حماد بن زید نے ہشام بن عروہ سے انھوں نے اپنے والد سے روا یت کی انھوں نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا روایت کردہ قول بیان کیا گیا: میت کو اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب دیا جا تا ہے تو انھوں نے کہا: اللہ عبد الرحمٰن پر رحم فر ما ئے انھوں نے ایک چیز کو سنا لیکن (پوری طرح) محفوظ نہ رکھا (امرواقع یہ ہے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ایک یہودی کا جنا زہ گزرا اور وہ لو گ اس پر رو رہے تھے تو آپ نے فرمایا: "تم رو رہے ہو اور اسے عذاب دیا جا رہا ہے۔
عروہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سامنے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول بیان کیا گیا کہ میت کو اس کے گھر والوں کے اس پر رونے سے عذاب دیا جا تا ہے تو عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا: اللہ ابوعبد الرحمٰن پر رحم فرمائے انھوں نے ایک چیز سنی لیکن پوری طرح محفوظ نہیں کی بات صرف اتنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے ایک یہودی کا جنا زہ گزرا اور وہ رو رہے تھے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم رو رہے ہو اور اسے سزا مل رہی ہے“ عذاب دیا جا رہا ہے۔
حدثنا ابو كريب ، حدثنا ابو اسامة ، عن هشام ، عن ابيه ، قال: ذكر عند عائشة ، ان ابن عمر يرفع إلى النبي صلى الله عليه وسلم: " إن الميت يعذب في قبره ببكاء اهله عليه "، فقالت: وهل إنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنه ليعذب بخطيئته او بذنبه، وإن اهله ليبكون عليه الآن ". وذاك مثل قوله إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام على القليب يوم بدر، وفيه قتلى بدر من المشركين، فقال لهم ما قال: " إنهم ليسمعون ما اقول "، وقد وهل، إنما قال: " إنهم ليعلمون ان ما كنت اقول لهم حق "، ثم قرات إنك لا تسمع الموتى سورة النمل آية 80، وما انت بمسمع من في القبور سورة فاطر آية 22، يقول: حين تبوءوا مقاعدهم من النار.حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: ذُكِرَ عِنْدَ عَائِشَةَ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ يَرْفَعُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ "، فَقَالَتْ: وَهِلَ إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهُ لَيُعَذَّبُ بِخَطِيئَتِهِ أَوْ بِذَنْبِهِ، وَإِنَّ أَهْلَهُ لَيَبْكُونَ عَلَيْهِ الْآنَ ". وَذَاكَ مِثْلُ قَوْلِهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ عَلَى الْقَلِيبِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَفِيهِ قَتْلَى بَدْرٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ لَهُمْ مَا قَالَ: " إِنَّهُمْ لَيَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ "، وَقَدْ وَهِلَ، إِنَّمَا قَالَ: " إِنَّهُمْ لَيَعْلَمُونَ أَنَّ مَا كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ حَقٌّ "، ثُمَّ قَرَأَتْ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتَى سورة النمل آية 80، وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ سورة فاطر آية 22، يَقُولُ: حِينَ تَبَوَّءُوا مَقَاعِدَهُمْ مِنَ النَّارِ.
ابو اسامہ نے ہشام سے اور انھوں نے اپنے والد (عروہ) سے روایت کی انھوں نے کہا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس اس بات کا ذکر کیا گیا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً یہ بیان کرتے ہیں میت کو اس کی قبر میں اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب دیا جا تا ہے۔"انھوں نے کہا: وہ (ابن عمر رضی اللہ عنہ) بھول گئے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہ فرمایا تھا: "اس (مرنےوالے) کو اس کی غلطی یا گناہ کی وجہ سے عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والے اب اسی وقت اس پر رورہے ہیں اور یہ (بھول) ان (اعبداللہ رضی اللہ عنہ) کی اس روا یت کے مانند ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بدر کے دب اس کنویں (کے کنارے) پر کھڑے ہو ئے جس بدر میں قتل ہو نے والے مشرکوں کی لا شیں تھیں تو آپ نے ان سے جو کہنا تھا کہا (اور فرمایا: "اب) جو میں کہہ رہا ہوں وہ اس کو بخوبی سن رہے ہیں۔حالا نکہ (اس بات میں بھی) وہ بھول گئے آپ نے تو فرمایا تھا: " یہ لو گ بخوبی جانتے ہیں کہ میں ان سے (دنیامیں) جو کہاکرتا تھا وہ حق تھا۔"پھر انھوں (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا) نے (یہ آیتیں پڑھیں) "اور بے شک تو مردوں کو نہیں سنا سکتا۔"اور تو ہر گز انھیں سنانے والا نہیں جو قبروں میں ہیں (گویا) آپ یہ کہہ رہے ہیں: جبکہ وہ آگ میں اپنے ٹھکانے بنا چکے ہیں (اور وہ اچھی طرح جان چکے ہیں کہ جو ان سے کہا گیا تھا وہی سچ ہے یعنی ابن عمر رضی اللہ عنہ ان دو روایتوں کا اصل بیان محفوظ نہیں رکھ سکے۔)
