صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
زکاۃ کے احکام و مسائل
The Book of Zakat
حدیث نمبر: 2413
Save to word اعراب
وحدثني ابو غسان المسمعي ، ومحمد بن المثنى ، قالا: حدثنا معاذ بن هشام ، حدثني ابي ، عن قتادة ، عن انس ، ان نبي الله صلى الله عليه وسلم قال بمثله،وحَدَّثَنِي أَبُو غَسَّانَ الْمِسْمَعِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ بِمِثْلِهِ،
معاذ بن ہشام کے والد ہشام نے قتادہ سے اور انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ (آگے) اسی طرح ہے۔
امام صاحب نے اپنے دو اور استادوں سے یہی روایت نقل کی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 2414
Save to word اعراب
وحدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة، قال: سمعت قتادة يحدث، عن انس بن مالك ، عن النبي صلى الله عليه وسلم بنحوه.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ.
شعبہ نے کہا: میں نے قتادہ سے سنا، وہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کررہے تھے، انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی۔۔۔ (آگے) اسی طرح ہے۔
امام صاحب نے اپنے دو اور استادوں سے اس کے ہم معنی روایت بیان کی ہے۔ اور اس میں شعبہ کے قتادہ سے اور قتادہ کے حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سماع کی صراحت موجود ہے (جبکہ اوپر کی روایات میں عن قتادہ عن انس ہے)۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
39. باب لَوْ أَنَّ لاِبْنِ آدَمَ وَادِيَيْنِ لاَبْتَغَى ثَالِثًا:
39. باب: اگر آدم کے بیٹے کے پاس دو وادیاں مال کی ہوں تو وہ تیسری چاہے گا۔
Chapter: If the Son of Adam had two valleys, he would desire a third
حدیث نمبر: 2415
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى ، وسعيد بن منصور ، وقتيبة بن سعيد ، قال يحيى: اخبرنا، وقال الآخران: حدثنا ابو عوانة ، عن قتادة ، عن انس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو كان لابن آدم واديان من مال، لابتغى واديا ثالثا، ولا يملا جوف ابن آدم إلا التراب، ويتوب الله على من تاب "،حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا، وَقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَالٍ، لَابْتَغَى وَادِيًا ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَيَتُوبُ اللَّهُ عَلَى مَنْ تَابَ "،
ابو عوانہ نے قتادہ سے انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اگر آدم کے بیٹے کے پاس مال کی (بھری ہو ئی) دو وادیاں ہوں تو وہ تیسری حاصل کرنا چا ہے گا آدمی کا پیٹ مٹی کے سوا کوئی اور چیز نہیں بھر سکتی اور اللہ اسی کی طرف تو جہ فر ما تا ہے جو (اس کی طرف) تو جہ کرتا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر ابن آدم (آدمی) کے پاس مال کے بھرے ہوئے دومیدان اور دو جنگل ہوں تو وہ تیسرا اور چاہے گا اور آدمی کا پیٹ تو بس مٹی سے ہی بھرے گا (مال و دولت کی ہوس ختم نہ ہونے والی ہوس کا خاتمہ بس قبر میں جا کر ہو گا۔) اور اللہ اس بندے پر عنایت اور مہربانی فرماتا ہے جو اپنا رخ اور اپنی توجہ اس کی طرف کر لیتا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 2416
Save to word اعراب
وحدثنا ابن المثنى ، وابن بشار ، قال ابن المثنى: حدثنا محمد بن جعفر ، اخبرنا شعبة ، قال: سمعت قتادة يحدث، عن انس بن مالك ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: فلا ادري اشيء انزل ام شيء كان يقوله، بمثل حديث ابي عوانة.وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: فَلَا أَدْرِي أَشَيْءٌ أُنْزِلَ أَمْ شَيْءٌ كَانَ يَقُولُهُ، بِمِثْلِ حَدِيثِ أَبِي عَوَانَةَ.
