صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
زکاۃ کے احکام و مسائل
The Book of Zakat
حدیث نمبر: 2403
Save to word اعراب
حدثني عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي ، وسلمة بن شبيب ، قال سلمة: حدثنا، وقال الدارمي: اخبرنا مروان وهو ابن محمد الدمشقي ، حدثنا سعيد وهو ابن عبد العزيز ، عن ربيعة بن يزيد ، عن ابي إدريس الخولاني ، عن ابي مسلم الخولاني ، قال: حدثني الحبيب الامين، اما هو فحبيب إلي، واما هو عندي فامين عوف بن مالك الاشجعي ، قال: كنا عند رسول الله صلى الله عليه وسلم تسعة او ثمانية او سبعة، فقال: " الا تبايعون رسول الله؟ "، وكنا حديث عهد ببيعة، فقلنا: قد بايعناك يا رسول الله، ثم قال: " الا تبايعون رسول الله؟ "، فقلنا: قد بايعناك يا رسول الله، ثم قال: " الا تبايعون رسول الله؟ "، قال: فبسطنا ايدينا، وقلنا: قد بايعناك يا رسول الله فعلام نبايعك؟ قال: " على ان تعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا، والصلوات الخمس وتطيعوا، واسر كلمة خفية، ولا تسالوا الناس شيئا، فلقد رايت بعض اولئك النفر، يسقط سوط احدهم، فما يسال احدا يناوله إياه ".حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، وَسَلَمَةُ بْنُ شَبِيبٍ ، قَالَ سَلَمَةُ: حَدَّثَنَا، وَقَالَ الدَّارِمِيُّ: أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ وَهُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ رَبِيعَةَ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ أَبِي إِدْرِيسَ الْخَوْلَانِيِّ ، عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيِّ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْحَبِيبُ الْأَمِينُ، أَمَّا هُوَ فَحَبِيبٌ إِلَيَّ، وَأَمَّا هُوَ عِنْدِي فَأَمِينٌ عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيُّ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تِسْعَةً أَوْ ثَمَانِيَةً أَوْ سَبْعَةً، فَقَالَ: " أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ؟ "، وَكُنَّا حَدِيثَ عَهْدٍ بِبَيْعَةٍ، فَقُلْنَا: قَدْ بَايَعْنَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ؟ "، فَقُلْنَا: قَدْ بَايَعْنَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَلَا تُبَايِعُونَ رَسُولَ اللَّهِ؟ "، قَالَ: فَبَسَطْنَا أَيْدِيَنَا، وَقُلْنَا: قَدْ بَايَعْنَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَعَلَامَ نُبَايِعُكَ؟ قَالَ: " عَلَى أَنْ تَعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا، وَالصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ وَتُطِيعُوا، وَأَسَرَّ كَلِمَةً خَفِيَّةً، وَلَا تَسْأَلُوا النَّاسَ شَيْئًا، فَلَقَدْ رَأَيْتُ بَعْضَ أُولَئِكَ النَّفَرِ، يَسْقُطُ سَوْطُ أَحَدِهِمْ، فَمَا يَسْأَلُ أَحَدًا يُنَاوِلُهُ إِيَّاهُ ".
ابو مسلم خولانی سے روایت ہے، انھوں نے کہا: مجھ سے ایک پیارے امانت دار (شخص) نے حدیث بیان کی وہ ایساہے کہ مجھے پیارا بھی ہے اور وہ ایسا ہے کہ میرے نزدیک امانت دار بھی ہے۔یعنی حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ۔۔۔انھوں نے کہا: ہم نو، آٹھ یا سات آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (حاضر) تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کروگے؟"اور ہم نے ابھی نئی نئی بیعت کی تھی۔تو ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم آپ سے بیعت کرچکے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " تم اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرو گے؟" ہم نے عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم آپ سے بیعت کرچکے ہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا: " تم اللہ کے رسول سے بیعت نہیں کرو گے؟" تو ہم نے اپنے ہاتھ بڑھا دیئے اور عرض کی: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !ہم (ایک بار) آپ سے بیعت کرچکے ہیں، اب کس بات پر آپ سے بیعت کریں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس بات پر کہ تم اللہ کی عبادت کروگےاور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے اور پانچ نمازوں پر، اور اس بات پر کہ اطاعت کرو گے۔اور ایک جملہ آہستہ سے فرمایا۔اور لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرو گے۔"اس کے بعد میں نے ان میں سے بعض افراد کو دیکھا کہ ان میں سے کسی کا کوڑا کرجاتا تو کسی سے نہ کہتا کہ اٹھا کر اس کے ہاتھ میں دے دے۔
ابو مسلم خالانی کہتے ہیں مجھے محبوب قابل اعتماد جو مجھے محبوب بھی ہے اور میرے نزدیک امانتدار بھی ہے عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بتایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نو آٹھ یا ساتھ آدمی تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کرو گے؟ اور ہم نے نئی نئی بیعت کی تھی۔ تو ہم نے عرض کیاصلی اللہ علیہ وسلم اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم آپصلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت کر چکے ہیں آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت نہیں کرو گے؟ تو ہم نے اپنے ہاتھ بڑھا دئیے اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم بیعت کر چکے ہیں اب کس بات کے لیے بیعت کریں؟ آپ نے فرمایا: اس بات پر کہ تم اللہ کی عبادت کرو گے اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراؤ گے اور پانچ نمازوں کا اہتمام کرو گے اور فرمانبرداری اختیار کرو گے اور ایک بات آہستہ سے فرمائی اور لوگوں سے کوئی چیز بھی نہیں مانگو گے تو میں نے ان میں سے بعض ساتھیوں کو دیکھا ان میں سے کسی کا کوڑا گر جاتا تو کسی سے اس کے اٹھا دینے (پکڑا دینے) کے لیے نہ کہتا۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