عروہ رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو بتایا گیا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمان بیان کرتے ہیں کہ ”میت کو اس کی قبر میں اس کے گھر والوں کے اس پر رونے کے سبب عذاب دیا جاتا ہے۔“ تو انھوں نے کہا: وہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما غلطی کر گئے(بھول کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو بس یہ فرمایا تھا: ”اسے اس کی غلطی یا گناہ کے سبب عذاب دیا جا رہا ہے اور اس کے گھر والے اب اس پر رو رہے ہیں“ اور یہ ان کے اس قول کی طرح ہے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم بدر کے دن، اس کنویں پر کھڑے ہوئے جس میں بدر میں قتل ہونے والے مشرکوں کی لاشیں تھیں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جو بات کہی (یعنی ھل وجدتم ما وعدتم جس چیز کی تمہیں دھمکی دی جاتی تھی اس کو پا کیا) یہ نہیں کہا کہ ”میں جو کہہ رہا ہوں، یہ سن رہے ہیں۔ اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کی بات بتانے میں ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما غلطی کر گئے آپصلی اللہ علیہ وسلم نے تو بس یہ کہا تھا (انہوں نے جان لیا ہے، میں انہیں جو کچھ بتایا کرتا تھے وہ حق ہے۔“ پھر عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آیت پڑھی: ”آپ مردوں کو نہیں سنا سکتے۔“(نحل،آیت:80)”اور آپ قبروالوں کو نہیں سنا سکتے۔“(فاطر،آیت:22) آپ اس وقت کی خبردے رہے ہیں جبکہ وہ آگ میں اپنے ٹھکانے بنا چکے ہیں۔
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، عن مالك بن انس فيما قرئ عليه، عن عبد الله بن ابي بكر ، عن ابيه ، عن عمرة بنت عبد الرحمن ، انها اخبرته، انها سمعت عائشة ، وذكر لها ان عبد الله بن عمر، يقول: " إن الميت ليعذب ببكاء الحي "، فقالت عائشة: يغفر الله لابي عبد الرحمن، اما إنه لم يكذب، ولكنه نسي او اخطا، إنما مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على يهودية يبكى عليها، فقال: " إنهم ليبكون عليها، وإنها لتعذب في قبرها ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ ، وَذُكِرَ لَهَا أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: " إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ "، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَغْفِرُ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَكْذِبْ، وَلَكِنَّهُ نَسِيَ أَوْ أَخْطَأَ، إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يُبْكَى عَلَيْهَا، فَقَالَ: " إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا، وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا ".
عمرہ بنت عبد الرحمٰن نے خبردی کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا (اس موقع پر) ان کے سامنے بیان کیا گیا تھا حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میت کو زندہ کے رونے کی وجہ سے عذاب دیا جاتا ہے تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ ابو عبد الرحمٰن کو معاف فر ما ئے!یقیناً انھوں نے جھوٹ نہیں بو لا لیکن وہ بھول گئے ہیں یا ان سے غلطی ہو گئی ہے (امرواقع یہ ہے کہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی عورت (کے جنازے) کے پاس سے گزرے جس پر آہ و بکارکی جا رہی تھی تو آپ نے فرمایا: "یہ لو گ اس پر رو رہے ہیں اور اس کو اس کی قبر میں عذاب دیا جا رہاہے۔
عمرہ بنت عبدالرحمان بیان کرتی ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے سنا، جبکہ انہیں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کایہ قول بتایا گیا کہ میت کو زندہ کے رونے کے سبب عذاب دیا جاتا ہے۔ توعائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا: اللہ ابوعبدالرحمان کو معاف فرمائے۔ یقیناً انہوں نے جھوٹ نہیں بولا، لیکن وہ بھول گئے یا چوک گئے،بات صرف اتنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی عورت جس پر رویا جا رہا تھا، کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ لوگ اس پر رو رہے ہیں، اور اسے قبر میں عذاب دیا جا رہا ہے۔“