شعبہ نے کہا: قتادہ سے سنا وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کر رہے تھے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا فر ما رہے تھے مجھے پتہ نہیں ہے کہ یہ الفا ظ آپ پر نازل ہو ئے تھے یا آپ (خودہی) فر ما رہے تھے۔ (آگے) ابو عوانہ کی حدیث کے مانند ہے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرماتے ہوئے سنا: اور مجھے پتہ نہیں ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم پر وہ بات نازل ہوئی تھی یا آپصلی اللہ علیہ وسلم از خود فرما رہے تھے۔ آگے ابو عوانہ کی مذکورہ روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 2417
Save to word اعراب
وحدثني حرملة بن يحيى ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن انس بن مالك ، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، انه قال: " لو كان لابن آدم واد من ذهب، احب ان له واديا آخر، ولن يملا فاه إلا التراب، والله يتوب على من تاب ".وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادٍ مِنْ ذَهَبٍ، أَحَبَّ أَنَّ لَهُ وَادِيًا آخَرَ، وَلَنْ يَمْلَأَ فَاهُ إِلَّا التُّرَابُ، وَاللَّهُ يَتُوبُ عَلَى مَنْ تَابَ ".
ابن شہاب نے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ نے فرمایا: "اگر ابن آدم کے پاس سونے کی (بھری ہو ئی) ایک وادی ہو تو وہ چا ہے گا کہ اس کے پاس ایک ا ور وای بھی ہو، اس کا منہ مٹی کے سوا کوئی اور چیز نہیں بھرتی اللہ اس کی طرف تو جہ فر ما تا ہے جو اللہ کی طرف تو جہ کرتا ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر ابن آدم کے پاس سونے کا بھرا ہوا میدان یا جنگل ہو تو وہ چاہے گا اسے ایک اور وادی مل جائے اور اس کا منہ (حرص وآز) تو مٹی ہی بھرے گی اور اللہ اپنا رخ اور اپنی توجہ اللہ کی طرف کرنے والے پر نظر عنایت فرماتا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 2418
Save to word اعراب
وحدثني زهير بن حرب ، وهارون بن عبد الله ، قالا: حدثنا حجاج بن محمد ، عن ابن جريج ، قال: سمعت عطاء ، يقول: سمعت ابن عباس ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " لو ان لابن آدم ملء واد مالا، لاحب ان يكون إليه مثله، ولا يملا نفس ابن آدم إلا التراب، والله يتوب على من تاب "، قال ابن عباس: فلا ادري امن القرآن هو ام لا، وفي رواية زهير، قال: فلا ادري امن القرآن، لم يذكر ابن عباس.وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَهَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَطَاءً ، يَقُولُ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " لَوْ أَنَّ لِابْنِ آدَمَ مِلْءَ وَادٍ مَالًا، لَأَحَبَّ أَنْ يَكُونَ إِلَيْهِ مِثْلُهُ، وَلَا يَمْلَأُ نَفْسَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَاللَّهُ يَتُوبُ عَلَى مَنْ تَابَ "، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَلَا أَدْرِي أَمِنَ الْقُرْآنِ هُوَ أَمْ لَا، وَفِي رِوَايَةِ زُهَيْرٍ، قَالَ: فَلَا أَدْرِي أَمِنَ الْقُرْآنِ، لَمْ يَذْكُرْ ابْنَ عَبَّاسٍ.