36. باب مَنْ تَحِلُّ لَهُ الْمَسْأَلَةُ:
36. باب: کس شخص کے لئے سوال کرنا جائز ہے؟
Chapter: The one for whom it is permissible to ask for help
حدیث نمبر: 2404
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن يحيى ، وقتيبة بن سعيد كلاهما، عن حماد بن زيد ، قال يحيى: اخبرنا حماد بن زيد، عن هارون بن رياب ، حدثني كنانة بن نعيم العدوي ، عن قبيصة بن مخارق الهلالي ، قال: تحملت حمالة فاتيت رسول الله صلى الله عليه وسلم اساله فيها، فقال: " اقم حتى تاتينا الصدقة، فنامر لك بها "، قال: ثم قال يا قبيصة: إن المسالة لا تحل إلا لاحد ثلاثة: رجل تحمل حمالة فحلت له المسالة حتى يصيبها ثم يمسك، ورجل اصابته جائحة اجتاحت ماله فحلت له المسالة حتى يصيب قواما من عيش، او قال: سدادا من عيش، ورجل اصابته فاقة حتى يقوم ثلاثة من ذوي الحجا من قومه لقد اصابت فلانا فاقة فحلت له المسالة حتى يصيب قواما من عيش، او قال: سدادا من عيش، فما سواهن من المسالة يا قبيصة سحتا، ياكلها صاحبها سحتا ".حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ كلاهما، عَنْ حَمَّادِ بْنِ زَيْدٍ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ هَارُونَ بْنِ رِيَابٍ ، حَدَّثَنِي كِنَانَةُ بْنُ نُعَيْمٍ الْعَدَوِيُّ ، عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ مُخَارِقٍ الْهِلَالِيِّ ، قَالَ: تَحَمَّلْتُ حَمَالَةً فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ فِيهَا، فَقَالَ: " أَقِمْ حَتَّى تَأْتِيَنَا الصَّدَقَةُ، فَنَأْمُرَ لَكَ بِهَا "، قَالَ: ثُمَّ قَالَ يَا قَبِيصَةُ: إِنَّ الْمَسْأَلَةَ لَا تَحِلُّ إِلَّا لِأَحَدِ ثَلَاثَةٍ: رَجُلٍ تَحَمَّلَ حَمَالَةً فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَهَا ثُمَّ يُمْسِكُ، وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ جَائِحَةٌ اجْتَاحَتْ مَالَهُ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ، أَوَ قَالَ: سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ، وَرَجُلٌ أَصَابَتْهُ فَاقَةٌ حَتَّى يَقُومَ ثَلَاثَةٌ مِنْ ذَوِي الْحِجَا مِنْ قَوْمِهِ لَقَدْ أَصَابَتْ فُلَانًا فَاقَةٌ فَحَلَّتْ لَهُ الْمَسْأَلَةُ حَتَّى يُصِيبَ قِوَامًا مِنْ عَيْشٍ، أَوَ قَالَ: سِدَادًا مِنْ عَيْشٍ، فَمَا سِوَاهُنَّ مِنَ الْمَسْأَلَةِ يَا قَبِيصَةُ سُحْتًا، يَأْكُلُهَا صَاحِبُهَا سُحْتًا ".
حضرت قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں نے (لوگوں کے معاملات میں اصلاح کے لئے) ادائیگی کی ایک ذمہ داری قبول کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا کہ آپ سے اس کے لئے کچھ مانگوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ٹھہرو حتیٰ کہ ہمارے پاس صدقہ آجائے تو ہم وہ تمھیں دے دینے کا حکم دیں۔"پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے قبیصہ!تین قسم کے افراد میں سے کسی ایک کے سوا اور کسی کے لئے سوال کرناجائز نہیں: ایک وہ آدمی جس نے کسی بڑی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کرلی، اس کے لئے اس وقت تک سوال کرنا حلال ہوجاتا ہے حتیٰ کہ اس کو حاصل کرلے، اس کے بعد (سوال سے) رک جائے، دوسرا وہ آدمی جس پر کوئی آفت آپڑی ہو جس نے اس کا مال تباہ کردیا ہو، اس کے لئے سوال کرنا حلال ہوجاتا ہے یہاں تک کہ وہ زندگی کی گزران درست کرلے۔یا فرمایا: زندگی کی بقا کاسامان کرلے۔اور تیسرا وہ آدمی جو فاقے کا شکار ہوگیا، یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین عقلمند افراد کھڑے ہوجائیں (اور کہہ دیں) کہ فلاں آدمی فاقہ زدہ ہوگیا ہے تو اس کے لئے بھی مانگنا حلال ہوگیا یہاں تک کہ وہ درست گزران حاصل کرلے۔۔۔یا فرمایا: زندگی باقی رکھنے جتنا حاصل کرلے۔۔۔اے قبیصہ!ان صورتوں کے سوا سوال کرناحرام ہے اور سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے۔"
حضرت قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، کہ میں نے ایک بہت بڑے تاوان یا کسی کے قرض کی ذمہ داری قبول کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے لئے کچھ مانگوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ٹھہرو حتیٰ کہ ہمارے پاس صدقہ آ جائے تو ہم وہ تمھیں دے دینے کا حکم دیں۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اے قبیصہ! سوال تین قسم کے افراد میں سے کسی ایک کے لئے جائز ہے، ایک وہ آدمی جس نے کسی ادائیگی کی ذمہ داری قبول کی، تو اس کے لئے اس وقت تک سوال کرنا جائز ہے کہ وہ رقم پوری ہو جائے (اسے مل جائے) پھر وہ سوال سے باز آ جائے۔ اوردوسرا وہ آدمی جو کسی آفت کا شکار ہوا جس نے اس کا مال تباہ کرڈالا، اس کے لئے سوال کرنا جائز ہے حتی اسے ا سقدر مل جائے جس سے اس کی گزران درست ہو جائے یا اس کی گزران صحیح ہو جائےاور تیسرا وہ آدمی جو فاقے سے دو چار ہو گیا، یہاں تک کہ اس کی قوم کے تین عقلمند افراد گواہی دیں کہ فلاں آدمی فاقہ زدہ ہو گیا ہے تو اس کے لئے بھی مانگنا جائز ہے حتی کہ اس کی درست گزران پا لے۔۔ یا ا س کی گزران صحیح ہو جائے، ان صورتوں کے سوا سوال کرنا اے قبیصہ! حرام ہے اور سوال کرنے والا حرام کھاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
37. باب جَوَازِ الْأَخْذِ بِغَيْرِ سُؤَالٍ وَلَا تَطَلُّعٍ
37. باب: بغیر سوال اور خواہش کے لینے کا بیان۔
Chapter: ….