وکیع نے سعید بن عبید طائی اور محمد بن قیس سے اور انھوں نے علی بن ربیعہ سے روایت کی، انھوں نے کہا: کو فہ میں سب سے پہلے جس پر نو حہ کیا گیا وہ قرظہ بن کعب تھا اس پر حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہو ئے سنا ہے۔"جس پر نوھہ کیا گیا اسے قیامت کے دن اس پر کیے جا نے والے نو حے (کی وجہ) سے عذاب دیا جا ئے گا۔"
علی بن ربیعہ بیان کرتے ہیں کہ کوفہ میں سب سے پہلے قرظہ بن کعب پر نوحہ کیا گیا، تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”جس پرنوحہ کیاگیا، قیامت کے دن اسے اس پر نوحہ کیے جانے کے سبب عذاب دیا جائے گا۔“
ہمیں علی بن مسہر نے حدیث بیان کی، (کہا) ہمیں محمد بن قیس نے علی بن ربیعہ سے خبر دی انھوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس (سابقہ حدیث) کے مانند روایت کی۔
مصنف نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث دوسرے استاد سے نقل کی ہے۔
مروان بن معاویہ فزاری نے کہا: ہمیں سعید بن عبید طا ئی نے علی بن ربیعہ سے حدیث سنا ئی انھوں نے حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس (سابقہ حدیث) کے مانند روایت کی۔
امام صاحب نے حضرت مغیرہ بن شبعہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مذکورہ حدیث ایک اور استاد سے بیان کی ہے۔
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میری امت میں جا ہلیت کے کا موں میں سے چار باتیں (موجود) ہیں وہ ان کو ترک نہیں کریں گے اَحساب (باپ داداکے اصلی یا مزعومہ کا ر ناموں) پر فخر کرنا (دوسروں کے) نسب پر طعن کرنا ستاروں کے ذریعے سے بارش مانگنا اور نوحہ کرنا۔اور فرمایا "نوحہ کرنے والی جب اپنی مو ت سے پہلے تو بہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس کو اس حالت میں اٹھا یا جا ئے گا کہ اس (کے بدن) پر تار کول کا لباس اور خارش کی قمیص ہو گی۔"
حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں چار عادتیں جاہلیت کاموں میں سے ہیں جن کو وہ ترک نہیں کریں گے حسب و نسب پر فخر کرنا، دوسروں کے نسب پر طعن کرنا، ستاروں کے سبب بارش مانگنا اور نوحہ کرنا۔ اور فرمایا: ”نوحہ کرنے والی جب اپنی مو ت سے پہلے توبہ نہ کرے تو قیامت کے دن اس کو اس حالت میں اٹھا یا جا ئے گا کہ اس (کے بدن) پر تار کول کا لباس اور خارش کی قمیص ہو گی۔“
وحدثنا ابن المثنى ، وابن ابي عمر ، قال ابن المثنى: حدثنا عبد الوهاب ، قال: سمعت يحيى بن سعيد ، يقول: اخبرتني عمرة ، انها سمعت عائشة ، تقول: لما جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم قتل ابن حارثة، وجعفر بن ابي طالب، وعبد الله بن رواحة، جلس رسول الله صلى الله عليه وسلم يعرف فيه الحزن، قالت: وانا انظر من صائر الباب شق الباب، فاتاه رجل، فقال: يا رسول الله، إن نساء جعفر وذكر بكاءهن، فامره ان يذهب فينهاهن، فذهب فاتاه فذكر انهن لم يطعنه، فامره الثانية ان يذهب فينهاهن، فذهب، ثم اتاه، فقال: والله لقد غلبننا يا رسول الله، قالت: فزعمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " اذهب فاحث في افواههن من التراب "، قالت عائشة: " فقلت ارغم الله انفك، والله ما تفعل ما امرك رسول الله صلى الله عليه وسلم، وما تركت رسول الله صلى الله عليه وسلم من العناء ".وحَدَّثَنَا ابْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ ، قَالَ: سَمِعْتُ يَحْيَى بْنَ سَعِيدٍ ، يَقُولُ: أَخْبَرَتْنِي عَمْرَةُ ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: لَمَّا جَاءَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَتْلُ ابْنِ حَارِثَةَ، وَجَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ، جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْرَفُ فِيهِ الْحُزْنُ، قَالَتْ: وَأَنَا أَنْظُرُ مِنْ صَائِرِ الْبَابِ شَقِّ الْبَابِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ نِسَاءَ جَعْفَرٍ وَذَكَرَ بُكَاءَهُنَّ، فَأَمَرَهُ أَنْ يَذْهَبَ فَيَنْهَاهُنَّ، فَذَهَبَ فَأَتَاهُ فَذَكَرَ أَنَّهُنَّ لَمْ يُطِعْنَهُ، فَأَمَرَهُ الثَّانِيَةَ أَنْ يَذْهَبَ فَيَنْهَاهُنَّ، فَذَهَبَ، ثُمَّ أَتَاهُ، فَقَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ غَلَبْنَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَتْ: فَزَعَمَتْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " اذْهَبْ فَاحْثُ فِي أَفْوَاهِهِنَّ مِنَ التُّرَابِ "، قَالَتْ عَائِشَةُ: " فَقُلْتُ أَرْغَمَ اللَّهُ أَنْفَكَ، وَاللَّهِ مَا تَفْعَلُ مَا أَمَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمَا تَرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْعَنَاءِ ".