مجھے زہیر بن حرب اور ہا رون بن عبد اللہ نے حدیث سنا ئی دو نوں نے کہا: ہمیں حجا ج بن محمد نے ابن جریج سے حدیث بیان کی، کہا: میں نے عطا ء سے سنا کہہ رہے تھے میں نے حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ سے سنا کہہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہو ئے سنا: " اگر آدم کے بیٹے کے پاس مال سے بھر ی ہو ئی ایک وادی ہو تو وہ چا ہے گا کہ اس کے پاس اس جیسی اور وادی بھی ہو آدمی کے دل کو مٹی کے سوا کچھ اور نہیں بھر سکتا اور اللہ اس پر تو جہ فر ما تا ہے جو اس کی طرف متوجہ ہو، حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہ نے کہا مجھے معلوم نہیں یہ قرآن میں سے ہے یا نہیں اور زہیر کی روایت میں ہے انھوں نے کہا: مجھے معلوم نہیں یہ با ت قرآن میں سے ہے (یا نہیں) انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا ذکر نہیں کیا۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اگر آدمی کے پاس مال سے بھری ہوئی وادی ہو تو وہ چاہے گا اس کو اس جیسی اور مل جائے اور آدمی کے نفس کو مٹی ہی (قبر میں) بھرے گی اور اللہ حرص وآز سے باز آنے والے پر رحمت و عنایت فرماتا ہے۔ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں مجھے معلوم نہیں یہ قرآن میں سے ہے یا نہیں اور زہیر کی روایت میں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا یہ قول مذکور نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 2419
Save to word اعراب
حدثني حدثني سويد بن سعيد ، حدثنا علي بن مسهر ، عن داود ، عن ابي حرب بن ابي الاسود ، عن ابيه ، قال: بعث ابو موسى الاشعري إلى قراء اهل البصرة، فدخل عليه ثلاث مائة رجل، قد قرءوا القرآن، فقال " انتم خيار اهل البصرة وقراؤهم فاتلوه، ولا يطولن عليكم الامد، فتقسو قلوبكم كما قست قلوب من كان قبلكم، وإنا كنا نقرا سورة كنا نشبهها في الطول والشدة ببراءة فانسيتها، غير اني قد حفظت منها لو كان لابن آدم واديان من مال لابتغى واديا ثالثا، ولا يملا جوف ابن آدم إلا التراب، وكنا نقرا سورة كنا نشبهها بإحدى المسبحات فانسيتها، غير اني حفظت منها يايها الذين آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون سورة الصف آية 2 فتكتب شهادة في اعناقكم فتسالون عنها يوم القيامة ".حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ دَاوُدَ ، عَنْ أَبِي حَرْبِ بْنِ أَبِي الْأَسْوَدِ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: بَعَثَ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ إِلَى قُرَّاءِ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ ثَلَاثُ مِائَةِ رَجُلٍ، قَدْ قَرَءُوا الْقُرْآنَ، فَقَالَ " أَنْتُمْ خِيَارُ أَهْلِ الْبَصْرَةِ وَقُرَّاؤُهُمْ فَاتْلُوهُ، وَلَا يَطُولَنَّ عَلَيْكُمُ الْأَمَدُ، فَتَقْسُوَ قُلُوبُكُمْ كَمَا قَسَتْ قُلُوبُ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ، وَإِنَّا كُنَّا نَقْرَأُ سُورَةً كُنَّا نُشَبِّهُهَا فِي الطُّولِ وَالشِّدَّةِ بِبَرَاءَةَ فَأُنْسِيتُهَا، غَيْرَ أَنِّي قَدْ حَفِظْتُ مِنْهَا لَوْ كَانَ لِابْنِ آدَمَ وَادِيَانِ مِنْ مَالٍ لَابْتَغَى وَادِيًا ثَالِثًا، وَلَا يَمْلَأُ جَوْفَ ابْنِ آدَمَ إِلَّا التُّرَابُ، وَكُنَّا نَقْرَأُ سُورَةً كُنَّا نُشَبِّهُهَا بِإِحْدَى الْمُسَبِّحَاتِ فَأُنْسِيتُهَا، غَيْرَ أَنِّي حَفِظْتُ مِنْهَا يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لا تَفْعَلُونَ سورة الصف آية 2 فَتُكْتَبُ شَهَادَةً فِي أَعْنَاقِكُمْ فَتُسْأَلُونَ عَنْهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ".