حدیث نمبر: 2405
Save to word اعراب
وحدثنا هارون بن معروف ، حدثنا عبد الله بن وهب . ح وحدثني حرملة بن يحيى ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، عن ابن شهاب ، عن سالم بن عبد الله بن عمر ، عن ابيه ، قال: سمعت عمر بن الخطاب رضي الله عنه، يقول: قد كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعطيني العطاء، فاقول: اعطه افقر إليه مني، حتى اعطاني مرة مالا، فقلت: اعطه افقر إليه مني، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خذه وما جاءك من هذا المال، وانت غير مشرف ولا سائل فخذه، وما لا فلا تتبعه نفسك ".وحَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ . ح وحَدَّثَنِي حَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: قَدْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْطِينِي الْعَطَاءَ، فَأَقُولُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، حَتَّى أَعْطَانِي مَرَّةً مَالًا، فَقُلْتُ: أَعْطِهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُذْهُ وَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ، وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ ".
یونس نے ابن شہاب سے، انہوں نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے اپنے والد (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، کہا: میں نے حضر ت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے سنا، کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی مجھے عنایت فرماتے تھے تو میں عرض کرتا: کسی ایسے آدمی کو عنایت فرمادیجئے جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو حتیٰ کہ ایک دفعہ آپ نے مجھے بہت سارا مال عطا کردیا تو میں نے عرض کی: کسی ایسے فرد کو عطا کردیجئے جو اس کا مجھ سے زیادہ محتاج ہو۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے لے لو اور ایسا جو مال تمھارے پاس اس طرح آئے کہ نہ تو تم اس کے خواہش مند ہو اور نہ ہی مانگنے والے ہو تو اس کو لے لو اور جو مال اس طرح نہ ملے اس کا خیال بھی دل میں نہ لاؤ۔"
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی مجھے کچھ عطا فرماتے تھے تو میں عرض کرتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کسی ایسے آدمی کو دیجیے جس کو مجھ سے اس کی زیادہ ضرورت ہو! حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ مجھے بہت سارا مال دیا تو میں نے عرض کیا کسی ایسے فرد کو دیجیے جو اس کا مجھ سے زیادہ محتاج ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو لے لو اور جو مال تمھیں اس طرح ملے کہ نہ تو تم نے اس کے لیے دل میں چاہت اور طمع کی اور نہ ہی تم نے سوال کیا تو اس کو لے لیا کرو۔ اور جو مال اس طرح نہ ملے اس کی طرف توجہ یا اس کا خیال دل میں نہ لاؤ۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 2406
Save to word اعراب
وحدثني ابو الطاهر ، اخبرنا ابن وهب ، اخبرني عمرو بن الحارث ، عن ابن شهاب ، عن سالم بن عبد الله ، عن ابيه ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، كان يعطي عمر بن الخطاب رضي الله عنه العطاء، فيقول له عمر: اعطه يا رسول الله افقر إليه مني، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خذه فتموله او تصدق به، وما جاءك من هذا المال وانت غير مشرف ولا سائل فخذه، وما لا فلا تتبعه نفسك "، قال سالم: فمن اجل ذلك كان ابن عمر لا يسال احدا شيئا ولا يرد شيئا اعطيه،وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ أَبِيهِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يُعْطِي عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ الْعَطَاءَ، فَيَقُولُ لَهُ عُمَرُ: أَعْطِهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَفْقَرَ إِلَيْهِ مِنِّي، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خُذْهُ فَتَمَوَّلْهُ أَوْ تَصَدَّقْ بِهِ، وَمَا جَاءَكَ مِنْ هَذَا الْمَالِ وَأَنْتَ غَيْرُ مُشْرِفٍ وَلَا سَائِلٍ فَخُذْهُ، وَمَا لَا فَلَا تُتْبِعْهُ نَفْسَكَ "، قَالَ سَالِمٌ: فَمِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَانَ ابْنُ عُمَرَ لَا يَسْأَلُ أَحَدًا شَيْئًا وَلَا يَرُدُّ شَيْئًا أُعْطِيَهُ،
عمرو بن حارث نے ابن شہاب سے، انھوں نے سالم سے اور انھوں نے اپنے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ر وایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو عطیہ دیتے تو عمر رضی اللہ عنہ عرض کرتے: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ مجھ سے زیادہ ضرورت مند شخص کو دے دیجئے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اس کو لے لو اور اپنا مال بنالو یا اسے صدقہ کردو اور اس مال میں سے جو تمہار ےپاس اس طرح آئے کہ تم نہ اس کے خواہش مند ہو نہ مانگنے والے تو اس کو لے لو اور جو (مال) اس طرح نہ ملے تو اس کا خیال بھی دل میں نہ لاؤ۔" سالم نے کہا: اسی وجہ سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بھی کسی سے کچھ نہیں مانگتے تھے اور جو چیز انھیں پیش کی جاتی تھی اس کو رد نہیں کرتے تھے۔
حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطیہ دیا کرتے تھے۔ تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عرض کیا کرتے۔اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !اس کو دیجیے جو اس کا مجھ سے زیادہ محتاج ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس کو لے لیجیے اور اپنے مال بنا لیجیے یا اس صدقہ کو دیجیے (اور اپنا اصول بنا لو) جو مال تمھیں اس طرح ملے کہ تم نے دل میں اس کی چاہت اور طمع نہیں کی اور نہ ہی اس کا سوال کیا تو اس کو لے لیجیے اورجو مال اس طرح نہ ملے اس کا دل میں خیال نہ لاؤ سالم بیان کرتے ہیں اسی وجہ سے ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی سے کچھ مانگے نہیں تھے اور جو چیز ملتی تھی اس کو رد نہیں کرتے تھے۔حدیث حاشیہ: Salim bin 'Abdullah reported on the authority of his father that the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم ) gave to 'Umar bin Khattab some gift. Umar said to him: Messenger of Allah, give it to one who needs it more than I. Upon this the Messenger of Allah (صلی اللہ علیہ وسلم ) said: Take it; either keep it with you or give it as a charity, and whatever comes to you in the form of this type of wealth, without your being avaricious or begging for it, accept it, but in other circumstances do not let your heart hanker after it. And it was on account of this that Ibn 'Umar never begged anything from anyone, nor refused anything given to him.حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: حدیث حاشیہ: سائب بن یزید نے عبداللہ بن سعدی سے،انھوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے(اسی کے مانند) حدیث بیان کی۔حدیث حاشیہ: یونس نے ابن شہاب سے، انہوں نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے اپنے والد(عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت کی،کہا:میں نے حضر ت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا،کہہ رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی مجھے عنایت فرماتے تھے تو میں عرض کرتا:کسی ایسے آدمی کو عنایت فرمادیجئے جو اس کا مجھ سے زیادہ ضرورت مند ہو حتیٰ کہ ایک دفعہ آپ نے مجھے بہت سارا مال عطا کردیا تو میں نے عرض کی:کسی ایسے فرد کو عطا کردیجئے جو اس کا مجھ سے زیادہ محتاج ہو۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اسے لے لو اور ایسا جو مال تمھارے پاس اس طرح آئے کہ نہ تو تم اس کے خواہش مند ہو اور نہ ہی مانگنے والے ہو تو اس کو لے لو اور جو مال اس طرح نہ ملے اس کا خیال بھی دل میں نہ لاؤ۔"حدیث حاشیہ: عمرو بن حارث نے ابن شہاب سے،انھوں نے سالم سے اور انھوں نے اپنے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ر وایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطیہ دیتے تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عرض کرتے:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ مجھ سے زیادہ ضرورت مند شخص کو دے دیجئے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اس کو لے لو اور اپنا مال بنالو یا اسے صدقہ کردو اور اس مال میں سے جو تمہار ےپاس اس طرح آئے کہ تم نہ اس کے خواہش مند ہو نہ مانگنے والے تو اس کو لے لو اور جو(مال) اس طرح نہ ملے تو اس کا خیال بھی دل میں نہ لاؤ۔" سالم نے کہا:اسی وجہ سے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کسی سے کچھ نہیں مانگتے تھے اور جو چیز انھیں پیش کی جاتی تھی اس کو رد نہیں کرتے تھے۔ حدیث حاشیہ: سائب بن یزید نے عبداللہ بن سعدی سے،انھوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے(اسی کے مانند) حدیث بیان کی۔ حدیث حاشیہ: عمرو بن حارث نے ابن شہاب سے،انھوں نے سالم سے اور انھوں نے اپنے والد حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ر وایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عطیہ دیتے تو عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ عرض کرتے:اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ مجھ سے زیادہ ضرورت مند شخص کو دے دیجئے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" اس کو لے لو اور اپنا مال بنالو یا اسے صدقہ کردو اور اس مال میں سے جو تمہار ےپاس اس طرح آئے کہ تم نہ اس کے خواہش مند ہو نہ مانگنے والے تو اس کو لے لو اور جو(مال) اس طرح نہ ملے تو اس کا خیال بھی دل میں نہ لاؤ۔" سالم نے کہا:اسی وجہ سے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کسی سے کچھ نہیں مانگتے تھے اور جو چیز انھیں پیش کی جاتی تھی اس کو رد نہیں کرتے تھے۔حدیث حاشیہ: رقم الحديث المذكور في التراقيم المختلفة مختلف تراقیم کے مطابق موجودہ حدیث کا نمبر × ترقیم کوڈاسم الترقيمنام ترقیمرقم الحديث (حدیث نمبر) ١.ترقيم موقع محدّث ویب سائٹ محدّث ترقیم2450٢. ترقيم فؤاد عبد الباقي (المكتبة الشاملة)ترقیم فواد عبد الباقی (مکتبہ شاملہ)1045.01٣. ترقيم العالمية (برنامج الكتب التسعة)انٹرنیشنل ترقیم (کتب تسعہ پروگرام)1732٤. ترقيم فؤاد عبد الباقي (برنامج الكتب التسعة)ترقیم فواد عبد الباقی (کتب تسعہ پروگرام)1045.01٦. ترقيم شركة حرف (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم حرف کمپنی (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)2392٧. ترقيم دار إحیاء الکتب العربیة (جامع خادم الحرمين للسنة النبوية)ترقیم دار احیاء الکتب العربیہ (خادم الحرمین الشریفین حدیث ویب سائٹ)1045.01٨. ترقيم دار السلامترقیم دار السلام2406 الحكم على الحديث × اسم العالمالحكم ١. إجماع علماء المسلمينأحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة تمہید باب × تمہید کتاب × "زکاۃ"زكا.