عبد الوہاب نے کہا: میں نے یحییٰ بن سعید سے سنا وہ کہہ رہے تھے مجھے عمرہ نے بتا یا کہ انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا وہ فر ما رہی تھیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو زید بن حارثہ جعفر بن ابی طالب اور عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کے قتل (شہید) ہو نے کی خبر پہنچی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح) مسجد میں) بیٹھے کہ آپ (کے چہرہ انور) پر غم کا پتہ چل رہا تھا کہا: میں دروازے کی جھری۔۔۔دروازے کی درز۔۔۔ے دیکھ رہی تھی کہ آپ کے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !جعفر (کے خاندان) کی عورتیں اور اس نے ان کے رونے کا تذکرہ کیا آپ نے اسے حکم دیا کہ وہ جا کر انھیں روکے وہ چلا گیا وہ (دوبارہ) آپ کے پاس آیا اور بتا یا کہ انھوں نے اس کی بات نہیں مانی آپ نے اسے دوبارہ حکم دیا کہ وہ جا کر انھیں روکے وہ گیا اور پھر (تیسری بار) آپ کے پاس آکر کہنے لگا: اللہ کی قسم!اللہ کے رسول!وہ ہم پر غالب آگئی ہیں کہا:: ان (عائشہ رضی اللہ عنہا) کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جاؤ اور ان کے منہ میں مٹی ڈال دو۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے (دل میں) کہا: اللہ تیری ناک خاک آلود کرے!اللہ کی قسم!نہ تم وہ کا م کرتے ہو جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمھیں حکم دیا ہے اور نہ ہی تم نے (باربار بتا کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف (دینا) ترک کیا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور عبد اللہ بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کی خبر پہنچی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح بیٹھے کہ آپصلی اللہ علیہ وسلم پر غم کے آثار محسوس ہو رہے تھے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں دروازے کی دراڑ سے دیکھ رہی تھی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک آدمی آ کرکہنے لگا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! جعفر کے خاندان کی عورتیں رو رہی ہیں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ جا کر انہیں روکو۔“ وہ گیا اور پھر واپس آ کر کہنے لگا، وہ اس کی بات نہیں مان رہیں، آپ نے اسے دوبارہ حکم دیا کہ ”جاؤ جا کر انھیں منع کرو۔“ وہ گیا اور پھر آکر کہا، اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم ! وہ ہم پر غالب آ گئی ہیں(بات نہیں مان رہی ہیں۔) حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا خیال ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جاؤ اور ان کے منہ میں مٹی ڈال دو۔“ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہتی ہیں، میں نے خود کلامی کی کہ اللہ تعالی تیری ناک خاک آلود کرے (تمہیں ذلیل و خوار کرے)!اللہ کی قسم! تم وہ کام نہیں کر سکتے ہو جس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہیں حکم دے رہے ہیں اور (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار بتا کر) آپ کو مشقت میں ڈالنے سے باز ہیں آتے ہو۔
عبد اللہ بن نمیر، معاویہ بن صالح اور عبد العزیز بن مسلم نے یحییٰ بن سعید سے اس سند کے ساتھ اسی طرح روایت کی اور عبد العزیز کی حدیث میں ہے تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشقت میں ڈالنے سے باز نہیں آئے۔
امام صاحب نے مذکورہ بالا حدیث اپنے دوسرے اساتذہ سے بھی بیان کی ہے،جس میں ایک راوی عبدالعزیز ”من العناء“ کی بجائے ”من العي“ کہتا ہے، معنی ایک ہی ہے (”عناء“ مشقت اور تکان کو کہتے ہیں اور ”عي“ کا معنی بھی یہی ہے یعنی تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشقت اور تھکاوٹ میں ڈالنے سے باز نہیں آئے۔)