر اس طرح آئے کہ میرے پاس اس میں سے کوئی دینار بچا ہوا موجود ہوسوائے اس دینار کے جس کو میں اپنا قرض چکانے کے لئے رکھ لوں۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے یہ بات پسند نہیں ہے (میرے لیے خوشی کا باعث نہیں) کہ میرے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسرا دن مجھ پر اس طرح آئے کہ میرے پاس اس میں سے دینار بچا ہوا موجود ہو سوائے اس دینار کے جس کو میں اپنا قرض چکانے کے لیے تیار رکھوں۔“