يزكو.زكاةسے ہے۔اس کا لغوی معنی اگنا اور بڑھنا ہے۔بڑھوتری تبھی ممکن ہے جب اگنے والی چیز آفات و امراض سے پاک ہو، زكا کا ایک معنی اچھا یا پاک ہونا بھی ہے۔عرب کہتے ہیں۔زكت الارض اس کا معنی ہے۔طابتیعنی زمین اچھی صاف ستھری ہوگئی۔تزکیہ اسی سے ہے۔نفوس کا تزکیہ یہ ہے کہ ان کو آفات،بہت سے امراض اور آلائشوں سے پاک کیا جائے۔انسان کو اللہ تعالیٰ فطرت سلیمہ عطا کرکے دنیا میں بھیجتا ہے۔ماں باپ اور دوسرے قریبی لوگ اس کی فطرت کو آلودہ کردیتے ہیں۔سب سے زیادہ آلودگی یہ ہوتی ہے کہ انسان وجود عطاکرنے والے اور پالنے والے اللہ کی محبت کے بجائے مادی اشیاء کی محبت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔یہ مرض باقی دنیا کے تمام امراض کا سبب بنتا ہے۔اسی سے حرص وہوس،لالچ،خودغرضی،ظلم،سرکشی،طغیان،غرض سب بیماریاں پیدا ہوتی اور بڑھتی ہیں۔انبیائے کرام خصوصاً محمد رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد نفوس انسانی کا تزکیہ کرنا،یعنی انھیں ان تمام مہلک بیماریوں سے نجات دلاناہے،اللہ کا ارشاد ہے"هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَ‌سُولًا مِّنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِن كَانُوا مِن قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ"وہ جس نے امیوں(ان پڑھوں) میں انھی میں سے ایک رسول مبعوث کیا جو ان کے سامنے اس کی آیات پڑھتا ہے اور انھیں پاک کرتا ہے اور انھیں کتاب وحکمت سکھاتا ہے،یقیناً وہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔"(الجمعۃ۔2:62)ویسے تو تمام ارکان اسلام تزکیہ نفوس کا زریعہ ہیں،ان میں سے زکاۃ بطور خاص اس مقصد کے لئے مقرر کی گئی ہے۔قرآن مجید میں صدقات اور اللہ کی راہ میں مال دینے کو تزکیے کا زریعہ بتایا گیا ہے۔رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا: خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُ‌هُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ"ان کے مالوں میں سے صدقہ(زکاۃ) لیں،اس کے زریعے سے انھیں پاک کریں،انھیں صاف ستھرا کریں اور ان کو دعا دیں۔"(التوبہ۔9:103)اپنا تزکیہ اللہ کی راہ میں مال دے کر کیا جاسکتا ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہےالَّذِي يُؤْتِي مَالَهُ يَتَزَكَّىٰ "جو اپنا مال دیتا ہے پاک ہونے کے لئے۔"(اللیل۔18:92)امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیںنفس المتصدق تزكو وماله يزكو(اي)يطهر ويزيد في المعني"صدقہ دینے والا خود بھی پاک ہوتا ہے اور اس کا مال بھی پاک ہوتا ہے۔۔۔"(مجموع فتاویٰ لابن تیمیہؒ8/25) اس کے مقاصد میں سے ایک مواسات بھی ہے۔بنیادی اصول یہ ہے۔(توخذ من اغنيائهم وترد الي فقرائهم)"ان کے مال داروں سے لیا جائے اور ان کے فقیروں پر لوٹایا جائے۔"اس لحاظ سے زکاۃ کی صحیح ادائیگی امت کی اجتماعیت اور یکجہتی کی ضامن ہے۔اسلام نے زکاۃ بنیادی طور پر انھی اموال میں مقرر کی ہے۔جن میں بڑھوتری(نمو) ہوتی ہے،یعنی مویشی،کھیتی باڑی،مال تجارت اورنقدی جن میں باقی تمام اموال کی قدر محفوظ رکھی جاسکتی ہے۔ یہ بھی اسلام کی رحمت کا مظہر ہے۔کہ زکاۃ کا ایک نصاب مقرر کیا گیا ہے۔مقصود یہ ہے کہ جن لوگوں کے پاس بنیادی ضرورتوں کی تکمیل کے بعد کچھ زائد ہو۔ان سے زکاۃ وصول کی جائے،جن کے پاس بنیادی ضرورتوں کے لئے بھی مال نہ ہو یا کم ہو ان کو چھوٹ دی جائے بلکہ ان کی مدد کی جائے۔جدید معاشیات نے ٹیکس کے حوالے سے بنیادی چھوٹ کا تصور نصاب زکاۃ ہی سے لیاہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت آسان اور جامع لفظوں میں بہت خوبصورتی کے ساتھ اس نصاب کو یوں بیان فرمایا:()"پا نچ وسق سے کم میں صدقہ نہیں اور نہ پانچ اونٹوں سے کم میں صدقہ ہے۔اور نہ پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں صدقہ ہے۔"اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پانچوں انگلیوں سے اشارہ کیا۔ یہی کتاب الزکاۃ میں امام مسلم ؒ کی لائی ہوئی پہلی حدیث ہے۔ وسق ماپنے کا پیمانہ ہے۔غلہ،خشک کھجوریں،کشمش وغیرہ کا لین دین وسق سے ماپ کرہوتا تھا۔پانی اور دوسری مائع اشیاء کو بھی اسی پیمانے سے ماپا جاتا تھا۔ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے۔اس بارے میں اگرچہ ابن ماجہ،ابو داود،اور نسائی میں مرفوع حدیثیں بھی موجود ہیں لیکن وہ سب کی سب ضعیف ہیں۔(التلخیص الجیر لابن حجر 169/2،رقم:841۔842) اس حوالے سے اعتماد اس بات پر ہے کہ اس مقدار پر اجماع ہے۔(مجموع الفتاویٰ لابن تیمیہؒ447/5) صاع کی مقدار پر البتہ اہل کوفہ اور اہل حجاز یا یوں کہہ لیجئے تمام ائمہ(مالک،شافعی،احمدؒ) کے درمیان اختلاف ہے۔حجاز میں زرعی اجناس کے لین دین کا نمایاں مرکز مدینہ تھا۔ان کا صاع ہی حجازی صاع کہلاتا تھا۔کوفہ میں حجاج بن یوسف نے جوصاع متعارف کروایا تھا وہ حجازی صاع سے نسبتاًبڑاتھا،اسے صاع عراقی یا صاع حجاجی کہا جاتا تھا۔ اہل کوفہ ایک صاع کووزن میں 8 رطل کے برابر قرار دیتے ہیں جبکہ اہل حجاز 5.3 رطل کے برابر۔ امام ابو یوسف اورکئی دوسرے اہل کوفہ نے حج کے موقع پر زیارت مدینہ کے دوران میں جب پتہ لگانا چاہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاصاع کتنا تھا تو کثیر تعداد میں مہاجرین اور انصار کے بیٹوں نے اپنے اپنے گھروں سے اپنے خاندانی صاع،جوصحابہؓ استعمال کرتے رہے تھے،لا کردکھائے،امام ابو یوسف ؒ نے کہا:میں نے ان کی مقدار جانچی تو وہ سب آپس میں مساوی اور 5.3 رطل کے برابر تھے۔(فرايت امرا قويا فقد تركت قول ابي حنيفة في الصاع واخذت بقول اهل المدينة)"میں نے بہت پختہ بات دیکھی تو میں نے صاع کے بارے میں ابو حنیفہ کا قول چھوڑ دیا اور اہل مدینہ کاقول لے لیا۔"(سنن الکبریٰ للبیہقی:171:4 وسنن الدارقطنی:150:2 حدیث 2105 ط:دارالکتب العلمیۃ۔۔۔امام شوکانیؒ اس کی سند کو جید قرار دیتے ہیں) جدید محققین نے آج کل کے حساب سے صاع کا وزن معلوم کیا تو وہ ان کے خیال کے مطابق2176۔گرام بنتاہے۔(فقہ الزکاۃ للدکتور یوسف القرضاوی372/1) گندم کے پانچ وسق 653 کلوگرام بنتے ہیں۔(فقہ الزکاۃ للدکتور یوسف القرضاوی:373/1) ایک اوقیہ میں چالیس درہم ہوتے ہیں،ایک درہم کاوزن جدید تحقیق کے مطابق 2.975 گرام بنتاہے،اس طرح ایک اوقیہ کا وزن ایک سو انیس گرام اور پانچ اوقیہ چاندی کاوزن پانچ سو پچانوے گرام بنتا ہے۔اس کے تولے بنائے جائیں تو تقریباً اکاون تولے بنتے ہیں۔سابقہ اندازہ ساڑھے باون تولے چاندی کا تھا جو اس مقدار کے قریب ہی تھا۔ سونے کے نصاب زکاۃ کا تذکرہ صحیحین کی احادیث میں نہیں۔امام ابو داودؒ نے حضرت علیؓ کے حوالے سے حدیث بیان کی ہے،اس کے الفاظ ہیں:()"تم پر کوئی چیز(بطور زکاۃ ادا کرنا)فرض نہیں،یعنی سونے میں جب تک تمھارے پاس(کم از کم) بیس دینار نہ ہوں۔جب تمھارے پاس بیس دینار ہوں اور ان پر سال گزرجائے توان میں آدھا دینار(زکاۃ) ہے،جو اس سے زیادہ ہوگا وہی اس حساب کے مطابق(محسوب) ہوگا۔"(سنن ابی داود،الزکاۃ باب فی الذکاۃ السائمۃ حدیث 1573۔قاضی عیاض ؒ کہتے ہیں:سونے کے نصاب پر اجماع ہے۔ سونے کے دینار میں چوبیس قراط ہوتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں رومی اور ایرانی دینار استعمال ہوتے تھے۔عبدالملک بن مروان نے زکاۃ کے نصاب کو پیش نظر رکھتے ہوئے،اہل علم کے اتفاق سےجو دینار ڈھالے اور جن کے مطابق صدیوں تک دینار ڈھالے جاتے رہے وہ دینار مل بھی چکے ہیں۔ان دیناروں کے وزن کے مطابق سونے کی زکاۃ کا نصاب85گرام بنتا ہے۔یہ برصغیر پاک وہند میں سونے کے نصاب کا جو حساب لگایا گیاتھا وہ ساڑھے سات تولے تھا،اس کے ستاسی گرام بنتے ہیں،یعنی محض دو گرام زیادہ۔اب تقریباً پورے عالم اسلام کا 85 گرام پر اتفاق ہے۔ نقدی:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں سونے چاندی یا ان کے ڈھلے ہوئے سکے بطور نقدی استعمال ہوتے تھے۔علمائے امت کا اجماع ہے کہ کرنسی کو انھی پر قیاس کیاجائے گا۔مغربی استعمار کے غلبے کے بعد دنیا میں کاغذ کی کرنسی رائج ہوئی۔ہر ملک ایسی کرنسی سونے یا چاندی کی بنیاد پر جاری کرتاتھا۔(خزانے میں کرنسی کے مساوی یا ایک خاص تناسب سے سونا یا چاندی کا موجود ہوناضروری تھا)کچھ عرصے بعد یہ بنیاد بھی ختم ہوگئی،اب کرنسی کی بنیاد نہ سونے پر ہے نہ چاندی پر۔اب لوگوں کے پاس موجودہ کرنسی پر زکاۃ کانصاب کیاہوگا؟بعض لوگ کہتے ہیں اسے چاندی کے نصاب پر قیاس کیا جائے۔بعض سونے کے نصاب پر قیاس کرنے کے قائل ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں چاندی اورسونے دونوں کا نصاب قیمت یا مالیت کے اعتبار سے مساوی تھا لیکن بعد میں چاندی اپنی قیمت برقرار نہ رکھ سکی،باقی اشیاء جن پر زکاۃ فرض ہے۔مثلاً بھیڑ،بکریاں،یا اونٹ وغیرہ ان کی مالیت کے ساتھ چاندی کے نصاب کی مالیت کوئی مطابقت نہیں رکھتی،ساڑھے باون تولے چاندی کی مالیت میں پانچ چھ سے زیادہ بکریاں نہیں خریدی جاسکتیں۔دوسری طرف سونے کی قیمت بھی غیر متناسب طریقے پر زیادہ ہورہی ہے۔اب کرنسی کی زکاۃ کامسئلہ انتہائی سنجیدہ غور وفکر کا متقاضی ہے۔ امام قرطبیؒ نے ابو عبید قاسم بن سلامؒ کے حوالے سے لکھا ہے۔کے اسلام کے ابتدائی دور میں ایرانی اور رومی د ونوں قسموں کے درہم متد اول تھے۔ایک دوسرے کا آدھا تھا۔ایک کا وزن آٹھ دانق تھا اور دوسر ے کا چاردانق،لوگ دونوں کو مساوی طور پر ملا کر یعنی آدھے بڑے اورآدھے چھوٹے دراہم سے اپنے معاملات طے کیا کرتے تھے۔اسلام آیا تو لوگوں نے زکاۃ کی ادائیگی کے لئے یہی طریقہ اختیار کیا۔وہ سو ایرانی اور سو رومی درہموں کو ملا کر ان سے زکاۃ کے نصاب کا تعین کرتے۔دونوں کو مساوی تعداد میں ملانے سے پانچ اوقیہ چاندی کا نصاب پورا ہوجاتا،اسی طرح زکاۃ ادا کی جاتی۔عبدالملک نے جب اپنے درہم ڈھلوانے کا ارادہ کیا تو تمام اہل علم کو جمع کیا۔انھوں نے درہم کا وزن،دونوں درہموں کی اوسط،یعنی 4 8 دانق کا نصف6 دانق مقرر کیا۔اس طرح سے دو سو درہموں میں پانچ اوقیہ چاندی پوری ہوجاتی تھی۔ اگر سونے کی قیمتیں اسی طرح غیر متناسب انداز میں بڑھتی رہیں تو ایسا کیا جاسکتاہے کہ کرنسی کے لئے چاندی کے نصاب کی مالیت کا نصف سونے کی نصاب کی مالیت کا نصف ملا کر مقدار نصاب متعین کرلیا جائے۔اس کے لئے پورے عالم اسلام کے حوالے سے اہل علم کا اجماع حاصل کرنا ناگزیر ہوگا۔فی الحال یہی مناسب ہے کہ جب تک سونے کے نصاب اور چاندی کو چھوڑ کرباقی اشیاء کے نصاب کی قیمتیں قریب قریب رہتی ہیں سونے کے نصاب کو کرنسی کے نصاب کی بنیاد بنایا جائے۔ کتاب الذکاۃ میں امام مسلم ؒ نے جس ترتیب سے احادیث بیان کی ہیں،۔اس کے بارے میں امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:امام مسلمؒ نےامام مالک ؒ کی موطا کی طرح اپنی صحیح میں صحت کے اعلیٰ ترین معیار پر احادیث ترتیب دی ہیں۔انھوں نے پہلے چاندی کا نصاب ذکر کیا ہے۔پھر اونٹوں کا،پر اجناس خوردنی اور خشک پھلوں کا،پھر مویشی اور دیگر اشیاء کا، پھر یہ کہ ایک سال گزرنا ضروری ہے۔اس غرض سے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ،عمر ؓ،اور ابن عمر ؓ،کے حوالے سے روایتیں بیان کیں،اس میں اگرچہ حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت ابن عباسؓ اختلاف کرتے ہیں،لیکن دو خلفائے راشدین رضوان اللہ عنھم اجمعین نے جو کیا ہے وہ اس لئے راحج ہے کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهدين من بعدي"تم میری سنت اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو لازم پکڑو۔"(شرح مشکل الآثار 3/223 حدیث 1186،نیز دیکھئے،سنن ابن ماجہ حدیث 42،43،وسنن ابی داود حدیث،4607۔4608) اور یہ بھی فرمایا:((فان يطيعواابابكر وعمر يرشدوا))"اگر وہ ابو بکر اور عمر رضوان اللہ عنھم اجمعین کی اطاعت کریں تو راہنمائی پائیں گے"(صیح مسلم حدیث 681) اس کے بعد امام مسلمؒ نے سونے کی زکاۃ کا ذکر کیا ہے۔کیونکہ اسکی دلیل کی قوت نسبتاً کم ہے۔پھر ان چیزوں کاذکر کیاگیاہے جن میں زکاۃ فرض کی گئی ہے۔اس حوالے سے قرآن کی آیات اور احادیث بیان کی ہیں۔ان میں بہترین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت اور زکاۃ کےی بارے میں آپ کا مکتوب ہے۔ان کے بعد وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ سے روایت لائے ہیں۔(مجموع فتاویٰ لابن تیمیہؒ25:9)

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 2407
Save to word اعراب
وحدثني ابو الطاهر ، اخبرنا ابن وهب ، قال عمرو ، وحدثني ابن شهاب بمثل ذلك، عن السائب بن يزيد ، عن عبد الله بن السعدي ، عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم.وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، قَالَ عَمْرٌو ، وَحَدَّثَنِي ابْنُ شِهَابٍ بِمِثْلِ ذَلِكَ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ السَّعْدِيِّ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سائب بن یزید نے عبداللہ بن سعدی سے، انھوں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے (اسی کے مانند) حدیث بیان کی۔
امام صاحب ایک دوسری سند سے حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے یہی روایت بیان کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 2408
Save to word اعراب
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن بكير ، عن بسر بن سعيد ، عن ابن الساعدي المالكي ، انه قال: استعملني عمر بن الخطاب رضي الله عنه على الصدقة، فلما فرغت منها واديتها إليه، امر لي بعمالة، فقلت: إنما عملت لله واجري على الله، فقال: خذ ما اعطيت فإني عملت على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فعملني، فقلت مثل قولك، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا اعطيت شيئا من غير ان تسال فكل وتصدق "،حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ بُكَيْرٍ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ ابْنِ السَّاعِدِيِّ الْمَالِكِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: اسْتَعْمَلَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الصَّدَقَةِ، فَلَمَّا فَرَغْتُ مِنْهَا وَأَدَّيْتُهَا إِلَيْهِ، أَمَرَ لِي بِعُمَالَةٍ، فَقُلْتُ: إِنَّمَا عَمِلْتُ لِلَّهِ وَأَجْرِي عَلَى اللَّهِ، فَقَالَ: خُذْ مَا أُعْطِيتَ فَإِنِّي عَمِلْتُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَمَّلَنِي، فَقُلْتُ مِثْلَ قَوْلِكَ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أُعْطِيتَ شَيْئًا مِنْ غَيْرِ أَنْ تَسْأَلَ فَكُلْ وَتَصَدَّقْ "،
لیث نے بکیر سے، انھوں نے بسر بن سعید سے اور انھوں نے ابن ساعدی مالکی سے روایت کی کہ انھوں نے کہا: مجھے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے صدقے (کی وصولی) کےلئے عامل مقرر کیا، جب میں اس کام سے فارغ ہوا اور انھیں (وصول کردہ) مال لا کر ادا کردیا، تو انھوں نے مجھے کام کی اجرت دینے کا حکم دیا۔میں نے عرض کی: میں نے تو یہ کام محض اللہ کی (رضا کی) خاطر کیا ہے اور میرا اجر اللہ نے دینا ہے۔تو انھوں نے کہا: جو تمھیں دیا جائے اسے لے لو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کام کیا تھا، آپ نے مجھے میرے کام کی مزدوری دی تو میں نے بھی تمہاری جیسی بات کہی تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تمھیں تمہارے مانگے بغیر کوئی چیز دی جائے تو کھاؤ اور صدقہ کرو۔"