ابو حرب بن ابی اسود کے والد سے روایت ہے انھوں نے کہا: حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے اہل بصرہ کے قاریوں کی طرف (انھیں بلا نے کے لیے قاصد) بھیجا تو ان کے ہاں تین سو آدی آئے جو قرآن پڑھ چکے تھے تو انھوں (ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ) نے کہا: تم اہل بصرہ کے بہترین لو گ اور ان کے قاری ہو اس کی تلا وت کرتے رہا کرو تم پر لمبی مدت (کا وقفہ) نہ گزرے کہ تمھا رے دل سخت ہو جا ئیں جس طرح ان کے دل سخت ہو گئے تھے جو تم سے پہلے تھے ہم ایک سورت پڑھا کرتے تھے جسے ہم لمبا ئی اور (ڈرا نے کی) شدت میں (سورہ) براۃ تشبیہ دیا کرتے تو وہ مجھے بھلا دی گئی اس کے سوا کہ اس کا یہ ٹکڑا مجھے یا د رہ گیا آگر آدم کے بیٹے کے پاس مال کی دو وادیا ہوں تو وہ تیسری وادی کا متلا شی ہو گا اور ابن آدم کا پیٹ تو مٹی کے سوا کوئی شے نہیں بھرتی۔ ہم ایک اور سورت پڑھا کرتے تھے جس کو ہم تسبیح والی سورتوں میں سے ایک سورت سے تشبیہ دیا کرتے تھے وہ بھی مجھے بھلا دی گئی ہاں اس میں سے مجھے یہ یا د ہے "اے ایمان والو! وہ بات کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں وہ بطور شہادت تمھا ری گردنوں میں لکھ دی جا ئے گی اور قیامت کے دن تم سے اس کے بارے میں سوال کیا جا ئے گا۔
حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اہل بصرہ کے قاریوں کو بلوایا تو ان کے پاس تین سو (300) آدمی آئے جو قرآن پڑھ چکے تھے تو انھوں نے کہا تم اہل بصرہ کے بہترین افراد اور ان کے قاری ہو قرآن پڑھتے رہا کرو کہیں طویل مدت گزرنے سے تمھارے دل سخت نہ ہو جائیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں کے دل سخت ہو گئے۔ اور ہم ایک سورۃ پڑھا کرتے تھے جسے ہم طوالت اور (وعیدوں) کی سختی میں سورۃ براۃ سے تشبیہ دیا کرتے۔ تو میں اسے بھول گیا ہاں اس کا یہ ٹکڑا مجھے یاد ہے اگر آدمی کے پاس مال کے دو میدان ہوں تو وہ تیسرا میدان چاہے گا اور آدمی کے پیٹ کو مٹی ہی بھرے گی اور ہم ایک سورۃ پڑھا کرتے تھے جس کو ہم مسبحات کی سورت سے تشیبہ دیا کرتے تھے اس کو بھی میں بھلا چکا ہوں ہاں اس سے مجھے یہ یاد ہے اے ایمان والو! ایسی بات کا دعوی کیوں کرتے ہو جو کرتے نہیں ہو وہ گواہی کے طور پر تمھاری گردنوں میں لکھ دی جائے گی اور قیامت کے دن تم سے اس کے بارے میں سوال ہو گا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
40. باب فَضلِ القنَاعَةِ وَالحَثِّ عَلَيهَا
40. باب: قناعت کی فضیلت اور اس کی ترغیب کا بیان۔
Chapter: The virtue of contentment and encouragement thereof
حدیث نمبر: 2420
Save to word اعراب
حدثنا زهير بن حرب ، وابن نمير ، قالا: حدثنا سفيان بن عيينة ، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ليس الغنى عن كثرة العرض، ولكن الغنى غنى النفس ".حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ، وَلَكِنَّ الْغِنَى غِنَى النَّفْسِ ".