ابن الساعدی مالکی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ مجھے عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صدقہ کی وصولی کے لیے مقرر کیا تو جب میں اس کام سے فارغ ہوا اور انہیں صدقہ کا مال لا کر دے دیا انھوں نے میرے کام کی مزدوری مجھے دینے کا حکم دیا تو میں نے عرض کیا میں نے تو یہ کام عرض کیا میں نے تو یہ کا محض اللہ کی رضا کی خاطر کیا ہے اور میرا اجر اللہ کے پاس ہے تو انھوں نے کہا جو تمھیں دیا جا رہا ہے لے لو کیونکہ میں نے یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کیا تھا تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے میرے کام کی مزدوری دینا چاہی تو میں نے بھی تیرے والا جواب دیا (تمھارے والی بات کہی) تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تمھیں بغیر مانگے کوئی چیز دی جائے تو اسے استعمال کرو (اور چاہو تو) صدقہ کر دو۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 2409
Save to word اعراب
وحدثني هارون بن سعيد الايلي ، حدثنا ابن وهب ، اخبرني عمرو بن الحارث ، عن بكير بن الاشج ، عن بسر بن سعيد ، عن ابن السعدي ، انه قال: استعملني عمر بن الخطاب رضي الله عنه على الصدقة، بمثل حديث الليث.وحَدَّثَنِي هَارُونُ بْنُ سَعِيدٍ الْأَيْلِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ الْأَشَجِّ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ ابْنِ السَّعْدِيِّ ، أَنَّهُ قَالَ: اسْتَعْمَلَنِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَلَى الصَّدَقَةِ، بِمِثْلِ حَدِيثِ اللَّيْثِ.
عمرو بن حارث نے بکیر بن اشج سے، انھوں نے بسر بن سعید سے اور انھوں نے ابن سعدی سے روایت کی کہ انھوں نےکہا: مجھے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے صدقہ وصول کرنے کے لئے عامل بنایا۔۔۔ (آگے) لیث کی حدیث کی طرح (روایت بیان کی۔)
ابن الساعدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے عمر بن الخطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے صدقہ کی وصول کرنے کے لیے عامل بنایا اور لیث کی طرح روایت بیان کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
38. باب كَرَاهَةِ الْحِرْصِ عَلَى الدُّنْيَا:
38. باب: حرص دنیا کی مذمت۔
Chapter: It is disliked to be eager to acquire worldly gains
حدیث نمبر: 2410
Save to word اعراب
حدثنا زهير بن حرب ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن ابي الزناد ، عن الاعرج ، عن ابي هريرة ، يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " قلب الشيخ شاب على حب اثنتين: حب العيش، والمال ".حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " قَلْبُ الشَّيْخِ شَابٌّ عَلَى حُبِّ اثْنَتَيْنِ: حُبِّ الْعَيْشِ، وَالْمَالِ ".
اعرج نےحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انھوں نے اسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع بیان کیا، آپ نے فرمایا: "بوڑھے آدمی کا دل دو چیزوں کی محبت میں جوان ہوتاہے: زندگی کی محبت اور مال کی۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرتے ہیں کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بوڑھے آدمی کا دل دو چیزوں کی محبت میں جوان رہتا ہے زندگی کی محبت اور مال کی محبت۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 2411
Save to word اعراب
وحدثني ابو الطاهر ، وحرملة ، قالا: اخبرنا ابن وهب ، عن يونس ، عن ابن شهاب ، عن سعيد بن المسيب ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " قلب الشيخ شاب على حب اثنتين: طول الحياة، وحب المال ".وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " قَلْبُ الشَّيْخِ شَابٌّ عَلَى حُبِّ اثْنَتَيْنِ: طُولُ الْحَيَاةِ، وَحُبُّ الْمَالِ ".
سعید بن مسیب نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " دو چیزوں کی محبت میں بوڑھے کا دل بھی جوان رہتا ہے: زندگی لمبی ہونے اور مال کی محبت میں۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو چیزوں کی محبت میں بوڑھے کا دل جوان رہتا ہےطویل زندگی اور مال کی محبت-

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
حدیث نمبر: 2412
Save to word اعراب
وحدثني يحيى بن يحيى ، وسعيد بن منصور ، وقتيبة بن سعيد كلهم، عن ابي عوانة ، قال يحيى: اخبرنا ابو عوانة، عن قتادة ، عن انس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يهرم ابن آدم وتشب منه اثنتان: الحرص على المال، والحرص على العمر "،وحَدَّثَنِي يَحْيَى بْنُ يَحْيَى ، وَسَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ كلهم، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ ، قَالَ يَحْيَى: أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَهْرَمُ ابْنُ آدَمَ وَتَشِبُّ مِنْهُ اثْنَتَانِ: الْحِرْصُ عَلَى الْمَالِ، وَالْحِرْصُ عَلَى الْعُمُرِ "،
ابوعوانہ نے قتادہ سے اور انھوں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آدم کابیٹا بوڑھا ہوجاتاہے مگر اس کی دو چیزیں جوان رہتی ہیں: دولت کی حرص اور عمر کی حرص۔"
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے (بڑھاپے کے سبب اس کی ساری قوتیں کمزور پڑ جاتی ہیں) مگر اس کے نفس کی دو خصلتیں اور زیادہ جوان (طاقتور) ہو جاتی ہیں دولت کی حرص اور زیادتی عمر کی حرص۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»

حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

Previous    11    12    13    14    15    16    17    18    19    Next    

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.