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "غنا مال و اسباب کی کثرت سے نہیں بلکہ حقیقی غنا دل کی بے نیا زی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دولت مندی و دولت یا مال و اسباب کی کثرت سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ حقیقی دولت مندی دل کی بے نیازی ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
41. باب التَّحزِيرِ مِنَ الاِ غتِرَارِ بِزِينَةِ الدُّنيَا وَمَا يَبسُطُ مِنهَا
41. باب: دنیا کی کشادگی اور زینت پر مغرور مت ہو۔
Chapter: Warning against being deceived by the splendor and luxury of this world
حدیث نمبر: 2421
Save to word اعراب
وحدثنا يحيى بن يحيى ، اخبرنا الليث بن سعد . ح وحدثنا قتيبة بن سعيد وتقاربا في اللفظ، قال: حدثنا ليث ، عن سعيد بن ابي سعيد المقبري ، عن عياض بن عبد الله بن سعد ، انه سمع ابا سعيد الخدري ، يقول: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم فخطب الناس، فقال: " لا والله ما اخشى عليكم ايها الناس إلا ما يخرج الله لكم من زهرة الدنيا "، فقال رجل: يا رسول الله اياتي الخير بالشر؟، فصمت رسول الله صلى الله عليه وسلم ساعة، ثم قال: " كيف قلت "، قال: قلت يا رسول الله اياتي الخير بالشر؟، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الخير لا ياتي إلا بخير او خير هو، إن كل ما ينبت الربيع يقتل حبطا او يلم، إلا آكلة الخضر اكلت حتى إذا امتلات خاصرتاها، استقبلت الشمس ثلطت او بالت، ثم اجترت فعادت فاكلت، فمن ياخذ مالا بحقه يبارك له فيه، ومن ياخذ مالا بغير حقه، فمثله كمثل الذي ياكل ولا يشبع ".وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَ: حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَعْدٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ ، يَقُولُ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخَطَبَ النَّاسَ، فَقَالَ: " لَا وَاللَّهِ مَا أَخْشَى عَلَيْكُمْ أَيُّهَا النَّاسُ إِلَّا مَا يُخْرِجُ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا "، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟، فَصَمَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: " كَيْفَ قُلْتَ "، قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَيَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْخَيْرَ لَا يَأْتِي إِلَّا بِخَيْرٍ أَوَ خَيْرٌ هُوَ، إِنَّ كُلَّ مَا يُنْبِتُ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ حَبَطًا أَوْ يُلِمُّ، إِلَّا آكِلَةَ الْخَضِرِ أَكَلَتْ حَتَّى إِذَا امْتَلَأَتْ خَاصِرَتَاهَا، اسْتَقْبَلَتِ الشَّمْسَ ثَلَطَتْ أَوْ بَالَتْ، ثُمَّ اجْتَرَّتْ فَعَادَتْ فَأَكَلَتْ، فَمَنْ يَأْخُذْ مَالًا بِحَقِّهِ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ يَأْخُذْ مَالًا بِغَيْرِ حَقِّهِ، فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ ".
عیاض بن عبد اللہ بن سعد سے روایت ہے کہ انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہہ رہے تھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر لو گوں کو خطبہ دیا اور فرمایا: " نہیں اللہ کی قسم!لو گو!مجھے تمھا رے بارے کسی چیز کا ڈر نہیں سوائے دنیا کی اس زینت کے جو اللہ تعالیٰ تمھا رے لیے ظا ہر کرے گا۔ ایک آدمی کہنے لگا۔اے اللہ کے رسول!!کیا خیر شر کو لے آئے گی؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھڑی بھر خا مو ش رہے پھر فرمایا: " تم نے کس طرح کہا؟ اس نے کہا اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں نے عرض کی تھی کیا خیر شر کو لا ئے گی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: " خیر خیر ہی کو لا تی ہے لیکن کیا وہ (دنیا کی زیب و زینت فی ذاتہ) خیر ہے؟ وہ سب کچھ جو بہا ر لگا تی ہے (جا نور کو) اُپھا رے سے ما رڈا لتا ہے یا مو ت کے قریب کر دیتا ہے ایسے سبزہ کھا نے والے جا نور کے سوا جس نے کھا یا اور جب اس کی کو کھیں بھر گئیں (وہ سیر ہو گیا) تو مزید کھا نے کے بجا ئے) اس نے سورج کا رخ کر لیا اور بیٹھ کر گو بر یا پیشاب کیا پھر جگا لی کی اور دوبارہ کھا یا تو (اسی طرح) جو انسا ن اس (مال) کے حق کے مطا بق مال لیتا ہے اس کے لیے اس میں بر کت دا ل دیا جا تی ہے اور جو انسان اس کے حق کے بغیر مال لیتا ہے وہ اس کی طرح ہے جو کھا تا ہے لیکن سیر نہیں ہو تا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: نہیں اللہ کی قسم! مجھے تمھارے بارے۔اے لوگو! دنیا کی زیب و زینت جو تمھیں حاصل ہو گی کے سوا اور کس چیز کا خطرہ یا خدشہ و اندیشہ نہیں ہے۔ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا خیر، شر کا سبب بنے گا؟ (خیر کے نتیجہ میں شر پیدا ہو گا) تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ وقت کے لیے خاموش ہو گئے پھر فرمایا: تم نے کیا کہا تھا؟ اس نے کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے عرض کیا تھا کیا خیرکے سبب شر پیدا ہو سکتا ہے؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: خیر، خیر ہی کا پیش خیمہ ہوتا ہے لیکن کیا دنیا کی زیب و زینت اور اس کی بھجت و رونق خیر ہے جو سبزہ موسم بہارا گاتا ہے وہ اپھارے سے مارڈالتا ہے یا قریب المرگ کر دیتا ہے مگر سبزہ کھانے والا وہ جانور جو کھاتا ہے اور جب اس کی کوکھیں بھر جاتی ہیں (وہ سیر ہو جاتا ہے) وہ سورج کا رخ کرتا ہے اور بیٹھ کر گوبر اور پیشاب کرتا ہے پھر جگالی کرتا ہے اور ہضم کرنے کے بعد دوبارہ چرنے چگنے لگتا ہے تو جو انسان مال جائز طریقہ سے لیتا ہے اس کے لیے وہ برکت کا باعث بنتا ہےاور جو انسان مال ناجائز طریقہ سے حاصل کرتا ہے وہ اس انسان کی طرح ہے جو کھاتا ہے لیکن سیر نہیں ہوتا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 2422
Save to word اعراب
حدثني ابو الطاهر ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، قال: اخبرني مالك بن انس ، عن زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن ابي سعيد الخدري ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " اخوف ما اخاف عليكم ما يخرج الله لكم من زهرة الدنيا "، قالوا: وما زهرة الدنيا يا رسول الله؟، قال: " بركات الارض "، قالوا: يا رسول الله وهل ياتي الخير بالشر؟ قال: " لا ياتي الخير إلا بالخير، لا ياتي الخير إلا بالخير، لا ياتي الخير إلا بالخير، إن كل ما انبت الربيع يقتل او يلم، إلا آكلة الخضر، فإنها تاكل حتى إذا امتدت خاصرتاها استقبلت الشمس، ثم اجترت وبالت وثلطت، ثم عادت فاكلت، إن هذا المال خضرة حلوة فمن اخذه بحقه ووضعه في حقه، فنعم المعونة هو، ومن اخذه بغير حقه كان كالذي ياكل ولا يشبع ".حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَخْوَفُ مَا أَخَافُ عَلَيْكُمْ مَا يُخْرِجُ اللَّهُ لَكُمْ مِنْ زَهْرَةِ الدُّنْيَا "، قَالُوا: وَمَا زَهْرَةُ الدُّنْيَا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟، قَالَ: " بَرَكَاتُ الْأَرْضِ "، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَهَلْ يَأْتِي الْخَيْرُ بِالشَّرِّ؟ قَالَ: " لَا يَأْتِي الْخَيْرُ إِلَّا بِالْخَيْرِ، لَا يَأْتِي الْخَيْرُ إِلَّا بِالْخَيْرِ، لَا يَأْتِي الْخَيْرُ إِلَّا بِالْخَيْرِ، إِنَّ كُلَّ مَا أَنْبَتَ الرَّبِيعُ يَقْتُلُ أَوْ يُلِمُّ، إِلَّا آكِلَةَ الْخَضِرِ، فَإِنَّهَا تَأْكُلُ حَتَّى إِذَا امْتَدَّتْ خَاصِرَتَاهَا اسْتَقْبَلَتِ الشَّمْسَ، ثُمَّ اجْتَرَّتْ وَبَالَتْ وَثَلَطَتْ، ثُمَّ عَادَتْ فَأَكَلَتْ، إِنَّ هَذَا الْمَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ فَمَنْ أَخَذَهُ بِحَقِّهِ وَوَضَعَهُ فِي حَقِّهِ، فَنِعْمَ الْمَعُونَةُ هُوَ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِغَيْرِ حَقِّهِ كَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلَا يَشْبَعُ ".
زید بن اسلم نے عطا ء بن یسار سے اور انھوں نے حضرت خدری رضی اللہ عنہ سے روا یت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " مجھے تمھارے بارے میں سب سے زیادہ ڈر دنیا کی اس شادابی اور زینت سے ہے جو اللہ تعا لیٰ تمھا رے لیے ظا ہر کر ے گا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کی دنیا کی شادا بی اور زینت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا: " زمین کی بر کا ت۔انھوں نے کہا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا خیر شر کو لے آتی ہے؟ آپ نے فرمایا: " خیر سوائے خیر کے کچھ نہیں لا تی خیر سوائے خیر کے کچھ نہیں لاتی خیر سوائے خیر کے کچھ نہیں لا تی خیر سوائے خیر کے کچھ نہیں لا تی وہ سب کچھ جو بہا ر اگا تی ہے وہ (زیادہ کھا نے کی وجہ سے ہو نے والی بد ہضمی کا سبب بن کر) مار دیتا ہے یا موت کے قریب کر دیتا ہے سوائے اس چارہ کھا نے والے جا نور کے جو کھا تا ہے یہاں تک کہ جب اس کی دونوں کو کھیں پھول جا تی ہیں (وہ سیر ہو جا تا ہے) تو وہ (مزید کھا نا چھوڑ کر) سورج کی طرف منہ کر لیتا ہے پھر جگا لی کرتا ہے پیشاب کرتا ہے گو بر کرتا ہے پھر لو ٹتا ہے اور کھاتا ہے بلا شبہ یہ ما ل شادا ب اور شیریں ہے جس نے اسے اس کے حق کے مطا بق لیا اور حق (کے مصرف) ہی میں خرچ کیا تو وہ (مال) بہت ہی معاون و مددد گا ر ہو گا اور جس نے اسے حق کے بغیر لیا وہ اس انسان کی طرح ہو گا جو کھا تا ہے لیکن سیر نہیں ہو تا۔
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے تمھارے بارے میں سب سے زیادہ خطرہ اور اندیشہ دنیا کی اس زینت اور تازگی کا ہے جو اللہ تعالیٰ تمھیں دے گا۔ صحابہ نے عرض کیا: دنیا کی رونق اور ترو تازگی سے کیا مراد ہے؟ اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زمین کی برکات انھوں نے کہا، اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا خیر شر کے لانے کا سبب بن جاتا ہے؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خیر، خیر ہی کے لانے کا سبب بنتا ہے۔ خیر، خیر ہی لاتا ہے۔ خیر، خیر کا ہی پیش خیمہ ہے۔ جو سبزہ اور نباتات موسم بہار اگاتا ہے وہ قتل کر دیتا ہے یا قریب الموت کر دیتا ہے مگر وہ چرنے والا جانور جو چرتا چگتا ہے جب اس کی دونوں کوکھیں پھول جاتی ہیں (وہ سیر ہو جاتا ہے (وہ سیر ہو جاتا ہے) وہ سورج کا رخ کر کے بیٹھ جاتا ہے پھر جگالی کرتا ہے اور بیٹھ کر گوبر اور پیشاب کرتا ہے پھر اٹھ کر دوبارہ کھانا شروع کر دیتا ہے یہ مال سرسبز و شاداب اور شریں ہے تو جو اسے جائز طریقہ سے لے گا اور جائز موقع و محل پر خرچ کرے گا تو وہ بہت ہی معاون و مددگار ہے اور اسے ناجائز طریقہ سے لے گا وہ اس انسان کی طرح ہے جو کھاتا ہے سیر نہیں ہوتا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

Previous    12    13    14    15    16    17    18    19    20    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.